قرآن کا مردِ اوصاف

قرآن کا مردِ اوصاف
محی الدین غازی
ایس آئی او آف انڈیا کے کل ہند انتخابی اجلاس کی طرف سے حکم ملا کہ ’’قرآن مجید میں مومنوں کے اوصاف ‘‘ کے موضوع پر تذکیر کرنا ہے۔ موضوع پر غور کرنا شروع کیا تو ایک نئی تعبیر تک رسائی ہوئی ’’قرآن کا مردِ اوصاف‘‘۔ بہت ممکن ہے کسی اور کے لئے یہ پرانی بات ہو، لیکن میرے لئے یہ ایک تازہ دریافت تھی۔ اس تعبیر کی برکت سے بہت سے خیالات کو ذہن میں آنے کا راستہ ملا۔ اور اس موضوع پر بہت کچھ لکھنے کا ذہن بنتا گیا۔ کچھ افکار تذکیر میں پیش کئے، اور کچھ نکات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
قرآن مجید میں اہل ایمان کے اوصاف کو اتنی کثرت اور اتنے اہتمام کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، جیسے صالحین، صادقین، أبرار، أخیار، متقین، محسنین، أولی الالباب اور بہت سے دوسرے اوصاف۔ کہ گویا قرآن مجید کا اصل مقصود ایمان والوں کو اوصاف والا بنا دینا ہے۔ یہ اوصاف ایسے ہیں کہ ان پر جتنا غور کریں یقین بڑھتا جاتا ہے کہ قرآن مجید کا مردِ اوصاف کائنات کی وجیہ ترین، مفید ترین اور عظیم ترین مخلوق ہوتا ہے، اس مردِ اوصاف کو نہ فلسفی کی دانش گاہ تیار کرسکتی ہے، اور نہ صوفی کی خانقاہ بناسکتی ہے، وہ صرف قرآن مجید کے سائے میں تیار ہوسکتا ہے، کیونکہ اس کے قالب اور سانچے صرف قرآن مجید کے پاس پائے جاتے ہیں۔
تزکیہ نفس قرآن مجید کی تلاوت وتعلیم کا اصل مقصود ہے، اور تزکیہ نفس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ مومن اعلی اوصاف سے آراستہ ہوجائے۔ ان اعلی اوصاف کا تذکرہ قرآن مجید میں بہت اہتمام کے ساتھ کیا گیا ہے۔ افکار ہوں، یا کردار، رویہ ہو یا اعمال، قرآن مجید ان تمام ابواب میں اعلی ترین اوصاف کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ جو جس قدر قرآنی اوصاف اختیار کرتا جاتا ہے، اسی قدر تزکیہ کی منزلیں طے ہوتی جاتی ہیں۔
گزارنے والے دینی زندگی کو بھی کئی طرح سے گزارتے ہیں، ایک زندگی میں بس دعوائے ایمان ہوتا ہے، ایک زندگی میں ایمان کے ساتھ کچھ اعمال بھی ہوتے ہیں، اور ایک زندگی ایمان کے نور سے روشن، بہترین اعمال سے آراستہ اور اعلی ترین اوصاف سے مزین ہوتی ہے، یہی وہ زندگی ہے جس کے خدوخال پورے قرآن مجید میں بیان کئے گئے ہیں۔
اعمال بے ثمر ہوجاتے ہیں، جب وہ غفلت کے پردے میں چھپ جاتے ہیں، یا عادتوں کی بھیڑ میں گم ہوجاتے ہیں۔ اعمال کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر وقت تروتازہ رہیں، اور اعمال کی معراج یہ ہے کہ وہ شخصیت کا وصف بن جائیں۔ اعمال اوصاف اس وقت بنتے ہیں جب ان سے بے پناہ محبت ہوجاتی ہے۔ محبت کے لئے محرکات ضروری ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کا کمال یہ ہے کہ وہ دل کے اندر محبت کے محرکات جگادیتا ہے۔ اور یہ بھی قرآن مجید کا کمال ہے کہ وہ ان محبت جگانے والے محرکات کو بھی اوصاف بنادیتا ہے، اور اس طرح ان سے تحریک پانے والے اعمال شخصیت سے جدا نہیں ہونے والے اوصاف بن جاتے ہیں۔ یہ اوصاف مومن کی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان سے وہ کبھی دست بردار ہونا پسند نہیں کرتا ہے۔
ایک سچا فنکار اپنی ہر تخلیق کو محنت، لگن، توجہ اور دلچسپی کے ساتھ ایک شاہ کار بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ کبھی اپنے فن کی توہین گوارا نہیں کرتا ہے۔ اسی طرح قرآن کے مردِ اوصاف کی زندگی ایک بے نظیر آرٹ گیلیری ہوتی ہے، جس میں وہ بہترین اعمال واوصاف کے خوب صورت فن پارے آویزاں کرتا رہتا ہے۔ ایک سچے فن کار کی طرح مردِ اوصاف بھی اپنے کسی عمل کو معیار سے گرنے نہیں دیتا ہے۔ اسے ہر وقت اپنے اوصاف کی عظمت کا خیال رہتا ہے۔ عبادت کو پابندی اور بے رغبتی سے وہ لوگ انجام دیتے ہیں، جن کے لئے عبادت ایک عادت، ایک ڈیوٹی، یا ایک موسمی سرگرمی ہوتی ہے، مگر زندگی کی ایک مایہ ناز صفت نہیں ہوتی ہے۔
قرآن مجید میں اہل ایمان کے لئے بہت سے اوصاف بیان کئے گئے ہیں، اور ان میں سے ہر وصف ایسا بامعنی اور بابرکت محسوس ہوتا ہے گویا کہ وہ تنہا کامیابی کا ضامن ہے۔ البتہ متقین اور محسنین، یہ دو اوصاف قرآن مجید میں اوصاف رئیسہ کے طور پر بہت زیادہ اہتمام کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ یہ وہ اوصاف ہیں جوعمل کے جسم میں روح ڈال دیتے ہیں۔ متقین ومحسنین کی نمازیں روزے حج اور قربانیاں بے روح نہیں ہوتی ہیں، ان میں زندگی کی بھرپور حرارت ہوتی ہے۔ یہ دو اوصاف زندگی کے تمام معاملات اور فیصلوں کو بھی نہایت حسین بنادیتے ہیں، متقین ومحسنین کے نکاح بھی حسین وجمیل ہوتے ہیں، اور طلاق کی بھی جداگانہ شان ہوتی ہے۔
قرآن مجید سے تعلق کا اصل حق یہ ہے کہ اس کی تلاوت اور اس کا مطالعہ قرآن کے مردِ اوصاف سے واقف ہونے اور وہی بن جانے کے ارادے سے کیا جائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں