بال برابر فاصلہ رکھنا، ایک حکیمانہ اصول

بال برابر فاصلہ رکھنا، ایک حکیمانہ اصول
محی الدین غازی
نماز میں دوسروں کے پاؤں سے پاؤں ملاکر کھڑے ہونے کا مسئلہ نازک بھی ہے اور اہم بھی ہے، نماز کے دوسرے اختلافی مسائل کے برعکس اس مسئلے میں نزاکت کا خاص پہلو یہ ہے کہ ہمارا یہ عمل ہماری ذات تک محدود نہیں رہتا ہے، بلکہ دوسروں کی ذات کو راست متاثر کرتا ہے، خاص طور سے جب ایک شخص اپنے پاؤں کو دوسرے شخص کے پاؤں سے چپکانا چاہتا ہے، اور وہ دوسرا شخص اس کے لئے آمادہ نہیں ہوتا ہے۔
میں نے ہندوستان کی مسجدوں میں متعدد بار دیکھا کہ جو لوگ پاؤں ملاکر کھڑے ہونے سے مانوس نہیں ہیں، وہ محض اس وجہ سے اپنی جگہ بدل دیتے ہیں کہ ان کے پاس کھڑا ہوا شخص پاؤں ملاکر کھڑے ہونے کے موڈ میں ہوتا ہے۔
بعد میں مشاہدہ ہوا کہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی ایسی بہت ساری مسجدوں کا یہی حال ہے، جہاں اہل حدیث اور غیر اہل حدیث ساتھ نماز پڑھتے ہیں، ایسے میں بعض اہل حدیث حضرات کا اصرار ہوتا ہے کہ وہ پاؤں سے پاؤں چپکا کر کھڑے ہوں، جبکہ دیگر مسالک کے ماننے والے اپنے دونوں پاؤں کے درمیان کم فاصلے کو سنت سمجھتے ہیں، اور ساتھ والے نمازی کے پاؤں سے پاؤں ملانے کے عادی نہیں ہوتے ہیں، بسا اوقات ان کو اس سے الجھن بھی ہوتی ہے، چنانچہ بہت ساری مسجدوں میں پاؤں ملانے کے مسئلے پر خطرناک جھگڑے ہوجاتے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اس ناگواری اور الجھن کا علم اور احساس خود ان لوگوں کو بھی ہوتا ہے جو اتباع سنت کے جذبے کے تحت پاؤں ملاکر کھڑے ہونے کو نیکی اور کارثواب سمجھتے ہیں، اور ایک سنت کو زندہ کرنے کی خاطر یہ خطرہ مول لیتے ہیں۔ ایک قابل احترام اہل حدیث بزرگ شیخ عبیداللہ مبارکپوری لکھتے ہیں، ’’جب کوئی اہل حدیث کسی حنفی کے پاس نماز میں کھڑا ہوتا ہے، اور سنت کی پیروی کے لئے اپنے پیر اس کے پیر سے ملانا چاہتا ہے تو حنفی اپنا پیر دور کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے دونوں پاؤں ملالیتا ہے، اور دونوں پاؤں کے بیچ ذرا فاصلہ نہیں بچتا ہے، کبھی وہ تیوری چڑھالیتا ہے، اور اپنے مسلم بھائی کی طرف غصے کی نظر سے دیکھتا ہے، اور کبھی تو نیل گائے کی طرح بھاگ کھڑا ہوتا ہے‘‘۔(مرعاۃ المفاتیح)
مطالعہ کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ پاؤں ملانے سے متنفر ہونے کا یہ مسئلہ بہت پرانا ہے، روایت ہے کہ مشہور صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوں کو درست کرنے کی ترغیب دی، تو میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنے قدم کو اپنے ساتھی کے قدم سے ملاتے تھے، حضرت انس نے اپنے شاگردوں سے یہ بھی کہا کہ ’’اگر تم ایسا کرنے لگے تو لوگوں کو دیکھو گے کہ گویا وہ بپھرے ہوئے خچر ہیں‘‘۔ واضح رہے کہ یہ بات ہمارے زمانے کی نہیں بلکہ تابعین کے زمانے کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے سے متعلق تمام دلائل کو جمع کریں تو یہ مان لینا آسان ہوجاتا ہے کہ نماز میں پاؤں ملا کر کھڑا ہونا بھی سنت ہے، اور پاؤں نہ ملاکر قریب قریب کھڑا ہونا بھی سنت ہے، دونوں ہی طریقوں پر امت کا دور اول سے عمل رہا ہے، اصل کوشش اس کی ہو کہ صف سیدھی رہے، نمازیوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ قربت ہو، اور دونوں طریقوں کے ماننے والے ایک دوسرے کا لحاظ کریں۔
دینی سوجھ بوجھ کا تقاضا ہے کہ پاؤں نہیں ملانے والے پاؤں ملانے کو بھی سنت سمجھیں اور اس عمل کو بھی احترام کی نظر سے دیکھیں، اور اپنے اندر اتنا تحمل پیدا کریں کہ اگر کبھی کوئی شخص پاؤں سے پاؤں ملاتا ہے، تو خوش دلی کے ساتھ اسے قبول کریں، اور اگر کوئی پریشانی محسوس ہوتی ہو تو ثواب کی نیت کے ساتھ اسے برداشت کرلیں، اور اس پر کوئی ناروا ردعمل ظاہر نہ کریں۔
دینی سوجھ بوجھ کا تقاضا یہ بھی ہے کہ پاؤں ملانے والے اس وقت تو بلاتکلف پاؤں ملانے کی سنت پر عمل کریں جب ان کے پہلو میں ان کے ہم خیال لوگ ہوں، لیکن جب کوئی ایسا فرد ساتھ میں ہو جو پاؤں ملانے پر آمادہ نہ لگتا ہو، تب ضرور احتیاط اور حکمت سے کام لیں، اپنے عمل کے ساتھ اس کے عمل کو بھی سنت سمجھیں، اور اگر پاؤں کے بیچ کے فاصلے کو ختم کرنا ہی چاہتے ہوں تو ایسا کریں کہ اپنا پاؤں اس کے پاؤں کے قریب لے جاکر بس بال برابر فاصلہ چھوڑ دیں، کہ اس کے پیر کو آپ کے پیر کے لمس کا احساس نہ ہو، اور درمیان میں فاصلہ بھی نظر نہیں آئے، اس طرح صفوں کے بیچ دوری بھی نہیں رہے گی، اور آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والا آپ سے متنفر اور پریشان بھی نہیں ہوگا۔
اجتماعی زندگی میں جہاں طرح طرح کی طبیعت اور مزاج والے لوگ ساتھ رہتے ہوں، اور قدم قدم پر نوک جھونک اور تصادم کا خطرہ درپیش ہوتا ہو، بال برابر فاصلہ رکھنے کا اصول بہت کارگر ثابت ہوتا ہے۔ بال برابر کا ذرا سا فاصلہ بڑی بڑی دوریوں سے بچاسکتا ہے۔
(اس نقطہ نظر کی مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو، مضمون نگار کی تازہ تصنیف ’’نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل‘‘)

احسان جتانا خرابی ہے اور جتانے والے سے درگزر کرنا خوبی ہے

احسان جتانا خرابی ہے اور جتانے والے سے درگزر کرنا خوبی ہے
محی الدین غازی
اگر کوئی گھر پیار اور محبت کے باغ سے آراستہ ہو تو گھر کا حسن بے نظیر ہوجاتا ہے۔ محبت کے باغ کی سحر انگیز ہوائیں گھر والوں کے مشام جاں کو معطر رکھتی ہیں، اور انہیں نفس نفس زندگی کا پیغام پہونچاتی رہتی ہیں۔
محبت کے باغ میں بہت سارے درخت بھلائی اور احسان کے بھی ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے سے محبت کے نئے نئے پودے اگتے ہیں، اور احسان ماننے اور بھلائی کی قدر کرنے سے وہ پودے نشوونما پاتے اور پھولتے پھلتے ہیں۔ محبت کے ان ثمر بار درختوں میں دونوں کی حصہ داری ہوتی ہے، اور اگر وہ درخت مرجھا جائیں تو دونوں کا نقصان ہوتا ہے۔
احسان کرنا بڑی خوبی ہے، اور احسان ماننا بھی بڑی خوبی ہے، اور یہ دونوں خوبیاں الگ الگ توجہ چاہتی ہیں۔ احسان کرنے کے لئے دل کی کشادگی مطلوب ہوتی ہے اور احسان ماننے کے لئے بھی دل کی کشادگی درکار ہوتی ہے، لیکن دونوں کا تعلق دل کے الگ الگ گوشوں سے ہوتا ہے، اور جس دل کے یہ دونوں گوشے کشادہ ہوں اس دل کی وسعت وعظمت بے مثال ہوتی ہے۔
احسان کرنے اور احسان ماننے سے محبت کا جو باغ تیار ہوتا ہے، احسان جتانے سے وہ تباہی کی زد میں آجاتا ہے، آنا فانا احسان اور بھلائی کے سارے پودے مرجھانے لگتے ہیں، اور دیکھتے دیکھتے محبت کا باغ خزاں رسیدہ اور ویران ہوجاتا ہے۔ احسان کرنے والے کو اگر معلوم ہوجائے کہ ایک معمولی سا جملہ کس طرح اس کی بڑی بڑی نیکیوں اور ناقابل فراموش قربانیوں کو مٹی میں ملادیتا ہے، تو وہ اپنی نیکی کو خود بھول جانا پسند کرے، تاکہ غلطی سے بھی ایسا لفظ اس کی زبان سے نہ نکلے جس میں احسان جتانے کا ذرہ برابر شائبہ ہو۔
جس لمحے احسان جتانے کا عمل شروع ہوتا ہے، اسی لمحے احسان ماننے کا سلسلہ رک جاتا ہے، اور لگتا ہے کہ جیسے احسان اور بھلائی کا کوئی معاملہ ہوا ہی نہیں تھا۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سارے گھروں میں نفرت کی بیماری احسان جتانے کے راستے سے آتی ہے، اور اس طرح آتی ہے کہ بہت سارے صحت مند دلوں کو بیمار کردیتی ہے، اور برسوں گھر کی فضا ناسازگار رہتی ہے۔
احسان یاد دلانا صرف اللہ کے شایان شان ہے، پیغمبر بھی اللہ کے احسانات ہی یاد دلاتے ہے۔ انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ سب اللہ کا دیا ہوا ہے، کسی انسان کو زیب نہیں دیتا ہے کہ وہ اللہ کی عطا کی ہوئی بہت ساری نعمتوں میں سے کچھ اللہ کے دوسرے بندوں کو دے اور پھر احسان جتاکر انہیں اذیت کا نشانہ بنائے۔
احسان جتانا یقینا ایک بری خصلت ہے، اللہ پاک نے قرآن مجید میں اس سے بچنے کی تلقین کی ہے، اس برائی کی مختلف نیتیں اور صورتیں ہوسکتی ہیں، کبھی سامنے والے کے دل کو زخمی کرنے اور اس کی عزت نفس کو مجروح کرنے کے لئے احسان جتایا جاتا ہے، تو کبھی محض اپنی انا اور جذبہ نام ونمود کی تسکین مقصود ہوتی ہے، کبھی غصے اور شدید ناراضگی کی حالت میں ایسی بات زبان سے نکل جاتی ہے، اور کبھی محض فضول گوئی کی عادت نادانستہ یہ حماقتیں سرزد کراتی ہے۔ کبھی آدمی سامنے احسان جتاتا ہے، تو کبھی غائبانے میں کسی پر اپنے احسانوں کا ذکر کرتا ہے، اور بات متعلقہ فرد تک پہونچ جاتی ہے۔ قباحت تو کم وبیش ان سب صورتوں میں پائی جاتی ہے، تاہم نیت کی خرابی اور لہجے کی زہرناکی اس قباحت کو بہت بڑھا دیتی ہے۔ غیرت مند انسان کے لئے تو کسی کے احسان کا بار اٹھانا اپنے آپ میں مشکل ہوتا ہے، اور اس پر جب کوئی احسان بھی جتائے تو بے شک دل چھلنی ہوجاتا ہے۔
احسان جتانا بہت بری بات ہے، تاہم مختلف واقعات کا تجزیہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر بھی پہونچا ہوں کہ احسان جتانے والے سے درگزر کرنا اور اس کی تکلیف دہ غلطی کے باوجود اس کے احسان کو نہ بھلانا ایک بڑی خوبی ہے، خاص طور سے اگر یہ معلوم ہوجائے کہ احسان جتانے والا بدنیت اور بدطینت نہیں ہے، بلکہ نادانی کی کیفیت میں اس سے یہ حرکت سرزد ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بعض لوگ احسان تو پورے خلوص دل کے ساتھ کرتے ہیں، لیکن ان کی نادان طبیعت سے اپنی نیکی کی حفاظت نہیں ہوپاتی، اور اس کے لئے انہیں دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ احسان جتانے والے سے درگذر کرکے ہم اپنے دل کے ایک اور گوشے کی کشادگی کا ثبوت پیش کرتے ہیں، دل کی یہ کشادگی محبت کے باغ کو مرجھانے سے بچالیتی ہے۔ ناراض دل کو تھوڑا سمجھا بجھا کر ہم اپنے گھر کی فضا خوش گوار رکھ سکتے ہیں، اور خود ردعمل کا شکار ہوجانے اور پھر احسان فراموشی کی پستی میں گرجانے سے بچ جاتے ہیں۔ احسان جتانے والے کو اگر یہ احساس ہوجائے کہ اس کی نادانی کے باوجود اس کا لگایا ہوا نیکی کا پیڑ ہنوز زندہ ہے، اور اس کی حفاظت اس نے کی ہے جس کو اس نے احسان جتاکر تکلیف دی، تو اس کے لئے ندامت اور توبہ کے راستے روشن ہوجاتے ہیں۔ اندھیری راتوں میں اپنے حصے کی شمع شاید اس طرح بھی روشن کی جاتی ہے۔
یاد رہے کہ لوگوں کی احسان فراموشی کے باوجود احسان کرتے رہنا بہت بڑی خوبی ہے، اور کسی کے احسان جتانے کے باوجود اس کے احسان کو یاد رکھنا بھی بہت بڑی خوبی ہے۔

نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل

نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل
محی الدین غازی
الحمدللہ، میری پہلی کتاب ’’ نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل‘‘ تیار ہوئی اور ہدایت پبلشرز دہلی سے شائع ہوگئی، میرے مطالعہ کی حد تک یہ اپنے موضوع پر منفرد کتاب ہے، گو کہ اس کتاب کا ہر مرحلہ قدیم وجدید علماء وفقہاء کی رہنمائی میں طے کیا گیا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ خیال کا ایک سرا ہاتھ آجاتا ہے، اور اگر اسے مضبوطی سے تھام کر تحقیق کی راہ میں آگے بڑھیں تو ایک بڑی بات تک رسائی ہوجاتی ہے اور آدمی حیرت ومسرت کی تصویر بن جاتا ہے، اس کتاب کا آغاز بھی کچھ اسی طرح خیال کے ایک سرے سے ہوا، اور برسہا برس کے غور وفکر، بحث ومباحثہ اور مطالعہ وتحقیق کے بعد اتحاد ملت کا ایک آسان اور اطمینان بخش نسخہ تیار ہوگیا۔ اس کتاب کی اصل خصوصیت یہی ہے کہ یہ ایک بہت مشکل مسئلے کا بڑا آسان حل پیش کرتی ہے۔ اس توفیق پر میں اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔
امت کی صورت حال پر غور کرتے ہوئے میں نے ایک تشویش ناک بات نوٹ کی، وہ یہ کہ امت کے مسلکی اختلافات کا اثر بازاروں، گھروں، کارخانوں یا تفریح گاہوں وغیرہ میں تو نظر نہیں آتا ہے، البتہ ان اختلافات کا بہت زیادہ ظہور مسجدوں میں ہوتا ہے، اور نماز پڑھنے کے طریقوں میں دکھائی دیتا ہے، چنانچہ جو لوگ مسجد سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں وہی مسلکی اختلافات سے بھی زیادہ متاثر ہوتے ہیں، جبکہ مسجد تو حقیقت میں ملی وحدت کا مرکز ہے، اور باجماعت نماز تو اصل میں امت کے اتحاد کی علامت ہے اور اس میں اتحاد کی تعلیم وتربیت کا بہترین سامان ہے۔
اس کتاب کی تیاری کے دوران مجھے یہ یقین حاصل ہوا کہ اگر نماز کے اختلافی مسائل میں الجھے رہنے کے بجائے ان سے نکلنے کی اطمینان بخش راہ دریافت کرلی جائے، تو یہ اتحاد ملت کی جانب ایک بڑی پیش رفت ہوگی، اور اس سے دوسرے اختلافات کو حل کرنے میں بھی بہت مدد ملے گی۔ یاد رہے کہ اتحاد ملت کا حسین خواب اسی صورت میں پورا ہوسکے گا جب مسجدوں کو آپس میں بانٹنے کے بجائے انہیں اتحاد امت کی سب سے بڑی تربیت گاہ بنادیا جائے۔
بہت سارے لوگوں کو یہ سوال حیران وپریشان کرتا ہے کہ نماز جیسی ایک آسان، مختصر مگر انتہائی اہم اور روزانہ کئی بار انجام دی جانی والی عبادت اس طرح محفوظ کیوں نہیں رہی کہ ہر مسلمان کو پورے شرح صدر کے ساتھ اور کسی اختلاف کے بغیر یہ معلوم رہتا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نماز کیسے پڑھا کرتے تھے؟ آخر ایک مختصر اور آسان سے عمل میں اتنے زیادہ اختلافات کیوں کر جمع ہوگئے؟
جو لوگ تحریکی مزاج رکھتے ہیں، اور امت کی فکر کے حامل ہیں، وہ یہ تو کہتے ہیں کہ عظیم نصب العین اور بڑے مقاصد کی خاطر فروعی اختلافات کو نظر انداز کرنا چاہئے، لیکن وہ بھی بجا طور سے یہ ضرور جاننا چاہتے ہیں کہ نماز کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول کیا تھا؟
بہت سے لوگ رواداری کے جذبے سے یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہر طریقے سے نماز ہوجاتی ہے، لیکن اندر سے اتباع سنت کا یہ نیک جذبہ بھی انہیں بے چین رکھتا ہے کہ نماز کا جو افضل اور مسنون طریقہ ہو وہ معلوم ہوجائے تاکہ اس کے مطابق نماز جیسی عظیم عبادت کو انجام دیا جائے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح ہدایت بھی ہے، ’’مجھ کو جس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھو اسی طرح تم نماز پڑھو‘‘۔
عام مشاہدہ ہے کہ اتحاد ملت کے لئے کی جانے والی بہت ساری تقریریں اور قراردادیں صدا بصحرا ثابت ہوتی ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اتحاد ملت پر تو اکساتی ہیں لیکن اس کے ساتھ اتباع سنت کے جذبے کی تکمیل کرنے سے قاصر ہوتی ہیں۔ چنانچہ دیکھا جاتا ہے کہ اتحاد ملت کے بہت سارے علم بردار اتباع سنت کے مسئلے پر باہم دست وگریباں ہوجاتے ہیں۔ اس لئے شدید ضرورت ہے کہ اتباع سنت کی وہ حقیقت سامنے آئے جس کی بنیاد پر اتحاد امت کی مضبوط دیوار بھی استوار ہوسکے، اور ساتھ ہی اتباع سنت کے تمام تقاضے بھی پورے ہوسکیں۔
