لوگ تعریف کریں، تو آپ کیا کریں؟

لوگ تعریف کریں، تو آپ کیا کریں؟
محی الدین غازی
انسان کے لئے بہت بڑا فتنہ یہ ہے کہ وہ خود اپنے سلسلے میں خوش فہمی کا شکار ہوجائے، اور اسے اپنی ذات خود اپنی نگاہ میں عیوب سے پاک اور کمالات سے متصف نظر آنے لگے۔ نفس کی مٹی میں اس فتنے کے بیج تو شیطان بوتا ہے، لیکن دوسروں کی تعریف اس بیج کو سیراب کرکے تناور درخت بنادیتی ہے، اس کے بعد انسان کی ساری توانائی ’’اپنے منھ اپنی تعریف‘‘کے ذریعہ اس درخت کی پرورش میں خرچ ہوتی ہے۔ اس کے بعد کبھی انسان اپنے جی میں اتراتا ہے اور کبھی سب کے سامنے اتراتا ہے۔
یاد رہے، تعریف سے یہاں وہ تعریف مراد نہیں ہے، جو کوئی کسی کے منھ پر کرتا ہے، کہ اس شخص سے منھ پھیر لینا، یا اس کا منھ کسی اور طرف پھیر دینا فورا مطلوب ہے۔ یہاں دراصل وہ تعریف مراد ہے جو لوگوں کے درمیان ہونے لگے، اور گردوپیش میں سنائی دینے لگے۔ ضروری سوال ہے کہ ایسے میں پھر کیا کرنا چاہئے؟
آٹھویں صدی ہجری کے شیخ ابن عطاء اللہ اسکندرانی رحمۃ اللہ علیہ اسلامی تاریخ کے ممتاز حکماء میں شمار ہوتے ہیں، وہ تزکیہ نفس اور تربیت ذات کے ماہر اور دانائے راز تھے، ان کی کتاب ’’الحکم العطائیۃ‘‘ میں حکمت ودانائی کے شاہ پارے سجے ہوئے ہیں، اور ماہرین تربیت کے بہت کام آتے ہیں۔ اس اہم مسئلے پر بھی ان کے یہاں ہمیں قیمتی رہنمائی ملتی ہے۔ یہاں ہم قارئین کی خدمت میں ان کے الفاظ اور اپنا استفادہ پیش کریں گے۔
دوسروں کی تعریف سن کر مگن ہو جانے والے اپنے لئے غفلت کا سامان تیار کرتے ہیں، ابن عطاء اللہ اس فتنے سے نکل بھاگنے کے راستے بتاتے ہیں، وہ یاد دلاتے ہیں کہ انسان خود اپنے بارے میں جو کچھ جانتا ہے وہی یقین کا درجہ رکھتا ہے، اور دوسرے اس کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں وہ محض ان کا گمان ہوتا ہے جو صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی ہوسکتا ہے، اس لئے انسان ہمیشہ یہ دیکھے کہ اس کے بارے میں خود اس کی اپنی معلومات کیا کہتی ہیں، اور پھر اپنی معلومات کی بنیاد پر اپنی شخصیت کی اصلاح وتعمیر کے منصوبے بنائے۔ جو منصوبے درست معلومات کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں وہی کامیابی کی نوید سناتے ہیں، اور جو منصوبے غلط معلومات کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں، ان کا ناکام اور بے نتیجہ ہونا عین ممکن ہوتا ہے۔ ابن عطاء اللہ کے الفاظ ہیں:’’سب سے نادان شخص وہ ہے جو اپنے سلسلے میں دوسروں کی ظنی معلومات کی بنا پر اپنی یقینی اور قطعی معلومات پس پشت ڈال دے‘‘أجهل الناس من ترك يقين ما عنده لظن ما عند الناس.
جب انسان دیکھے کہ لوگ اس کے سلسلے میں محض خوش گمانی کی بنیاد پر اس کی تعریف کررہے ہیں، اور اس کو خدا ترس، نیک وپارسا، مرد کامل اور علامہ وقت قرار دے رہے ہیں، تو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو اپنی تنقیدی نگاہ سے دیکھے، وہ اپنے ان عیوب اور خامیوں پر نظر رکھے جو اس کے اندر موجود ہیں، اور جن سے وہ اچھی طرح واقف ہے، پھر وہ ان کو سختی کے ساتھ نشانہ ملامت بنائے۔ عام حالات میں ہوسکتا ہے خود ملامتی پسندیدہ بات نہیں ہو، لیکن جس وقت دوسرے کسی کی خوبیوں پر روشنی ڈال رہے ہوں اس وقت اس کے لئے اپنی خامیوں کو خود اپنے سامنے لانا بہت ضروری ہوجاتا ہے، ورنہ دوسروں کی تعریف اپنی خامیوں کے لئےحجاب بن جاتی ہے، پھر انسان کو اپنے اندر وہی نظر آتا ہے جو لوگ اپنے اندازے سے بتاتے ہیں اور وہ نظر نہیں آتا جو واقعی ہوتا ہے، اور اس طرح تعمیر شخصیت کا منصوبہ ادھورا اور دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ ابن عطاء اللہ کہتے ہیں:’’لوگ محض اپنے گمان کی بنا پر تمہاری تعریف کرتے ہیں، اس لئے تم اپنے علم ویقین کی روشنی میں اپنے آپ پرنکتہ چینی کرو‘‘الناس يمدحونك لما يظنونه فيك، فكن أنت ذاما لنفسك لما تعلمه منها.
ایک مومن کے لئے انسانوں سے زیادہ خود اپنے علم کی اور سب سے زیادہ اللہ کے علم کی اہمیت ہوتی ہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ وہ خوبیاں اس درجے میں اس کے اندر ہیں ہی نہیں جن کا حوالہ دے کر لوگ اس کی تعریف کررہے ہیں، تو اسے اللہ سے شرم آتی ہے، کیونکہ کوئی اور جانے یا نہ جانے لیکن اللہ تو جانتا ہے کہ وہ ان تعریفوں کے لائق نہیں ہے،اللہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کررہے ہیں، اور اللہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ وہ ان تعریفوں سے خوش ہورہا ہے۔ یہیں پر ایک مومن کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے سامنے دوسروں کی زبانی اپنی جھوٹی تعریف سے شرماتا ہے، یا ڈھٹائی کے ساتھ علییم وخبیر کے سامنے ہوتے ہوئے بھی ان ناحق تعریفوں پر یقین کرتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ابن عطاء اللہ کے الفاظ میں: ’[مومن کی جب تعریف ہورہی ہوتی ہے تو اسے اللہ سے شرم آتی ہے کہ اسے ان خوبیوں سے آراستہ بتایا جارہا ہے جو خود وہ اپنے اندر نہیں دیکھتا ہے‘‘المؤمن إذا مدح استحيا من الله أن يثنى عليه بوصف لا يشهده من نفسه.
لوگوں سے اپنی تعریف سن کر بندے کے سامنے ایک اور اہم حقیقت بے نقاب ہوجانی چاہئے، اسے سوچنا چاہئے کہ میں تو تعریف کا اہل نہیں ہوں پھر بھی اللہ نے میری تعریف کے دروازے کھول دئے ہیں، جبکہ اللہ کے لئے تو ساری حمد ہے، وہی مدح وثنا کا حقیقی سزاوار ہے، اور میں اس محمود حقیقی کی حمد وثنا میں اس قدر کوتاہ ہوں۔ وہ باور کرے کہ اگر لوگوں کے درمیان میری ناحق تعریف ہورہی ہے، تو یہ اللہ کی طرف سے تنبیہ ہے، کہ میں فرض بندگی کو یاد کروں، اور اپنی تعریف میں خود شریک ہوجانے کے بجائے، اپنی ساری توجہ مدح وثنا کے سزاوار حقیقی کی حمد وتعریف کی طرف مرکوز کردوں، اور اس طرح اس میں مشغول ہوجاؤں کہ مجھے دوسروں کی تعریف سنائی ہی نہیں دے۔بندہ مومن کی شان یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی تعریف سننے کا شوق نہیں رکھتا ہے بلکہ اللہ کی تعریف کرنے کا شوق رکھتا ہے، اور اگر اسے کہیں گردوپیش میں اپنی تعریف سنائی دے تو اسے ایک یاد دہانی سمجھ کر وہ اور زیادہ اللہ کی تعریف میں لگ جاتا ہے۔ ابن عطاء اللہ کے الفاظ میں: ’’جب وہ تمہارے نااہل ہونے کے باوجود تمہاری تعریف ہونے دے، تو تم اس کی وہ تعریف کرو جس کا وہ اہل ہے‘‘إذا أطلق الثناء عليك ولست بأهل، فأثن عليه بما هو أهله.
بے حقیقت اور دروغ آمیز تعریفوں سے دھوکہ نہ کھا کر اپنی تعمیروترقی کے لئے فکر مند رہنا افراد پر بھی واجب ہے،اداروں پر بھی اور جماعتوں پر بھی۔ صبح سے شام تک ’’لائیک‘‘ اور ’’بہت خوب‘‘ شمار کرنے اور نفس کو موٹا کرنے کے اس زمانے میں حکیم ابن عطاء اللہ کی نصیحتوں کا مناسب حال ہونا (Relevance) اور بڑھ گیا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں