قیام لیل کیسے کریں؟

قیام لیل کیسے کریں؟
محی الدین غازی
کیا آپ جانتے ہیں؟
 رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو تہجد پڑھتے تھے جبکہ ان کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہوچکے تھے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم بیماری میں بھی تہجد کی نماز نہیں چھوڑ تے تھے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سفر کی حالت میں بھی تہجد کی نماز پڑھا کرتے تھے۔
 رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں بھی قیام لیل نہیں چھوڑ تے تھے۔
قیام لیل کی فضلیت
 دن کا مجاہد رات کا عابد سچے مومن کی پہچان ہے۔ جس کی رات گھاٹے میں گئی اس کا دن نفع بخش ہو ہی نہیں سکتا۔ دن کی محنت تو رات کی عبادت ہی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
 سورہ سجدہ میں رات کے عبادت گزاروں کی تصویر بڑے خوب صورت اور دلآویز انداز سے پیش کی گئی ہے۔
 تتجافی جنوبھم عن المضاجع یدعون ربھم خوفا و طمعا ومما رزقناھم ینفقون۔ فلا تعلم نفس ما أخفی لھم من قرۃ أعین جزاء بما کانوا یعملون۔
 ترجمہ: (ان کے پہلو خواب گاہوں سے دور ہوتے ہیں۔ وہ اپنے رب کو خوف اور طلب کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو ہم نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ تو کوئی نہیں جانتا کہ ان کے لیے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چھپاکر رکھی گئی ہے ان کے کاموں کے بدلے میں۔)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام لیل کی چار نمایاں خصو صیات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’ قیام لیل کے پابند ہو جاؤ کیوں کہ
(۱) یہ تم سے پہلے کے صالحین کا شیوہ رہا ہے،
(۲)یہ رب سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے،
(۳) یہ گناہوں کی معافی کا سبب ہے
(۴) اور یہ گناہوں سے باز رہنے کی تدبیر ہے۔‘‘
امام حسن بصریؒ نے کہا:
’’رات کی نماز سے زیادہ سخت عبادت میں نے نہیں دیکھی‘‘۔
ان سے جب پوچھا گیا: تہجد گذاروں کے چہرے اتنے اچھے کیوں ہوتے ہیں؟
 انہوں نے جواب دیا: ’’تنہائی میں رحمان سے محومنا جات ہوئے تو رحمان نے انہیں اپنے نور کی خلعت سے نوازا‘‘۔
 عام راتوں کی عبادت کی فضیلت میں یوں توبہت ساری آیتیں ، حد یثیں اور اقوال ملتے ہیں۔ لیکن رمضان کی راتوں کی فضیلت جدا گانہ ہے، ارشاد نبوی کے مطابق :
 ’’جس نے رمضان کی راتوں کو ایمان و اخلاص کے ساتھ عبادت میں گزارا، اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔‘‘
 پھر بالخصوص رمضان کے آخری دس روز کے سلسلے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی اہتمام منقول ہے کہ جب آخری عشر ے کا آغاز ہوتا تھا تو کمر کس لیتے تھے، اہل خانہ کو جگاتے تھے اور رات کو زندہ کر دیتے تھے۔ یہ بیان حضرت عائشہ کا ہے اور رات کو زندہ کر دینے کا مفہوم وہی سمجھ سکتا ہے جو شب بیداری اور دعائے نیم شبی کے تجر بات سے گزر چکا ہو۔
محر کات
ایک مرتبہ رسول پاک نے حضرت عبداللہ بن عمر کے سلسلے میں کہا:
 ’’عبد اللہ بہت اچھا آدمی ہے اگر وہ رات میں عبادت بھی کرنے لگے‘‘۔ سالم کا بیان ہے کہ پھر عبداللہ نے اپنی نیند بہت گھٹا دی اور تاحیات قیام لیل کے معمول پر قائم رہے۔
 دراصل رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عبداللہ بن عمرؓ کے سلسلے میں شہادت اور پھر یہ لطیف اشارہ ایک بہت بڑا محرک تھا۔ جس کی تحریک نے انہیں تا حیات شب بیداری پر قائم رکھا۔
 ہمارے لیے بھی سارے محرکات اور معاون ذرائع موجود ہیں جن کا اہتمام کیا جائے تو اس عظیم عبادت کا پابند ہونا مشکل نہیں ہے۔ علماء کرام نے اس سلسلے میں بہت کچھ ذکر کیا ہے:
جہنم کا خوف اور جنت کی طلب
 ایک بزرگ کا کہنا تھا: جہنم کے تصور نے عبادت گذاروں کی نیند اڑا دی۔ دوسرے بزرگ کے بقول : جب میں جہنم کو یاد کرتا ہوں تومیں بے حد خوف زدہ ہو جاتا ہوں اور جنت کو یاد کرتا ہوں تو اس کی طلب بے پناہ ہو جاتی ہے۔ دراصل یہی خوف اور یہی طلب قیام لیل کا محرک بنتی ہے۔
گناہ اور نا فر مانی سے اجتناب
 فضیل بن عیاض کہا کرتے تھے: جب تم یہ دیکھو کہ رات کو اٹھ نہیں پاتے ہو اور دن میں روزہ نہیں رکھ پاتے ہوتو سمجھ لو کہ تم بد نصیب ہو اور بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہو۔ یہ بیڑیاں تمہارے گناہ ہیں جنہوں نے تمہیں جکڑ رکھا ہے۔
 حسن بصری سے ایک آدمی نے پوچھا کہ میں اچھا خاصا سوتا ہوں، رات میں اٹھنا بھی چاہتا ہوں وضو کا پانی بھی رکھ دیتا ہوں پھر آخر کیوں نہیں اٹھ پاتا ہوں؟ انہوں نے جواب دیا: تمہارے گناہوں نے تمہیں باندھ رکھا ہے۔
 امام ثوری کا تجربہ ہے کہ محض ایک گناہ کی وجہ سے پانچ مہینے تک قیام لیل سے محروم رہے۔
منا جات رب کی لذت کا تصور
 ابوسلیمان کہتے ہیں رات کو اٹھنے والوں کو عبادت کرنے میں اتنا مزہ آتا ہے جتنا عیاشی کرنے والوں کو آہی نہیں سکتا، اور اگر رات نہ ہوتی تو میں دنیا میں رہنا ہی پسند نہیں کرتا۔
 ایک بزرگ نے اپنے مریدوں کو خطاب کرکے کہا: زیادہ مت کھاؤ ورنہ زیادہ پانی بھی پیوگے، زیادہ سونا بھی پڑے گا اور انجام کار زیادہ گھاٹے میں رہوگے۔
زیادہ عیش کوشی سے اجتناب
 حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: ’’اے بیٹے جب معدہ زیادہ بھر جاتا ہے تو سوچنے کی طاقت سوجاتی ہے، حکمت و دانائی گونگی ہو جاتی ہے اور جسم کے اعضاء عبادت سے جی چرانے لگتے ہیں۔
 بعض بزرگوں سے منقول ہے کہ وہ چھت پر یا صحن خانہ میں سویا کرتے تھے اور نرم بستر سے پرہیز کرتے تھے تاکہ گہری نیند نہیں آجائے۔
قیام لیل کی نیت کرتے ہوئے جلد سونے کی عادت
 حضرت عمر بن خطابؓ کا معمول یہ تھا کہ عشا ء کی نماز کے بعد لوگوں کو کوڑے سے مارتے تھے اور کہتے تھے رات کے پہلے حصے میں گپ بازی کرتے ہو اور آخری حصے میں پڑے سوتے رہتے ہو۔
 بزرگوں کا تجربہ ہے کہ آدمی سچے دل سے جس وقت اٹھنے کی نیت کرتا ہے اس کی آنکھ اس وقت کھل جاتی ہے۔ بصورت دیگر جو بھی تدبیریں ہوسکتی ہوں بیدار ہونے کی انہیں آزمانا چاہیے خواہ وہ الارم گھڑی ہو یا ٹیلیفون الارم۔
 بعض لوگ تہجد گروپ تشکیل دیتے ہیں اور ان میں سے جس کی آنکھ پہلے کھل جاتی ہے وہ تمام لوگوں کو فون کی گھنٹی سے ہوشیار کر دیتا ہے۔
دن کی مختصر نیند
 جسے عربی میں قیلولہ کہا جاتا ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سحری کھا کر دن کا روزہ رکھنے کی قوت پاؤ اور قیلولہ سے قیام لیل میں مدد حاصل کرو۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس قدر تاکید کی کہ ’’قیلولہ کیا کرو کیونکہ شیطان قیلولہ نہیں کرتے ہیں‘‘۔ ظاہر ہے شیطان کو تہجد تو پڑھنا نہیں ہوتی ہے پھر وہ قیلولہ کس لیے کرے گا۔
نہیں اٹھنے پر سزا کا تعین
 صحابی رسول تمیم دارمیؓ کے سلسلے میں بیان ہوا ہے کہ ایک بار پوری رات سوتے رہ گئے، اس کی سزا انہوں نے اپنے آپ کو یوں دی کہ ایک سال تک نہیں سوئے۔ ممکن ہے اس میں راوی سے کچھ مبا لغہ ہوگیا ہو، لیکن یہ تصور تو اس واقعہ سے یقیناًملتا ہے کہ آدمی اپنی کوتا ہی پر خود اپنے طور سے سزا تجویز کرکے نفس کو اطا عت و عباد ت کا خوگر بنا سکتا ہے۔
اعا نت اور توفیق کی دعا
 سو جانے کے بعد دو بار ہ آدمی صرف اللہ کے حکم اور فیصلے سے بیدار ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ سے اعانت اور تو فیق کی دعا مانگتے رہنا چاہیے۔
اسلاف کی زندگی کا مطالعہ
 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شب بیداری کے احوال صحابہ کرامؓ، تابعین اور دیگر بز رگان دین کی راتوں کی عبا دتوں کے احوال و واقعات پڑھ کر بھی حوصلہ ملتا ہے، تحریک پیدا ہوتی ہے۔
عادت
 عادت بذات خود ایک محرک ہے، اللہ پاک نے جس کام کا بھی حکم دیا ہے وہ بالیقین آسان (یسر ) ہوتا ہے۔ نفس کا عادی نہ ہونا اسے مشکل بنا تا ہے۔ اگر آدمی خود کو اس کا عادی بنالے تو پھر اسے اس کام میں اتنا مزا آئے گا کہ وہ پھر اس کے بغیر زندگی بے کیف ہی محسوس کرے گا۔
کچھ رہ نماباتیں
 * رات کی عبادت اندھیرے میں ہونا چا ہیے، روشنی اور بالخصوص تیز روشنی خشوع کی راہ میں حجاب بن جاتی ہے۔ برقی قمقموں کا رو حانی تجلیات کے ساتھ اجتماع بہت مشکل ہوتا ہے۔
 * نماز انفرادی ہو، تنہائی میں ہو اور آواز ہلکی بلند ہو۔ نہ بالکل ایسی کہ خود کو سنائی نہ دے، نہ بالکل بلند، ہلکی گنگنا ہٹ سی ہو، رات کی نماز کے بارے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت ابو بکرؓ کو ہدایت دی کہ آواز کچھ بلند رکھیں اور حضرت عمرؓ کو ہدایت دی کہ آواز کچھ پست رکھیں۔
 * قیام ، رکوع اور سجدے خوب لمبے ہوں۔ حالت قیام میں لمبی سورتوں کی تلاوت کرے، نہیں یاد ہوں تو ایک ہی رکعت میں متعددچھوٹی سورتوں کی تلاوت کرے، اور وہ بھی یاد نہ ہوں تو ایک دو سورتوں کو ہی بار بار پڑھے۔
 * رکوع اور سجدے کی حالت میں تسبیح بار بار پڑھنی چاہیے تین یا سات کی قید ضروری نہیں ہے۔ سجدے کی حالت میں تسبیح کے علاوہ دعائیں بھی مانگی جائیں۔ ایک ایک دعا کو بار بار دہرا یا جائے ۔ کبھی کبھی عام افراد کو الجھن سی ہوتی ہے کہ لمبی نماز یں کس طرح پڑھیں۔مذ کورہ مشور ے اس بارے میں مفید ہوں گے۔
 * قیام لیل کے اعمال میں نماز ،تلاوت کلام پاک، ذکر و دعا اور غور و تد برسب شامل ہیں۔ تاہم نماز افضل ترین اور جامع ترین عمل ہے۔ اس کے بغیر قیام لیل کا تصور ہی نہیں ہے۔
 * رات کی نماز اور بالخصوص رمضان کی راتوں کی خاص دعا ہے۔ اللہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی (اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے۔ معاف کرنا تجھے پسند ہے۔ ہمیں معاف کر دے۔) یہ چھوٹی سی دعا ہمارے قیام لیل کو بہت بابرکت اور نفع بخش بنا سکتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں