اگر ہے دل، تو چلو دل سے مل کے دیکھتے ہیں

اگر ہے دل، تو چلو دل سے مل کے دیکھتے ہیں
محی الدین غازی
خیالوں کی دنیا میں ہم بہت لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں، کسی سے خوشگوار ماحول میں ملتے ہیں، اور کسی سے ناخوش گوار ماحول میں ملتے ہیں، کسی سے مل کر لطف اندوز ہوتے ہیں، اور کسی سے مل کر بد مزا ہوجاتے ہیں، یہ سب ہم دل کے اشارے پر کرتے ہیں، اور دل کی دنیا میں رہتے ہوئے کرتے ہیں۔
لوگ دل کی دہلیز کا زیادہ تر استعمال لوگوں سے ملاقات کے لئے ہی کرتے ہیں، دل کسی کو چاہتا ہے، تو کسی سے نفرت کرتا ہے، کسی سے حسد رکھتا ہے، تو کسی کی ٹوہ میں رہتا ہے، کسی کے لئے رشک کے جذبات رکھتا ہے، تو کسی کے لئے حقارت کے، کسی کی عظمت سے مرعوب تو کسی سے خوف زدہ، اور ایسے تمام مختلف عنوانوں سے ہم لوگوں سے روبرو ہوتے ہیں، اور ان سے ملتے رہتے ہیں۔ بسا اوقات جن سے ہم نفرت کرتے ہیں، انہی سے دل کے ڈرائنگ روم میں ہماری ملاقات زیادہ ہوتی ہے۔
یوں تو دل کے واسطے سے ہم بہت لوگوں سے ملتے رہتے ہیں، لیکن افسوس کہ خود دل سے ملنے کا ہمیں موقعہ نہیں مل پاتا ہے۔ دل کے اشارے پر ہم بہتوں کی خوبیوں اور خامیوں سے باخبر ہوجاتے ہیں، لیکن خود اپنے دل کے احوال سے واقف نہیں ہوپاتے۔
دل کے دورے کرتے رہنا بہت ضروری ہے، تاکہ اس کے احوال معلوم ہوسکیں۔ دل کی زمین پر ایمان کی کھیتی لہلہائے، اس کے لئے اس کا نرم ہونا ضروری ہے، سخت زمین پر ایمان کے پودے نہیں پنپتے ہیں۔ دل پر نور الہی کا نزول ہو، اس کے لئے اس کا پاک وصاف ہونا ضروری ہے، گندی جگہ پر اللہ کا نور نازل نہیں ہوتا۔ دل سے بڑے فیصلوں کا صدور ہو، اس کے لئے دل کا کشادہ ہونا ضروری ہے، تنگ دلوں میں بڑے کاموں کی تحریک پیدا نہیں ہوسکتی ہے۔ دل میں کوئی بیماری نہیں ہو، اس پر منفی اور بیمار سوچ کا غلبہ نہ ہو، دل آزاد ہو کسی حقیر خواہش کا غلام نہ ہو۔ من کی دنیا من کی دنیا جذب ومستی سوز وشوق۔
دل کی خبرگیری بہت ضروری ہے، کیونکہ زندگی کے تمام بڑے کام دل کو انجام دینے ہوتے ہیں، ایمان لانا دل کی ذمہ داری ہے، ایمان کے بنیادی تقاضے بھی دل کو پورے کرنے ہوتے ہیں، محبت، خشیت، تقوی، احسان، سپردگی، قربانی، توبہ اور انابت یہ سب دل کے اعمال ہیں۔ یہی نہیں بلکہ جو کام اعضاء وجوارح کے کرنے کے ہیں ان میں بھی دل کی شمولیت ضروری ہوتی ہے، دل کے خشوع کے بغیر عمل بے روح ہوتا ہے، اور دل کے اخلاص کے بغیر عمل بے قیمت ہوتا ہے۔ غرض جس دل کو زندگی کے سارے بڑے کام انجام دینے ہوں، اس کا توانا اور صحت مند رہنا بے حد ضروری ہے۔
