"کوئی بات نہیں"

ایک بار میں گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ بیگم کے چہرے کا رنگ خوف سے اڑا ہوا ہے، پوچھنے پر ڈرتے ڈرتے بتایا کہ کپڑوں کے ساتھ میرا پاسپورٹ بھی واشنگ مشین میں دھل گیا، یہ خبر میرے اوپر بجلی بن کر گری، مجھے چند روز میں ایک ضروری سفر کرنا تھا، میں اپنے سخت ردعمل کو ظاہر کرنے والا ہی تھا، مگر اللہ کی رحمت سے مجھے ایک بات یاد آئی، اور میری زبان سے نکلا "کوئی بات نہیں"۔ اور اس جملے کے ساتھ ہی گھر کی فضا نہایت خوشگوار ہوگئی۔ پاسپورٹ دھل چکا تھا، اور اب اس کو دوبارہ بنوانا ہی تھا، خواہ میں بیگم پر غصہ کی چنگاریاں برسا کر اور بچوں کے سامنے ایک بدنما تماشا پیش کرکے بنواتا یا بیگم کو دلاسا دے کر بنواتا، جو چشم بد دور ہر وقت میری راحت کے لئے بے چین رہتی ہیں۔
سچ بات یہ ہے کہ مجھے اس جملے سے بے حد پیار ہے، میں نے اس کی برکتوں کو بہت قریب سے اور ہزار بار دیکھا ہے۔ جب بھی کسی دوست یا قریبی رشتہ دار کی طرف سے کوئی دل دکھانے والی بات سامنے آتی ہے، میں درد کشا اسپرے کی جگہ اس جملے کا دم کرتا ہوں، اور زخم مندمل ہونے لگتا ہے۔ اپنوں سے سرزد ہونے والی کوتاہیوں کو اگر غبار خاطر بنایا جائے تو زندگی عذاب بن جاتی ہے، اور تعلقات خراب ہوتے چلے جاتے ہیں، لیکن "کوئی بات نہیں" کے وائپر سے دل کے شیشے پر چھائی گرد کو لمحہ بھر میں صاف کیا جاسکتا ہے، اور دل جتنا صاف رہے اتنا ہی توانا اور صحت مند رہتا ہے۔
بچوں کی اخلاقی غلطیوں پر تو فوری توجہ بہت ضروری ہے، لیکن ان کی غیر اخلاقی غلطیوں پر "کوئی بات نہیں" کہ دینے سے وہ آپ کے دوست بن جاتے ہیں، اور باہمی اعتماد مضبوط ہوتا ہے۔ بچہ امتحان کی مارک شیٹ لے کر سر جھکائے آپ کے سامنے کھڑا آپ کی پھٹکار سننے کا منتظر ہو، اور آپ مسکراتے ہوئے سر پر ہاتھ پھیرکر فرمائیں "کوئی بات نہیں، اگلی بار اور محنت کرنا، چلو آج کہیں گھومنے چلتے ہیں" تو آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ بچے کے سر سے کتنا بھاری بوجھ اتر جاتا ہے، اور ایک نیا حوصلہ کس طرح اس کے اندر جنم لیتا ہے۔ میں نے اپنے بچوں کو کچھ دعائیں بھی یاد کرائی ہیں، ساتھ ہی اس جملے کو بار بار سننے اور روانی کے ساتھ ادا کرنے کی مشق بھی کرائی ہے۔
میرا بار بار کا تلخ تجربہ یہ بھی ہے کہ کبھی یہ جملہ بروقت زبان پر نہیں آتا، اور اس ایک لمحے کی غفلت کا خمیازہ بہت عرصے تک بھگتنا پڑتا ہے، طبیعت بدمزا ہوجاتی ہے، اور ایک مدت تک کڑواہٹ باقی رہتی ہے۔ تعلقات میں بال آجاتا ہے، اور برسوں تک خرابی باقی رہتی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ یہ جملہ یادداشت کا حصہ بننے کے بجائے شخصیت کا حصہ بن جائے۔
وقفے وقفے سے پیش آنے والے معاشی نقصانات ہوں، یا ہاتھ سے نکل جانے والے ترقی اور منفعت کے مواقع ہوں، یہ جملہ ہر حال میں اکسیر سا اثر دکھاتا ہے، ایک دانا کا قول ہے کہ نقصان ہوجانا اور نقصان کو دل کا بوجھ بنانا یہ مل کر دو نقصان بنتے ہیں، جو ایک خسارہ ہوچکا وہ تو ہوچکا، تاہم دوسرے خسارے سے آدمی خود کو بچا سکتا ہے، اس کے لئے صرف ایک گہری سانس لے کر اتنا کہنا کافی ہے کہ "کوئی بات نہیں"َ۔ یاد رہے کہ یہ دوا جس طرح کسی چھوٹے نقصان کے لئے مفید ہے، اسی طرح بڑے سے بڑے نقصان کے لئے بھی کار آمد ہے۔ ایک مومن جب "کوئی بات نہیں" کو للہیت کے رنگ میں ادا کرتا ہے، تو "انا اللہ وانا الیہ راجعون" کہتا ہے۔
بسا اوقات ایک ہی بات ایک جگہ صحیح تو دوسری جگہ غلط ہوتی ہے۔ "کوئی بات نہیں" کہنا بھی کبھی آدمی کی شخصیت کے لئے سم قاتل بن جاتا ہے، جیسے کوئی شخص غلطی کا ارتکاب کرے تو چاہئے کہ اپنی غلطی کے اسباب تلاش کرکے ان سے نجات حاصل کرے، نہ کہ "کوئی بات نہیں" کہ کر غلطی کی پرورش کرے۔ خود کو تکلیف پہونچے تو آدمی "کوئی بات نہیں" کہے تو اچھا ہے، لیکن کوئی کسی کو تکلیف دے اور اپنی زیادتی کو "کوئی بات نہیں" کہ کر معمولی اور قابل نظر انداز ٹھہرالے، تو یہ ایک گری ہوئی حرکت ہوگی۔ اسی طرح جب کوئی اجتماعی ادارہ مفاد پرستوں کے استحصال اور نا اہلوں کی نا اہلی کا شکار ہو رہا ہو اور "کوئی بات نہیں" کہ کر اصلاح حال کی ذمہ داری سے چشم پوشی اختیار کرلی جائے، تو یہ ایک عیب قرار پائے گا۔ معاشرہ میں کسی کے ساتھ ظلم وزیادتی ہورہی ہو اور لوگ اس جملے سے اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کی کوشش کریں، تو یہ انسانیت کے مقام سے گرجانا ہوگا۔
غرض کہ یہ جملہ دل کی دیوار پر آویزاں کرنے کے لائق ہوتا ہے، اگر یہ دل کی کشادگی برقرار رکھے، تعلقات کی حفاظت کرے اور دنیاوی نقصان ہونے پر تسلی کا سامان بنے۔
اور یہی جملہ مکروہ اور قابل نفرت ہوجاتا ہے اگر یہ عزم بندگی، احساس ذمہ داری اور جذبہ خود احتسابی سے غافل ہونے کا سبب بن جائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں