معافی مانگتے رہیں اور معاف کرتے رہیں

معافی مانگتے رہیں اور معاف کرتے رہیں
محی الدین غازی
ایسے لوگ بھی دیکھے گئے ہیں جن کی زبانیں ’’معاف کیجئے’’ کہتے نہیں تھکتیں، اور ’’سوری‘‘ جن کا تکیہ کلام ہوتا ہے، مگر جب ماحول گرم ہوتا ہے، اور واقعی معافی مانگنے کا وقت ہوتا ہے تو معافی مانگنے اور معاف کرنے کو اپنی آن اور ناک کا مسئلہ بنالیتے ہیں۔ حالانکہ عفو ودرگزر سے ناک تو کسی کی نہیں کٹتی ہے، ٹوٹے ہوئے دل ضرور جڑ جاتے ہیں۔
اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے بھی اور تعلقات کو بنائے رکھنے کے لئے بھی آدمی کو معافی مانگنے اور معاف کرنے میں دیر نہیں کرنا چاہئے، جب انسان کی ’’میں‘‘ بیمار اور متورم ہوجاتی ہے، تو اسے معافی مانگنا بہت دشوار لگتا ہے۔ داراصل یہ تصور جتنا عام ہے اتنا ہی غلط بھی ہے کہ معافی مانگنے کا مطلب جھک جانا، ذلیل ہوجانا اور اپنی ہار مان لینا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ معافی مانگنے والا ہارے ہوئے رشتے کو دوبارہ جیت لینے کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ رشتے داروں کو ہراکر رشتوں کو جیت لینا ناممکن سی بات ہے، البتہ ضرورت پڑنے پر اپنے نفس کو ہراکر رشتوں کو جیت لینا دوہری کامیابی ہوتی ہے۔
یاد رکھنے کی بات ہے کہ زیادتی کرنے والا عام لوگوں کی نگاہ سے بچ جائے تب بھی اس کے نزدیک تو قابل حقارت ہو ہی جاتا ہے جس کے ساتھ اس نے زیادتی کی ہوتی ہے، اس کے علاوہ زیادتی کرنے والا خود اپنے ضمیر کے سامنے بھی چھوٹا ہوجاتا ہے، اور کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ خدائے علیم وخبیر سے کسی کا عمل مخفی نہیں رہتا ہے، اس لئے ذلت کی اس کیفیت سے نکلنے کا راستہ یہی ہے کہ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی اس سے بہترین طریقے سے معافی مانگ لی جائے، بس اسی طرح کھویا ہوا وقار واپس آسکتا ہے۔
بحث وتکرار کے دوران بارہا ایسا بھی ہوتا ہے، کہ آپ کا موقف بالکل درست ہوتا ہے، لیکن لہجے کی ذرا سی تیزی، آواز کی تھوڑی سی بلندی ، دوسرے شخص کے مقابلے میں آپ کی کم عمری اور بحث میں اس کا لاجواب ہوجانا، یہ سب کچھ دوسرے کے لئے تکلیف کا سبب بن جاتا ہے، سو کتنا اچھا ہو اگر آپ اپنے برحق ہونے پر اللہ کا شکر ادا کریں اور یہ سوچ کر دوسرے فریق سے معافی مانگ لیں کہ اس کے دل کو اس بحث میں ٹھیس پہونچی ہے جس میں آپ شریک تھے، اور اس کی تکلیف کو آپ دور کرسکتے ہیں، اس طرح تعلقات کی خوشگواری لوٹ آئے گی اور آپ کو وہ خوشی حاصل ہوگی جو صرف اور صرف تکلیف دور کردینے والے مسیحا صفت انسانوں کو حاصل ہوا کرتی ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ مصالحت کی کوششوں کے دوران اکثر ایک فریق یہ تسلیم ہی نہیں کرتا ہے کہ اس سے کوئی غلطی ہوئی ہے، اور دوسرا فریق اس وقت تک نرم نہیں پڑتا جب تک اس سے معافی نہیں مانگی جائے۔ اس طرح ریلیف کا کام آگے نہیں بڑھ پاتا اور ایک طرح کا ڈیڈ لاک آجاتا ہے۔ رشتوں کے بگاڑ کو دور کرنے کے لئے اس ڈیڈ لاک سے باہر نکلنے کی ضرورت ہوتی ہے، اور اس کے لئے اچھے اوصاف کے بجائے بہت زیادہ اچھے اوصاف کو اختیار کرنا ضروری ہوجاتا ہے، اور جو ان اعلی خوبیوں کو اپنالیتا ہے، وہی رشتوں کی دنیا کا فاتح عظیم قرار پاتا ہے۔
غلطی ہونے اور غلطی ثابت ہوجانے پر معافی مانگ لینا خوبی ہے، جو کم لوگوں میں پائی جاتی ہے، عام طور سے تو لوگ اپنی کھلی ہوئی زیادتیوں اور بے پردہ غلطیوں کو بھی تسلیم کرنا عار سمجھتے ہیں، تاہم غلطی نہیں ہو تب بھی محض رشتوں کو نباہنے اور روٹھوں کو منانے کے لئے بغیر غلطی کے معافی مانگ لینا بہت اعلی وصف اور نہایت کارگر نسخہ ہے۔
معافی مانگنے والے کو معاف کردینا بھی ایک خوبی ہے، بہت سارے لوگ تو ایسے سخت دل اور اڑیل ہوتے ہیں کہ لاکھ معافی مانگو ان کے دل نہیں پسیجتے، لیکن اس سے بھی اعلی درجے کی خوبی یہ ہے کہ غلطی کرنے والا معافی نہ مانگے اور پھر بھی آپ اسے معاف کردیں۔
غلطی کے بغیر معافی مانگ لینا، اور معافی مانگے بغیر معاف کردینا رشتوں کے حوالے سے اس لئے بھی پسندیدہ روش ہے کہ عام طور سے تعلقات کے بگاڑ میں دونوں پارٹیوں کا کچھ نہ کچھ ہاتھ ہوتا ہے، کسی کی غلطی کم ہوتی ہے تو کسی کی زیادہ، اور کسی کی نمایاں ہوتی ہے تو کسی کی پوشیدہ، دوسروں سے ہی نہیں بلکہ کبھی کبھی اپنے آپ سے بھی پوشیدہ، ایسے میں سب کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے، اور اگر خود کو معصوم اور دوسرے کو قصور وار ثابت کرنے کی محنت طلب کوشش کے بجائے معافی مانگنے اور معاف کرنے میں دونوں کی طرف سے تیزی دکھائی جائے تو رشتوں کا بگاڑ بہت جلدی دور ہوجاتا ہے۔
اگر کوئی شخص آپ سے معافی مانگتا ہے، تو سمجھئے کہ وہ آپ کے دل کو راحت پہونچانے کے لئے اپنے دل پر بڑا جبر کرتا ہے، اور ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے اندر زخمی زخمی سا ہوجاتا ہے، ایسے میں صرف اسے معاف کردینا کافی نہیں ہے، بلکہ آگے بڑھ کر اسے گلے لگانا اور اس کے دل کو آرام پہونچانا بھی آپ کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اگر ایک فریق معافی مانگنے میں پیش قدمی دکھائے تو دوسرے فریق کو معاف کرنے میں گرم جوشی دکھانا چاہئے۔
ناراض اور دل برداشتہ ہوکر رشتوں کو ختم کردینے میں جلدی دکھانا ایک بزدلانہ روش ہے، بار بار معافی مانگ کر اور ہر بار معاف کرکے رشتوں کے سفر کو خوب صورتی کے ساتھ جاری رکھنا ہمت اور بہادری کی بات ہے۔ خوشگوار زندگی گزارنے کے فاتحانہ انداز کچھ ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔

پریم کرنے کی چھمتا بڑھائیں

پریم کرنے کی چھمتا بڑھائیں
محی الدین غازی
رشتہ کوئی بھی ہو، والدین اور اولاد کا ہو، شوہر اور بیوی کا ہو، یا ساس اور بہو کا ہو، یا سوکن اور سوتیلی ماں کا ہو، کوئی رشتہ شیطان کا بنایا ہوا نہیں ہے کہ اس کے خمیر میں بغض ونفرت ہو، سارے رشتے خدا نے بنائے ہیں، محبت کی اساس پر بنائے ہیں، اور اس لئے بنائے ہیں کہ ان کو خوب چاہا جائے اور خوب صورتی سے نباہا جائے، رشتے اپنی زندگی اور تازگی کے لئے محبت چاہتے ہیں، محبت ہوتی ہے تو وہ توانا اور صحت مند رہتے ہیں، محبت نہ ہو تو کمزور اور بیمار ہوجاتے ہیں۔
دل محبت پیدا کرنے والی مشین ہے، مگر لوگ دل کو محبت سے چلنے والی مشین سمجھ لیتے ہیں، اپنے دل کو نہیں سمجھ پانے کی وجہ سے آدمی سوچتا ہے کہ جب کوئی مجھ سے محبت کرے گا تبھی میں اس سے محبت کروں گا۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دل خود محبت پیدا نہیں کرپا رہا ہے، بلکہ دوسرے کی محبت اس کو ملتی ہے تب وہ محبت کرنے کا اپنا کام کرپاتا ہے، اور اتنی ہی دیر تک کرتا ہے اور اتنی ہی حد تک کرتا ہے۔ یہ دل کو اس کے مقام بلند سے گرادینا ہے، دل کو تو شخصیت میں سب سے اونچا مقام دیا گیا ہے۔ دل تو اس جنریٹر مشین کی طرح ہے جو توانائی کو خود پیدا کرتی ہے، اور دوسری مشینوں کو چلانے کے لئے سپلائی کرتی ہے، دل ان بہت ساری مشینوں کی طرح نہیں ہے جو باہر کی توانائی سے چلا کرتی ہیں، اور توانائی نہ ملے تو چلنے سے انکار کردیتی ہیں۔
رشتے داروں کے درمیان اگر یہ انتظار پایا جاتا ہو کہ محبت کی شروعات دوسرا کرے اور ہم اس کی شروعات کو خوش آمدید کہیں، اور اس طرح زندگی بھر دوسرے کی طرف سے شروعات کا انتظار کرتے رہیں، تو مانو کہ ان کو اپنے دل کی بے پناہ صلاحیتوں کا اندازہ نہیں ہے، خالق عظیم نے یہ طاقت صرف دل میں رکھی ہے کہ وہ خود شروعات کرکے نیم مردہ رشتوں میں زندگی کی لہر دوڑادے، اور ایک کے بعد ایک سارے رشتوں کو فتح کرتا چلا جائے۔ دوسروں کی طرف سے محبت کا انتظار چھوڑ کر خود محبت کی شروعات کردینا دل کی زندگی اور صحت مندی کی بہت بڑی دلیل ہے۔
عام طور سے جب کوئ نیا رشتے دار زندگی میں داخل ہوتا ہے تو اندیشوں کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے کہ محبت کی اس نئی تقسیم میں نہ جانے کس کس کی محبت میں کٹوتی کی جائے گی، اور جہاں جہاں کٹوتی ہوتی ہے، وہاں وہاں رشتوں میں کمزوری آتی ہے، اور اس پر احتجاج بھی ہوتا ہے، جبکہ ادھر سے صرف ایک ٹکا سا جواب ملتا ہے کہ ’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘‘۔ اس مسئلے کا صرف ایک حل ہے اور وہ یہ کہ ہر نئے رشتے کی آمد پر دل کے اندر محبت کے پروڈکشن میں کافی اضافہ کردیا جائے، تاکہ کسی کی محبت میں کٹوتی کئے بغیر ہر نئے رشتے کو بھرپور محبت سے سیراب کیا جاسکے۔
ایک انسان کا دل بیک وقت بہت سارے انسانوں سے محبت کرسکتا ہے، اور ہر کسی سے بہت زیادہ محبت کرسکتا ہے، وہ بہت سارے رشتوں کو سیراب کرسکتا ہے اور ہر رشتے کو خوب خوب سیراب کرسکتا ہے، کیونکہ دل کی یہ خوبی ہے کہ وہ چاہے تو بہت زیادہ محبت پیدا کردے، دل کی اس خوبی سے جو لوگ غافل ہوتے ہیں، اور محبت کی کم پیداوار پر قناعت کرلیتے ہیں، وہ رشتوں کو نباہنے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔
ہمارے گھروں میں پیدا ہونے والے بہت سارے سنگین مسائل کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم دوسروں تک محبت کی بھرپور ترسیل نہیں کرپاتے۔ اس کی وجہ سے ایسے ایسے مسائل اور جھگڑے سر اٹھاتے ہیں کہ جن کا حل کسی کی سمجھ میں نہیں آتا۔ محبت میں تو جادوئی تاثیر ہوتی ہے، یہ بہت ساری تکلیفوں کو بھلادیتی ہے اور بہت ساری شکایتوں کو خاموش کردیتی ہے، اور جب محبت میں کٹوتی ہوتی ہے تو تکلیفیں ابھر آتی ہیں اور شکایتیں جاگ اٹھتی ہیں، آدمی پریشان ہوکر ادھر ادھر حل ڈھونڈتا ہے، جبکہ حل تو اس کے بہت قریب ہوتا ہے، عین اس کے دل کے اندر۔
ہماری طرح ہمارا دل بھی آرام پرست اور سہولت پسند ہوتا ہے، وہ محبت پیدا کرنے کی محنت سے جی چراتا ہے، اور اسی قدر پروڈکشن پر اکتفا کرتا ہے جس کا وہ عادی ہوتا ہے، تمام رشتوں کو نباہنے کے لئے لازم ہوتا ہے کہ دل پر دباؤ ڈال کر اسے زیادہ محبت کرنے کا عادی بنایا جائے، اور حسب موقعہ محبت کی پیداوار بڑھائی جاتی رہے، پیداوار بڑھانے کی صورت میں شروع شروع میں تو اوور لوڈ ہوجانے جیسی محنت اور تھکن کا احساس ہوتا ہے، تاہم جلد ہی حضرت دل زیادہ محبت پیدا کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ پھر رشتوں کا حسن نکھر آتا ہے، ان کی شادابی بڑھ جاتی ہے اور زندگی بہت خوشگوار ہوجاتی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر عزیز سے اتنی زیادہ محبت کرتے تھے، کہ اسے لگتا کہ سب سے زیادہ محبت اسی سے کرتے ہیں۔

اختلاف تنوع، ایک بھولا ہوا سبق

اختلاف تنوع، ایک بھولا ہوا سبق
محی الدین غازی
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دین میں گنجائش ہوتی ہے، لیکن خود اپنی نظر کی کوتاہی، علم کی کمی اور دل میں تنگی کی وجہ سے لوگوں کو لگتا ہے کہ دین میں تنگی ہے، اس کی ایک مثال اختلاف تنوع والے مسائل ہیں۔
شریعت کے کسی عمل کو مختلف لوگ الگ الگ طریقوں سے انجام دیتے ہوں، اور شریعت میں ان سب طریقوں کی اجازت اور گنجائش بھی موجود ہو تو اسے تنوع کا اختلاف کہتے ہیں۔ اختلاف تنوع کی صورت میں ہر ایک اپنے پسندیدہ طریقے پر عمل کررہا ہوتا ہے، مگر کوئی غلطی پر نہیں ہوتا ہے، بلکہ سب اپنی اپنی جگہ درست ہوتے ہیں، اور سب کے درست ہونے کو سب لوگ تسلیم کررہے ہوتے ہیں۔ بس اسی کیفیت کا نام اختلاف تنوع ہے۔
شریعت کے اندر یہ گنجائش لوگوں کی آسانی کے لئے ہوتی ہے، اس میں بڑی حکمتیں پنہاں ہیں، اور اس گنجائش کے برقرار رہنے میں ہی خیر وبرکت ہے، لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایک طریقے سے آدمی مانوس ہوجاتا ہے اور پھر باقی طریقوں کے لئے اس کے دل میں گنجائش ختم ہوجاتی ہے، اس کے اپنے اسباب ہیں، عبرت کی بات یہ ہے کہ گنجائش آدمی کے دل میں نہیں ہوتی ہے، اور وہ یہ سمجھتا رہتا ہے اور اس کے سخت گیر رویے سے لوگ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ دین میں گنجائش نہیں ہے، حالانکہ دین میں تو گنجائش ہوتی ہے مگر دل میں گنجائش نہیں ہوتی ہے۔
دل کی اس تنگی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ آدمی کی نظر سے وہ دلیلیں اوجھل ہوجاتی ہیں جن سے وہ سارے طریقے ثابت ہوتے ہیں، اور سامنے بس وہ دلیل رہ جاتی ہے جس سے اس کا پسندیدہ طریقہ ثابت ہوتا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم نے اختلاف تنوع کے اہم ترین سبق کو یکسر بھلادیا ہے، اور تنوع والے اختلافات کو تضاد والا اختلاف بنا ڈالا ہے۔ ہم اس بارے میں سلف صالحین کی روش کو بھی یکسر بھول گئے ہیں، اور ان سے مختلف راستے پر چل پڑے ہیں، ہم یہاں علمائے سلف کے حوالے سے اختلاف تنوع کی کچھ مثالیں ذکر کریں گے، مقصد بھولے ہوئے سبق کو یاد دلانا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ قنوت رکوع سے پہلے ہے یا رکوع کے بعد، آپ نے جواب دیا، ہم ان سب طریقوں پر عمل کیا کرتے تھے۔
حالت قیام میں ہاتھ ناف کے نیچے رکھنا ہیں یا ناف کے اوپر اس بارے میں امام احمد اور امام ابن المنذر کی رائے ہے کہ چاہیں تو ناف کے نیچے رکھ لیں اور چاہیں تو ناف کے اوپر رکھ لیں۔
رکوع کے بعد دونوں ہاتھ باندھنا ہیں یا چھوڑنا ہیں، اس کے بارے میں امام احمد بن حنبل نے کہا جو ہاتھ باندھنا چاہے وہ باندھ لے اور جو چھوڑنا چاہے وہ چھوڑ دے۔
سجدے میں جاتے ہوئے پہلے گھٹنے زمین پر رکھنے ہیں یا پہلے ہاتھ زمین پر رکھنے ہیں، اس کے بارے میں امام مالک، امام نووی اور امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ دونوں عمل درست ہیں۔
اقامت ہو تو کب اٹھنا ہے، اس بارے میں امام مالک کہتے ہیں کہ اس کا کوئی متعین وقت نہیں ہے، جب جو چاہے اٹھ سکتا ہے۔
نماز میں بسم اللہ کیسے پڑھنا ہے، اس بارے میں امام اسحاق کی رائے ہے کہ کہ چاہیں تو آواز کے ساتھ پڑھیں اور چاہیں تو بلا آواز کے پڑھیں۔
اذان اور اقامت کے الفاظ کتنی بار ادا کئے جائیں، اس بارے میں امت میں کئی عمل رائج ہیں، امام ابن سریج کی رائے ہے کہ یہ تمام عمل یکساں طور پر درست ہیں۔
رفع یدین اور آمین بالجہر کے سلسلے میں امام ابن قیم کی رائے ہے کہ یہ سب اختلاف تنوع کی قبیل سے ہے۔ اور انہیں کرنا اور نہیں کرنا دونوں درست ہے۔
تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کہاں تک اٹھائے جائیں اس بارے میں امام ابن سریج کہتے ہیں کہ چاہیں تو کندھوں تک اٹھائیں اور چاہیں تو کانوں کی لو تک لے جائیں۔
سجدے کی حالت میں ہاتھ کہاں رکھے جائیں اس بارے میں امام ابن المنذر کہتے ہیں کہ چاہیں تو دونوں ہاتھ کانوں کے مقابل رکھیں اور چاہیں تو کندھوں کے مقابل رکھیں۔
یہ تو چند مثالیں ہیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اختلاف تنوع کی بے شمار مثالوں سے پوری شریعت اس طرح آراستہ ہے، جیسے آسمان لاتعداد ستاروں سے جگمگ جگمگ کرتا ہے، فرض نمازوں کے طریقوں میں تو جس قدر اختلاف ہے، درحقیقت تنوع والا ہی اختلاف ہے۔
اختلاف تنوع، دراصل اختلاف نہیں ہے، بلکہ اتحاد واتفاق کی ایک کیفیت ہے، جس میں ایک کام کو کرنے کے متعدد طریقے ہوتے ہیں اور لوگوں میں اس بات پر اتفاق ہوتا ہے کہ یہ سب طریقے درست ہیں۔ اختلاف تنوع اختلاف کی عجیب وغریب قسم ہے، اس کو برقرار رکھیں تو اتحاد کی راہیں کھلتی ہیں، اور اسے ختم کرنے کی کوشش کریں تو افتراق بڑھتا ہے اور اتحاد کے راستے مسدود ہونے لگتے ہیں۔
اسلامی تاریخ کے ایک عظیم مجدد امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اختلاف تنوع والے مسائل میں کسی ایک رائے کو ہی درست قرار دینے اور اس پر اصرار کرنے کو ممنوع بتایا ہے اور ایسے امور میں شدت پسندی اور لڑائی جھگڑے کو عین حرام قرار دیا ہے۔
اختلاف تنوع دراصل اختلاف نہیں بلکہ اتحاد واتفاق کی ایک حسین شکل ہے، اختلاف تنوع کو قبول کرلینے کے ساتھ ہی ہم اختلاف واتنشار کی ایک بہت ضخیم فائل بند کرسکتے ہیں۔ افسوس کہ صدیوں سے امت کی بے شمار توانائیاں غیر حقیقی اختلافات کی بھاری فائلوں کو ڈھونے میں صرف ہورہی ہیں۔