گھر کے کام سب کریں، گھر میں آرام سب کریں

گھر کے کام سب کریں، گھر میں آرام سب کریں
محی الدین غازی
میرے ایک دوست کی اہلیہ کا معمول تھا جب وہ اپنے شوہر کے ہمراہ ہمارے یہاں کھانے کی دعوت پر آتیں تو کھانا کھانے کے بعد کچن میں جاکر زبردستی سارے برتن دھوڈالتیں۔ ان کا ایسا کرنا ہمیں بالکل اچھا نہیں لگتا تھا، لیکن ان کے جانے کے بعد دل سے ان کے لئے دعائیں بھی بہت نکلتی تھیں۔
میری بڑی بیٹی گرمی کی چھٹیوں میں اپنے نانیہال جارہی تھی، اس نے اپنے ساتھ کھانا پکانے کے کچھ خاص سامان بھی رکھ لئے جو وہاں میسر نہیں تھے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ نانی نانا کو نئے نئے پکوان بناکر کھلانے کا ارادہ ہے۔ مجھے اس کا یہ شوق بہت پسند آیا۔ دل سے دعا نکلی کہ اللہ ایسے پیارے شوق سے ہر دل کو آباد کرے۔
گھر اگر سکون وآرام کی جگہ ہے تو کاموں کی کبھی نہیں رکنے والی چکی بھی ہے۔ یہ چکی ہر روز چلتی رہتی ہے، مہمان نہیں آتے ہیں تب بھی چلتی ہے، اور مہمان آتے ہیں تو اور زیادہ چلنے لگتی ہے۔ بہت سے لوگ مہمانوں کو اس لئے خوش آمدید نہیں کہتے کیوں کہ مہمانوں کے آنے سے کاموں کی چکی پر لوڈ بڑھ جاتا ہے، اور زیادہ لوڈ کے ساتھ چکی چلانے کی وہ سکت نہیں رکھتے ہیں۔
کاموں کی چکی چلانے میں جتنے زیادہ لوگ شامل ہوجائیں اتنی ہی زیادہ آسانی اور روانی کے ساتھ یہ چکی چلتی ہے۔ اس لئے بہترین صورت یہ ہے کہ جس گھر میں جس وقت جتنے لوگ رہیں، سب گھر کے کاموں میں برابر کے شریک رہیں، وہ بھی جو گھر کے مستقل مکین ہیں اور وہ بھی جو کچھ دن کے لئے رہنے آئے ہیں۔ مل جل کر کام کرنے کی صورت میں سب کو کچھ نہ کچھ مشقت ضرور اٹھانی پڑتی ہے، لیکن سب کو اچھی خاصی راحت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ راحت کا احساس مشقت کو بھلادیتا ہے۔
گھر کے کاموں میں سب کی شرکت گھر کی فضا کو خوش گوار بنائے رکھنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ گھر کا موسم بہت خراب ہونے لگتا ہے جب گھر کے کچھ افراد یہ طے کرلیں کہ انہیں صرف اپنے کام کرنے ہیں، اور گھر کے کام دوسروں کو کرنے ہیں۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے گھر کا ماحول تناؤ کا شکار رہتا ہے۔ عورتیں ہی نہیں گھر کے مردوں کو بھی جس قدر ہوسکے گھر کے کاموں میں شریک ہونا چاہئے، اور جن مردوں کی عورتیں کام کرنے میں کچھ پیچھے ہوں ان مردوں کو کچھ اور آگے رہنا چاہئے۔
گھر کو خالص آرام کی جگہ کبھی نہیں سمجھنا چاہئے۔ جسے کچھ دن صرف آرام کرنے کی خواہش ہو، اس کے لئے اچھا اور باعزت طریقہ یہ ہے کہ کسی ہوٹل میں جاکر کچھ دن گزارلے، وہاں بس آرام ہوتا ہے، آپ بھی خوش رہتے ہیں اور آپ کو آرام مہیا کرنے والے آپ سے بھی زیادہ خوش رہتے ہیں۔ آپ بل ادا کرتے رہیں اور شوق سے جتنا زیادہ ہوسکے آرام فرماتے رہیں۔ لیکن اہل نظر اس مشورے کو بھی درست نہیں سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک دنیا کاموں کی جگہ ہے، اور جنت آرام وراحت کی جگہ ہے، دنیا میں رہتے ہوئے آرام کے مواقع تلاش کرنے کے بجائے اچھے کاموں کی جستجو کرنی چاہئے۔
آرام کے ساتھ تفریح کرنے کے لئے کسی گھر کا انتخاب کرنا ہرگز مناسب نہیں ہے۔ ایسی صورت میں آپ کو آرام ملے یا نہ ملے مگر گھر والوں کی بے آرامی میں اضافہ ضرور ہوجاتا ہے۔ اگر گھر والے آپ سے محبت اور اپنی مروت کی وجہ سے اظہار نہیں کریں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اتنی سادہ سی بات خود آپ بھی محسوس نہ کرسکیں۔ یاد رکھیں تفریح کرنے کا شوق کام کرتے ہوئے بھی پورا کیا جاسکتا ہے، اس کے لئے مکمل فارغ ہونا کوئی ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ خود کو مہمان قرار دینے کے بجائے دوست اور شریک کار بن کر رہیں گے تو قیام کا زیادہ لطف اٹھاسکیں گے۔
یہ سوچ کہ بیٹی اپنے میکے میں آرام کرے، اور بہو اپنی سسرال میں کام کرے، بیٹی آرام کرچکے تو سسرال چلی جائے، اور بہو کام کرتے کرتے تھک جائے تو آرام کرنے میکے چلی جائے، بہت غلط سوچ ہے۔ یہ بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ جس وقت جس گھر میں جتنے لوگ رہیں وہ سب مل جل کر گھر کے کام کریں۔ اور جلدی سے کام ختم کرکے سب لوگ اچھی طرح آرام بھی کرلیں۔ اس سے گھر کا ماحول سب کے لئے خوش گوار رہتا ہے۔ میکہ ہو یا سسرال یا گھر کی کوئی اور قسم، گھر کے سب لوگوں کو گھر میں اس طرح رہنا چاہئے کہ سب کا گھر سب کے لئے خوشی، سکون اور عزت کا گہوارہ بنا رہے۔
کبھی ایسا ہوسکتا ہے کہ گھر کا کوئی فرد کسی مجبوری کی وجہ سے گھر کے کاموں میں شریک نہیں ہوپائے، ایسی صورت میں اعلی اخلاق کا تقاضا ہے کہ گھر کے باقی لوگ اس کی مجبوری کا خیال کریں۔ نہ صرف یہ کہ اس کے کام اپنے ذمہ لے لیں بلکہ اس کی دل جوئی بھی کرتے رہیں، اور اس کے حال پر کوئی ایسا تبصرہ نہیں کریں جس سے اسے دوسروں پر بوجھ بننے کا تکلیف دہ احساس ہونے لگے۔
جو شخص کسی مجبوری کی وجہ سے گھر کے کاموں میں شریک نہ ہوسکے، اسے یہ احساس ضرور رہنا چاہئے کہ گھر میں کام کرنے والے سب لوگ اس کے محسن ہیں۔ اسے سب کے ساتھ احسان شناسی کا رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ (دل جیت لینے والی مسکراہٹ، تکان دور کردینے والی پیاری بات، روح کو سکون دینے والی اچھی سی دعا، کوتاہیوں سے درگزر اور دل کھول کر تعریف۔۔وغیرہ)۔ اور جو شخص احسان شناسی اور شکرگزاری کا ظرف اور سلیقہ نہیں رکھتا ہو اس کے لئے مدد اور خدمت لینے کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔
اگر آپ کچھ کام نہیں کرسکتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کوئی کام نہیں کرسکتے ہیں۔ اپنے ذمہ ایسے کام لے لیجئے جو آپ کرسکتے ہوں۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ایک خاتون کھانا بنائیں تو دوسری خاتون جو کھانا نہیں بناسکتی ہیں سب بچوں کا ہوم ورک دیکھ لیں۔
گھر اور خاندان میں بہت سی تلخیاں باتوں کو لے کر پیدا ہوتی ہیں، اور بہت سی تلخیاں کاموں کو لے کر پیدا ہوتی ہیں۔ جنہیں دوسروں کے ساتھ گزر بسر کرنے کا موقعہ ملے، خواہ وہ چند ساعتوں کا ساتھ ہو یا سالہا سال کا ساتھ ہو، انہیں ساتھ رہنے کا سلیقہ ضرور سیکھنا اور برتنا چاہئے۔ مل جل کر ایک ساتھ رہنے کا سلیقہ جنہیں آجاتا ہے وہ سدا خوش رہتے ہیں، اور ان کے دم سے دوسرے بھی خوش رہتے ہیں۔

قربانی کی چاہ اور قربانی کی شان

قربانی کی چاہ اور قربانی کی شان
محی الدین غازی
اللہ کے دین اور اس کے راستے کی ایک شان ہے، دین خدا اور راہ خدا کے لئے کچھ بھی کیا جائے یا دیا جائے شایان شان ہونا چاہئے، یہ نکتہ عرب کے ایک بدو کی سمجھ میں آیا اور خوب آیا، اس کے پاس پچیس اونٹ تھے جن کی کل زکاۃ ایک سال کا اونٹ کا ایک بچہ ہوتی تھی، زکاۃ کی وصولی پر مامور صحابیِ رسول نے جب اس سے حسب قاعدہ ایک سال کا اونٹ کا بچہ مانگا تو اس نے حیران ہوکر کہا، اللہ کے راستے میں ایک سال کا بچہ؟ یہ تو نہ دودھ دے نہ سواری کے کام آئے۔ اللہ کے راستے کے لئے لینا ہے تو بھرپور اور توانا اونٹنی لے کر جائیے۔
دل میں چاہ ہو تو صدیق اکبر جیسا ایک فرد اپنا سارا اثاثہ راہ خدا میں لاکر پیش کردیتا ہے، اور چاہ سے دل خالی ہو تو پوری قوم مل کر ایک عدد جانور قربان کرنے کو تیار نہیں ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کی روداد یہی بتاتی ہے۔ سورہ بقرہ میں گائے کی قربانی کے واقعہ کو ہم بار بار پڑھتے ہیں، لیکن عموماً ہماری توجہ بنی اسرائیل کے سوالوں تک جاکر کے رک جاتی ہے اور ہم بنی اسرائیل کو ملامت کرتے ہوئے بات ختم کردیتے ہیں کہ کس قدر غیر ضروری سوالات وہ کیا کرتے تھے۔ بلاشبہ بنی اسرائیل اپنی اس عادت کے لئے قابل ملامت ہیں۔
یہ سوالات بے تکے تھے اور ایک بگڑی ہوئی قوم کے تھے جس کے لئے نبیوں کو قتل کرنا آسان تھا، لیکن مل کر ایک گائے کو قربان کرنا بار گراں تھا۔ تاہم ان سوالوں کے جوابات بڑے اہم ہیں کیونکہ وہ اللہ کے جوابات ہیں جو ایک برگزیدہ پیغمبر کے ذریعہ پہونچائے گئے ہیں۔ امت مسلمہ کے لئے بھی وہ بہت اہم ہیں، کیونکہ انہیں قرآن مجید میں قدرے تفصیل کے ساتھ امت کی نصیحت کے لئے محفوظ کیا گیا ہے۔
ان جوابوں سے نصیحت لینے کا ایک زاویہ یہ ہے کہ بندہ خدا خود کو بھی قربانی کے لئے مطلوب اس گائے کے ساتھ قربان گاہ میں کھڑا کرکے دیکھے، اور سوچے کہ اگر وہ گائے کی جگہ اپنی زندگی اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے پیش کرتا ہے، تو وہ اور اس کی زندگی ان جوابوں پر کتنے صادق آتے ہیں۔
پہلے سوال کے جواب میں کہا گیا کہ قربانی کی گائے نہ بالکل ہی کم سن ہو اور نہ بوڑھی ہو بلکہ درمیانی عمر کی ہو، گائے کی طرح انسان کی زندگی کے بھی تین حصے ہیں بکر، فارض اور عوان۔ کمزور بچپن، لاغر بڑھاپا اور دونوں کے بیچ کی جوانی اور توانائی سے بھرپور بہترین عمر۔ اللہ کے لئے جو اپنی زندگی وقف کرنا چاہتے ہیں، اور جو اپنی اس زندگی کو لگا کر اللہ کے دین کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں انہیں بچپن اور بڑھاپے کے درمیان کی زندگی کا انتخاب تو ضرور ہی کرنا ہوگا۔ اللہ کے حضور نہ سن رسیدہ گائے قابل قبول ہے اور نہ جوانی سے خالی انسانوں کا محض بڑھاپا۔ اس کے یہاں جوانیوں کی قربانی مطلوب ہے۔ بلاشبہ جوانی اگر خدا کی نذر کی گئی تو اس کے طفیل میں بچپن اور بڑھاپا بھی شامل ہوسکتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جو اپنی جوانی اللہ کے لئے لگاتا ہے، اس کا بڑھاپا اللہ کے لئے لگانا بھی لوگوں کے لئے اچھی مثال بن جاتا ہے۔ لیکن جوانی محض کسب معاش، صرف عیش وعشرت یا بس خواب غفلت کی نذر کرکے اگر بڑھاپا قربان کرنے آئے جو خود اپنے کسی مصرف کا نہیں رہا اور جس کی خلق خدا کی نگاہ میں کوئی قدر وقیمت نہیں رہی تو اس قربانی کی اللہ کے یہاں کیا وقعت ہوگی؟
ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ قربانی کی گائے اس قدر خوش رنگ ہو کہ دیکھنے والوں کے دل ونگاہ خوش ہوجائیں۔ گویا قربانی کا ایک ضروری عنصر جمال بھی ہے۔ اپنی ساری زندگی اور تمام تر توانائیاں اللہ کی راہ میں وقف کردینے والے کی ہر ہر ادا دلکش اور ’’تسرّ الناظرین‘‘ والی ہو، وہ نماز پڑھے تو مت پوچھو کہ اس کی نماز کتنی خوبصورت ہو، وہ صدقہ دے تو اس خوبصورتی سے کہ لینے والے کو ذرا تکلیف نہ ہو، اور وہ جب دین کی بات کرنے کے لئے لب کشا ہو تو گفتگو ایسی حسین ودلنواز ہو کہ سننے والوں کا دل موہ لے، غرض اس کا گفتار، اس کا کردار اور اس کی شخصیت کا ہر ہر زاویہ حسن وجمال سے بھرپور ہو۔ اس کی عبادت بھی جمیل ہو اور اس کی دعوت بھی حسین ہو۔ اللہ کے لئے کوئی کام کیا جائے تو اس میں بھونڈا پن اور پھوہڑ پن ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔
ایک اور سوال کے جواب میں کہا گیا کہ گائے لاغر اور پامال شدہ نہ ہو، اس کی صحت زمین جوتنے اور پانی کھینچنے کی نذر نہ ہوگئی ہو۔ اللہ کے دین کا کام کرنے کا جذبہ رکھنے والے بھی ایسا نہ ہو کہ اپنے بہترین اوقات اور عمدہ ترین توانائیاں زمین جوتنے اور پانی کھینچنے جیسے کاموں میں خرچ کرنے کے بعد بچھا کھچا وقت، تھکا تھکا سا دماغ اور نحیف ولاغر توانائیاں دین خدا کے لئے پیش کرنے آئیں۔ کیونکہ اس معیار کی چیزیں کوڑے دان میں تو ڈالی جاسکتی ہیں، کسی عظیم قربان گاہ میں پیش نہیں کی جاتی ہیں۔
اور یہ بات کہ گائے بے عیب ہو داعی حق کو اس کے تمام تر اخلاقی عیوب کی طرف متوجہ کرتی ہے، جانور کی قربانی میں جسمانی عیوب کی فکر کی جاتی ہے، لیکن انسانی زندگی جب اللہ کی راہ میں وقف کی جارہی ہو تو اخلاقی عیوب سے پاک رکھنے کی فکر بہت زیادہ ضروری ہوجاتی ہے۔ اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ زندگی اللہ کے دین کے لئے کتنی ہی مصروف رکھی جائے، اس کی حیثیت اس جانور کی سی ہوتی ہے جو بری طرح عیب دار ہو۔

گھر کو عزت کا گہوارہ بنائیں

گھر کو عزت کا گہوارہ بنائیں
محی الدین غازی
گھر کو سکون وراحت کی جگہ ہونا چاہئے، لیکن گھر میں رہتے ہوئے ہر شخص ہر وقت سکون، راحت اور خوشی محسوس کرے، یہ ضروری نہیں ہے۔ تاہم یہ ضروری بھی ہے اور ممکن بھی ہے کہ گھر میں ہر کسی کو ہر وقت عزت واحترام ملے۔ اور کسی کو کبھی اپنی بے عزتی کا احساس نہیں ہو۔ ہوسکتا ہے آپ گھر کے ہر فرد کو خوشی نہیں دے سکیں، لیکن گھر کے ہر فرد کو عزت واحترام ضرور دے سکتے ہیں۔
گھر کو عزت واحترام کا گہوارہ ہونا چاہئے۔ گھر کے باہر عزت واحترام کو ٹھیس پہونچانے والے بہت سے واقعات پیش آسکتے ہیں، لیکن گھر کے اندرکا ماحول ایسا عزت بخش ہو کہ آدمی گھر میں آکر محسوس کرے کہ اس کا کھویا ہوا وقار اسے واپس مل گیا، اور اس کی عزت واحترام کو لگنے والے زخم مندمل ہوگئے۔
مدد کرنا بہت اچھی بات ہے، لیکن کسی کی مدد کر کے اسے بے عزت کردینے سے بہت اچھا یہ ہے کہ اس کی مدد نہیں کی جائے اور اس کی عزت واحترام کو محفوظ رہنے دیا جائے۔ اللہ ضرورت مندوں کے لئے مدد کے بہت سے راستے کھول دیتا ہے، لیکن عزت واحترام کا جو رشتہ آپ کے اور دوسرے کے درمیان ہے، اس رشتے کی حفاظت آپ کو اور صرف آپ کو کرنی ہے۔ اگر اللہ کے فضل سے آپ کو اپنے گھر کے کسی فرد کی مدد کا موقعہ مل جائے تو اسے ایک راز کی طرح اپنے پاس محفوظ رکھئے، اور اس کا چرچا مت ہونے دیجئے۔ اس طرح آپ اس کی دوہری مدد کریں گے، اس کی ضرورت بھی پوری کردیں گے، اور اس کی عزت کا خیال بھی رکھ لیں گے۔
اگراجنبی شخص کی مدد چپکے سے کرنا افضل ہے، تو گھر کے کسی فرد کی مدد کو پوشیدہ رکھنا اور بھی زیادہ افضل ہے۔ اجنبی شخص کی مدد کا اعلان بھی ہوجائے تو اس کا منفی اثر کم ہی ظاہر ہوتا ہے، لیکن جن لوگوں کے ساتھ گزر بسر کرنی ہے، ان کی مدد کا اعلان کرنے کے نقصانات بہت زیادہ ہوتے ہیں، سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انہیں اپنی بے عزتی کا احساس ہمیشہ ستاتا رہتا ہے۔
عزت واحترام کا ماحول بنانے کے لئے ضروری ہے کہ سب لوگ احترام کرنے کے عمل میں اپنا پورا کردار ادا کریں۔ بہنوں کی یہ خواہش بہت اچھی ہے کہ ان کے بھائی ان کے شوہروں سے عزت کے ساتھ پیش آئیں، لیکن اس کے لئے انہیں اپنے شوہروں کی عزت بھی کرنی ہوگی، اپنے بھائیوں کی عزت بھی کرنی ہوگی، اور اپنے بھائیوں کی بیویوں کی بھی عزت کرنی ہوگی۔ اسی طرح بھائی بھی اپنی بیویوں کی عزت کریں، اپنی بہنوں کی عزت کریں اور اپنی بہنوں کے شوہروں کی عزت بھی کریں، تاکہ سب لوگ عزت کے ماحول کا لطف اٹھاسکیں۔ شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کی عزت کریں، اپنے گھر والوں کی عزت بھی کریں اور ایک دوسرے کے گھر والوں کی عزت بھی کریں، اس طرح دونوں خاندانوں کے افراد کو احساس ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کے معزز رشتے دار ہیں۔
صحیح معنوں میں عزت کرنا یہ ہے کہ آپ جس کی عزت کریں، اس کے اپنوں کی عزت بھی کریں۔ اگر آپ اپنے داماد کی عزت کرتے ہیں، اور اس کے گھر والوں کی عزت نہیں کرتے ہیں، تو یہ داماد کی بے عزتی کرنا ہے۔ اگر آپ اپنی بیوی کو اپنی پلکوں پر بٹھاتے ہیں، اور اس کی ہر فرمائش پوری کرتے ہیں، لیکن اس کے گھر والوں کی عزت نہیں کرتے تو آپ اپنی بیوی کا دل نہیں جیت سکتے ہیں۔ اگر بیوی اپنے شوہر کی عزت کرتی ہے اور دل وجان اس پر نچھاور کرتی ہے، مگر اس کے گھر والوں کی عزت کا خیال نہیں رکھتی تو حقیقت میں وہ اپنے شوہر کی عزت نہیں کرتی ہے۔
بچوں کی بہترین تربیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انہیں گھر کے ہر چھوٹے بڑے فرد کا احترام کرنے کی تربیت دی جائے۔ زبان سے احترام کرنے کی بڑی اہمیت ہے، لیکن اس سے زیادہ اہمیت اس کی ہے کہ دل میں عزت واحترام کو صحیح مقام ملے۔ زبان کی اصلاح وتربیت کے ساتھ ساتھ دل ودماغ کی اصلاح وتربیت بہت ضروری ہے۔
بہت سے لوگ شکایتیں کرنے کے عادی ہوتے ہیں، ہوتا یہ ہے کہ انہیں خاندان کے کچھ لوگوں سے شکایت ہوتی ہے، اور وہ اپنے دل کی تسکین کے لئے جہاں موقعہ ملتا ہے شکایتوں کا پلندہ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں، جن لوگوں کو شکایتیں سننے میں مزا آتا ہے وہ مزے لے لے کر سنتے ہیں، بعض لوگ تو ایک ایک شکایت سو سو بار سناتے ہیں، اور سننے والے بھی ہر بار شوق سے سنتے ہیں، ان شکایتوں کے سننے اور سنانے سے گھر کا حسن تو غارت ہوتا ہی ہے، اس کا بہت خراب اثر پڑتا ہے ان بچوں پر جن کے معصوم ذہنوں پر یہ باتیں نقش ہوتی جاتی ہیں۔ غیبت وشکایت سن سن کرخاندان کے بہت سے افراد ان بچوں کے ذہنوں میں اپنا وقار کھودیتے ہیں، خاندان کے بڑے بزرگ اپنی ساری خوبیوں کے باوجود ان کے لئے نمونہ نہیں رہ جاتے، مزید یہ کہ جب بڑوں کی برائیاں وہ بڑوں کی زبان سے سنتے ہیں، تو برائیوں سے نفرت ان کے دل سے نکلتی جاتی ہے، اور وہ برائیاں دھیرے دھیرے ان کے اندر راہ پانے لگتی ہیں۔
پیٹھ پیچھے برائی کرنے میں نفس کو جتنا مزا آتا ہے، پیٹھ پیچھے تعریفیں کرنا اتنا ہی اس پر شاق گزرتا ہے۔ بہت مثالی ہوتا ہے وہ گھر جہاں لوگ جب بیٹھتے ہیں تو اپنوں پرایوں کی خوبیاں بیان کرتے ہیں، اور ان کی اچھائیوں کے تذکرے کرتے ہیں، جب گھر میں بچوں کے سامنے ان کے بڑوں کی خوبیوں اور اچھائیوں کے چرچے ہوتے ہیں، تو ان کے دلوں میں اپنے بڑوں کے لئے عزت واحترام کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ اور ان کی خوبیاں اور اچھائیاں ان کے لئے مشعل راہ بنتی ہیں۔
جن لوگوں کے اندر صرف خوبیاں ہوں، اور خامیاں نہیں ہوں ان کا احترام کرنا کوئی کمال کی بات نہیں ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کی خامیاں اور عیب آپ کو معلوم ہوں، آپ ان خامیوں اور عیبوں کو نظر انداز کرکے ان کا احترام باقی رکھیں۔ بہت اچھا ہے کہ گھر کے لوگوں کی خرابیوں پر پردہ ڈالا جائے، اس لئے کہ گھر میں عزت واحترام کا ماحول برقرار رہے، اور اس لئے بھی کہ گھر کا حسن وجمال باقی رہے۔
حدیث پاک میں بڑوں کے احترام اور بچوں سے شفقت کی تعلیم دی گئی ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بچوں کو شفقت تودی جائے پر ان کا احترام نہیں کیا جائے، بڑوں کی طرح بچوں کے بھی جذبات ہوتے ہیں، اور جذبات اپنا احترام مانگتے ہیں۔ جس کے دل میں بچپن سے عزت واحترام کی قدروقیمت بیٹھ جائے، وہ زندگی بھر اس متاع بے بہا کی حفاظت کرتا ہے۔ جب ہم بچوں سے بڑوں کا احترام کرواتے ہیں، تو وہ احترام کرنے کے عادی تو ہوجاتے ہیں، لیکن احترام کی قدروقیمت سے واقف نہیں ہوتے ہیں۔ جب ہم بچوں کو عزت واحترام سے نوازتے ہیں تو وہ عزت واحترام کی قدروقیمت سے بھی واقف ہوجاتے ہیں۔
بہت پیارے لگتے ہیں وہ بچے جو اپنے نانیہال والوں کا اسی طرح احترام کرتے ہیں، جس طرح اپنے دادیہال والوں کا احترام کرتے ہیں، جن کی نظر میں چچا اور پھوپھی بھی محترم ہوتے ہیں، اور خالہ اور ماموں بھی محترم ہوتے ہیں، جو اپنے نانا نانی کی بھی عزت کرتے ہیں اور دادا دادی کی بھی عزت کرتے ہیں۔ ایسے صاف دل والے بچے ان ماں باپ کے آغوش میں پلتے ہیں جو دل کے صاف ہوتے ہیں، جن کے دلوں میں کسی کے لئے کدورت نہیں ہوتی ہے، اور اسی لئے وہ اپنے بچوں میں کسی طرح کی کدورت منتقل نہیں کرتے ہیں۔ اپنے گھر اور اپنے بچوں کو صاف ستھرا دیکھنے کے لئے اپنی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔

تحریک کی آب وتاب، کارکنوں کی توبہ سے ہے

تحریک کی آب وتاب، کارکنوں کی توبہ سے ہے
محی الدین غازی
تحریک اسلامی کے ایک بزرگ قائد کی توبہ کا اثر انگیز واقعہ پڑھا، اس کے راوی شیخ محمد احمد راشد ہیں، بیان کرتے ہیں: ’’شیخ صالح عشماوی اخوان المسلمون کے ابتدائی ارکان میں سے تھے، ان کا شمار سابقون اولون میں ہوتا تھا، بانی تحریک امام حسن البنا کے ساتھ ایک بہترین کارکن کی حیثیت سے اچھا خاصا وقت گزارا، اور مرکزی قیادت میں شامل ہوگئے، پھر تحریک پر آزمائشوں کا دور آیا اور اسی بیچ بانی تحریک شہید کردئے گئے، امیر کی جگہ خالی ہوئی تو تحریک پر فتنوں کے کچھ سیاہ بادل چھاگئے، صداقتیں ان کی اوٹ میں چھپ گئیں، غلط فہمیوں اور بدگمانیوں نے ڈیرے ڈالے، وسوسوں کے طوفان اٹھے، اور ایک گروہ فتنوں کا شکار ہوگیا، اس گروہ نے صالح عشماوی کو اپنا لیڈر بنالیا، تحریک پر کئی مشکل برس بیتے، اور آزمائش طویل ہوتی گئی، پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب صالح عشماوی کو اپنے کئے پر ندامت ہوئی، اور انہوں نے سچی توبہ کی ایک شاہکار مثال قائم کی۔
راوی لکھتے ہیں: ایک دن میں تحریکی ترجمان الدعوۃ کے آفس میں گیا، دیکھا فلیٹ کے دروازے پر ایک بزرگ چوکیدار، خاکساری کی تصویر بنے، خستہ سی بید کی پرانی کرسی پر بیٹھے ہیں، ان کے چہرے پر بلا کا وقار تھا، اور پیشانی پر نور دمک رہا تھا۔ میں نے سلام کیا، اجازت لی اور اندر داخل ہوگیا، وہاں ایک تحریکی ساتھی نے مجھ سے پوچھا، اس باوقار شخص کو جو چوکیدار کی جگہ پر بیٹھا ہے، تم نے پہچانا، میں نے کہا پہچانا تو نہیں مگر جاننے کی طلب ضرور پیدا ہوئی ہے۔
میرے ساتھی نے کہا یہ صالح عشماوی ہیں، توبہ کی تڑپ انہیں بے قرار رکھتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ جب کچھ ضدی قسم لوگوں نے مجھے اپنا سردار بنایا تھا، اور امیر کہہ کر پکارا تھا، اس وقت نفس کو یک گونہ لطف محسوس ہوا تھا، اپنے نفس کو اس غلط احساس کی نجاست سے پاک کرنے کے لئے انہوں نے طے کیا ہے کہ اب وہ تحریک میں آخری صف کے سپاہی کی حیثیت سے زندگی گزاریں گے، ان کا اصرار ہے کہ ان کی توبہ کی تکمیل اسی طرح ممکن ہے، اس لئے انہوں نے مرکز کا چوکیدار بن کر باقی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ اس سے کم درجے کی بھی تحریک میں کوئی جگہ ہے تو وہ اس کو دوڑ کر اختیار کرلیتے، دل میں اٹھنے والی منصب کی خواہش نے دل پر جو داغ لگادئے وہ اسی طرح انہیں دھودینا چاہتے ہیں۔
میں اس پاکیزہ روح اور بڑے دل کے بارے میں جان کر حیرت ومسرت سے ڈوب گیا۔
امیر تحریک شیخ عمر تلمسانی نے ہمیں بتایا کہ ہم نے ان کے لئے دعا بھی کی، اور انہیں دعوت بھی دی کہ وہ ہمارے بھائی بن کر دوسروں کی طرح ہماری ٹیم کا حصہ رہیں، اور اللہ تو توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہے، لیکن انہوں نے صاف انکار کردیا، ہم نے بہت اصرار کیا، انہیں مطمئن کرنے کی بہت کوشش کی، مگر ان کا شدید اصرار ہے کہ انہوں نے اپنے لئے آخری صف میں جو جگہ متعین کی ہے اسی پر انہیں رہنے دیا جائے۔
اس واقعہ کے کئی سال بعد ایک بار امیر تحریک شیخ عمر تلمسانی نے ایک تقریر میں بڑے درد کے ساتھ کہا، شیخ صالح عشماوی نے جو توبہ کی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر قاہرہ کے تمام داعیان اسلام پر اسے تقسیم کردی جائے، تو سب کے لئے کافی ہوگی‘‘۔
تحریکی قیادت کے خلاف ایک محاذ کی اگوائی کرنے والے صالح عشماوی کی توبہ اور تحریک کے قائد عمر تلمسانی کی کشادہ ظرفی میں تحریکی کارکنان اور تحریکی قیادت کے لئے نصیحت کا بڑا سامان ہے۔ ایسے واقعات تحریک کے حسن وجمال میں وہ اضافہ کرتے ہیں جو فلک شگاف نعروں اور فلک نما عمارتوں سے کبھی نہیں ہوسکتا۔
ہر کارکن اپنے اندرون میں جھانکتا رہے کہ کہیں اس سے کوئی غلطی تو سرزد نہیں ہوئی ہے، تحریک کے حوالے سے بہت سنگین غلطی یہ ہے کہ تحریک سے دنیا طلبی کی کوئی خواہش وابستہ ہوجائے، غلطی کا احساس ہوتے ہی کارکن ندامت میں ڈوب کر کفارہ ادا کرنے کے لئے بے چین ہوجائے، نہ غلطی کا احساس دیر سے ہو، اور نہ توبہ کرنے میں تاخیر ہو، تحریک کے اندرونی ماحول کو ندامت وتوبہ کے لئے بہت سازگاراور حوصلہ بخش ہونا چاہئے۔
درحقیقت وہ اسلامی تحریک نہیں ہوسکتی ہے جہاں کچھ لوگ دھڑلے کے ساتھ تحریک کے وقار کو اپنے پاؤں تلے روند رہے ہوں، اور ان کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کی کسی کو جرأت نہیں ہوتی ہو، یا جہاں غلطی کرنے والوں کے خلاف اخراج کی کارروائی ہوتی ہو، اور پھر وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے تحریک سے الگ کردئے جاتے ہوں، یا جہاں لوگ کسی شکایت کی بنا پر استعفی دے کر نکلتے ہوں، اور یہ سمجھ کر نکلتے ہوں کہ اب ان کے لئے تحریک کے دروازے کبھی نہیں کھلیں گے۔
اسلامی تحریک میں غلطی کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی بھی ہو، توبہ کرنے کے لئے سازگار اور حوصلہ بخش مواقع بھی ہوں، اور توبہ کی قدر کرنے کا کشادہ ماحول بھی ہو، توبہ کرنے اور توبہ کو سراہنے کی مثالیں بھی دیکھنے والوں کو جہاں تہاں بار بار نظر آتی رہیں، یہ ایک صحت مند اسلامی تحریک کے لئے بے حد ضروری ہے۔
جو کارکن تحریک سے کسی غلط فہمی یا بدگمانی کی بنا پر نکل جائیں، ان کی واپسی کے لئے دروازے کھلے ہوں، اور جو کارکن تحریک سے کسی غلطی کی وجہ سے نکال دئے گئے ان کے لئے اپنی اصلاح کرکے دوبارہ قافلے میں شامل ہونے کا پورا پورا موقع ہو، ایسا ہوگا تو یہ خوش گوار احساس بھی ہوگا کہ اسلامی تحریک میں اسلام کی روح موجود ہے۔ کیونکہ جہاں توبہ کا نظام، رواج اور موقعہ نہیں ہو، سمجھئے وہاں جو کچھ بھی ہو اسلام نہیں ہے، کیونکہ اسلام تو غلطی ہوجانے پر توبہ کرنے والوں کا دین ہے۔

مردِ حق آگاہ کا پیغام، علماء ہند کے نام

مردِ حق آگاہ کا پیغام، علماء ہند کے نام
ترجمہ: محی الدین غازی
مصر کی جیل سے مشہور عالم ڈاکٹر صلاح سلطان کی ایمان افروزتحریر
(یہ پیغام اسلامی فقہ اکیڈمی کے حالیہ چھبیسویں سیمینارکے لیے ۲۰؍ فروری۲۰۱۷ء کو لکھا گیا، اس خط میں فقہ اکیڈمی کے سلسلے میں نیک جذبات،اعلی خواہشات اور مفیدمشورے بھی شامل تھے، جنہیں طوالت سے بچنے اور پیغام کی عمومیت برقرار رکھنے کی خاطر حذف کردیا گیا ہے۔مترجم)
جیل کی تاریک کوٹھری سے میرا یہ پیغام سرزمین ہند کے ہر بزرگ او ر ہر نوجوان عالم کے نام ہے۔ جیل کا ذکر قرآن مجید میں دس مرتبہ ہوا ہے، اور ہر مرتبہ صرف اور صرف مصر کی جیل کا تذکرہ ہوا ہے۔ اور جب بھی ہوا ہے کھلے ہوئے ظلم کی علامت کے طور پر ہوا ہے۔ یہ درست ہے کہ جیل کے اندر میں اور میرے ساتھی ہولناک ترین اذیتوں سے گزر رہے ہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ہماری تصویر مسخ کرنے کی ساری کوششیں کی جارہی ہیں، یہاں تک کہ میرے بارے میں ان لوگوں نے یہ بھی پھیلادیا کہ میں ان دس لوگوں میں ہوں جنہیں دنیا ہی میں جہنمی ہونے کا پروانہ مل چکا ہے، (اللہ کی پناہ)۔پر خدا ئے ذوالجلال کی قسم، جس سے مجھے اتنی محبت ہے کہ میری زندگی اور زندگی کی ساری امنگیں اس کی محبت سے معمور ہیں، اس وقت میں اپنے پیارے رب کی مدد سے خود کو دنیا کی ساری طاقتوں اور سارے مجرموں سے زیادہ طاقتور پاتا ہوں۔ جب میری پیٹھ پر کوڑے برستے ہیں تو مجھے یہ پڑھتے ہوئے لطف آتا ہے وَلَاتَھِنُوا وَلَا تَحزَنُوا وَ أَنتُمُ الأَعلَونَ اِن کُنتُم مّْومِنِینَ ’’اور پست ہمت نہ ہو اور غم نہ کرو، اور اگر تم مومن ہو تو غالب رہو گے‘‘ ۔ میرے خلاف پھانسی کی سزا کا فیصلہ بھی ہوچکا ہے، سالہا سال سے مجھے تاریک کوٹھری میں رکھا گیا ہے وَمَا نَقَمْوا مِنھُم اِلَّا أَن یُؤمِنُوا بِاللہِ العَزِیزِ الحَمِیدِ۔’’اور انہوں نے ان پر محض اس وجہ سے ستم ڈھائے کہ وہ خدائے عزیز وحمید پر ایمان لائے‘‘مگر اس سب کے باوجود میری اپنے مہربان رب سے قربت، علم کے سمندرمیں غواصی، خودی کی بلندیوںمیں پرواز اور اللہ کی رضا اور جنت کی طرف اڑان میں اضافہ ہی ہوا، امت کو قرآن وسنت کے پرچم تلے جمع کرنے، انسانوں اور دیسوں کو غیر اللہ کی بندگی سے پاک کرنے، صہیونی غاصبوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والے سارے اسلام دشمنوں سے مسجد اقصی، قدس اور فلسطین کو آزاد کرانے کی سمت قدم ہیں کہ بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ میرے دل میں گہرا یقین ہے کہ اللہ ہم سے کیا ہوا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔فَانْتَقَمنَا مِنَ الَّذِینَ اَجرَمُوا وَ کَانَ حَقًّا عَلَینَا نَصرُ المُؤمِنِینَ۔ ’’تو ہم نے ان لوگوں کو سزا دی جنہوں نے جرم کیا، اور اہل ایمان کی نصرت ہم پر لازم ہے‘‘۔
میں اس وقت آپ لوگوں کے نام یہ پیغام لکھ رہا ہوں، جبکہ مجھے صرف چالیس سینٹی میٹر کی جگہ ملی ہوئی ہے، سخت ٹھنڈک سے میرا جسم تھر تھر کانپ رہا ہے، میرے پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس سے کچھ بھی گرمی کا احساس مل سکے، تاہم میرے پاس اللہ کی محبت ہے، اور اللہ واسطے کی آپ لوگوں سے محبت ہے، قلب اور روح کی گرمی کے لیے یہ کافی ہے۔سرزمین ہند کے میرے عزیز ترین اور پروقار علماء کرام، میں تین بار اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس روئے زمین پر غزہ کے میرے بھائیوں کے بعد اگر کسی سرزمین کے لوگوں سے مجھے ملنے کاشدید اشتیاق رہتا ہے تو وہ آپ لوگ ہیں، یہاں کے بزرگ اور نوجوان علماء کی صحبت میں سعادت کا جو احساس ملتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ میرے پاس اس تعلق خاطر کے بہت سے ثبوت ہیں، میں دو ثبوت پیش کروں گا۔
پہلا ثبوت: آخری دفعہ جب اپنی عزیزفقہ اکیڈمی کے مدراس میں ہونے والے پروگرام میں شرکت کرکے واپس لوٹا تو میرے ایک عزیز نے فون کرکے پوچھا، کیا ڈاکٹر صلاح ہندوستان سے واپس آگئے ہیں، میری اہلیہ نے جواب دیا، ابھی مسجد نماز کے لیے گئے ہوئے ہیں، تھوڑی دیر بعد ان سے بات ہوسکے گی، ویسے وہ ہندوستان سے واپس آئے نہیں ہیں، ان کا دل ابھی وہیں پر ہے، وہ صرف جسم کے ساتھ آئے ہیں، ان سے ملاقات کے وقت ان کی اس کیفیت کا خیال رکھنا۔دوسرا ثبوت: سب سے پہلی بار جب اپنی عزیزفقہ اکیڈمی کے پروگرام میں ہندوستان جانا ہوا، تو چالیس گھنٹوں کا سفر کرکے واشنگٹن سے دہلی پہنچا تھا، موسم کی خرابی کی وجہ سے سفر کی طوالت بھی بڑھ گئی تھی، اورتکان بھی۔ لیکن جب میں وہاں پہنچا اور علماء اور نوجوانوں کے ذوق وشوق کو دیکھا، تو ساری تکان دور ہوگئی، اور جب میں اسٹیج پر پہنچا تو میرا جسم میرا دماغ اور میرا دل سب تازہ دم تھے، غرض ایسی بہت سی قیمتی یادیں ہیں، دلی، دار العلوم دیوبند، دار العلوم ندوۃ العلماء سے کیرلا تک جو دل کو بہت لطف دیتی ہیں۔سرزمین ہند کے میرے پیارے بزرگ اور نوجوان علماء کرام، مجھے اجازت دیں کہ میں ان فکروں اوران امنگوں میں آپ کو شریک کرسکوں، جنہوں نے مجھے بے چین اور بے تاب کررکھا ہے، ان سب کو سمیٹنا چاہوں تو سارا مدعا اس میں سمٹ آتا ہے، کہ من أنصاری الی اللہ ’’کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا دست وبازو بنے ‘‘ اور انہیں پھیلاؤں تو تفصیل اس طرح ہے:
پہلی فکر: انفرادی سطح پر ہر ایک عالم کے لیے
ہم چاہتے ہیں کہ ہماری راتیں تہجد اور ہمارے دن حصول علم کی جدوجہد سے آباد رہیں، ذکر وشکر، گریہ وزاری، دعا واستغفار، اور خوف ورجا کی کیفیت سے ہمارے شب وروز رنگین رہیں إِنَّ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْعِلْمَ مِن قَبْلِہِ إِذَا یُتْلَی عَلَیْہِمْ یَخِرُّونَ لِلأَذْقَانِ سُجَّداً۔ وَیَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولاً۔وَیَخِرُّونَ لِلأَذْقَانِ یَبْکُونَ وَیَزِیْدُہُمْ خُشُوعا۔’’وہ لوگ جنہیں اس کے پہلے سے علم ملا ہوا ہے جب یہ ان کو سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گرپڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاک ہے ہمارا پروردگار، بے شک ہمارے پروردگار کا وعدہ شدنی تھا۔ اور وہ ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے گرتے ہیں اور یہ ان کے خشوع میں اضافہ کرتا ہے‘‘۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس اللہ سے لو لگانے والا دل ہو، اللہ کا ذکر کرنے والی زبان ہو، جدت وتخلیقیت والا دماغ ہو، ہمارے اخلاق محسنین والے ہوں ، ہمارے جسم مجاہدین والے ہوں، ہماری خاموشی غوروفکر والی ہو، ہمارے پاس دیدہ عبرت نگاہ ہو، اور ہماری گفتگو ذکر سے عبارت ہو، ہم چاہتے ہیں کہ ہم مقربین کے مقام پر فائز ہونے کے لیے کوشاں رہیں، تاکہ ہماری زندگی ان مسلمانوں کے لیے نمونہ بن جائے جو اصحاب الیمین کے زمرے میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم ان لوگوں میں شامل ہوجائیں جن کے لیے رب کریم نے یہ الفاظ چنے ہیں: وَقَالَ الَّذِیْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَالْإِیْمَان۔ کونوا ربانیین۔ رحمۃ وعلما، حکما وعلما۔
ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے ہم بے نیاز ہوجائیں، اور اس کا حق ادا کرنے کی فکر کریں جو رب دوجہاں نے ہمیں عطا کیا ہے۔ یَرْفَعِ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَالَّذِیْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ۔’’اللہ ان لوگوں کے ، جو تم میں سے اہل ایمان ہیں اور جن کو علم عطا ہوا ہے، مدارج بلند کرے گا‘‘۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہماری سیرت وشخصیت میں قرآنی اخلاق اور رسول پاک کی سیرت کا پرتو دیکھیں، ہم ان کے لیے قابل تقلید نمونہ بن جائیں۔وَجَعَلْنَا لَہُ نُوراً یَمْشِیْ بِہِ فِیْ النَّاسِ۔’’اور ہم نے اسے ایک روشنی بخشی جسے لے کر وہ لوگوں میں چلتا ہے‘‘۔ ہم بے سمت اور بے ہدف مطالعات کے بجائے منظم سنجیدہ اور بامقصد مطالعہ کو اپنا شعار بنائیں، چھلکوں سے سرسری واقفیت تک محدود رہ جانے کے بجائے جڑوں کا گہرا علم حاصل کریں۔ تاکہ ہم وَالرَّاسِخُونَ فِیْ الْعِلْمِ کا مصداق ہوجائیں۔ہم اس مقام پر پہنچ جائیں جس کا ذکر اس ارشاد رسول میں ہے کہ مثل ما بعثني اللہ بہ من الھدی والعلم کمثل غیث أصاب أرضا فکان منھا نقیۃ قبلت الماء فأنبتت الکلأ والعشب الکثیر۔’’اللہ نے مجھے جس ہدایت اور علم کے ساتھ مبعوث کیا ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے زمین پر موسلا دھار بارش ہوئی ہو، اس زمین کا ایک حصہ زرخیز پانی قبول کرلے اور وہاں خوب خوب چارہ اگ جائے‘‘ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو وحی کو قبول کرلیتا ہے، اور دماغ کی جولانیوں کو وحی کی رفعتوں کے ساتھ ہم آہنگ کردیتا ہے، تو پھر حکمت ومعرفت کے درخت نشونما پاتے ہیں، پھول کھلتے ہیں اور پھل آتے ہیں۔ تجدیدی کوششیںہوںیا تخلیقی کاوشیں ہوں ان کی اصل بنیاد وحی الٰہی کو ہونا چاہیے، جس طرح زندگی کی اساس پانی ہے۔ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء کُلَّ شَیْْء ٍ حَيٍّ۔
دوسری فکر، خاندان کی سطح پر
ہم بھرپور کوشش کریں کہ ہم میں سے ہر عالم دین اس ارشاد رسالت کا پیکر بن جائے، کہ’’ تم میں بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہو، اور تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کے لیے بہترین میں ہوں‘‘۔ ہر لحاظ سے بہترین رویہ اختیار کریں،دل کی محبت ہو، ذہن کی ہم آہنگی ہو، یا جسم کی قربت ہو، ضروری ہے کہ ہم سب سے بہتررہیں۔ ہم آگے آئیںعورتوں کو انصاف دلانے کے لیے اور انہیں عزت ورفعت والا مقام دلانے کے لیے نہ کہ محض زیادہ طاقت و قوت والا مقام کہ سیکولرزم کے علم برداراور اقوام متحدہ کے ادارے جس کے داعی اورعلم بردار ہیں۔ ہم سب لوگوں سے زیادہ کوشش کریں اس بات کی کہ عورتوں کو ان کے مادی، معنوی اور علمی تقاضوں اور ان کی جسمانی صحت کے لحاظ سے ایک سازگار اور باعزت زندگی گزارنے کا حق حاصل رہے۔ ہم اس دل دہلا دینے والی شرمناک صورت حال کو بدلنے کے لیے آگے آئیں، جس کا اعتراف پندرہ دسمبر۲۰۰۶ء کو ملک کے وزیر برائے امور اطفال ونسواں نے کیا تھا کہ گزشتہ بیس سالوں کے درمیان ایک کروڑ لڑکیاں اپنے والدین کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتاری جاچکی ہیں۔ ہندوستان کے علماء کو چاہیے کہ وہ سب سے آگے بڑھ کر لڑکی کو پیدائش سے پہلے ہی زندہ درگور کرنے کے ظالمانہ رجحان کے خلاف آہنی دیوار بنیں،وہ جہیز کی غلط رسم کو ختم کرنے کا تہیہ کریں، کیونکہ اس کی کوکھ سے بہت سے خطرناک قسم کے خلاف شرع امور جنم لیتے ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم سب سے آگے بڑھ کر آواز بلند کریں کہ عورتوں کو بحیثیت انسان کے سارے حقوق حاصل ہوں، یہ ملحوظ رکھتے ہوئے کہ مرد کا مقام بھی مجروح نہ ہو، مرد بحیثیت قوام شورائیت کے ماحول میں اپنی ہر ذمہ داری ادا کرے، نہ تو کوئی کسی پر بوجھ بنے اور نہ کوئی کسی پر اپنی برتری اور خدائی جتائے۔
تیسری فکر، سماجی سطح پر
ہمارے سماج میں ایک دوسرے سے قربت بڑھے، اور سماج کا شیرازہ مضبوط ہو، اس کے لیے جدوجہد کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمارے تعلقات اپنے عزیزوں رشتے داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ نمونہ کی حد تک مضبوط ہوجائیں۔ غیر مسلموں کے ساتھ ہمارے تعلقات کے لیے یہ ارشاد باری سدا ہمارے سامنے رہے، لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ۔’’اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کرنے سے نہیں روکتاجنھوں نے دین کے معاملے میں نہ تم سے جنگ کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالاہے۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے‘‘۔یاد رہے کہ کائنات کا نظام تین بنیادوں پر چل رہا ہے، ایک دوسرے کو سہارا دینا، ایک دوسرے کو صلہ دینا اور ایک دوسرے کی حفاظت کرنا۔ زمین کو توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، اور سورج یہ ضرورت بلا معاوضہ پوری کرتا ہے، اس میں سبق ہے کہ اسی طرح مالدار لوگ محتاجوں کی کفالت کریں، دوسری طرف پودوں اور انسانوں میں سامان زندگی کا تبادلہ ہوتا ہے، انسان کا جسم ان سے آکسیجن لیتا ہے تو بدلے میں انہیں ڈائی آکسائڈ کاربن دیتا ہے، ہمارے درمیان بھی لین دین کی بنا عدل پر ہونی چاہیے۔
یہ بھی تو سوچئے کبھی تنہائی میں ذرا
دنیا سے ہم نے کیا لیا دنیا کو کیادیا
پھر ہم یہ بھی دیکھیں کہ اس کائنات میں تمام زندہ اشیاء ضرر رساں چیزوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے کا کام بھی کرتی ہیں، تو ہم پر بھی واجب ہوتا ہے کہ ہم ہر ظالم کا ہاتھ پکڑیں، اور ہر سرکش کا راستہ روکیں۔ إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِیْتَاء ذِیْ الْقُرْبَی وَیَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُون۔’’بے شک اللہ حکم دیتا ہے عدل کا، احسان کا اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کااور روکتا ہے بے حیائی ، برائی اور سرکشی سے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاددہانی حاصل کرو‘‘۔ تکافل، تبادل اور تدافع۔ ان تینوں بنیادوں کے بنا معاشرے کی عمارت استوار نہیں ہوسکتی ہے۔
چوتھی فکر، وطن اور ریاست کی سطح پر
لازم ہے کہ ملک کی تعمیر میں ہمارا رول سیکولر دھاراؤں اور پارٹیوں سے بھی زیادہ نمایاں ہو، وہ وطن دوستی اور اس کے تقاضوں کی تجارت کرتے ہیں، اور انہیں بازار سیاست میں نیلام کرتے ہیں، ہم اپنی جدوجہد اور اپنی اپروچ سے ایک زندہ ثبوت پیش کریں کہ ہم دین اسلام کے بھی وفادار ہیں، اور جس وطن میں ہم جیتے ہیں، اس کے بھی سب لوگوں سے زیادہ وفادار ہیں، ہم پوری قوت کے ساتھ پنچایت سے لے کر پارلیمانی انتخابات تک اور سرکاری عہدوں اور مناصب کے ہر مقابلے میں پوری قوت اور سنجیدگی کے ساتھ شریک ہوں، اوراس پوری جدوجہد میں ہمارے پیش نظر مسلمانوں سے پہلے ملک کے تمام لوگوں کا فائدہ رہے۔ ہم پانچ اصولوں کو مضبوطی سے تھام لیں اور انہیں اپنا شعار بنالیں: عبادت صرف اللہ کی، خبرگیری سارے انسانوں کی، تعمیر پوری زمین کی، قانون کی بھر پور پابندی اورحکومت کے ساتھ پورا تعاون( ان تمام امور میں جو کتاب وسنت کے خلاف نہ ہوں)۔ علماء کی ذمہ داری ہے کہ فکروشعور اور دعوت وتحریک میں پوری امت کے آگے آگے چلیں، تاکہ امت کی راہ روشن رہے، اسے اکثریتی دھارے میں ضم ہوجانے سے بچایا جاسکے، اور شہادت حق کی عظیم ذمہ داری ادا کرنے کی طرف اسے آگے بڑھایا جائے۔ میں اسے اشد ضروری سمجھتا ہوں کہ مسلمان ایک ٹھوس منصوبہ بنائیں جس کے مطابق جلد وہ دن آئے جب ہندوستانی مسلمانوں میںناخواندگی کے بالکلیہ ختم ہوجانے کا جشن منایا جائے۔ یہ وہ نشانہ ہے جسے حاصل کرنے کے لیے بہت بہت محنت کی ضرورت ہے، اس کے لیے کمربستہ ہو کراٹھ کھڑے ہوں، جب تک تکلیفوں اور مشقتوں سے گزر نہیں ہوگا، علم نہیں آئے گا، اور جب تک علم کی قوت ودولت حاصل نہیں ہوگی دنیا کی امامت نہیں ملے گی، یہ اللہ کا قانون ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ اکیسویں صدی میں اَن پڑھ ہونے کا مطلب صرف یہ نہیں ہوتا کہ آدمی لکھنا پڑھنا نہیں جانتا ہے، بلکہ کمپیوٹر سے ناواقفیت بھی ناخواندگی شمار ہوتی ہے، کمپیوٹر اس دور کی زبان ہے ۔ مکمل طور سے ناخواندگی مٹانے کی اس مہم کو ہماری ترجیحات میں سب سے اول مقام ملنا چاہیے، ہماری اپروچ یہ ہو کہ اللہ نے جس بات سے پہل کی ہے ہم بھی اسی سے پہل کریں گے، اللہ پاک نے پوری وحی کا آغاز اس سے کیا ہے، اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ۔ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ ۔الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَم۔عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ۔اس حقیقت کو حضرت ابن عباس نے یوں بیان کیا کہ اللہ نے علم کو عمل سے پہلے رکھا ہے، امام بخاری نے اسی حقیقت کو ایک باب کا عنوان بنایا ہے۔
پانچویں فکر، امت مسلمہ اور پوری دنیا کی سطح پر
ہم قرآن وسنت کی صراحت کے مطابق ایک امت ہیں، وکونوا عباد اللہ اخوانا ’’اور اللہ کے بندے بن کر بھائی بھائی بن جاؤ‘‘ ۔اسے یقینی بنانا ضروری ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا رشتہ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی اسلامی امت سے قائم اور مضبوط رہے ، اسلام کی حیثیت مسلمانوں کے درمیان ایک رشتے کی ہے، جس سے سارے مسلمان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہم بچپن سے یہ اشعار دوہراتے رہے ہیں:
یا أخي فی الھند أو فی المغرب أنا منک أنت مني أنت بي
لا تسل عن عنصري عن نسبي انہ الاسلام أمي وأبي
’’میرے بھائی ، تم ہندوستان کے ہو یا مراکش کے، میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو۔میری نسل اور میرے نسب کے بارے میں مت پوچھو، میں اسلام کا بیٹا ہوں،وہ میری ماں اور میرا باپ ہے‘‘
اچھی طرح سمجھ لیں، کہ امت کے مسائل کا اصل محور جس کے گرد سارے مسائل گھوم رہے ہیں، وہ مسجد اقصی،قدس اور فلسطین کا ایشو ہے، اس ایشو پر جھوٹ کی دھول تہہ در تہہ بٹھائی جارہی ہے، تاکہ حقیقت پروپیگنڈے کے شور میں گم ہوجائے، اس دھول کو ہٹانے کے لیے سوچا سمجھا علمی رویہ اوراپروچ اختیار کرنا لازم ہے، امت کی قوت ادراک سن ہوگئی ہے، اسے بیدار کرنا ضروری ہے، دل کے اندر ایمانی بنیادوں کو تازہ کرتے رہنا بھی ضروری ہے کیونکہ اللہ کی مدد صرف اہل ایمان کے لیے آتی ہے، ہمدردوں اور مددگاروں کو اکٹھا کرنا اور ان کی تعداد بڑھانا بھی مطلوب ہے، ھو الذي أیدک بنصرہ وبالمؤمنین۔ ’’وہی ہے جس نے اپنی نصرت سے اور مومنین کے ذریعے سے تمہاری مدد کی‘‘ میڈیا کی طرف بھی بھرپور توجہ دی جائے، تاکہ ہم ہر اس مسلمان بلکہ ہر اس انسان تک پہنچ جائیں جو حق اور انصاف کی خاطر اٹھنے کے لیے آمادہ ہو، ارض مقدس کی بازیابی کے لیے، جہاں سے ساٹھ لاکھ فلسطینی باشندوں کو ملک بدرکردیا گیا، مسجد اقصی کی حفاظت کے لیے جو قبلہ اول اور حرم ثالث ہے، اس مقصد کے لیے سیاسی محاذوں پر بھی اپنی موجودگی کو بڑھایا جائے، تاکہ اس قضیہ کو بین الاقوامی سطح کے ہر فورم میں اٹھایا جاسکے۔اس سب کے ساتھ جہاد وشہادت کے مقامات بلند پر پہنچنے کے لیے بھی خود کو تیاررکھیں، کیونکہ بیت المقدس کی آزادی کا ایک ہی راستہ ہے، وہی راستہ جسے صلاح الدین ایوبی، سیف الدین قطز اور سلطان العلماء العز بن عبدالسلام نے اختیار کیا تھا۔ میں آپ سے خدا واسطے التجا کرتا ہوں کہ مسجد اقصی اور اس کی آزادی کا ایشو ہر تقریر ہر کانفرنس ہر گفتگو اور ہر محاضرے میں شامل رکھیں۔ ہر مجلہ، ہر اخبار اور ہر چینل پہ اس پر چرچا ہو، تاکہ مسجد اقصی کی آزادی کے متوالوں سے اور ان کی گونج سے ساری دنیا بھرجائے، اس کام کے لیے آگے بڑھنا ایک عظیم شرف ہے، جس کے لیے اللہ اپنے خاص بندوں کا انتخاب فرماتا ہے، پس ہندوستان کے عوام اور ہندوستان کے علماء سب آگے بڑھیں اور بیت المقدس کے بچوں اور عورتوں کی پکار، غزہ اور رام اللہ کے مردوں کی ندا اور قید میں اسیر مسجد اقصی کی صدا پر سب سے آگے بڑھ کر لبیک کہیں۔
چھٹی فکر، علمی اکیڈمیوں اور تحقیقی اداروں کی سطح پر
میری تمنا ہے کہ ہندوستان میں اسلامی فقہ اکیڈمی اور اس جیسے دیگر علمی اور تحقیقی ادارے درج ذیل محاذوں پر خاص توجہ دیں:نمبر ایک: اسکولوں کے بچوں سے لے کر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ وطالبات تک ہر جگہ اعلی صلاحیت کے دماغوں کو تیار کیا جائے کہ وہ ان اداروں کی صورت میں ان ربانی اور نورانی سلسلوںکے سچے امین بنیں، جن کے آغاز کی توفیق اللہ نے ان کے خوش نصیب بانیوںکوعطا کی۔شاعر کی زبان میں:
اذا سید منا خلا قام سید
قؤول لما قال الکرام فعول
’’ہمارے درمیان سے ایک سردار کی جگہ خالی ہوتی ہے، تو دوسرا سردار آجاتا ہے، عظیم لوگوں جیسی باتیں اور ان کے جیسے کارنامے انجام دینے والا‘‘
آنے والی نئی نسلیں اپنی بزرگ نسلوں کے علم وفضل سے اچھی طرح فیض یاب ہوں، شرعی نصوص کا فہم، زمانے اور حالات سے آگاہی، شرعی نصوص سے اپنے حالات میں رہنمائی لینے والا شعور وتفقہ، خاص احکام کے خاص دلائل اور شریعت کے عام مقاصد واہداف کے درمیان ہم آہنگی کی جستجو، حال کو دیکھنے اور مستقبل کو بھانپ لینے کی صلاحیت، ترجیحات کا شعور اور نفس انسانی سے واقفیت، اور پھر جدید ترین اور تیز ترین وسائل سے آگاہی کہ جن کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پیغام کی رسائی ہوسکے۔کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ۔’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے سامنے تیار کی گئی ہے، معروف کا حکم دیتے ہومنکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔
نمبر دو: اسلامی فقہ، اس کے اصول، اس کے قواعد اور اس کے مقاصد کو ان کے اصل مقام یعنی ایمان واخلاق کی آغوش میں لوٹانا ہے، ایسا لگے کہ گویا یہ سب چھوٹی بڑی کشتیاں ہیں جو اللہ کی محبت، اس کی خشیت، اس کے احکام کی تعظیم، اور اس کے مقام کی تقدیس کی ندیوں دریاؤں اور سمندروں پر رواں دواں ہیں۔مکمل جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ پورے دین میں کوئی ایک بھی فقہی حکم ایسا نہیں ہے جو ایمان کی گرمی اور اعلی اخلاق کی خوشبو سے خالی رکھا گیا ہو۔ کسی چیز میں اختصاص کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے باقی سب سے کاٹ کر بالکل الگ تھلگ کردیا جائے، ایک طبیب کسی عضو کا علاج اسے جسم سے بالکل الگ کرکے نہیں کرتا ہے، بلکہ وہ عضو اپنی ساری رگوں کے ساتھ جسم سے جڑا رہتا ہے، بالکل اسی طرح فقہ کا ایمان واخلاق سے رابطہ اور اتصال پوری طرح برقرار رہنا چاہیے۔ اور اسی بنا پر فقہ کے اصول، اس کے قواعد اور اس کے مقاصد کے میدان میں بھی وسعت لانا ضروری ہوجاتا ہے، تاکہ اس علم کے تحت صرف فقہی احکام والی نصوص ہی نہ رہیں بلکہ دین وشریعت کی ساری نصوص اس میں شامل ہوجائیں۔ اصول فقہ کے مناہج ہی ا ن شدید ضربوں سے امت کی حفاظت کرسکتے ہیں، جنہوں نے امت کو ٹکڑوں میں بانٹ رکھا ہے، اور ہمیں ایسا بنادیا ہے کہ ہمارا سارا زور آپس ہی میں ایک دوسرے پر چلتا ہے۔ میں نے جیل کی زندگی میں ہی اس سلسلے میں کچھ علمی کام کرلیے ہیں، میری ایک تازہ کتاب ہے سورہ یوسف کی اصولی اور مقاصدی تفسیر، اور دوسری کتاب ہے حضرت کعب کی حدیث کی اصولی اور مقاصدی تشریح۔
نمبر تین: ضروری ہے کہ فقہ وفکر، اصول ومقاصد اور تحریک ودعوت کے تمام مکاتب ومشارب کے درمیان علمی رابطے کو مضبوط کیا جائے، لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُون ’’تاکہ دین میں بصیرت حاصل کرتے اور اپنی قوم کے لوگوں کو خبردار کرتے ، جبکہ وہ ان کی طرف لوٹتے کہ وہ بھی احتیاط کرنے والے بنتے‘‘ کے مقاصد میں یہ بھی شامل ہے، ہمارے علمی اور تحقیقی ادارے اس بات کے داعی بن جائیں کہ معرفت کے دائرے کو وسیع کیا جائے، اتنا کہ فقہ وفکر کے تمام مسالک اور تحریکی ودعوتی حلقوں سے وابستہ تمام بڑے علماء کی اجتہادی کوششوں کی صحیح قدر ہوسکے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی، شیخ ندوی اور شیخ قاسمی کے علمی کارناموں کے ساتھ ساتھ اہل علم وتحقیق کے سامنے علامہ شاطبی، شیخ طاہر بن عاشور، شیخ قرضاوی، شیخ غزالی، شیخ علوانی، شیخ ریسونی، شیخ شنقیطی، شیخ بن باز اور شیخ زرقا کی کوششیں بھی رہیں، اور شیخ افغانی، شیخ محمد عبدہ، شیخ حسن البنا، شیخ سید قطب، شیخ مالک بن نبی، اور شیخ مودودی کی کاوشیں بھی رہیں۔ غرض ہر مکتب فکر اور ہر فکری جہت کے اہل علم کی علمی تحقیقات سے ہم بھر پورطرح سے فیض حاصل کریں۔ اس وقت اسلام کے خلاف شدید قسم کی معرکہ آرائی کے لیے مشرق ومغرب کے سارے طائفے یک جٹ ہوگئے ہیں، ایسے میں اور زیادہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ہماری ایک وحدت ہو، اور ہم فکری اور تحریکی ہر دو سطح پر ایک دوسرے سے قریب سے قریب تر ہوجائیں، یہ ایک شرعی فریضہ تو ہے ہی، حالات کا ضروری تقاضا بھی ہوگیا ہے، اس سلسلے میں اللہ کے سامنے سب سے پہلے ان ارباب قیادت کو جواب دینا ہوگا جن کے ہاتھوں میں امت اسلامیہ کی علمی فکری اور تحریکی باگ ڈور ہے۔ وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُواْ إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْن۔’’اور آپس میں تفرقہ نہ کرو، کہ تم ناکام ہوجاؤ اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے اور ثابت قدم رہو۔ بے شک اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے‘‘۔میرے بہت عزیز اور بہت عظیم علماء کرام، میں معافی چاہوں گااگربات طویل ہوگئی ہو، واقعہ یہ ہے کہ جب شوق کے جذبات امنڈ کر آتے ہیں، تو ہزاروں صفحات کم پڑجاتے ہیں، اور تکلیفیں جتنی بڑھتی ہیں امیدیں بھی اتنی ہی کروٹیں لیتی ہیں۔
جتنی جتنی ستم یار سے کھاتا ہے شکست
دل جواں اور جواں اور جواں ہوتا ہے
میرے اور آپ کے درمیان کئی طویل برسوں سے دوریاں حائل ہیں، لیکن مجھے قوی امید ہے کہ جلد ہی اللہ کے حکم سے ظلم کی زنجیریں ٹوٹیں گی اور زنداں کے دروازے کھلیں گے۔ مجھے یہ بھی امید ہے کہ کسی قریبی سیمینار یا مجلس میں ہماری ملاقات ہوگی،اس وقت میری گفتگو کاایجنڈا وہ دو موضوعات ہوں گے جو مجھے دن رات مشغول اور بے چین رکھتے ہیں۔اول: اصول اور مقاصد کے علم کی تجدید، اور اس کے لیے پہلے تطبیقی کاوشیں اور آخر میں نظریہ سازی کے ذریعہ اس علم کی تکمیل۔دوم: فلسطین،القدس، مسجد اقصی اور سارے قیدیوں کی رہائی، ان مردان کار کے ذریعہ جن کے بارے میں کہا گیا ہے: رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا اللَّہَ عَلَیْہِ۔’’وہ مرد جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کردکھایا‘‘، شاعر کے الفاظ میں:
قالوا نزال فکنت أول نازل
وعلام أرکبہ اذا لم أنزل
’’انہوں نے پکارا ، اترو میدان میں، تو سب سے پہلے اترنے والا میں تھا، اور اگرمیدان میں اترنے کا جذبہ نہیں ہوتا تو گھوڑے پر سوار ہی کیوں ہوتا‘‘
اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ سب کو اپنی امان میں رکھے،اس کی امان میں کوئی چیز ضائع نہیں ہوتی، اور آپ سے التماس کرتا ہوں کہ زمین وآسمان کے رب کے حضور بہترین دعائیں اور پاکیزہ تمنائیں کرتے رہیں، کہ وہ تنگی کے بعد آسانی پیدا کرے، قید وبند کا خاتمہ ہو اور خوشیوں کا دور چلے، امت پر سے کمزوری اورمحکومی کا موسم خزاں رخصت ہو اور شوکت واقتدارکی بہاریں لوٹ آئیں، غاصبوں کے تسلط کی سیاہ رات ہر جگہ سے ختم ہو، اور عزت وسربلندی کی صبح طلوع ہو۔۔ اور ہم سب اللہ کے وعدے کے سزاوار ہوجائیں۔ وَعَدَ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِیْ الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْناً یَعْبُدُونَنِیْ لَا یُشْرِکُونَ بِیْ شَیْئاً۔’’اللہ کا وعدہ ہے تم لوگوں سے ، جو ایمان لائے اور جنھوں نے عمل صالح کیے، کہ ان کو ملک میں اقتدار بخشے گا، جیسا کہ ان لوگوں کو اقتدار بخشا جو ان سے پہلے گزرے، اور ان کے لیے ان کے اس دین کو متمکن کردے گا جس کو ان کے لیے پسند کیا‘‘۔ْ وَیَقُولُونَ مَتَی ہُوَ قُلْ عَسَی أَن یَکُونَ قَرِیْبا۔’’اور وہ کہتے ہیں کہ یہ کب ہوگا؟ کہہ دو کہ عجب نہیں کہ اس کا وقت قریب ہی آپہنچا ہو‘‘۔
والسلام
آپ سب سے اللہ کی خاطر محبت کرنے والا
صلاح الدین سلطان

خطبے کی زبان اور زمانے کی پکار

خطبے کی زبان اور زمانے کی پکار
بغیر سمجھے کتنے ہزار سال تک سنا جائے گا جمعہ کا خطبہ؟
محی الدین غازی
تعلیم کے حوالے سے مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نئی نسل کو رائج الوقت تعلیم دلانے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم وتربیت کی ضرورت کو کیسے پورا کیا جائے۔ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے ذہنوں میں پھیل جانے والے زہر کا تریاق انہیں کیسے دیا جائے۔ اگر عصری اداروں میں صرف دین بیزار مادیت کی تعلیم دی جارہی ہے تو اپنے نونہالوں کی روح اور قلب کو زندہ وتازہ رکھنے والی اور دین سے محبت پیدا کرنے والی تعلیم کا انتظام کیسے کیا جائے، اگر مسلمان طلبہ اور طالبات کے ذہنوں میں اسلام سے متعلق نت نئے سوالات اور شکوک وشبہات پیدا ہورہے ہیں، تو ان کی تشخیص اور ان کا ازالہ کس طرح ہو۔
دینی مدارس اس صورت حال کا علاج نہیں ہیں، ملک بھر کے مسلمان طلبہ وطالبات کے لئے جزوقتی دینی تعلیم کے مدارس کا انتظام بے حد مشکل ہے۔ حافظ جی اور مولوی صاحب کی ٹیوشن لگا کر قرآن مجید کا ناظرہ سکھادینا اپنی جگہ مفید ہے، مگر وہ اس زہر کا توڑ نہیں ہے جو جدید تعلیم کے راستے طلبہ اور طالبات کی رگ رگ میں سرایت کررہا ہے۔
ایسے میں صرف ایک انتظام سامنے رہ جاتا ہے، جو دینی تعلیم وتربیت کا خدائی انتظام ہے، خطبہ جمعہ کا منفرد اور زبردست انتظام۔ اس انتظام کا انفرا اسٹرکچر پورے ملک کے ہر ہر شہر اور ہر ہر قریہ میں موجود ہے، صرف اسے فعال بنانے کی دیر ہے۔ ایسا انتظام دنیا کے کسی گروہ کے پاس نہیں ہے، یہ انتظام امت کے اندر زندگی کی روح پھونک دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ ایسے زبردست انتظام کی طرف سے امت غافل ہے، اور اس کی یہ غفلت نہایت افسوس ناک ہے۔ اصلاحی تحریکوں اور دینی جماعتوں نے بھی اس انتظام سے بے نیاز ہوکر ابلاغ وتبلیغ کے مصنوعی ذرائع اختیار کئے، جہاں لوگوں کو جمع کرنے میں توانائی زیادہ صرف ہوتی ہے، اور نتیجہ کم سامنے آتا ہے۔
ہمارے ملک میں بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خطبہ جمعہ عربی زبان میں دیا جاتا ہے، اور سننے والے عربی سے یکسر ناواقف ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے اکثر علماء اور ائمہ مساجد کا اصرار ہے کہ خطبہ جمعہ کی زبان عربی ہی ہونی چاہئے خواہ سننے والوں کی زبان کچھ بھی ہو، ان کا کہنا ہے کہ جس طرح نماز کے لئے عربی زبان ضروری ہے اسی طرح خطبے کے لئے بھی عربی زبان ضروری ہے۔
لیکن غور سے دیکھا جائے تو زبان کے معاملے میں خطبہ کو نماز پر قیاس کرنا درست معلوم نہیں ہوتا ہے، کیونکہ جس طرح نماز کے متعین اذکار ہیں، خطبہ جمعہ کے متعین اذکار نہیں ہیں، نماز میں کوئی مقام ایسا نہیں ہے جب آپ نماز کے اذکار کے علاوہ اپنے خیالات بھی عربی میں بیان کرسکتے ہوں، جب کہ خطبے میں تو خطیب عربی زبان میں قصے بھی سنا سکتا ہے، اشعار بھی پڑھ سکتا ہے، اور اپنی زندگی کے تجربات اور اپنے دل کے احساسات بھی بیان کرسکتا ہے۔ بحث صرف اتنی رہ جاتی ہے کہ وہ اپنے دماغ میں تیار کی ہوئی جو باتیں عربی میں بیان کرسکتا ہے، وہ سامعین کو سمجھ میں آنے والی زبان میں بیان کرسکتا ہے یا نہیں؟
نماز اور خطبے میں ایک اہم فرق یہ بھی ہے کہ نماز میں مخاطب صرف اور صرف اللہ ہوتا ہے، جو اظہار بندگی بھی دیکھتا ہے اور احساس بندگی بھی جانتا ہے۔ جب کہ خطبے میں مخاطب سامعین ہوتے ہیں، وہ اگر کچھ نہ سمجھیں تو خطبہ کا مقصد ہی فوت ہوکر رہ جاتا ہے۔ خطبے میں تو اتنی گنجائش رکھی گئی ہے کہ وہ حالت وضو کے بنا بھی دیا جاسکتا ہے، خطبہ کے دوران ضرورت پڑنے پر بات بھی کی جاسکتی ہے، پھر خطبے کی زبان کو لے کر آخر اتنی سختی کہاں سے آگئی ہے، کہ خطبہ لوگوں کی طرف رخ کرکے اور انہیں مخاطب کر کے تو دیا جائے مگر ان کے سمجھنے کی بالکل پرواہ نہ کی جائے۔
اگر خطبہ عربی میں ہونا ضروری ہے، تو پھر یہ بھی ضروری ہونا چاہئے کہ سارے سامعین کو عربی زبان آئے، اسے یقینی بنانے کے لئے منصوبے بننے چاہئیں اور اسے فرض قرار دینے والے فتوے جاری ہونے چاہئیں، لیکن یہ کہ سینکڑوں اور ہزاروں سال تک کروڑہا کروڑ لوگ بغیر سمجھے خطبہ سنتے رہیں، اور خطبہ کے مشمولات سے ان کے دل ودماغ بالکل ناآشنا اور محروم رہیں، یہ بات خدائے حکیم کی حکمت سے لبریز شریعت سے مطابقت نہیں رکھتی ہے۔
غرض یا تو سامعین خطیب کی زبان سیکھیں، یا خطیب سامعین کی زبان میں بات کرے، ’’زبان یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم‘‘ کا سلسلہ آخر کب تک چلتا رہے گا، کوئی تو حد طے ہونی چاہئے۔ مجھے ذاتی طور پر اس مسئلے کی نزاکت کا اندازہ گذشتہ دو سال سے زیادہ ہورہا ہے، اب تک یا تو عربی میں خطبے سنے تھے یا اردو میں، میرے لئے یہ سبھی خطبے قابل فہم ہوا کرتے تھے، اور میں ان لوگوں کے درد کو نہیں محسوس کرپاتا تھا جو عربی میں خطبہ نہیں سمجھ سکتے تھے، گذشتہ دو سال سے ملیالم کے خطبے سن رہا ہوں، اور اچھی طرح محسوس کررہا ہوں کہ خطبے کا ایک بھی لفظ سمجھے بغیر خطبہ سننا کتنی بڑی آزمائش کا کام ہے۔ البتہ یہاں تسلی یہ رہتی ہے کہ میں نہیں تو باقی لوگ تو مستفید ہورہے ہیں۔
تیزی سے بگڑتے حالات اور مسلسل کم ہوتے مواقع پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ جمعہ کے خطبے کی زبان سے متعلق فیصلہ کرنے کا صحیح وقت آج ہی ہے، اس وقت شدید ضرورت بھی ہے اور ضرورت کی تکمیل کا موقع بھی حاصل ہے۔ تمام تر خرابیوں کے باوجود آج کی نئی نسل جمعہ کا خطبہ سننے اہتمام کے ساتھ آرہی ہے، یہ بہت زبردست موقعہ ہے، یہ موقعہ ہمیشہ باقی رہے اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ جدید تعلیم اور جدید رجحانوں کے راستے سے بگاڑ کا جو سیلاب بڑھتا چلا آ رہا ہے، وہ جمعہ کے خطبے کے اس انتظام کو باقی رہنے دے یہ کوئی ضروری نہیں ہے۔
آج جمعہ کی مسجدوں کو بھردینے والے جمعہ کے نمازی اگر خدانخواستہ کل نہیں آئے، اور جمعہ کی نماز میں بھی فجر کی نماز والا حال ہوگیا تو پھر کیا ہوگا۔ جمعہ کے انتظام کو مفید اور موثر بنانے سے بہت ممکن ہے کہ فجر کی نماز میں بھی نماز جمعہ والی کیفیت پیدا ہوجائے۔
اس تحریر کا مقصد جمعہ کے خطبے کی زبان کو لے کر کوئی فقہی بحث چھیڑنا نہیں ہے، یہ فقہی بحث میں الجھنے اور الجھانے کا وقت بھی نہیں ہے، یہ تو فقہی بحث سے نکل کر امت کی حفاظت کے سلسلے میں فیصلے لینے کا وقت ہے، سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ نئی نسل کی دینی تعلیم وتربیت کے اس عظیم خدائی انتظام سے فائدہ نہیں اٹھانے کا آخر کیا جواز ہے۔
اگر عام حالات میں اس کی تھوڑی سی بھی گنجائش نکل سکتی ہے کہ غیر عربی زبان میں خطبہ دیا جائے، تو موجودہ سنگین حالات میں جب کہ پوری نسل بے دینی کے خطرے سے دوچار ہے، دین وملت کی حفاظت جیسے عظیم اور بڑے مقصد کی خاطر سننے والوں کو سمجھ میں آنے والی زبان میں خطبہ دینا جائز ہی نہیں ضروری قرار دینا چاہئے۔
یہ بھی یاد رہے کہ جمعہ کے خطبوں کی زبان بدل دینا مسئلہ کا مکمل حل نہیں ہے، یہ تو محض پہلی رکاوٹ کو دور کرنا ہے، ورنہ عرب ممالک میں تو لوگوں کی مادری زبان میں خطبے ہوتے ہیں، مگر ان عربوں کی دینی صورت حال ہم ہندوستانیوں سے مختلف نہیں ہے۔ مقامی زبان میں خطبہ دینے کا فیصلہ کرنے کے بعد خطبہ کو نئی نسل کی تعلیمی وتربیتی ضرورت پورا کرنے والا بنانا اصل مقصد ہے۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ وہ بہت ساری مسجدیں جہاں مقامی زبان میں خطبہ ہوتا ہے، اس مقصد کو حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہیں۔
دینی علوم اور جدید علوم کے ماہرین کو مل کر اس پر کام کرنا ہے کہ نئی نسل کی دینی تعلیم وتربیت کی حقیقی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے خطبات جمعہ کے مشتملات کیا ہونے چاہئیں، اس سلسلے میں ایک پورے کورس کی تیاری درکار ہے، جو حسب ضرورت کئی سالوں پر مشتمل ہوسکتا ہے۔
دینی مدارس کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے فارغین کو اس لائق بنائیں کہ وہ نئی نسل کے افراد کی دینی ضرورتوں کو سمجھیں، ان کے سوالوں کا تشفی بخش جواب دے سکیں، اور انہیں دل پر نقش ہونے والی اور دماغ میں اچھی طرح سمجھ میں آنے والی تعلیم دے سکیں۔ یہ مطلوب نہیں ہے کہ دینی مدارس سے سماجی علوم اور حیاتیاتی علوم کے ماہرین نکلیں، لیکن نصاب کی ایسی جدید کاری ضرور مطلوب ہے کہ دینی مدارس کے فارغین جدید زمانے میں دین کی صحیح اور طاقت ور ترجمانی کرسکیں، وہ خطبہ جمعہ کے ذریعہ سامعین کے ذہنوں سے شکوک وشبہات سے صاف کرسکیں اور انہیں ایمان ویقین سے آراستہ کرسکیں۔
دینی جماعتوں کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ سب مل کر اس کے لئے کوشش کریں کہ ملک بھر میں جمعہ کے خطبات کو دین کی تعلیم کے لئے بہتر طور سے استعمال کیا جائے، جمعہ کا منبر آپسی رسہ کشی اور دھینگا مشتی کے لئے استعمال نہیں ہو، سب مل کر جمعہ کے منبر سے وہ دینی تعلیم فراہم کریں جس پر سب کا اتفاق ہے، اور جس کی نئی نسل کو فوری اور شدید ضرورت ہے (ویسے بھی اب سبھی جماعتیں اپنی پرانی تقریروں کو چھوڑ کر ایک جیسی تقریریں کرنے لگی ہیں)۔ یہ کام اتنا اہم اور ضروری ہے کہ اس کے لئے جماعتوں کی متحدہ مجلس عمل کو وجود میں آنا چاہئے۔
لیکن سب سے پہلے ہمارے مفتیان کرام کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ جمعہ کا خطبہ سامعین کی زبان میں دیا جانا چاہئے۔ اطمینان قلب کے لئے خطبے کا کچھ حصہ عربی اذکار پر بھی مشتمل ہوسکتا ہے۔
اس عظیم منصوبے کے نتیجے میں دینی مدارس کی افادیت کا ایک نیا باب کھل سکے گا، دینی مدارس کے تربیت یافتہ فارغین ایک ایک مسجد میں اپنی تعلیمی صلاحیتوں کے جوہر دکھائیں گے اور پوری امت کو فیض پہونچائیں گے۔ اس وقت بہت بڑا سوال دینی مدارس کے فارغین کی افادیت کا بھی کھڑا ہوا ہے۔
جمعہ کے خطبات کی زبان، اہداف اور انداز کے سلسلے میں انقلابی تبدیلیاں لانے سے چند سالوں میں پوری نسل کو دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاسکے گا، اس کے بعد ہماری آنے والی نسلیں اطمینان کے ساتھ عصری اداروں میں جدید تعلیم کے نقصان سے محفوظ رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرسکیں گی۔
یہ یاد دلانا بہت ضروری ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں مسلم لڑکے ہی نہیں مسلم لڑکیاں بھی پڑھتی ہیں، جن خطروں سے لڑکے دوچار ہیں ان کا لڑکیوں کو بھی سامنا ہے، جمعہ کے خطبوں کا انتظام جس قدر مسلمان لڑکوں کے لئے ضروری ہے، اسی قدر مسلمان لڑکیوں کے لئے بھی ضروری ہے۔ دین وایمان کو بچانے والے اور سیرت وکردار کی بہترین تعمیر کرنے والے جمعہ کے خطبوں میں مسلمان لڑکیوں کی شرکت کا بھی انتظام ضرور کیا جائے، اور ان کی شرکت کو ضروری قرار دیا جائے۔ جن مفاسد کے اندیشے سے عورتوں کو مسجد میں آنے سے روکا گیا تھا، ان سے ہزار گنا بڑے مفاسد سے بچانے کے لئے جمعہ کے خطبوں میں خواتین کی شرکت کو مطلوب قرار دیا جائے۔ بے حد ضروری ہوگیا ہے کہ ہمارے فتوی گھروں سے جاری ہونے والے فتوے امت کے حال کو بہتر اور مستقبل کو روشن بنانے میں اہم کردار ادا کریں۔
بلاشبہ اس طرح کے فیصلے جذبات میں آکر نہیں لئے جاتے ہیں، ان کے علمی اور تحقیقی تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے، اس طرح کے فیصلے اجتماعی اجتہاد کا تقاضا کرتے ہیں، ضروری ہے کہ وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے اہل علم اس مسئلے پر علمی وفقہی سیمینار کریں، اہل تحقیق واجتہاد اس پر گہری تحقیق کریں، اور علمی دلائل کی روشنی میں ایسی قرارداد تک پہونچیں جس میں دین وملت کی بہتری اور بھلائی نظر آتی ہو، دین وشریعت کے مقاصد کی تکمیل ہوتی ہو۔
بلاشبہ لوگ آسانی سے اصلاح حال کے اس منصوبے کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے، پھر بھی نا امید ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ حاجت وضرورت کے تقاضوں کے تحت اگر ہمارے علماء کرام کار اور کاروبار کے انشورنس کی اجازت دے دیتے ہیں، اور لوگ اس اجازت پر عمل بھی کرلیتے ہیں، تو ہمارے علماء بہت بڑی ضرورت کے تقاضے کو محسوس کرکے سامعین کی زبان میں جمعہ کا خطبہ دینے کی اجازت بھی مرحمت فرما سکتے ہیں۔ ان کی اس نوازش پر قیامت تک آنے والی تمام نسلیں ان کی احسان مند رہیں گی۔
پورے یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ جمعہ کے خطبے کی زبان بدلنے سے امت کی تقدیر بدلنے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ بلاشبہ عربی زبان میں خطبے سے جمعہ کا فرض ادا ہوجائے گا، لیکن مقامی زبان میں خطبے سے اس فرض کے ساتھ ساتھ امت کی صحیح تعلیم وتربیت اور دین وایمان کی حفاظت کا بہت بڑا اور بے حد مشکل فرض بھی ادا ہوسکے گا۔ اور یہ فرض پوری ملت کو آخری پکار آخری پکار کہہ کر آواز دے رہا ہے۔

تقوی اور احسان، رشتوں کی دو مضبوط بنیادیں

تقوی اور احسان، رشتوں کی دو مضبوط بنیادیں

محی الدین غازی

شادی سے رشتے داری وجود میں آتی ہے۔ رشتے قائم کرنا، رشتے نباہنا، اور رشتہ نہیں نباہ پانے کی صورت میں ختم کردینا، یہ سب زندگی کے بہت نازک مرحلے ہوتے ہیں۔ اگر زندگی گزارنے کے لئے مضبوط بنیادیں میسر نہیں ہوں تو زبان پھسل جانے، قدم بہک جانے، بات بگڑ جانے، زندگیاں برباد ہوجانے، اور سب سے بری بات یہ کہ پستی میں گرجانے کا ہر وقت اندیشہ لگا رہتا ہے۔

ازدواجی زندگی گزارنے کے لئے قرآن مجید ماننے والوں کو دو بنیادیں عطا کرتا ہے۔ یہ چٹان سے زیادہ مضبوط بنیادیں ہیں، ان پر ازدواجی زندگی کی بنا اعتماد کے ساتھ رکھی جاسکتی ہے، اور رشتوں کی عمارت کو اطمینان کے ساتھ بہت بلندی تک اٹھایا جاسکتا ہے۔ ایک بنیاد تقوی ہے اور دوسری بنیاد احسان ہے، یہ دونوں بنیادیں خوشگوار زندگی کے استحکام کی ضمانت لیتی ہیں۔ جس نے ان دونوں بنیادوں کو اپنی شخصیت کے لئے حاصل کرلیا، اسے تاحیات خوش رہنے اور خوشیاں بانٹنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔

تقوی کا مطلب ہے، زندگی میں ہر کام کو انجام دیتے ہوئے اللہ کی ناراضگی سے بچنے کی فکر کرتے رہنا، اور احسان کا مطلب ہے زندگی کے ہر کام کو اللہ کی مرضی کے شایان شان بہتر سے بہتر طریقے سے انجام دیتے رہنا۔ گویا زندگی عیب سے پاک ہوتی رہے تو تقوی ہے، اور زندگی خوبیوں سے مالا مال ہوتی رہے تو احسان ہے۔ تقوی زندگی کے پودے کو مرجھانے سے بچاتا ہے، اور احسان سے زندگی کے درخت میں پھول اور پھل آتے ہیں۔

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تقوی اور دین داری سے ازدواجی زندگی کی رنگینی اور اس کا رس جاتا رہتا ہے، زندگی خشک اور بے رنگ یا کم از کم سادہ رنگ اور بے لطف ہوجاتی ہے، زندگی کے رومان اور تقوی کی بندشوں میں کوئی یارانہ نہیں بلکہ پرانی دشمنی ہے۔ دریہ سارے تصورات بالکل غلط ہیں۔ تقوی تو محبت اور رومان کی حفاظت کرتا ہے، تقوی سے زندگی کے حسین رنگوں کی صحیح دیکھ بھال ہوتی ہے، بلکہ یوں کہیں کہ احسان سے زندگی بے حد حسین اور بے حد خوش گوار ہوجاتی ہے، اور تقوی سے اس حسن اور اس خوش گواری کی سدا حفاظت ہوتی ہے۔

تقوی دل دکھانے سے روکتا ہے، احسان دل کو مسرور کردینے پر ابھارتا ہے۔ تقوی رشتوں کی بے حرمتی کرنے سے روکتا ہے، احسان رشتوں کو لازوال بنانے کی فکر دیتا ہے۔ تقوی بد زبانی سے باز رکھتا ہے، احسان زبان کو شیرینی اور حلاوت کا سرچشمہ بنادیتا ہے۔ تقوی ہو تو رشتوں کو کوئی روگ نہیں لگتا، احسان ہو تو رشتے بہت صحت مند اور توانا ہوجاتے ہیں۔

شادی کی تقریب تقوی اور احسان کے سائے میں انجام پائے تو تقریب کی حقیقی خوشیاں حاصل ہوتی ہیں۔ تقوی دل کو لالچ سے پاک کرتا ہے، جہیز کی طلب، ہو یا دوسرے ناجائز مطالبات، تقوی ان تمام برائیوں سے بچالیتا ہے جو لالچ کے پیٹ سے جنم لیتی ہیں۔ احسان دل میں سخاوت اور فیاضی جگاتا ہے، اور وہ ساری خوبیاں پیدا کرتا ہے جو سخاوت اور فیاضی کے بطن سے جنم لیتی ہیں۔ بیوی کے گھر والوں سے کچھ نہ لے کر بیوی کے لئے اپنے گھر میں حسب استطاعت شایان شان رہنے سہنے کا انتظام کرنا احسان کا ایک حسین مظہر ہے۔ بہترین ازدواجی زندگی وہ ہوتی ہے جس میں خود غرضی کے بجائے جاں نثاری ہو۔ تقوی خود غرض نہیں بننے دیتا ہے، اور احسان سب کچھ نثار کرنے کے لئے تیار رکھتا ہے۔

تقوی ہر تقریب میں غیر اسلامی رسوم ورواج سے روکتا ہے، اور احسان ہر تقریب کو اللہ کے رنگ میں رنگتے ہوئے عبادت کا حسن عطا کردیا ہے۔ جہاں تقوی اور احسان کی کارفرمائی ہو وہاں تقریبات عبادت کی طرح پاکیزہ ہوتی ہیں، اور جہاں تقوی اور احسان نہ ہوں وہاں عبادتیں غیر اسلامی رسومات سے آلودہ ہوجاتی ہیں۔

تقوی نمائش پسندی، اسراف اور فضول خرچی سے روکتا ہے، اور احسان غریب رشتے داروں اور ضرورت مند پڑوسیوں پر چپکے چپکے خرچ کرنے کا ظرف اور جذبہ عطا کرتا ہے۔

تقوی اور احسان دونوں اگر شوہر اور بیوی میں جمع ہوجائیں تو اللہ کی رحمت دونوں پر سایہ فگن ہوجاتی ہے، شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جاتے ہیں، دونوں ایک دوسرے پر سب کچھ لٹانے، ایک دوسرے کے لئے ہر تکلیف اور مشقت برداشت کرلینے اور ایک دوسرے سے کچھ نہیں مانگنے میں مقابلہ کرتے ہیں۔ دوسرے کے لطف کے لئے خود تکلیف برداشت کرلینا اور دوسرے کی تکلیف کا خیال کرکے اپنے لطف کو پس پشت ڈال دینا دونوں کا شیوہ ہوتا ہے۔ مفاد پرست سماج میں پرورش پانے والے خود غرض جوڑے ایثار وقربانی کے اس مقام کا تصور بھی نہیں کرسکتے جس مقام پر تقوی اور احسان شوہر اور بیوی کو پہونچادیتے ہیں۔

بیوی کے دل میں تقوی ہو اور شوہر سماج کی کسی بے سہارا خاتون سے نکاح کرنا چاہے تو بیوی اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی ہے اور نہ ہی اس کے لئے مسائل کھڑے کرتی ہے۔ بیوی کے دل میں احسان کا جذبہ موجزن ہو تو بیوی خود پیش قدمی کرتی ہے کہ سماج میں زوجیت کے سائے بان سے محروم خاتون کو اپنے سائے بان میں شریک کرلے، یہ بہت بھاری کام ہے لیکن احسان کا جذبہ اسے آسان بنادیتا ہے، اور اسی لئے احسان کا جذبہ رکھنے والے اللہ کو بہت پسند ہیں، کیونکہ وہ ایسے کام کرتے ہیں، جنہیں دیکھ کر زمین اور آسمان بھی حیران رہ جاتے ہیں۔۔

تقوی شوہر کو دو بیویوں کے درمیان ظلم وناانصافی کرنے سے روکتا ہے، اور احسان شوہر کو دونوں بیویوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون بنادیتا ہے۔

تقوی سوکنوں کو ایک دوسرے سے بغض وعداوت رکھنے اور ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے سے روکتا ہے، احسان سوکنوں کو ایک دوسرے کا خیر خواہ اور ہمدرد بنادیتا ہے۔

تقوی سوتیلے بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے سے روکتا ہے، اور احسان سوتیلے بچوں پر سگے بچوں سے زیادہ مہربان ہوجانے والا بنادیتا ہے۔

تقوی ساس بہو اور نند بھاوج جیسے سارے ہی رشتہ داروں کو آپس میں لڑنے جھگڑنے اور نفرت بانٹنے سے روکتا ہے، احسان رشتے داروں کو ایک دوسرے کا غم خوار اور ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والا بنادیتا ہے۔ تقوی ان رخنوں کو بند کرتا ہے جہاں سے نفرت اور دشمنی کا گندا پانی گھر کے آنگن میں آنے لگتا ہے، اور احسان گھر کے آنگن میں محبت کی حیات افروز نہریں جاری کرتا ہے اور ایثار وہمدردی کے زندگی بخش پودے لگاتا ہے۔

قرآن مجید ازدواجی زندگی کی عمارت تقوی اور احسان کی بنیادوں پر اٹھانے کی تعلیم دیتا ہے، پھر اگر اس مضبوط رشتے کو ختم کرنا ہی قرین مصلحت ہو تو ختم کرنے کے لئے بھی تقوی اور احسان کا راستہ اختیار کرنے کی تاکید کرتا ہے۔  تقوی اور احسان کے سائے میں جو تفریق اور جدائی عمل میں آتی ہے، وہ بھی اپنے آپ میں حسین وجمیل ہوتی ہے، اس میں کسی کے ساتھ حق تلفی اور زیادتی نہیں ہوتی، کوئی خود غرضی اور تنگ دلی کا مظاہرہ نہیں کرتا ہے، بلکہ اس وقت بھی سخاوت وشرافت کا دور دورہ ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو اسلام کے مطابق ازدواجی زندگی نہیں گزارتا ہے، وہ اسلامی طریقے سے طلاق دینے کے قابل بھی نہیں رہتا ہے۔

تقوی بلا وجہ طلاق دینے سے روکتا ہے، احسان وجہ ہونے پر بھی جہاں تک ہوسکے ساتھ نباہنے کے لئے آمادہ کرتا ہے۔ تقوی روکتا ہے کہ طلاق کے بعد بیوی کو دی ہوئی چیزیں واپس نہ لی جائیں، احسان ابھارتا ہے کہ طلاق شدہ بیوی کو اپنی استطاعت سے بھی بہت آگے بڑھ کر نوازشوں کی بارش کے ساتھ رخصت کیا جائے۔ تقوی کی کیفیت ہو تو اس پر جھگڑا نہیں ہوتا کہ بچہ کس کے پاس رہے، اور اس کا خرچ کون اٹھائے، احسان کی کیفیت ہوتی ہے تو دونوں فکرمند ہوتے ہیں کہ طلاق کے باوجود بچے کی بہترین نشوونما کا انتظام کیسے کیا جائے۔

تقوی اور احسان سے فیملی لائف اس قدر خوش حال، خوش گوار، خوش مزاج اور خوش لطف ہوجاتی ہے کہ جیسے اللہ دنیا ہی میں جنت والی زندگی کے تجربے سے گزار رہا ہو۔ تقوی اور احسان سے زندگی کی عمارت کی کرسی بہت بلند ہوجاتی ہے، اور عمارت حد درجہ حسین ہوجاتی ہے۔ بے شک خوش نصیب ہے وہ جسے تقوی اور احسان والی ازدواجی زندگی گزارنے کی توفیق مل جائے۔ اور بے شک ملامت کے لائق نہیں ہوتا ہے وہ جو ضروری ہوجانے پر تقوی اور احسان کے سائے میں رشتہ ختم کرے۔

’’اور اگر کسی عورت کو لگے کہ اس کا شوہر اس سے منھ موڑ رہا ہے، یا ازدواجی زندگی کو خطرے میں ڈال رہا ہے، تو بہت اچھا ہوگا کہ دونوں صلح کا راستہ اختیار کریں، صلح سراپا خیر ہے، دیکھو خود غرضی طبیعتوں میں رچی بسی ہوئی ہے، اس سے لا پرواہ مت ہوجاؤ، اور اگر تم احسان اور تقوی کی روش اختیار کرو گے تو یہ بہت بہتر ہوگا، تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔‘‘ (سورۃ نساء 128)

قرآن کی تلاوت کریں، قرآن کا پیغام سنیں

قرآن کی تلاوت کریں، قرآن کا پیغام سنیں
محی الدین غازی
قرآن مجید کی تلاوت بہت مبارک اور نہایت مفید عمل ہے۔ بگڑتی اور خراب ہوتی اس دنیا کو سنبھالنے اور بہتر بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ قرآن مجید کی تلاوت ہے۔ اپنے آپ کو بنانے اور سنوارنے کا بھی ایک ہی راستہ ہے اور وہ بھی قرآن مجید کی تلاوت ہے۔ تلاوت اپنے آپ میں نیکی کا کام ہے، اور تلاوت سے نیکیوں کے سب راستے بھی روشن ہوتے جاتے ہیں۔ جس عظیم کلام کی تلاوت کرتے ہوئے انسانوں کی زندگی میں نیکیوں کی بہار آجائے، اس کے ایک ایک حرف کے بدلے دس دس نیکیوں کا ثواب مل جانا تعجب کی بات نہیں ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت سے انسان کو حقیقی علم حاصل ہوتا ہے۔ تلاوت کرتے ہوئے معلوم ہوتا رہتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں سے کب کیا چاہتا ہے۔ اتنی اہم بات تلاوت کے بغیر معلوم ہی نہیں ہوسکتی۔ اس زندگی میں ایک بندے کے لئے سب سے اہم دریافت یہ ہے کہ اسے اپنے رب کی پسند اور ناپسند یقینی طور سے معلوم ہوجائے۔ یہ دریافت عظیم ترین کامیابی کی شاہ کلید ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت کا اثر زندگی پر نظر آنا چاہئے، اتنا واضح اثر کہ ہر کوئی اسے محسوس کرلے۔ اگر تلاوت کا کوئی اثر زندگی پر نظر نہیں آتا تو سمجھ لو کہ تلاوت کے عمل میں کوئی بڑی کمی رہ گئی ہے، یا تو سمجھے بغیر محض قرآن خوانی ہورہی ہے، یا پھر دماغ سمجھ رہا ہے مگر دل اثر نہیں لے رہا ہے۔ تلاوت کے عمل میں زبان اور دماغ کے ساتھ ساتھ دل کی شرکت نہایت ضروری ہے۔
ضروری ہے کہ تلاوت کرنے والے کی زندگی تلاوت کے ساتھ ساتھ ہر لحظہ بہتر ہوتی جائے، دیکھنے اور سوچنے کا انداز بدلے، لوگوں کے ساتھ پیش آنے کا طریقہ بدلے، چاہتیں اور نفرتیں بدلیں، فکرمندیاں اور اندیشے بدلیں۔ غرض تلاوت کے ذریعہ شخصیت کے ہر پہلو کی اصلاح ہوتی رہے، اور زندگی خوب سے خوب تر ہوتی جائے۔ جس تلاوت سے زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی نہ ہو سکے وہ تلاوت خود اصلاح طلب ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت کرنا حقیقت میں بلندیوں کا سفر طے کرنا ہے، وہ بلندیاں جو صرف تلاوت کرنے والے کے حصے میں آسکتی ہیں۔ جو شخص دنیا میں قرآن مجید کی تلاوت کا حق ادا کرے گا، قیامت کے دن اس سے کہا جائے گا: جس طرح تم دنیا میں تلاوت کرتے تھے، اب یہاں بھی تلاوت کرتے ہوئے جنت کی بلندیوں کو سر کرتے جاؤ، جس بلندی پر تمہاری تلاوت کا سلسلہ رکے گا وہی بلندی تمہارا مقام قرار پائے گی۔ دانائی کا تقاضا ہے کہ یہاں زندگی کی آخری سانس تک تلاوت کا سلسلہ جاری رہے، تاکہ وہاں جنت میں اونچے سے اونچا مقام حاصل ہوسکے۔
تلاوت کرتے ہوئے انسان سوچے کہ قرآن مجید کی رو سے اس کی پہچان کیا بننی چاہئے۔ اگر تلاوت کرنے والے کو قرآن مجید میں سب سے زیادہ زور ایمان اور عمل صالح پر نظر آئے، تو یہی خوبی اس کی پہچان بن جائے۔ وہ سارے انسانوں میں سب سے زیادہ مضبوط ایمان والا، اور سارے انسانوں میں سب سے زیادہ اچھے کام کرنے والا ہوجائے۔ اس کے ایمان کی مضبوطی پر پہاڑ تعجب کریں، اور اس کے کردار کی بلندی پر ستارے رشک کریں۔
تلاوت کرتے ہوئے انسان غور سے دیکھے کہ قرآن مجید میں کن کاموں کا حکم بار بار دیا گیا ہے، تلاوت کے نتیجے میں وہ سارے کام زندگی میں بھی اسی کثرت سے نظر آنے لگیں، جس کثرت سے قرآن مجید کی آیتوں میں نظر آتے ہیں۔ بار بار قرآن مجید ختم کرنے والے ایک بار اس طرح بھی ختم کرکے دیکھیں۔
قرآن مجید کی ایسی تلاوت مطلوب نہیں ہے جس میں زبان تلاوت سے تر ہوتی رہے اور باقی پورے وجود میں سوکھا پڑا رہے۔ قرآن مجید زندگی بخش کلام ہے، اس کی تلاوت بھی زندگی سے بھرپور ہونی چاہئے۔ تلاوت ایسی ہو کہ زبان قرآن مجید کی تلاوت کرے اور دل ودماغ کان لگا کر پوری توجہ سے قرآن مجید کا پیغام سنیں۔ تلاوت اس طرح ہو کہ تلاوت کرنے والوں کے دل ودماغ کا تزکیہ کرتے ہوئے قرآن مجید کا پیغام دوسرے انسانوں تک پہونچنے لگے۔ قرآن مجید میں اسی طرح تلاوت کرنے کو کہا گیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنا دراصل قرآن مجید کا پیغام خود کو اور پھر سارے انسانوں کو سنانا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہورہا ہو، تو سمجھ لو کہ قرآن مجید کی تلاوت اس طرح نہیں ہورہی ہے جس طرح ہونی چاہئے۔
روز بروز بڑھتی اور سر چڑھتی ہوئی مادی ضرورتوں نے شہر کی سڑکوں ہی کو مصروف نہیں کیا ہے، فرد کے اندرون کو بھی بری طرح بھیڑ بھاڑ کا شکار بنادیا ہے۔ نہ دل میں ایمان ویقین کے لئے جگہ چھوڑی ہے، اور نہ زندگی میں اچھے کاموں کے لئے کوئی فرصت رکھی ہے۔ اگر دل یقین سے خالی ہوجائیں، اور زندگی اچھے کاموں سے عاری ہوجائے تو پھر انسان کے پاس کتے کی طرح ہانپتے رہنے کے سوا کیا رہ جاتا ہے۔ ذلت اور تکلیف کی اس کیفیت کا مداوا صرف قرآن مجید میں ہے۔ قرآن مجید ہی میں وہ قوت اور تاثیر ہے جو دل کو ایمان ویقین سے روشن کردے اور زندگی کو اچھے کاموں سے آراستہ کردے۔
قرآن مجید کی تلاوت اس طرح کریں کہ تلاوت کا حق بھی ادا ہو، اور زندگی میں تلاوت کی برکتیں بھی ظاہر ہوں۔ اس کے لئے تلاوت کے ساتھ ساتھ ترجمہ پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن سمجھے بغیر تلاوت کرنے میں مضائقہ ضرور ہے۔