اس کتاب میں ایسی بہت ساری الجھنوں کو حل کرنے کی سعی کی گئی ہے، یہ کتاب اتحاد امت کی ایک تدبیری کوشش ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ اس وقت امت کو اپنے بے شمار مسائل کے لئے تدبیری کوششوں کی شدید ضرورت ہے، دلی تمنا ہے اور اللہ سے دعا ہے کہ یہ کاوش لوگوں کے اندر مثبت سوچ اور ذہنی وسعت کو پروان چڑھانے میں کامیاب ہو، اور اللہ کی توفیق سے ایک ایسی تحریک برپا ہوجائے جو امت کو مسلکی شدت پسندی اور مذموم فرقہ بندی کی تنگ گلیوں سے نکال کر اتحاد واتفاق کی کشادہ شاہ راہوں پر لے آئے۔ اللہ یہ کوشش قبول فرمائے۔
کتاب حاصل کرنے کے لیے رابطہ کریں:
Hidayat Publishers & Distributors
Mobile No. 09891051676
Email: hidayatbooks@gmail.com

عمارت کی کرسی اونچی رکھیں

عمارت کی کرسی اونچی رکھیں
محی الدین غازی
کوئی بیس سال پہلے کی بات ہے، مولانا محمد فاروق خاں صاحب لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد میں تربیت ذات کے
 موضوع پر تقریر کررہے تھے، مجھے اس تقریر کی ایک بات یاد رہ گئی، مولانا نے کہا تھا: ’’ہرعمارت کی ایک کرسی (Plinth) ہوتی ہے، کرسی نیچی ہوتی ہے تو عمارت کا حسن دب جاتا ہے، کرسی اونچی ہوتی ہے، تو عمارت کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے، دہلی کی جامع مسجد کی امتیازی شان اس کی اونچی کرسی سے ہے۔ انسان کی زندگی بھی ایک عمارت ہے، اور اس کی بھی کرسی ہوتی ہے، آپ اپنی زندگی کی عمارت کی کرسی اونچی رکھیں‘‘۔
میں نے اپنے گردوپیش کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ عمارت کی کرسی عمارت کے حسن کو بڑھاتی ہے، ساتھ ہی گلی کوچے کی گندگی سے بھی محفوظ رکھتی ہے، برسات میں نالی کا گندا پانی ان گھروں میں نہیں گھستا ہے جن کی کرسی اونچی ہوتی ہے۔ بہت سے کیڑوں مکوڑوں کی رسائی سے بھی مکان محفوظ رہتا ہے۔ سیلاب آجائے تو اونچی کرسی والے مکان لوگوں کے لئے پناہ گاہ بھی بن جاتے ہیں۔
مولانا نے دہلی کی جامع مسجد کی مثال دی، اور میں اونچی کرسی والی انسانی عمارتوں کی تلاش میں نکل گیا۔ اس سفر میں ایسی بہت سی اونچی کرسیوں والی عالیشان عمارتیں نظر آئیں کہ جن کی عظمت اور وقار کے سامنے دل ونگاہ احترام سے جھک جائیں، ایک نمایاں شخصیت حضرت یوسف علیہ السلام کی ہے، مصر کی حسیناؤں نے سارے حربے آزما ڈالے، لیکن ان کی شخصیت کی کرسی اتنی اونچی تھی، کہ سارا زور لگا کر بھی وہ اس عمارت کی چوکھٹ تک نہیں پہونچ سکیں، کجا کہ اس عمارت کو داغ دار کرپاتیں۔ آخر بے بس ہوکر پکار اٹھیں کہ یہ انسان نہیں ہے، شرافت اور گناہ بیزاری کا یہ پیکر تو ایک فرشتہ ہی ہوسکتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن جفر سخاوت کے سمندر تھے، اور اس سخاوت کی عمارت جس کرسی پر تھی وہ بھی بہت اونچی تھی، ایک بار ان کے سامنے ایک غریب عورت نے دست سوال دراز کیا، آپ نے اچھی خاصی رقم دے دی، لوگوں نے کہا یہ آپ کو نہیں جانتی ہے، اور یہ تو تھوڑی رقم سے بھی بہت خوش ہوجاتی، آپ نے کہا: ’’وہ تو تھوڑی رقم لے کر خوش ہوجاتی لیکن مجھے تو زیادہ دے کر ہی خوشی مل سکے گی، اور وہ مجھے نہیں جانتی تو کیا ہوا، میں تو اپنے آپ کو جانتا ہوں‘‘۔
شام کے مشہور عالم شیخ سعید حلبی ایک بار درس دے رہے تھے اور تکلیف کی وجہ سے پیر پھیلاکر بیٹھے تھے، درس کے دوران شام کا گورنر ابراہیم پاشا آنکلا، اس کی دہشت پورے ملک پر چھائی ہوئی تھی، لیکن شیخ حلبی پر اس کی آمد کا کوئی اثر نہیں ہوا، انہوں نے اپنے پاؤں نہیں سمیٹے، اور درس کو اسی طرح جاری رکھا۔ پاشا کو غضب ناک کرنے کے لئے یہ بہت تھا، مگر اس نے ضبط کرلیا، اور مجلس سے نکلنے کے بعد ان کے پاس اپنے کارندے سے اشرفیوں کی ایک تھیلی بھجوائی، شیخ نے اس تھیلی کو واپس کرتے ہوئے کہا: ’’یہ واپس لے جاؤ، اور پاشا سے کہہ دو جو اپنے پاؤں پھیلاتا ہے وہ اپنا ہاتھ نہیں پھیلاتا ہے‘‘۔ اونچی کرسی کی شان کو اس ایک جملے سے سمجھا جاسکتا ہے۔
اس دور کی عظیم شخصیت سید قطب کو پھانسی کی سزا سنائی گئی، اور ان سے رحم کی اپیل لکھنے کو کہا گیا، انہوں نے عزیمت سے بھرپور لہجے میں کہا: ’’میری شہادت کی انگلی جو ہر نماز میں اللہ کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہے، وہ ایسا ایک حرف نہیں لکھ سکتی جس سے اللہ کے کسی باغی کی حکمرانی کا اقرار ہوتا ہو۔ میں رحم کی اپیل کیوں کروں، اگر میری سزا کا فیصلہ درست ہے، تو میں اسے خود قبول کرتا ہوں، اور اگر یہ فیصلہ باطل ہے تو میں اس سے برتر ہوں کہ باطل سے رحم کی التجا کروں‘‘۔ حق پرستوں کی زندگی کی کرسی اتنی ہی اونچی ہونی چاہئے کہ بڑے بڑے جابروظالم بے بسی سے اس کے سنگ دیوار سے اپنا سر پھوڑتے نظر آئیں۔
جب برائی فیشن بن جائے، مادہ پرستی اور بے حیائی کا گندا سیلاب ہر گھر میں گھسنے کے درپے ہو، اخلاقی اقدار کے پشتے ایک کے بعد ایک ٹوٹتے جارہے ہوں، ہر جانب انسانی عظمت داؤ پر لگی ہوئی ہو، بلند قامت شخصیتوں کو اپنی قامت کھوتے دیر نہیں لگتی ہو، باوقار مکانوں کی عزت واحترام خطرے میں ہو، تو زندگی کی عمارت کی کرسی کو اونچا رکھنا بہت زیادہ ضروری ہوجاتا ہے۔
یاد رہے کہ انسانی زندگی کی وہ عمارتیں مقام امامت کی سزاوار نہیں ہیں جو بظاہر اونچی نظر آتی ہوں لیکن ان کی کرسی اتنی نیچی ہو کہ کبھی بھی گندے پانی کا ریلا اندر گھس آئے، اور سب کچھ گندا کرڈالے، جن کی نالیوں سے باہر کی گندگی اندر آتی ہو، اور جن کی زمین چاٹتی چوکھٹیں حشرات الارض کی گزرگاہ بنی ہوئی ہوں۔