مثالی قیادت --- اوصاف اور اہداف کا عطر مجموعہ

تجارتی اداروں اور تنظیموں کی بے راہ روی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں قیادتوں کا انتخاب صرف اہداف کی بنیاد پر ہوتا ہے، ایک شخص ذاتی حیثیت میں کس قدر برائیوں میں لت پت ہے اسے نظر انداز کرکے دیکھا یہ جاتا ہے کہ وہ شخص کمپنی کے اہداف کے حصول کے لئے کیا وژن اور کیسی صلاحیت رکھتا ہے، چنانچہ اگر انہیں کوئی ایسا قابل اعتماد اور باصلاحیت فرد مل جاتا ہے جو ان سے وعدہ کرے کہ وہ ایک متعینہ میعاد میں کمپنی کو اس کی موجودہ پوزیشن سے آگے بڑھا کر بہتر پوزیشن تک پہونچائے گا ، تو وہ اس کو گلے لگاتے ہیں ، اور کمپنی کا انتظام وانصرام اس کے حوالے کردیتے ہیں، اور توقعات پر پورا نہیں اترپانے کی صورت میں اس سے جلدی ہی چھٹکارا بھی پالیتے ہیں۔
تاہم دینی اداروں اور تنظیموں کی پس ماندگی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں قیادتوں کا انتخاب صرف اوصاف کی بنیاد پر ہوتا ہے، اگر ادارہ اندرونی سیاست اور گروپ بندی کا شکار ہو، تب تو اوصاف بھی نہیں دیکھے جاتے ، اور یہی بات کافی ہوتی ہے کہ کس فرد کا منتخب ہوجاناکس گروپ کے حق میں زیادہ بہتر ہوگا۔ اور اگر ادارہ اندرونی سیاست سے پاک ہو تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ تقوی،علم اور معاملہ فہمی کے لحاظ سےکون سب سے بہتر ہے۔ قیادت کے لئے منتخب ہونے والے فرد سے نہ تو پوچھا جاتا ہے اور نہ ایسا کوئی وعدہ لیا جاتا ہے کہ وہ ادارے کو ایک میعاد کے اندر ترقی کی کس منزل سے ہم کنار کرےگا۔
دینی اداروں میں قائد کے اوصاف پر توجہ مرکوز ہوتی ہے ، اہداف کے پہلو کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، قائد کا انتخاب بھی اوصاف کے پہلو سے ہوتا ہے، اہداف کے پہلو سے نہیں ہوتا، اور اس کا جائزہ اور احتساب بھی اسی پہلو سے ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بسا اوقات قائد اپنے آپ میں ایک قدآور ، قابل احترام اور عظیم الشان شخصیت ہوتا ہے، مگر اس کی کارکردگی ذرا اطمینان بخش نہیں ہوتی ہے، اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جاتا۔ چنانچہ ایسے بہت سارے ادارے دیکھنے کو ملتے ہیں ، جہاں قائد کے علم وتقوی اور قلم وخطابت کی سارا عالم گواہی دیتا ہے، اور ادارہ اس کے زیر قیادت وانتظام برسہا برس سے جمود اور پستی میں رہ کر ایسے انڈے بچے دے رہا ہوتا ہے جن کی انسانیت کو کوئی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ الٹا انسانیت پر بوجھ بن جاتے ہیں۔
دینی اداروں میں اہداف کو یکسر نظر انداز کرکے صرف اوصاف پر توجہ کیوں دی جاتی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان اداروں میں قائد کی ذمہ داری صرف اتنی سمجھی جاتی ہے کہ وہ ادارے کو چلائے، اور وہ بھی ایسے ادارے کو چلائے جو خود ہی چل رہا ہوتا ہے، چنانچہ وہ پورے اطمینان اور سکون سے ادارے کو ویسے ہی چلاتا ہے جس طرح روز صبح سے شام تک چرواہا ایک پیڑ کے سائے میں بیٹھ کر بھیڑ بکریاں چراتا ہے، یا سڑک کے نکڑ پر پان کی دکان والا روز صبح میں دکان کھولتا اور شام کو اسے بند کردیتا ہے۔ کبھی کبھی ادارہ کسی بحران کا شکار ہوتا ہے، تو اس کے اندر بھی بے چینی پیدا ہوجاتی ہے، بحران کے دور ہوتے ہی اس کے شب وروز بھی سکون اور چین سے گزرنے لگتے ہیں۔ چونکہ ادارے کو محض چلانا مقصود ہوتا ہے اس لئے اہداف کی چنداں اہمیت نہیں ہوتی ہے، اور صرف اوصاف کی اہمیت رہ جاتی ہے۔
اگر قائد کی ذمہ داری ادارے کو چلانے کے بجائے ادارے کو ترقی دینا قرار پائے، تو اوصاف کے ساتھ ساتھ اہداف کی اہمیت بھی دوچند ہوجاتی ہے، ایسی صورت میں ادارہ قیادت کے لئے ایسے فرد کو تلاش کرتا ہے جو ترقی کا تصور بھی رکھتا ہو اور اس کا وعدہ کرنے کی جرأت بھی رکھتا ہو۔
اعلی اوصاف کے ساتھ ساتھ واضح اور بلند اہداف کی بنیاد پر جب قائد کا انتخاب ہوتا ہے، تو قائد کو اوصاف کی حفاظت کی فکر بھی ہوتی ہے اور اہداف کے حصول کی دھن بھی ہوتی ہے۔ اور اسی بنیاد پر اس کا احتساب بھی ہوتا ہے۔ جو قائد اہداف کو پورا نہیں کرپاتا وہ ادارےسے معافی مانگ کر خود مستعفی ہوجاتا ہے، یا پھر ادارہ بخوبی اسے سبک دوش کردیتا ہے۔
اہداف کا تعین کوئی مشکل امر نہیں ہے، قائد خود بتا سکتا ہے کہ وہ ایک میعاد میں کیا کیا تبدیلیاں لانے کا تصور رکھتاہے، اور ادارہ خود بھی یہ طے کرسکتا ہے کہ اسے ایسا قائد مطلوب ہے جو ایک میعاد میں چناں چناں تبدیلیوں سے ادارے کو ہمکنار کرنے کا وعدہ کرے۔ادارہ تو بحسن وخوبی چلتا رہتا ہے،ساتھ ہی ہر میعاد میں قیادت کی باگ ڈور سنبھالنے والا پرعزم و باحوصلہ کمان دار اپنے اہداف کی دھن میں ادارے کو نئی نئی فتوحات سے ہمکنار کرتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں