گفتگو کریں، گفتگو کا احترام بھی کریں

گفتگو کریں، گفتگو کا احترام بھی کریں
محی الدین غازی
چھٹی صدی ہجری کی مشہور شخصیت ابن ہبیرہ کو اللہ نے علم سے بھی نوازا تھا اور منصب سے بھی، وہ اپنے زمانے کے بڑے فقیہ تھے، اور عباسی خلیفہ کے سب سے بڑے وزیر، خاکساری اتنی تھی کہ خلیفہ نے سید الوزراء کا خطاب دیا تو اسے لینا گوارا نہیں کیا کہ قرآن مجید میں حضرت ہارون کو وزیر کہا گیا ہے، تو میں خود کو وزیروں کا سردار کیسے کہلواسکتا ہوں۔
وزیر ابن ہبیرہ کی علم دوستی بہت مشہور ہے، ان کے یہاں روزانہ اہل علم کی مجلس منعقد ہوا کرتی تھی، جس میں بڑے علماء ومحققین شریک ہوتے تھے، اور سب کی عزت وتکریم ہوا کرتی تھی۔
ایک دن علمی مجلس آراستہ تھی، دوران گفتگو وزیر ابن ہبیرہ نے تذکرہ کیا کہ فلاں مسئلہ میں امام احمد کی رائے باقی تینوں اماموں سے مختلف ہے، اس پر ایک مالکی فقیہ ابومحمد اشيري نے اختلاف کیا اور کہا کہ امام مالک سے بھی یہ رائے منقول ہے، دیگر تمام علماء نے ابومحمد اشيري کی بات سے اتفاق نہیں کیا، وزیر ابن ہبیرہ نے امام احمد کے تفردات پر مشتمل کتابیں منگا کر سامنے رکھ دیں، ان سے وزیر ابن ہبیرہ کی بات کی تائید ہوتی تھی، لیکن ابومحمد اشيري اپنی رائے پر بضد رہے، اس پر وزیر ابن ہبیرہ کو غصہ آگیا اور انہوں نے کہا، کیا تم چوپائے ہو، یہ ساری کتابیں اور یہ سارے امام ایک بات پر متفق ہیں، اور تم بنا دلیل وحوالہ اس علمی مجلس میں اختلاف کھڑا کررہے ہو۔ اس کے بعد بات آئی گئی ہوگئی۔
دوسرے دن جب مجلس آراستہ ہوئی، اور تمام اہل علم جمع ہوئے، تو لوگوں نے دیکھا کہ وزیر ابن ہبیرہ بہت پریشان نظر آرہے ہیں، درس کا آغاز ہوا چاہتا تھا کہ انہوں نے نہایت درد بھرے لہجے میں کہا، فقیہ محترم ابومحمد اشيري نے کل کی گفتگو میں بحث وتحقیق کے آداب اور اصولوں کو نظر انداز کردیا تھا جو ان کے شایان شان نہیں تھا، اس پر مجھے غصہ آگیا اور میں نے وہ نازیبا بات کہہ دی جو مجھے ہرگز نہیں کہنی چاہئے تھی، میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ مجھ سے بدلہ لیں اور مجھے بھی بھری مجلس میں اسی طرح کی بات کہہ دیں جس طرح کی میں نے انہیں کہی تھی۔ میں آپ لوگوں سے بہتر نہیں ہوں، یہاں ہم سب برابر ہیں۔
وقت کے فقیہ اور دربار خلافت کے سب سے بڑے وزیر کی زبان سے یہ سننا تھا کہ پوری مجلس سسکیوں میں ڈوب گئی، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور زبانوں پر دعائیں جاری ہوگئیں۔ ابومحمد اشيري نے کہا حضرت آپ ایسا نہ کہیں، غلطی میری تھی، اور معافی تو مجھے مانگنی چاہئے تھی۔ لیکن وزیر ابن ہبیرہ کی زبان پر بس ایک ہی بات تھی، مجھ سے برابر کا بدلہ لو۔ اس پر ایک صاحب نے تجویز دی کہ اگر زبانی بدلہ لینے پر وہ آمادہ نہیں تو کچھ فدیہ طے ہوجائے۔ وزیر ابن ہبیرہ نے کہا وہ بھی ان کو ہی طے کرنا ہوگا۔ اس پر ابومحمد اشيري نے کہا حضرت آپ کے میرے اوپر اتنے زیادہ احسانات ہیں، بھلا میں فدیہ کیا طے کروں، تاہم آپ کا اصرار ہے تو عرض کردیتا ہوں کہ میرے ذمے سو دینار قرض ہیں۔ وزیر ابن ہبیرہ نے ان کو سو کے بجائے دو سو دینار دئے۔ اور کہا میں دعا کرتا ہوں اللہ مجھے بھی معاف کرے اور آپ کو بھی معاف کرے۔
دلیل اور حوالے کے بغیر کوئی بات کہنا کسی کو زیب نہیں دیتا، اور اگر بات دلیل اور حوالہ کے خلاف ہو تو اپنی رائے پر اصرار کرنا بھی بحث وتحقیق کے شایان شان نہیں ہے۔ اس طرح کی ضد اور ہٹ دھرمی سے تحقیق کا سفر تو متاثر ہوتا ہی ہے گفتگو کا ماحول بھی مکدر ہو جاتا ہے، خاص طور سے اس کو شدید الجھن ہوتی ہے جو دلیل سے محبت کرتا ہے، اور دلائل کی تلاش میں اپنے آرام کی قربانی دے چکا ہوتا ہے۔ بایں ہمہ اگر دلیل وحوالہ نہیں ہونے کے باوجود کوئی اپنی رائے پر اصرار کرتا ہے، تو یہ بہرحال اس کا حق ہے، اور اس کی بنا پر اسے زدو کوب کئے جانے کا جواز ہرگز نہیں نکلتا ہے۔
علمی وفکری گفتگو کے لئے سب سے خطرناک چیز تشدد ہے۔ تاریخ میں جسمانی تشدد کی مثالیں بھی ملتی ہیں، امام احمد بن حنبل کے ساتھ تشدد ان دانشوروں نے کیا جو ذہین ہونے کے باوجود پرامن گفتگو کرنے کا ظرف نہیں رکھتے تھے۔ ڈاکٹر طہ جابر علوانی نے کئی مثالیں دے کر بتایا ہے کہ مختلف زمانوں میں اپنے فکری اور سیاسی مخالفوں پر ارتداد کا الزام لگا کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دینا آمریت پسندوں کا مشغلہ رہا ہے۔
زبانی تشدد تو اتنا عام ہے کہ گویا ہمارے مزاج میں رچ بس گیا ہے، وزیر ابن ہبیرہ نے بلا دلیل اختلاف کرنے والے کو بس چوپایہ کہا، اور اس پر بے حد ندامت کا اظہار کیا، یہ ان کی شرافت اور اعلی ظرفی تھی۔ جبکہ ہم زبانی تشدد کے اتنے زیادہ عادی ہوگئے ہیں کہ دلیل کے ساتھ اختلاف کرنے والے کو بھی محض چوپایہ کہہ دینے سے ہمیں تسکین نہیں ہوسکتی ہے۔ نیتوں پر حملے، کفر کے فتوے، قرآن وسنت کے انکار کا الزام، فرقہ اہل سنت والجماعت سے اخراج، کسی فکر سے اختلاف ہوجائے تو وہ فتنہ، کسی شخص سے اختلاف ہوجائے تو وہ زندیق۔ تشدد کے سارے لہجے استعمال کرنے کے بعد بھی پیاس ہے کہ بجھتی ہی نہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہر فرقے نے بہتر گمراہ فرقوں کی فہرست بنا رکھی ہے، جس میں اپنے سوا سب کو شامل کیا ہے۔
دلیل کا احترام اور دل کی کشادگی، حقیقت کی جستجو اور لہجے کی شائستگی گفتگو کے ماحول کی صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔ کسی قوم میں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی قوت کا کمزور ہوجانا بہت سی خطرناک بیماریوں کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ اپنی قوت برداشت بڑھانے اور پرامن گفتگو کا دامن تھامنے کی ذمہ داری ان پر بھی عائد ہوتی ہے جو ایک رائے رکھتے ہیں اور ان پر بھی عائد ہوتی ہے جو ان کی رائے سے اختلاف کرتے ہیں۔
گفتگو کا آغاز سلام سے کرنے والوں کی گفتگو بھی امن وسلامتی سے مزین ہونی چاہئے۔

ایک تبصرہ شائع کریں