قربانی کی چاہ اور قربانی کی شان

قربانی کی چاہ اور قربانی کی شان
محی الدین غازی
اللہ کے دین اور اس کے راستے کی ایک شان ہے، دین خدا اور راہ خدا کے لئے کچھ بھی کیا جائے یا دیا جائے شایان شان ہونا چاہئے، یہ نکتہ عرب کے ایک بدو کی سمجھ میں آیا اور خوب آیا، اس کے پاس پچیس اونٹ تھے جن کی کل زکاۃ ایک سال کا اونٹ کا ایک بچہ ہوتی تھی، زکاۃ کی وصولی پر مامور صحابیِ رسول نے جب اس سے حسب قاعدہ ایک سال کا اونٹ کا بچہ مانگا تو اس نے حیران ہوکر کہا، اللہ کے راستے میں ایک سال کا بچہ؟ یہ تو نہ دودھ دے نہ سواری کے کام آئے۔ اللہ کے راستے کے لئے لینا ہے تو بھرپور اور توانا اونٹنی لے کر جائیے۔
دل میں چاہ ہو تو صدیق اکبر جیسا ایک فرد اپنا سارا اثاثہ راہ خدا میں لاکر پیش کردیتا ہے، اور چاہ سے دل خالی ہو تو پوری قوم مل کر ایک عدد جانور قربان کرنے کو تیار نہیں ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کی روداد یہی بتاتی ہے۔ سورہ بقرہ میں گائے کی قربانی کے واقعہ کو ہم بار بار پڑھتے ہیں، لیکن عموماً ہماری توجہ بنی اسرائیل کے سوالوں تک جاکر کے رک جاتی ہے اور ہم بنی اسرائیل کو ملامت کرتے ہوئے بات ختم کردیتے ہیں کہ کس قدر غیر ضروری سوالات وہ کیا کرتے تھے۔ بلاشبہ بنی اسرائیل اپنی اس عادت کے لئے قابل ملامت ہیں۔
یہ سوالات بے تکے تھے اور ایک بگڑی ہوئی قوم کے تھے جس کے لئے نبیوں کو قتل کرنا آسان تھا، لیکن مل کر ایک گائے کو قربان کرنا بار گراں تھا۔ تاہم ان سوالوں کے جوابات بڑے اہم ہیں کیونکہ وہ اللہ کے جوابات ہیں جو ایک برگزیدہ پیغمبر کے ذریعہ پہونچائے گئے ہیں۔ امت مسلمہ کے لئے بھی وہ بہت اہم ہیں، کیونکہ انہیں قرآن مجید میں قدرے تفصیل کے ساتھ امت کی نصیحت کے لئے محفوظ کیا گیا ہے۔
ان جوابوں سے نصیحت لینے کا ایک زاویہ یہ ہے کہ بندہ خدا خود کو بھی قربانی کے لئے مطلوب اس گائے کے ساتھ قربان گاہ میں کھڑا کرکے دیکھے، اور سوچے کہ اگر وہ گائے کی جگہ اپنی زندگی اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے پیش کرتا ہے، تو وہ اور اس کی زندگی ان جوابوں پر کتنے صادق آتے ہیں۔
پہلے سوال کے جواب میں کہا گیا کہ قربانی کی گائے نہ بالکل ہی کم سن ہو اور نہ بوڑھی ہو بلکہ درمیانی عمر کی ہو، گائے کی طرح انسان کی زندگی کے بھی تین حصے ہیں بکر، فارض اور عوان۔ کمزور بچپن، لاغر بڑھاپا اور دونوں کے بیچ کی جوانی اور توانائی سے بھرپور بہترین عمر۔ اللہ کے لئے جو اپنی زندگی وقف کرنا چاہتے ہیں، اور جو اپنی اس زندگی کو لگا کر اللہ کے دین کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں انہیں بچپن اور بڑھاپے کے درمیان کی زندگی کا انتخاب تو ضرور ہی کرنا ہوگا۔ اللہ کے حضور نہ سن رسیدہ گائے قابل قبول ہے اور نہ جوانی سے خالی انسانوں کا محض بڑھاپا۔ اس کے یہاں جوانیوں کی قربانی مطلوب ہے۔ بلاشبہ جوانی اگر خدا کی نذر کی گئی تو اس کے طفیل میں بچپن اور بڑھاپا بھی شامل ہوسکتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جو اپنی جوانی اللہ کے لئے لگاتا ہے، اس کا بڑھاپا اللہ کے لئے لگانا بھی لوگوں کے لئے اچھی مثال بن جاتا ہے۔ لیکن جوانی محض کسب معاش، صرف عیش وعشرت یا بس خواب غفلت کی نذر کرکے اگر بڑھاپا قربان کرنے آئے جو خود اپنے کسی مصرف کا نہیں رہا اور جس کی خلق خدا کی نگاہ میں کوئی قدر وقیمت نہیں رہی تو اس قربانی کی اللہ کے یہاں کیا وقعت ہوگی؟
ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ قربانی کی گائے اس قدر خوش رنگ ہو کہ دیکھنے والوں کے دل ونگاہ خوش ہوجائیں۔ گویا قربانی کا ایک ضروری عنصر جمال بھی ہے۔ اپنی ساری زندگی اور تمام تر توانائیاں اللہ کی راہ میں وقف کردینے والے کی ہر ہر ادا دلکش اور ’’تسرّ الناظرین‘‘ والی ہو، وہ نماز پڑھے تو مت پوچھو کہ اس کی نماز کتنی خوبصورت ہو، وہ صدقہ دے تو اس خوبصورتی سے کہ لینے والے کو ذرا تکلیف نہ ہو، اور وہ جب دین کی بات کرنے کے لئے لب کشا ہو تو گفتگو ایسی حسین ودلنواز ہو کہ سننے والوں کا دل موہ لے، غرض اس کا گفتار، اس کا کردار اور اس کی شخصیت کا ہر ہر زاویہ حسن وجمال سے بھرپور ہو۔ اس کی عبادت بھی جمیل ہو اور اس کی دعوت بھی حسین ہو۔ اللہ کے لئے کوئی کام کیا جائے تو اس میں بھونڈا پن اور پھوہڑ پن ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔
ایک اور سوال کے جواب میں کہا گیا کہ گائے لاغر اور پامال شدہ نہ ہو، اس کی صحت زمین جوتنے اور پانی کھینچنے کی نذر نہ ہوگئی ہو۔ اللہ کے دین کا کام کرنے کا جذبہ رکھنے والے بھی ایسا نہ ہو کہ اپنے بہترین اوقات اور عمدہ ترین توانائیاں زمین جوتنے اور پانی کھینچنے جیسے کاموں میں خرچ کرنے کے بعد بچھا کھچا وقت، تھکا تھکا سا دماغ اور نحیف ولاغر توانائیاں دین خدا کے لئے پیش کرنے آئیں۔ کیونکہ اس معیار کی چیزیں کوڑے دان میں تو ڈالی جاسکتی ہیں، کسی عظیم قربان گاہ میں پیش نہیں کی جاتی ہیں۔
اور یہ بات کہ گائے بے عیب ہو داعی حق کو اس کے تمام تر اخلاقی عیوب کی طرف متوجہ کرتی ہے، جانور کی قربانی میں جسمانی عیوب کی فکر کی جاتی ہے، لیکن انسانی زندگی جب اللہ کی راہ میں وقف کی جارہی ہو تو اخلاقی عیوب سے پاک رکھنے کی فکر بہت زیادہ ضروری ہوجاتی ہے۔ اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ زندگی اللہ کے دین کے لئے کتنی ہی مصروف رکھی جائے، اس کی حیثیت اس جانور کی سی ہوتی ہے جو بری طرح عیب دار ہو۔

ایک تبصرہ شائع کریں