نان ایرکنڈیشنڈ ایریا

محی الدین غازی

(۱۲/ستمبر ۲۰۱۴ء)میں انٹرنیشنل سٹی کی ایک مسجد میں عشاء کی نماز پڑھ کربیٹھا ہوا ہوں، شدید گرمی کا موسم ہے، رطوبت تکلیف دہ حد تک بڑھی ہوئی ہے، مسجد کی چھت ٹین کی ہے جس پر پنکھے لگے ہوئے ہیں، دیواریں ندارد ہیں، دنیا کے مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے بیشتر محنت پیشہ لوگ یہاں نماز پڑھنے آتے ہیں،یہ عارضی مسجد ہے، اور پچھلے کئی برسوں سے عارضی ہے، کسی دن اس کی بھی باری آئے گی اور اس مقام پر ایک عالیشان ایر کنڈیشنڈ مسجد تیار ہوجائے گی، دھول سے اٹی ہوئی دریوں کی جگہ شاندار قالین،اور گرم ہوا پھینکتے ہوئے پنکھوں کی جگہ چھت میں جگمگاتے ہوئے قمقمے لگ جائیں گے۔
میرے ذہن کے سامنے بار بار ایک منظر آرہاہے جو تھوڑی دیر قبل ایک واقعہ کی صورت میں پیش آیا، میں فورڈ ایکسپلورر ڈرائیو کرتے ہوئے انٹرنیشنل سٹی میں داخل ہوا، ٹریفک زیادہ تھی ، اس لئے گاڑیوں کی رفتار سست تھی اور گاڑی والوں کی طبیعت میں جھنجھلاہٹ تھی، اتنے میں دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے والی بھاری بھرکم جیپ کے آگےایک سائیکل سوار آگیا، وہ سڑک کراس کررہا تھا، جیپ کا ڈرائیور موبائیل پرکسی سے بات کرنے میں مصروف تھا اس لئے اس نے دھیان نہیں دیا کہ سامنے زیبرا کراسنگ ہے، سائیکل جیپ کے کونے سے ٹکرائی، اور الٹ گئی، جتنی دیر میں وہ سنبھلتا، سائیکل جیپ کے پچھلے پہئے کی زد میں آگئی اور سائیکل سوار نے اپنا پیر کھینچ لیا، سائیکل کا حلیہ بگڑ چکا تھا، اس پر دوتھیلوں میں کھانے کے ٹفن تھے، جو سڑک پر بکھر گئے تھے، میرا اندازہ تھا کہ جیپ والا رکے گا لیکن وہ رکا نہیں، سائیکل سوار بے بسی کی تصویر بنا بیچ سڑک پر پاوں پکڑے بیٹھا تھا، اس کی جان بچ گئی تھی مگر پیر میں کچھ چوٹ تو ضرور آئی تھی۔
میں سڑک پر بیچ کے ٹریک پر تھا اور حادثہ میرا سامنے پیش آیا تھا، میں نے اپنی گاڑی روک دی ، پیچھے گاڑیوں کی لائن لگ گئی، باقی دونوں ٹریکوں پر گاڑیا ںحسب معمول چلتی رہیں، گاڑی میں بیٹھے لوگ سیاہ شیشوں کے پیچھے سےہی جھانک کر دیکھ لیتے، شیشہ اتارنا بھی گوارا نہیں تھا، مبادا اندر کا درجہ برودت متاثر ہوجائے گا ، فٹ پاتھ پر چلنے والے دوچار لوگ البتہ دوڑ پڑے انہوں نے سڑک پر بکھرے برتن جمع کئے ، سائیکل کے ڈھانچے کو ایک طرف کیا، اور سائیکل سوار کو سہارا دے کر اٹھانے لگے۔میں کچھ لمحے رکا، پھر میں نے بھی ٹریک بدلا اور جائے وقوعہ سے آگے نکل گیا۔
یہ حادثہ ایک گھنٹہ قبل پیش آیا ،اوراب وہ منظر بار بار میری نگاہوں کے سامنے گھوم رہا ہے، میرا ضمیر مجھے کچوکے لگا رہا ہے، حادثہ تمہارے سامنے پیش آیا، پھر تم نے اپنا فرض کیوں نہیں ادا کیا، ، تم اس گاڑی والے کو روک سکتے تھے،تم فورا گاڑی کا نمبر نوٹ کرکے پولیس کو فون کرسکتے تھے، اس غریب کی سائیکل کا معاوضہ تو اسے مل جاتا، تم کو چاہئے تھا اتر کر اس غریب کو سہارا دیتے، دیکھتے اسے چوٹ تو نہیں لگی ہے۔اس کا بکھرا ہوا سامان سمیٹنے میں مدد کرتے، لیکن اس کے لئے تم کو ایرکنڈیشنڈ گاڑی سے اترنا پڑتا، گرمی اور رطوبت کا سامنا کرنا پڑتا، گھر پہونچنے میں کچھ تاخیربھی تو ہوجاتی۔
مجھے محسوس ہوا کہ زندگی کی آسائشوں نے میرے دل سے قوت احساس کو سلب کرنا شروع کردیا ہے، ایرکنڈیشن کی ٹھنڈی ہوا نے من کی دنیا کو بھی منجمد کردیا ہے۔ میں تو ایسا نہیں تھا، کسی کو مصیبت میں دیکھ کر دوڑ پڑنا میرا شیوہ تھا، دبے قدموں یہ بدلاو کب اور کیسے آگیا، میرے خانہ دل سے انسانوں کا غم کب خاموشی سے رخصت ہوگیا۔مجھے یاد آیا کہ فیروز آباد کے اسٹیشن پر ایک مسافر کی جیب سے چور بٹوہ اڑا کر بھاگا، وہ غریب بے بسی سے چور چور چلانے لگا، میں نے چور کو بھاگتے ہوئے دیکھ لیا، اس غریب کی پکار پر میں تنہا ہی دوڑ پڑا اور پلیٹ فارم سے کافی دور اس کو جا پکڑا ، اور جب بٹوہ اس سے لے کر اس غریب کو دیا تو اس کی جان میں جان آگئی۔ مجھے یاد آیا کہ اس وقت میں اے سی کمپارٹمنٹ میں نہیں بلکہ چالو ڈبے میں سفر کررہا تھا۔گرمی شدید تھی، ٹرین میں بھیڑ بہت تھی، اس وقت ہراسٹیشن پر گاڑی سے اتر کر ڈبے میں بیٹھے عورتوں اور بوڑھوں کی خالی بوتلیں لے کر ان میں پانی بھر لانے کا لطف ہی کچھ اور تھا۔اے سی کمپارٹمنٹ میں سفر کرنے والے یہ لطف کیا جانیں ، وہ تو انسانوں سے بہت فاصلے پر ہوتے ہیں۔
آج مجھے من کی دنیا خالی خالی سی لگ رہی ہے، یہ احساس مجھے گھر پہونچ کر نہیں ہوا تھا، بلکہ اب اور اس مسجد میں ہورہا ہے جہاں پنکھے کی ہوا پسینہ خشک کرنے میں ناکام ہے، کیونکہ یہ نان ایرکنڈیشنڈ مسجد عام انسانوں کی جگہ ہے، یہاں نماز پڑھنے والوں کے پاس سے عود وعنبر کی مہک نہیں بلکہ پسینے کے بھبھکے اٹھتے ہیں، کسی گردن پر غرور کی اکڑ نظر نہیں آتی، ہر بندہ عاجزی کی تصویر ہوتا ہے، خواہ اس کی وجہ غربت کیوں نہ ہو۔
گلف میں رہتے ہوئے لگتا ہے کہ زندگی کے ہر خطے کو ایرکنڈیشن کی ہواوں نے یخ بستہ کررکھا ہے، گھر ہو یا آفس کہیں گرمی کا ذرا سا احساس نہیں ہوتا، گاڑی بھی ایر کنڈیشنڈ ہے اور شاپنگ مال بھی ۔ باہر کے درجہ حرارت کا اندازہ صرف حرارت نما اسکرینوں سے ہوتا ہے۔آج جبکہ میں اس مسجد میں بیٹھا ہوں اور گرمی سے میرے تن کا رواں رواں پریشان ہے، مجھ پر یہ انکشاف ہورہا ہے کہ ایرکنڈیشن سے نکلنے والی ٹھنڈی ہواانسان کے تن کو ٹھنڈک ضرور دیتی ہے، لیکن من کی دنیا میں پہونچ کر وہ باد سموم بن جاتی ہے، اور سب کچھ خاکستر کردیتی ہے، پھر وہاں احساس کا کوئی پودا مشکل سے ہی اگ پاتا ہے۔
مجھے یہ احساس زیاں اس مسجد میں ہورہا ہے جہاں پنکھے گھوم گھوم کر گرمی پھیلا رہے ہیں، جس دن یہ مسجد ایر کنڈیشنڈ ہوجائے گی، کچھ کھوجانے کا یہ احساس کہاں جاکر حاصل ہوسکے گا۔
ایرکنڈیشن کی ایجاد اور اس کے پھیلاو نے انسانی اخلاقیات پر کیسے اثرات مرتب کئے ہیں ان پر گفتگو کے لئے تو کافی غوروفکر اور انسانی زندگی کا گہرا مطالعہ درکار ہے، میں تو احساس کے محض ایک تجربہ سے گذرا ہوں ، اور اس سے میں صرف اس ایک نتیجہ پر پہونچ سکا ہوں کہ انسان کو اپنی زندگی میں ہمیشہ ایک نان ایرکنڈیشنڈ ایریا رکھنا چاہئے جہاں اس کے ضمیر کو زندگی کی کچھ سانسیں لینے کا موقعہ مل سکے۔(بشکریہ ماہنامہ رفیق منزل ، اکتوبر

قرض اور قراض

محی الدین غازی

(وضاحت: وہ طریقہ جس میں ایک پارٹی اپنی پونجی دوسری پارٹی کو گود لینے کے لئے دے دیتی ہے ، اس امید پر کہ وہاں اس کی رضاعت اور نشو ونما بطریقہ احسن ہوسکے گی ، اسے اہل عراق مضاربت کہتے تھے اور اہل حجاز قراض کہتے تھے)
کسی نے اگر اس نیت سے رقم طلب کی کہ وہ واپس نہیں کرے گا تو اسے قرض کہتے ہیں، اور اگر کسی نے اس ارادے سے رقم مانگی کہ وہ اسے اپنے کاروبار میں لگاکر ڈبودے گا، تو اسے قراض کہتے ہیں۔قرض مقراض محبت ہے تو قراض مقراض جان ہے، قرض دے کر آدمی دوستوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، قراض پر روپے دے کر دوست کو سوہان روح بنالیتا ہے، ہر کچھ دن بعد فون آتا ہے کہ کاروبار کو سنبھالنے کے لئے مزید رقم کی ضرورت ہے، فورا مہیا کرو ،ورنہ جواب تک لگایا ہے وہ ڈوب جائے گا۔ قرض دے کر تہی دست ہونے والے کو آخرت میں واپس ملنے کا آسرا رہتا ہے، قراض پر دے کر تو یہ آسرا بھی نہیں رہتا کیونکہ نیت تو صرف آسان راستے سے بناپسینہ بہائے نفع کمانے کی ہوتی ہے۔قرض دینے کامحرک انسان کی شرافت ہوتی ہے، کیونکہ قرض دیتے وقت وہ بغیر کسی دباؤ اور مجبوری کے قرض مانگنے والے کی مسکین سی صورت سے متاثر ہوکرہی قرض دیتا ہے۔ جبکہ قراض پر اپنی گاڑھی کمائی دوسرے کو دینے کا باعث زیادہ تر انسان کا اپنے سلسلے میں یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ ناکارہ اور ناتجربہ کار ہے اور اس رقم کو اپنے ہاتھوں سے ڈبونے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔
کچھ سمجھ دار لوگ ایسے بھی ہیں جو کسی سے قرض رقم لے کرکسی اور کو قراض پر دیتے ہیں کہ ڈوب گئی تو افسوس نہیں ہوگا، اور اگر کہیں نہیں ڈوبی تو اپنے وارے نیارے۔
اب تو ایسے لوگ بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں جوغیر سودی سرمایہ کاری کا حوالہ دے کر اور قراض پر رقم لے کر سودی بینک میں ڈپازٹ کر دیتے ہیں، پانچ یا چھ سال بعداگر رقم دینے والے سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوگیا تو اصل رقم حق بحقدار رسید، اورسود سارا اپنی جھولی میں۔نیا ہے زمانہ نئی روشنی ہے۔
قرض لے کر نہیں لوٹانے والوں میں بعض حد درجہ نیک دل اور انسان دوست ہوتے ہیں،ایسے ہی ایک صاحب ہمیشہ ادھار پر سامان خریدتے تھے، ادائیگی کبھی نہیں کرتے تھے، البتہ ان کے اندر ایک خوبی تھی کہ وہ سامان کی قیمت کم سے کم کراکر خریدتے تھے، تاکہ دوکاندار کی زیادہ رقم نہیں ڈوبے۔
کہا جاتا ہے کہ دو آدمیوں نے مل کر کاروبار شروع کیا، ایک کے پاس صرف روپئے تھے اس نے وہ لگادئے، دوسرے کے پاس صرف تجربہ تھا، اس نے وہ لگانے کا وعدہ کیا، خدا خدا کرکے سال پورا ہوا، حساب کیا گیا تو جس کے پاس صرف روپے تھے اس کے حصہ میں صرف تجربہ آیا۔لطف کی بات یہ ہے کہ اس نے اس تجربہ سے بھی کبھی فائدہ نہیں اٹھایا۔
دیکھا گیا ہے کہ قرض لینے والے کی ترجیحات مصارف میں قرض کی ادائیگی کو سب سے آخری مقام حاصل ہوتا ہے،اور وہ مقام بھی شاذ ونادر ہی کسی خوش نصیب قرض کو ملتا ہے، یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ قراض پر رقم لینے والے کے سارے کاروباروں میں بڑا نفع ہوتا ہے اور اگر نقصان ہوتا ہے تو صرف اسی رقم کو ہوتاہے جسے بطور قراض لیا تھا۔
ہمیں قرض دینے والوں کی نفسیات کبھی سمجھ میں نہیں آئی، کوئی ان سے خیرات مانگے تو وہ بمشکل دس روپیہ دیتے ہیں، قرض مانگے تو لاکھ روپیہ بھی دے ڈالتے ہیں، آخرت میں کس رقم پر زیادہ ثواب ملے گا یہ یقینی طور پر معلوم نہیں ہے، دنیا میں تو دونوں رقموں کا ایک ہی انجام ہوتا ہے۔اسی لئے ہمارے ایک دوست دیتے تو ہیں خیرات کی نیت سے پر قرض لینے والے کو یہی باور کراتےہیں کہ یہ قرض ہے اور عند الطلب علی الفور واجب الادا ہے، قرض لینے والا بھی فقط ان کی نیت کا لحاظ کرتا ہے۔
اسلامی بینکنگ اور غیر اسلامی بینکنگ میں فرق صرف ایک الف کا ہے، ایک قرض پر استوار ہوکر دنیا کو نااستواری کی طرف ڈھکیل رہی ہے تو دوسری قراض پراستوار ہونے کی دعوے دار ہے، یہ الف اسلامی بینکنگ کی آبرو ہے، اس الف کی حفاظت ضروری ہے، ورنہ پھر کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔تباہی کی طرف دیوانہ واربڑھتی مادہ پرست دنیا شاید ہی اس الف کو برداشت کرپائے۔

شوہر اور بیوی -ایک دنیائے جمیل

محی الدین غازی

شوہر اور بیوی کے درمیان تعلقات کی بنا محبت ہونا چاہئے، یہ بات اتنی سادہ ہے کہ ہر شخص کو سمجھ میں آجانا چاہئے خواہ وہ اتنی بھی سمجھ نہ رکھتا ہو کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے، میں نے اپنی زندگی میں ایسے بہت سارے عقل مند دیکھے ہیں جو اس بات کو زندگی بھر نہیں سمجھ سکے۔
ایک صاحب کی پوری جوانی اپنی بیوی کو یہ باور کراتے گزر گئی کہ میں ایک مرد ہوں جس کے ہر اشارے کو سمجھنا اور فوری تعمیل کرنا بیوی کی ذمہ داری ہے۔ایک دوسرے صاحب زندگی بھر بیوی کو یہی جتاتے رہے کہ میں نے تم سے شادی اس لئے کی ہے کہ تم میری ماں کی خدمت کرو اس عظیم مقصد کے سوا اور کچھ میرے پیش نظر نہیں تھا۔ظاہر ہے ماں کی خود خدمت کرنے میں وہ لطف کہاں جو بیوی سے خدمت کرانے میں ہے۔ خدمت بھی ہوجاتی ہے اور شوہرکے جذبہ حاکمیت کی تسکین بھی ہوجاتی ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ بہوکو ساس کی خدمت کرنا چاہئے، ضرور کرنا چاہئے، مگر اپنی مرضی سے، اور اپنے جذبہ خدمت کی تسکین کے لئے۔
کچھ لوگ اپنی بیویوں کو یہی دکھاتے رہتے ہیں کہ وہ شادی کے بعد بھی اپنی بہنوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے ہیں، اور بیوی اگر کچھ خریدنے کی فرمائش کردے تو یہ دیکھنا لازمی سمجھتے ہیں کہ ویسی ہی چیز اپنی بہنوں کے لئے بھی خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں یا نہیں۔
ایسے بھی لوگ ملے جو اپنی بیوی پر زندگی بھر یہ دھونس جماتے رہے کہ میں بہت مصروف ہوں، اور بہت بڑے کاموں کی انجام دہی میں میرے شب وروز گذرتے ہیں۔حالانکہ وہ اپنی زندگی میں کوئی ایک بھی قابل قدر کام نہیں کرسکے، اگر وہ بیوی کے دل میں اپنے لئے اچھی سی جگہ بنالیتے تو کم از کم بیوی کی نظر میں تو قابل قدر ہوجاتے۔
شریک حیات کے دل کو بے توجہی کے نشتر سے روز زخمی کرنا اور زندگی کے خوبصورت لمحات ٹیلی ویژن کے چینل بدلتے ہوئے گزار دینا تو بے شمار لوگوں کا شیوہ ہے۔
اوربعض ایسے لوگ بھی ہیں کہ:
سگریٹیں چائے دھواں رات گئے تک بحثیں *** اور کوئی پھول سا آنچل کہیں نم ہوتا ہے۔
اس مضمون کو لکھنے کا محرک یہ بنا کہ چند روز قبل ہمارے ایک دوست کا فون آیا کہ وہ کسی صاحب کے ساتھ میرے پاس آنا چاہتے ہیں، ایک گھریلو مسئلے پر بات کرنا ہے۔میں نے خوش آمدید کہا، غرض ملاقات ہوئی، تھوڑی سی جھجھک تھی جس کے دورہوجانے کے بعد انہوں نے بتایا کہ میری شادی کو کئی سال ہوگئے، چار بچے ہیں، بیوی سے سدا سے نوک جھونک رہی، بالآخرمیں نے چھ ماہ قبل اسے فون پر ایک طلاق دے دی، اب صورت یہ ہے کہ بچے میرے پاس ہیں، میرا احساس ہے کہ بچوں کو ماں کی بھی ضرورت ہے اور باپ کی بھی، بچوں کی ماں کا بھی یہی خیال ہے، اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ صرف بچوں کے لئے ہمارا ازداجی رشتہ بحال ہوجائے۔
میں نے کہا آپ کا مسئلہ بہت آسان ہے، آپ نے سب سے اچھا کام یہ کیا کہ صرف ایک طلاق دی، جس کا مطلب ہے کہ عدت گذر جانے کے بعد بھی آپ اور وہ جب چاہیں نکاح کرکے اپنا سابقہ رشتہ بحال کرسکتے ہیں، یہ سمجھ داری کا کام نہ ہمارے عوام کرتے ہیں، اور نہ ہمارے علماء انہیں اس کی تعلیم دیتے ہیں۔ کیونکہ لوگوں کو تو اس فضول بحث سے فرصت نہیں ہے کہ تین طلاقیں ایک ہوتی ہیں یا تین۔ حالانکہ طلاق تو اگر دینا ضروری ہو جائے تو ایک ہی دینا چاہئے، یہ تین طلاق کا مزاج اور رواج نہ جانے کس نے چلادیا۔
پھر میں نے ان سے کہا کہ آپ دونوں صرف بچوں کے لئے کیوں رشتہ بحال کرنا چاہتے ہیں، آپ کی اپنی زندگی بھی تو ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہے۔اس بات پر ان کی خاموشی سے میں بہت کچھ سمجھ سکتا تھا۔ میں نے ان کی زندگی میں ان کی اجازت سے جھانکنے کی کوشش کی تو بھائی بہن ماں باپ ساس سسر غرض بہت سارے لوگ دخیل نظر آئے۔
شوہر اور بیوی کی ایک دنیا ہوتی ہے، اس دنیا کو قانون فطرت کے تحت سکون اور فرحت کی آماج گاہ ہونا چاہئے، لیکن اس دنیا میں جب دوسرے لوگ داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ دنیا خرابی کا شکار ہونے لگتی ہے، زیادہ تر بیوی کی ماں اور بہنیں اور شوہر کی ماں اور بہنیں اس دنیا میں داخل ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔کبھی کبھی دوستوں اور پڑوسیوں کی طرف سے بھی در اندازی ہوتی ہے۔
ماں کا رتبہ بہت عالی ہے، بہنوں کے حقوق بھی بھائی پر یقینا ہوتے ہیں، شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے حقوق بہت خوبی کے ساتھ ادا کرے۔ اسی طرح بیوی بھی اپنے ماں باپ کے حقوق کی ادائیگی کی حسب امکان کوشش کرے۔ بیوی کے آنے کے بعد شوہر اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں کے حقوق میں کوئی کمی کرے یہ کسی طرح جائز نہیں ہے۔
تاہم شوہر اور بیوی کی باہمی زندگی پر مشتمل جو ایک چھوٹی سی پیاری سی دنیا وجود میں آتی ہے، اس کا حسن وجمال سدا باقی رہے، اس میں ہمیشہ موسم بہار رہے اور کبھی خزاں نہ آئے ، یہ ہمیشہ شاداب رہے کبھی ویران نہ ہو،اس کی فکر دونوں کو ہمیشہ کرنا چاہئے۔
کہیں ایسا ہوتا ہے کہ شوہر کی بہن ،(جب تک اس کی شادی نہ ہو ) بھائی اور بھابھی کی دنیا میں دخیل رہنا چاہتی ہے، اور جب شادی ہوجاتی ہے تو اپنی دنیا میں کسی کی مداخلت نہیں پسند کرتی۔ بلکہ بسا اوقات تو شادی کے بعد بھی اپنی دنیا میں رہتے ہوئے اپنے بھائی کی دنیا میں تصرف کو اپنا حق سمجھتی ہے۔ اس سے بہت ساری خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ ہر لڑکی اپنی ایک الگ دنیا بسانے کا خواب لے کر آتی ہے، اورجب اس تصور کے لئے کوئی گنجائش نہیں پاتی، تو وہ مردعمل میں منفی جذبہ کا شکار ہوجاتی ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ اس دنیا کی رومان بھری فضا بچوں کی آمد سے بھی متاثر نہ ہو، ماں باپ اور بچوں کی ایک دنیا تو ضرور ہو، ساتھ ہی شوہر اور بیوی کی دنیا بھی وہی کہیں باقی رہے، دونوں اس دنیا کے بھی باسی رہیں اور اس دنیا سے ہجرت بھی نہ کریں۔ فیملی امور کے ایک ماہر نے بجا مشورہ دیا کہ شوہر اور بیوی اپنے بچوں کے ساتھ تفریحی سفر پر نکلا کریں، لیکن کبھی وہ بچوں کے بغیر بھی کسی تفریحی مہم پر جایا کریں۔ تاکہ ان کو احساس رہے کہ وہ جو چھوٹی سی دنیا ان دونوں نے مل کر بنائی تھی وہ باقی ہے اورجب مستقبل میں ان کے بچے انہیں الوداع کہہ کر اپنی اپنی نئی نئی دنیاؤں میں چلے جائیں گے تو انہیں کسی تنہائی اور کسی ویرانی کا احساس نہ ہوگا۔ نہ جانے کیوں بہت سے شوہر اور بیویاں بچوں کے آنے کے بعد اپنی دنیا کو بالکل خیر باد کہہ دیتے ہیں۔
بھائی اپنی بہنوں کے حقوق ادا کرے اور بخوبی ادا کرے یہ مطلوب ہے، لیکن بہن کو بھی اس کی فکر ہونا چاہئے اور خوب ہونا چاہئے کہ بھائی نے جو چھوٹی سی دنیا بسائی ہے، اور جو ارمانوں کی ایک حسین بستی سجائی ہے، اس میں کوئی خرابی اور بدمزگی نہ ہو۔
مثالی شوہر وہ نہیں ہے جو محض اپنی بیوی کی ہر فرمائش پوری کرے، اور نہ مثالی بیوی وہ ہے جو محض اپنے شوہر کے حکم کی تعمیل کرے۔مثالی شوہر اور بیوی وہ ہیں جو ایک دوسرے کے لئے قلبی سکون واطمینان کا سرچشمہ بن جائیں، جو ایک دوسرے کو یہ احساس دلادیں کہ وہ ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔شوہر اور بیوی کے مزاج میں عادتوں میں سوچ میں اور پسند میں یکسانیت ہونا کوئی ضروری نہیں ہے، اور اگر زیادہ یکسانیت کے بجائے زیادہ فرق ہو تو بھی کوئی خرابی کی بات نہیں ہے، تاہم یہ ضروری ہے کہ ان کے درمیان کا بہت سارا فرق ان کے ایک جان دو قالب ہونے میں ان کا مددگار بن جائے۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو یکساں ٹکڑے مل کر ایک مکمل پرزہ نہیں بن سکتے ہیں، وہیں یہ بھی ہوتاہے کہ دو ایک دوسرے سے مختلف ٹکڑے مل کر ایک مکمل پرزہ بن جاتے ہیں۔اس لئے فرق کو نظر انداز کرنا درست نہیں ہے بلکہ فرق کو سمجھنا اور اس سے فائدہ اٹھانا نہ صرف مفید ہے بلکہ مقصد تخلیق میں شامل ہے۔ اللہ پاک نے مرد اور اور عورت کو ایک سا نہیں بنایا، لیکن ایک جنس سے ضرور بنایا ہے، ان کے درمیان بہت سارے فرق ہیں، وہ اس سارے فرق کا سہارا لے کر ایک ایسی مکمل اکائی بن سکتے ہیں، جس میں نہ کچھ بے جوڑ اور نہ کہیں کوئی جوڑ نظر آئے۔ (بشکریہ ماہنامہ حجاب اسلامی نومبر 2014)

جہیز کے مخالفین کی خدمت میں

محی الدین غازی

بہت اچھاہے کہ زندگی میں ہر کام اچھا کیا جائے، اور ہر اچھا کام سلیقہ سے کیا جائے۔ شریعت کے ہر حکم سے ایک غیر معمولی سلیقے کا اظہار ہوتا ہے، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا بھی ہر پہلو اور زاویہ حسین و جمیل نظر آتا ہے۔
جہیز کی وجہ سے جتنی خرابیاں معاشرہ میں بڑھتی جارہی ہیں، ان کے پیش نظر جہیز کی کھل کر مخالفت ایک سماجی ذمہ داری اور ایک اخلاقی فرض بن گیا ہے۔
جہیز کے خلاف متعدد تقریروں کے مقابلے میں ایک اچھا عملی نمونہ بسا اوقات زیادہ موثر ہوتا ہے، اسی لئے بہت سارے دین پسند نوجوانوں نے عملی نمونہ پیش کرنے کی جرأت کی، اور ان جرأتوں کا سلسلہ جاری ہے۔البتہ کبھی کبھی ان کی جرأت کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ یہ اقدام اس سے بہتر انداز سے بھی ہوسکتا تھا۔
ایک موقع پر دیکھا گیا کہ نکاح کی تقریب کے بعد جب رخصتی کا وقت آیا تو لڑکی کے گھر والوں نے وہ سارا سامان پیش کیا جو انہوں نے کافی اہتمام سے تیار کرایا تھا، جس میں فرنیچر کے نام پر ڈبل بیڈ، ڈائننگ ٹیبل سیٹ، صوفہ سیٹ وغیرہ تھے، ساتھ میں فریج واشنگ مشین اور دیگر سامان بھی تھے۔ہمارے جرأت مند نوجوان نے صاف منع کردیا کہ میں جہیز کا مخالف ہوں اور مجھے کچھ بھی قبول نہیں ہے۔ اس جرأت پر ہزاروں سلام۔ لیکن سلیقہ مندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ جب رشتہ طے ہوا تھا اسی وقت لڑکی والوں کو اپنے موقف کے بارے میں پوری وضاحت اور تاکید سے بتادیا جاتا۔اب وہ لوگ ان ساری چیزوں کا اچار تو ڈالیں گے نہیں۔
ہمارے بعض جذباتی نوجوانوں سے اس سلسلے میں ایک کوتاہی اور ہوتی ہے، کہ وہ جہیز کے بارے میں اپنا موقف لڑکی والوں کو بہت کھل کر بتادیتے ہیں، لیکن اس کے بعد اپنی ذمہ داری کو بھول جاتے ہیں، کہ انہیں اب خود ایک مناسب انتظام کرنا ہے، تصور کریں کہ ایک گھر میں پانچ بھائی ہیں ، سب سے چھوٹا بھائی جہیز کے سلسلے میں اپنا مجاہدانہ موقف طے کرتا ہے، شادی ہوتی ہے، لڑکی سسرال آتی ہے، تو وہاں عجیب ماجرا دیکھتی ہے، کہ چار بھائیوں کے کمروں میں تو شاندار فرنیچر ہے جو ان کی بیویاں جہیز میں لائی تھیں، اور اس بے چاری کے کمرے میں ایک پرانی کھاٹ پڑی ہے، اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے والدین سے کچھ غلطی ہوگئی۔یہ طرز عمل مناسب نہیں ہے، اگر آپ جہیز نہیں لیتے ہیں، تو بیوی کی آسائشوں کا مناسب انتظام خود کریں۔ آپ کے گھر کی حالت دیکھ کر لڑکی کو یہ محسوس نہ ہو کہ سرتاج نے تو جہیز لینے سے انکار کردیا مگران کے گھر کا گوشہ گوشہ جہیزکے سامان کا شدت سے منتظر ہے۔
اصل میں ہوتا یہ ہے کہ چونکہ گھر گرہستی کا سامان تو عام طور سے لڑکی کے ساتھ آتا ہے، اس لئے ایسا کوئی انتظام کرنے کا رواج اور مزاج ہوتا نہیں ہے، چنانچہ جب جہیز کو منع کردیا جاتا ہے، تب بھی رواج اور مزاج نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ ادھر منع کردینے کے بعد اب ادھر انتظام کرنا ہوگا۔اس پہلو پر دھیان دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ جب ایک نئے خاندان کا آغاز ہورہا ہے تو مناسب انتظامات کے ساتھ ہونا چاہئے۔جس میں نہ فضول خرچی ہو اور نہ بخل اور کنجوسی ہو۔
ہمارے علاقہ میں رواج ہے کہ لڑکی اپنے ساتھ بڑی تعداد میں تکیہ غلاف ، چادریں اور ہاتھ کے پنکھے بھی لے کر جاتی ہے، ان کو مہینوں کی محنت سے تیار کیا جاتا ہے، ان پر ہاتھ سے بیل بوٹے لگا ئے جاتے ہیں اور خوب صورت کشیدہ کاری ہوتی ہے۔لڑکی کی ساس محترمہ اس میں سے کچھ گھر کے افراد میں تقسیم کردیتی ہیں ، اور باقی اٹھاکر رکھ دیتی ہیں اپنی بیٹی کی شادی میں دینے کے لئے۔ایک تو یہ رواج ہی غلط ہے، پھر لڑکی کے سامان میں اس طرح سے تصرف بھی مناسب نہیں ہے۔ ایک موقعہ پر ایسا ہوا کہ لڑکی کے والدبھی اس رواج کے مخالف تھے اور نوشہ میاں بھی، اور اس لئے یہ سارا سامان نہیں دیا گیا، پر جب لڑکی سسرال آئی تو ساس اور نندوں سے لے کر پڑوس کی عورتوں تک سب نے اتنے طعنے دئے کہ لڑکی کے لئے سہنا بلکہ رہنا مشکل ہوگیا، چنانچہ جلد موقف میں تبدیلی لائی گئی، اور اگلی بار جب لڑکی سسرال آئی تو اس کے ساتھ حسب رواج سارا سامان تھا۔ معلوم یہ ہوا کہ جہیز لینے سے انکار کردینا جو ایک وقتی اقدام ہوتا ہے کافی نہیں ہے، اس سے آگے بڑھ کر اپنے گھر والوں پر اثر انداز ہونا، اور ان کے دلوں میں اپنے موقف کے لئے احترام پیدا کرناضروری ہے۔
مجھے صالح نوجوانوں سے شکایت یہ رہی ہے کہ وہ اپنے گھر میں بہت کمزور ثابت ہوتے ہیں، بگڑے ہوئے بچے تو اپنی ہر ناجائز ضد پوری کروالیتے ہیں، جبکہ یہ اپنے جائز بلکہ واجب ارمانوں کو ضد کا درجہ بھی نہیں دے پاتے۔ بڑوں کی ناجائز اور نامعقول مخالفت ان کے ارادوں کو بے جان اور حوصلوں کو پست کردیتی ہے۔
ہمارے ایک ساتھی نے اپنے عزم کا اعلان کیا کہ وہ نہ تواپنی شادی میں جہیز لیں گے، اور نہ ہی بڑی بارات لے کر جائیں گے۔ ان کے اس عزم کی راہ میں لڑکی کے والد بھی حائل ہوگئے اور خود ان کے والد بھی۔ انجام کار سب کچھ بڑوں کی مرضی کے مطابق ہوا، اور ان کی ایک نہ چلی۔ حالانکہ وہ معاشی طور پر خود کفیل تھے بلکہ اپنے والدین کی بھی کفالت کرتے تھے۔ دوسری طرف ایک تحریکی بزرگ کی مثال بھی میرے سامنے ہے جو جہیز اور بارات کے سخت مخالف تھے، لیکن رنگین مزاج صاحب زادے نے فیصلہ کیا کہ اس کی شادی دھوم دھام سے ہوگی ، چنانچہ والد صاحب کی ایک نہ چلی اور صاحب زادے کے سارے غلط شوق پورے ہوئے۔میرا مشاہدہ ہے کہ گھر کے اندر کسی تقریب کے موقعہ پر جب صحیح رجحان اور غلط رجحان کے درمیان معرکہ آرائی ہوتی ہے زیادہ تر صحیح رجحان کو شکست ہوتی ہے۔
دین پسند نوجوان اپنا رویہ بدلیں، وہ اپنے آپ کو طاقتور بنائیں، اپنے موقف کو سلیقے سے پیش کرنا اور مضبوطی سے اس پر جمنا سیکھیں، ورنہ اصلاح کا کام چند نعروں اور کچھ تقریروں سے آگے نہیں بڑھے گا۔

قرآن مجید میں بار بار غور وفکر کیوں ضروری ہے؟

قرآن مجید میں بار بار غور وفکر کیوں ضروری ہے؟
محی الدین غازی
عام انسانی کلام ایک سپاٹ سی چھت کی طرح ہوتا ہے کہ ایک نگاہ طائرانہ یا ایک نگاہ غائرانہ سے سارے مفہوم کا ادراک ہوجائے، قرآن مجید تو کہکشاؤں سے بھرا آسمان ہے کہ جتنی دیر تک دیکھتے رہیں، نئے نئے ستارے اور نئے نئے شمس وقمر دریافت ہوتے رہیں، اس کلام کی شان یہ ہے کہ پہلی نظر میں صرف اتنا ہی ملتا ہے جتنا پہلی نظر کے لئے مقدر ہے، بار بار نظر ڈالنے والوں کو جو ملتا ہے ، اس کا اندازہ وہ نہیں کرسکتے جو ایک نظر پر اکتفا کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں تدبر ایک مسلسل عمل ہے، جسے زندگی کی آخری سانس تک جاری وساری رہنا چاہئے۔
اس کلام عظیم کی طرف بار بار رجوع کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ قرآن کے پیش نظر صرف معلومات دینا نہیں بلکہ پرانا ذہنی سانچہ توڑ کر نئے ذہنی سانچے کی تشکیل کرنا ہے،ظاہر ہے قرآنی مزاج بار بار رجوع کے بغیر نہیں بنتا ہے۔بعض دینی کتابوں پر اس طور سے بھی تنقید کی گئی ہے کہ وہ اس مزاج سے مختلف مزاج بناتی ہیں جو قرآن مجید بناتا ہے، قرآن مجید کی تعلیمات سے اگر میدان کارزار کا مجاہد بنتا ہے، تو یہ کتابیں خانقاہ کا راہب بناتی ہیں۔ قرآن مجید مرد کامل بنانا چاہتا ہے اور یہ کتابیں شخصیت کے کسی ایک پہلو کی طرف توجہ کو کافی قرار دیتی ہیں۔
قرآن مجید کے مطالعہ کے دوران قاری کو صرف قرآن مجید کی بات سننا چاہئے، مثال کے طور پر جنت تک جانے کا راستہ قرآن مجید میں کیا بتایا گیا ہے،ایمان کیا ہے، ایمان کے ساتھ نیک عمل کی کتنی اہمیت ہے، کفر کیا ہے، کون سے اعمال ہیں جو جہنم میں جانے کی وجہ بن سکتے ہیں، یہ سب ہمیں قرآن مجید سے معلوم کرنا چاہئے۔ بسا اوقات لوگ اپنی دوسری سابقہ ذہنی معلومات پر اس درجہ ایمان رکھتے ہیں کہ ان کی تابع داری میں قرآن مجید کی مختلف واضح آیتوں کی تاویلیں کرکے قرآن کے وعدوں کی قوت کو کم کردیتے ہیں ،یا اس کی دھمکیوں کی شدت گھٹادیتے ہیں۔ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہماری کسی تاویل سے قرآن مجیدکے بیان کی شدت میں کمی تو نہیں ہورہی ہے۔
قرآن مجید کے مطالعہ کے وقت یہ یقین رہنا چاہئے کہ قرآن مجید اپنے ماننے والوں کو عام انسانوں کے سامنے کسی بھی مسئلے میں کمزور پوزیشن پر نہیں کھڑا کرتا ہے، دراصل ہم قرآن کے بجائے جب بعض فقہی اجتہادات پر (جو بہر حال انسانی عمل ہوتے ہیں) مکمل انحصار کرلیتے ہیں تو عام انسانوں کے سامنے ہمارا موقف کمزور معلوم ہوتا ہے، اس لئے جب بھی کسی مسئلے میں اپنا موقف کمزور محسوس ہوتا ہو تو ایک مومن کو قرآن مجید کی طرف رجوع کرنا چاہئے، اور قرآن مجید کی رہنمائی میں ایک مضبوط موقف اختیار کرنا چاہئے۔
قرآن مجید کا ایک مقصد سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو جگانا اور ذہن ودماغ کو ترقی دینا بھی ہے، یہ مقصد جب ذہن سے اوجھل ہوجاتا ہے تو ہم قرآن مجید پڑھتے ہوئے بھی اس کے ایک بہت بڑے فائدے سے محروم رہتے ہیں، قرآن مجید کے اس مقصد کو سامنے رکھ کر قرآن مجید کی آیتوں پر مسلسل غوروفکر کرنا چاہئے۔قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والوں کو زندگی کی گتھیاں سلجھانے اور انسانوں کے مسائل کا حل سجھانے میں سب سے آگے ہونا چاہئے ، کیونکہ قرآن مجید نہ صرف عقدہ کشا ہے بلکہ عقدہ کشائی کی تربیت بھی دیتا ہے، وہ کائنات کی سیر بھی کراتا ہے اور کائنات کی سیر کیسے کرتے ہیں یہ بھی سکھاتا ہے۔

دینی اجتماعات کا بڑا مسئلہ — وقت کی اجتماعی ناقدری

محی الدین غازی
یہ بھی تسلیم کہ وقت بہت قیمتی شئے ہے، اور یہ بھی تسلیم کہ دینی اجتماعات میں بے پناہ افادیت ہوتی ہے، اور ان اجتماعات میں شرکت سے ہمارے حاضر وغائب سب اوقات بابرکت ہوسکتے ہیں ۔ لیکن اسے کیا کیجئے کہ ہمارے بعض غلط رویوں کی وجہ سے ان اجتماعات میں وقت جیسی قیمتی متاع کی اجتماعی ناقدری ، چھین جھپٹ اور سرقہ وغصب کی وارداتیں عام ہوگئی ہیں۔بعض اجتماعات میں لوگوں کو اپنے جوتوں کی حفاظت کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسے مواقع پر جوتے چپلوں کی چوری تو کم ہوتی ہے، وقت جیسی انمول چیز کی چوری زیادہ ہوتی ہے۔
اصولی بات یہ ہے کہ ہر آدمی کا وقت قیمتی ہوتا ہے، اور وہ قیمتی وقت اس آدمی کی ذاتی ملکیت ہوتا ہے اس میں کسی اور کی حصہ داری نہیں ہوتی ہے۔آپ کے کسی رویہ سے کسی کا ایک لمحہ بھی ضائع ہوتا ہے تو اس کا شمار ظلم میں ہوگا ،جس طرح کسی کو زندگی سے محروم کرنا ظلم ہے اسی طرح کسی کا کچھ وقت ضائع کرنا بھی ظلم ہے۔
ایک جگہ اجتماع تھا، صبح آٹھ بجے کا وقت متعین تھا، لیکن وقت متعین پر صرف چند لوگ پہونچ سکے، اکثریت نو بجے پہونچی، چنانچہ اجتماع ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا، اجتماع کے اختتام پرایک دل جلے نے حاضرین سے کہا، اگلے اجتماع میں کب آنا ہے یہ آج طے ہوجانا چاہئے، اگر ایک گھنٹہ تاخیر سے آنا ہے تو یہ تاخیر سے آنا بھی ہمارے درمیان طے ہونا چاہئے، کیونکہ یہ چھوٹی برائی ہے کہ اجتماع ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہو، اور یہ بڑی برائی ہے کہ کچھ لوگ وقت پر آکر باقی لوگوں کا انتظار کرنے میں اپنا وقت ضائع کریں۔ اتفاق کے بغیر تاخیر سے بہتر ہے کہ تاخیر سے آنے پر اتفاق کرلیا جائے۔
ہمارے ایک ساتھی تاخیر سے پہونچنے کے حق میں دلیل پیش کرتے ہیں کہ وقت کی پابندی زیادہ اہم نہیں ہے ، اصل اہمیت تو وقت کے بہتر استعمال کی ہے،گویا زیادہ اچھے کام میں مشغول ہوجانے کی وجہ سے اگر پہلے سے طے شدہ کسی کام میں تاخیر ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن یہ دلیل وہاں پر درست ہے جہاں آپ کی تاخیر کی وجہ سے صرف آپ کا ٹائم ٹیبل متاثر ہوتا ہو، اگر آپ کی تاخیر کی وجہ سے کسی دوسرے کا وقت خراب ہوجائے تو یہ رویہ کسی دلیل سے درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
دیکھا گیاہے کہ بعض مقررین نے تاخیر سے آنے کو اپنا شیوہ بنارکھا ہے، بعضے تو تاخیر سے آنے کے بعد بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ میرے آنے کا مقررہ وقت وہی ہے جب میں آجاؤں۔لیکن اگر کبھی ان کے آنے کے بعد سامعین پہونچنے میں تاخیر کردیں تو وہ چراغ پا ہوجاتے ہیں۔دراصل ایسے مقررین اس غلط گمان کا شکاررہتے ہیں کہ ان کا وقت ان کے سامعین کے وقت سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔
یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ مقرر کو تقریر کے لئے جس قدر وقت دیا گیا اس سے زیادہ دیر تک وہ بولتا رہتا ہے، سامعین پہلو بدلتے ہیں، منتظمین مضطرب ہوتے ہیں، مگر تقریر جاری رہتی ہے۔حالانکہ وقت مقررہ سے ایک منٹ بھی زیادہ لینے سے پہلے مقرر کو نہ صرف منتظمین سے بلکہ سامعین سے بھی اجازت لینا چاہئے، اور وہ بھی اس صورت میں جبکہ ایسا کرنا بہت ضروری معلوم ہوتا ہو۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک سیشن میں ایک سے زیادہ مقرر ہوتے ہیں، ہر ایک کے لئے متعین وقت ہوتا ہے، ایسی صورت میں اگر کوئی اپنے وقت سے زیادہ لیتا ہے تو وہ یقینی طور پر دوسروں کا حصہ کم کرتا ہے، اس صورت کو اگر مٹھائی کے ڈبے پر قیاس کرکے دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ یہ بھی چھین جھپٹ کی ایک صورت ہوتی ہے، جو شرفاء کو زیب نہیں دیتی۔ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر وقت متعین نہ ہو تو بھی ہر شخص اپنے ذہن میں یہ حساب کرلے کہ اس کا حصہ کتنا بنتا ہے، اور پھراس ذہنی حصہ کی پابندی کرے۔
سامعین کا وقت ضائع کرنے کی ایک بہت عام صورت یہ ہے کہ مقرر تیاری کے بغیر تقریر کرے، جس کی وجہ سے سامعین کو سماعت کا مقصد فوت ہوتا ہوا محسوس ہو۔اگر آپ نے ایک موضوع پر تقریر کرنے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے، تو یہ آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اپنے سامعین کے سامنے ایسی تقریر کریں جس سے ان کی شرکت کا مقصد پورا ہو۔آپ تیاری کیسے کرتے ہیں، اور اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے تیاری کے لئے وقت کیسے نکالتے ہیں یہ آپ کا مسئلہ ہے، لیکن اپنی مصروفیات کا بہانہ کرکےاور بنا تیاری کے غیرمفید قسم کی گفتگو کرکے دوسروں کا وقت ضائع کرنا ایک دینی مقرر کے شایان شان نہیں ہے۔آپ کی شخصیت آپ کی اور دوسروں کی نگاہ میں کتنی ہی زیادہ محترم ہو، تاہم ایک انسان کے وقت کی حرمت بے ٹھکانہ ہوتی ہے۔
کچھ مقررین وقت کے تو بہت پابند ہوتے ہیں، اگر انہیں پچاس منٹ دئے گئے تو پورے پچاس منٹ تقریر کرتے ہیں، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پچاس منٹ میں ان کو پچاس منٹ والی تقریر کرنا تھی، پندرہ منٹ والی تقریر کو کھینچ تان کرکے پچاس منٹ میں نہیں پھیلانا تھا۔مطلب یہ کہ اگر آپ سامعین کا زیادہ وقت لے رہے ہیں تو اس کا صحیح صلہ ان کو دیجئے۔اور اگر آپ کے پاس اتنا ہی مواد جمع ہوسکا ہے جس کی ترسیل کے لئے پندرہ منٹ کافی ہیں، تو وقت کے ساتھ انصاف یہی ہے کہ آپ ان کے پینتیس منٹ ضائع نہ کریں۔لیکن یہ بات ان کو آنے سے پہلے معلوم ہونا چاہئے کہ تقریر پچاس منٹ کی نہیں پندرہ منٹ کی ہوگی، تاکہ وہ پہلے سے اپنے ٹائم ٹیبل میں آپ کی تقریر سننے کے لئے اتنا وقت متعین کرسکیں۔
دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بعض لوگوں کے پاس بولنے کے لئے پانچ منٹ ہوتے ہیں، جن میں سے تین منٹ وہ یہ باور کرانے میں ضائع کردیتے ہیں کہ اتنے کم وقت میں اس قدر اہم موضوع کا حق ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ اسٹیج پر موجود سارے لوگوں کا ان کے مراتب کے ساتھ نام لینا بھی تضییع وقت کا ایک انداز ہے، جسے وہ لوگ بھی شوق سے اختیار کرتے ہیں جن کو بہت محدود وقت میں بات پیش کرنا ہوتی ہے۔
ایک عجیب صورتحال سوال وجواب کی مجلسوں میں دیکھنے کو ملتی ہے، چونکہ مقررہ وقت کے اندر سوال وجواب کے سیشن کو انجام دینا ہوتا ہے، سمجھ داری کا تقاضا یہ ہے کہ لوگ مختصر اور واضح سوال کریں، اور جواب دینے والے مختصر اورواضح جواب دیں تاکہ وقت سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے۔ مگر عملا ہوتا یہ ہے کہ سوال کرنے والوں کو تو اختصار کی تاکید کی جاتی ہے، اس تاکید کی بسا اوقات ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے، مگر جواب دینے والے اکثر غیر ضروری تفصیل سے کام لیتے ہوئے باقی سوالوں کا وقت کھاجاتے ہیں۔ اور یہ کام وہ لوگ انجام دیتے ہیں جو بزعم خودبڑے دانشور اور حکیم ہوتے ہیں۔
موضوع سے ہٹی ہوئی تقریر وں کا مرض بھی بہت عام ہے، اگر آپ کو کوئی متعین عنوان دیا گیا ہے تو آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اسی عنوان پر تقریر فرمائیں، کسی اور عنوان پر تقریر کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، اس خاص وقت کے لئے تو وقت ضائع کرنے والی ہی ہے۔اگر لوگوں کو ایک خاص موضوع پر گفتگو کےلئے بلایا گیا ہے تو کسی اور موضوع پر ان کو کچھ بھی سنانا ان کی سماعت اور ان کے وقت کے ساتھ زیادتی ہے۔
چونکہ ہمارے یہاں بولنے اور سننے کے کام کو فن نہیں سمجھا جاتا جس میں مہارت حاصل کرنا مطلوب ہو، اس لئے بھی ہمارا بہت سارا وقت جو ہم بولنے یا سننے کی تگ ودو میں گذارتے ہیں، ضیاع کا شکار ہوجاتا ہے۔سننے والے اپنی سماعت کی قوت کارکردگی کیسے بڑھائیں، اور بولنے والے اپنی گفتگو میں وضاحت ،تاثیر اور نتیجہ خیزی کیسے پیدا کریں ،یہ سیکھنا ہر سمجھ دار آدمی کے لئے ضروری ہے۔ایک مقرر یہ بات زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ سننا بہت مشکل کام ہے۔ اس مشکل کو آسان بنانا بھی مقرر کی ذمہ داری بنتی ہے۔
اس مضمون سے لکھنے والے اور پڑھنے والوں کا وقت کس حد تک ضائع ہوا اس سے قطع نظر، اسے پڑھ کر اپنے اور دوسروں کے وقت کا احترام اگر دل میں پیدا ہوجائے تو یہی اس تحریر کا مقصد ہے۔(بشکریہ ماہنامہ رفیق منزل نومبر 2014)

مجلس شوری کا حقیقی کردار

محی الدین غازی
دینی جماعتوں اور اداروں کی پس ماندگی کی ایک بڑی وجہ ان کی مجلس شوری کا محدود کردار ہے۔
دینی جماعتوں اور اداروں کا دستور یہ کہتا ہے کہ فیصلے اتفاق رائے یا پھر کثرت رائے سے ہوں گے۔اتفاق رائے یا کثرت رائے معلوم کرنے کے لئے ایک مجلس شوری منتخب کی جاتی ہے، اور جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے، مجلس شوری کی مٹینگ ہوتی ہے ، اور اس مٹینگ کی روداد سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ فیصلہ دستور کے مطابق ہوا ہے۔
غرض مجلس شوری کا مقصد وجود دستور کی اس ضرورت کو پورا کرنا ہوتا ہے کہ ہر فیصلہ اتفاق رائے یا پھر کثرت رائے سے ہونا چاہئے۔ اس طرح مجلس شوری جماعت یا ادارے کی پیاس بجھانے کے لئے نہیں ہوتی ہے بلکہ دستور کی پیاس بجھانے کے لئے ہوتی ہے۔
درحقیقت مجلس شوری کا کردار اس سے بہت عظیم اور ذمہ داری اس سے بہت بڑی ہے۔مجلس شوری کے ارکان تو اپنے اداروں اور جماعتوں کا دماغ ہوتے ہیں، اور دماغ کا کام ہمیشہ سوچتے رہنا ہے۔دماغ اس وقت سوچنا شروع نہیں کرتا ہے جب اعضاء وجوارح اس سے رائے طلب کرتے ہیں، بلکہ وہ تو اس وقت بھی سوچتا رہتا ہے جب جسم مفلوج ہوتا ہے، جب دماغ جاگتا ہے تو جسم سے حرکت کی امید ہوتی ہے اور جب وہ سوجاتا ہے تو پورا جسم سوجاتا ہے۔
مجلس شوری کا ہررکن اپنے دماغ کو دوسروں سے ہزار گنا زیادہ غورو فکر کی مشقت دے، یہ اس کے منصب کا تقاضا ہے۔اور یہ غوروفکر صبح و شام ہو ، ہر لحظہ اور ہر آن ہو، ایسا نہ ہو کہ مٹینگ کا ایجنڈہ ملنے کے بعد غور وفکر شروع ہو اور مٹینگ میں فیصلہ ہوتے ہی غوروفکر ختم ہوجائے ۔
مجلس شوری کے ہر رکن کو اپنا احتساب کرنا چاہئے کہ اس کا دماغ اس کی جماعت اور ادارے کو کتنا فیض پہونچارہا ہے، کیونکہ آخرت میں اس کی بھی جواب دہی ہو گی۔ اور اگر اسے یقین ہو کہ وہ شوری کی رکنیت کے اس حق کو ادا نہیں کرپائے گا تو سمجھ داری اسی میں ہے کہ وہ اس ذمہ داری سے بہت دور رہے۔
اس طرح کے معاملات میں بھی اللہ پاک کے اس ارشاد سے بڑی رہنمائی ملتی ہے کہ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ انصاف نہیں کرسکو گے تو ایک پر اکتفا کرو ۔

تین طلاقوں کا ظلم — خاتمہ کیسے ہو

محی الدین غازی

(خلاصہ: ایک بار میں ایک طلاق اسلام کے نظام رحمت کا حصہ ہے، اور ایک بار میں تین طلاق ایک ظالمانہ رویہ ہے، جسے ختم کرنا مسلمانوں پر فرض ہے)
جس طرح کسی زمانے میں انسانوں کو غلام بنالینے ، بیٹی کو زندہ درگور کرنے اور بیوی کو شوہر کی چتا پر زندہ جلادینے کا رواج ظالمانہ تھا، اسی طرح ایک ہی بار میں تین طلاقوں کا رواج بھی ظالمانہ ہے۔ دور حاضر میں جہاں ظلم کی مختلف نئی شکلیں رائج ہوئیں وہیں ظلم کی پرانی شکلیں مٹانے کی انسانوں نے سنجیدہ کوششیں بھی کیں، چنانچہ غلامی کے خاتمہ کا اعلان ہوا، ستی کی رسم کو غیر قانونی جرم قرار دیا گیا، تاہم تین طلاقوں کے ظالمانہ رواج کو ختم کرنے کی ابھی تک کوئی سنجیدہ اور بھرپور کوشش کسی طرف سے نہیں ہوئی۔
حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ میں بار بار پیش آنے والے تین طلاقوں کے دل سوز واقعات اور پھر ان کی بنیاد پر “نکاح” جیسی فلموں میں دکھائے جانے والے تکلیف دہ مناظر دیکھ کر سادہ دل مسلمان پریشان اور بے چین ہوجاتا ہے کہ یہ تین طلاقوں والا ظلم جو مرد عورت پر روا رکھتا ہے ، اللہ کی شریعت میں کیسے جائز ہوسکتا ہے۔اللہ تو رحمان اور رحیم ہے۔
واقعہ یہ ہے پوری دنیا میں اور خاص طور سے ہندوستان میں اسلام کو بدنام کرنے میں تین طلاقوں کا بہت بڑا کردار رہا ہے، مسلمانوں کی باہمی فرقہ آرائی کو بھی تین طلاقوں سے خوب غذا ملی ہے، یوٹیوب پر دیکھیں تو تین طلاقوں کے مسئلہ پر علماء کرام کی ایک دوسرے کے خلاف بے شمار تقریریں ہیں ، کتب خانے اور رسائل وجرائد بھی تین طلاقوں کی طویل بحثوں سے بوجھل ہوچکے ہیں، نہ تو علماء میں یہ بحث دم لے رہی ہے کہ تین طلاق ایک ہوں گی یا تین ، اور نہ عوام میں تین طلاقوں کا سلسلہ رک رہا ہے۔
علماء دین کا اس پر تو اتفاق ہے کہ ایک بار میں تین طلاق سنت کے خلاف عمل ہے ، ایک قبیح فعل ہے، اور اس حرکت کا ارتکاب کرنے والا اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتا ہے۔ تاہم انہوں نے تین طلاقوں کے مسئلہ پر اتنی بحثیں کیں کہ عوام کے ذہن ودماغ میں تین طلاقیں ہی بیٹھ گئیں، انجام کار یہ کہ جب بھی زبان طلاق کے لئے حرکت میں آتی ہے، تو تین طلاقیں ہیں برآمد ہوتی ہیں۔طرہ یہ کہ ہمارے مسلم وکلاء بھی جب طلاق نامہ تحریر کرتے ہیں تو تین طلاق لکھ کر اس پر دستخط لیتے ہیں۔علماء کے بارے میں تو میں نہیں کہہ سکتا لیکن بہت سارے مولویوں کا بھی یہی سمجھنا ہے اور یہی وہ سمجھاتے بھی ہیں کہ اگر طلاق مکمل طور پر دینا ہے تو تین کی گنتی تو پوری کرنی ہی پڑے گی۔
اہل حدیث حضرات نے اس ظلم کے تدارک کے لئے یہ طریقہ تجویز کیا کہ ایک بار کی تین طلاقوں کو ایک ہی مان لیا جائے، اس طریقہ کی خامی یہ ہے کہ یہ طریقہ ان بہت سارے لوگوں کو مطمئن نہیں کرسکاجن کا مسلک یہ ہے کہ تین طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں۔خاص طور سے جبکہ فقہ کے چاروں مسلک یہی کہتے ہوں کہ تین طلاقیں تین شمار ہوں گی۔
مجھے یقین ہےکہ علماء کتنی ہی بحثیں کرڈالیں، اور کتنی ہی دلیلیں جمع کرڈالیں، یہ بحث ختم نہیں ہوسکتی کہ تین طلاقیں ایک مانی جائیں یا تین مانی جائیں کیونکہ اس اختلاف کی جڑیں اتنی گہری اور اس قدر مضبوط ہیں کہ ان کو اکھاڑ پھینکنا انسانوں کے بس سے باہر ہے۔ پھر معاملہ چونکہ طلاق کا ہے اس لئے تین طلاقوں کو ایک طلاق مان لینے کے بعد بھی یہ کھٹک دل میں مستقل طور پر رہ سکتی ہے کہ کہیں تین طلاقیں تین ہی تو نہیں ہوتی ہیں، اور یہ کہ تین کو ایک مان لینے کے بعد ازدواجی زندگی حلال گذر رہی ہے یا حرام۔
میں طویل غوروفکر اور بحثوں کی لمبی سماعت کے بعد اس نتیجہ پر پہونچا ہوں کہ صورتحال کی اصلاح کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ صورتحال جس وجہ سے بگڑی ہے اس وجہ کو دور کردیا جائے، یعنی طلاق کے صحیح تصور کو عام کیا جائے۔
لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ شافی وکافی طلاق جس سے طلاق دینے کا مقصد حاصل ہوجائے وہ بس تین طلاقیں ہیں۔ ہمیں لوگوں کو یہ بتاناہوگا کہ مکمل طلاق جس سے طلاق دینے کا مقصد حاصل ہوجائے وہ صرف ایک طلاق ہے۔ مطلب یہ کہ ایک طلاق تہائی طلاق نہیں بلکہ مکمل طلاق ہوتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہر موقف کے علماء اخلاص کے ساتھ عوام کو یہ بتانےکی مہم چلادیں کہ ایک مسلمان کامسلک تین طلاق دینا ہے ہی نہیں، مسلمان تو جب بھی ضرورت ہو ایک ہی طلاق دیتا ہے، اور اگر ان کو ایک طلاق کے فائدوں اور برکتوں سے واقف کرائیں تو تین طلاقوں والا ظالمانہ رواج بھی ختم ہوجائے اور ساتھ ہی تین طلاقوں والی بحث بھی از خود ختم ہوجائے۔
یہ بات درست نہیں ہے کہ لوگ صرف غصہ میں تین طلاقیں دیتے ہیں، یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ صرف جاہل اور ان پڑھ تین طلاق دیتے ہیں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی عام طور سے اور ہر حال میں تین طلاقیں دینے لگے ہیں۔ کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تین طلاق ہی دینا ہوتی ہے بیوی سے جدا ہونے کے لئے۔ میں نے بہت سارے نوجوانوں سے گفتگو کرتے ہوئے جب انہیں ایک طلاق کے بارے میں بتایا تو وہ حیران ہوگئے، انہیں معلوم ہی نہیں تھا، کہ شریعت میں جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ ایک بار میں ایک طلاق دینے کا ہے، اور اس ایک طلاق سے شوہر اور بیوی کی مطلوبہ علیحدگی ہوسکتی ہے۔
بات کتنی سادہ اور آسان سی ہے ، زید اور اس کی بیوی کے تعلقات بے حد کشیدہ ہوچکے ہیں، وہ اسے ایک طلاق دیتا ہے ۔عدت کے دوران زید اپنے فیصلہ پر نادم ہوتا ہے تو رجوع کرلیتا ہے، نادم نہیں ہوکر رجوع نہیں کرتا ہے تو وہ عدت پوری ہونے کے بعد اس کا گھر چھوڑ دیتی ہے۔ اس کے بعد اس کی شادی کہیں اور ہوجاتی ہے ، تو وہ اپنے نئے شوہر کے ساتھ رہنے لگتی ہے۔ اور اگر اس کی شادی کہیں اور نہیں ہوتی ہے، اور وہ دونوں دوبارہ میاں بیوی بن کر رہنا چاہتے ہیں تو دونوں کے لئے گنجائش ہے کہ نکاح کرکے اپنی ازدواجی زندگی بحال کرلیں۔ طلاق کی کہانی صرف اتنی ہی ہے اور وہ صرف دوبار دوہرائی جاسکتی ہے، تیسری بار کہانی کا اختتام حتمی جدائی پر ہوجاتا ہے۔
اس پر بعض نوجوان حیران ہوکر کہتے ہیں، کیا تین طلاق کے بغیر وہ لڑکی کسی اور سے شادی کرسکتی ہے؟ کیونکہ ان کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ ایک طلاق تو پوری طلاق ہوتی نہیں ہے کہ وہ لڑکی کسی اور سے شادی کرسکے۔جب انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ایک طلاق بیوی سے مکمل طور سے الگ ہونے کے لئے کافی ہے تو وہ مزید حیرا ن ہوتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو پھر تین طلاق کا سبق اتنے زور وشور سے کیوں پڑھایا جاتا ہے۔
طلاق جیسے انسانیت دوست خدائی انتظام کو تین طلاقوں کے تصور نے اس قدر خراب کرڈالا کہ اپنوں کو آپس میں لڑنے کا موقعہ ملا اور وہ خوب خوب لڑے، مخالفوں کو اسلام کی ہنسی اڑانے کا موقعہ اور انہوں نے بہت ہنسی اڑائی۔
دراصل ایک بار میں ایک طلاق دینا ہی وہ صحیح طریقہ تھا جس پر مسلمانوں کو بوقت ضرورت عمل کرنا چاہئے تھا، یہ طریقہ معاشرہ کے لئے بے حد زندگی بخش اور فرد کے لئے حد درجہ اطمینان بخش تھا۔سارے علماء کو مل کر اس طریقہ کی صحیح تشریح وتفہیم پر توجہ دینا چاہئے ۔ لیکن علماء کے درمیان تین طلاق کے اوپر فضول بحثیں چھڑ گئیں۔اور اتنی زور وشور سے چھڑیں کہ عوام کے ذہن میں ایک طلاق کی جگہ تین طلاق کا تصور بیٹھ گیا۔ان بحثوں کو فضول کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ہزار بحثوں کے باوجود چند مخصوص دلائل سے آگے بات نہیں بڑھی اور انہیں کو لے کر لوگ آپسی دھینگا مشتی اور باہم طعن وتشنیع میں لگے رہے۔
عیسائیوں کو حضرت عیسی علیہ السلام نے ربانیت اور خدا ترسی کا درس دیا تھا، انہوں نے غلو کا راستہ اختیار کیا اور رہبانیت کے عذاب میں مبتلا ہوگئے۔ مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے ایک طلاق کا طریقہ رحمت اور نعمت کے طور پر عطا کیا گیا تھا، مسلمانوں نے طلاق کو تین سے ضرب دے کر خود کو اللہ کی رحمت سے محروم اور ایک ذلت بھرے عذاب میں گرفتار کرلیا۔
مجھے کامل یقین ہے کہ آج ملت کا دانشور اور سمجھدار طبقہ متحد ہوکر اور ایک زبردست مہم چلاکر تین طلاقوں کا مزاج اور رواج ختم کرنے اور ایک طلاق کے تصور کی تفہیم کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے ۔ اور اگر ایسا ہوجائے تو شریعت کا غیر معمولی احترام نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کے دلوں میں بھی جگہ بناسکتا ہے۔
میں نے ایک طلاق کے قرآنی انتظام پر جس قدر غور کیا، اللہ کی رحمت کو اتنا زیادہ قریب محسوس کیا۔اور تین طلاقوں والی طلاق کے نتائج پر جس قدر سوچا اسے محض ایک بدعت نہیں بلکہ ایک بدترین بدعت اور زہر ناک سماجی لعنت پایا۔(ماہنامہ حجاب اسلامی دسمبر 2014)