اہل تربیت کہتے ہیں کہ تنہائی کے لمحات دل کی تربیت کے لئے بہت مفید ہیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ جب ہم بظاہر تنہا ہوتے ہیں تو بھی دل ہمیں اپنے ساتھ نہیں بیٹھنے دیتا اور ساری دنیا کی سیر کراتا رہتا ہے، اور اس بظاہر تنہائی کے وقت میں بھی ہمیں دل سے ملنے کا موقعہ نہیں ملتا ہے۔ تنہائی اور یکسوئی کی اعلی ترین حالت نماز ہوسکتی ہے، اس میں بھی ہمارا دل ہمیں تنہائی نصیب ہونے نہیں دیتا، اس دوران بھی دل کے واسطے سے ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔
دراصل دل سے ملنے کے لئے جسم والی تنہائی کم اور خیالات والی تنہائی زیادہ ضروری ہے، دل سے ملنے کا مضبوط ارادہ کریں، طے کریں کہ جب دل سے ملیں گے تو صرف دل سے ملیں گے۔ ساری توجہ اور سارا دھیان دل کے احوال پر مرکوز کردیں۔ یہ مشکل کام ہے، اس کے لئے ریاض درکار ہے، تنہائی کے حقیقی تجربہ سے گزرنا ضروری ہے۔ اصل تنہائی وہ ہے جب تھوڑی دیر کے لئے دل سے ہر شخص کا خیال رخصت ہوجائے، آپ ہوں اور آپ کا دل ہو، اور آپ دل کے اندر دل کی طرف متوجہ ہوں نہ کہ دل میں کسی اور کے ساتھ مصروف ہوں۔
مولانا فاروق خان صاحب ایک مقام پر لکھتے ہیں: ’’کہا جاتا ہے کہ لوگ اپنی پوری زندگی میں اپنے دماغ کا محض دس فیصد استعمال کرتے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ لوگ اپنے دل کا استعمال بھی محض اتنا ہی کرتے ہیں‘‘۔ یہ بہت اہم اور قیمتی انکشاف ہے۔ دنیا بھر میں اس کی تدبیریں تو بہت ہورہی ہیں کہ انسان اپنے دماغ کی کارکردگی کس طرح بڑھائے، لیکن دل کی کارکردگی بڑھانے کی طرف توجہ عام طور سے نہیں ہے۔
جب تک اپنے دل سے خود مل کر اس کے احوال سے واقف نہیں ہوں گے، ہم اس سے مستفید اور لطف اندوز کیسے ہوسکیں گے، ہمارے دل پر دوسروں کا تسلط رہتا ہے، ان میں وہ بھی ہوتے ہیں جو ہمیں اچھے لگتے ہیں، اور وہ بھی جو ہمیں اچھے نہیں لگتے ہیں، انہیں کی وہاں مجلسیں جمتی ہیں، اور انہیں کے وہاں تذکرے ہوتے ہیں، کوئی ایک لمحہ نہیں ہوتا کہ وہ مجلسیں وہاں سے برخاست ہوں اور ہمیں اپنے دل سے روبرو اور ہم کلام ہونے کا موقعہ ملے۔
مکمل تنہائی کے تجربے سے گزر کر صرف اپنے دل کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ آدمی عزلت نشین ہوجائے، مقصود یہ ہے کہ آدمی اپنے دل کی خبرگیری کرے اور اسے زندگی کے عظیم ترین کاموں کے لئے آمادہ کرتا رہے۔ دل پر توجہ نہیں دی جائے تو وہ حقیر اور بے مصرف کاموں میں مصروف رہتا ہے، اونچی سطح پر پہونچ کر بڑے کاموں کی انجام دہی کے لئے بڑی جرأت وہمت اور سخت محنت ومشقت کی ضرورت ہوتی ہے، جسے چھوٹے اور آسان کاموں کا چسکہ لگ جائے وہ بڑے کاموں کا ذوق وشوق کھو بیٹھتا ہے۔
تعلقات کی بھیڑ، مسائل کے ہجوم اور معلومات کے اژدحام میں دل کے تھکنے، ناتواں ہونے اور اپنا اصل کام بھول جانے کے اندیشے بڑھ جاتے ہیں، ایسے میں اسے تنہائی مہیا کرنا اور اس سے مل کر مطلوب غذا اور مناسب علاج وریاض فراہم کرتے رہنا ازحد ضروری ہے۔ دل زندہ اور صحت مند ہو، کشادہ اور نرم ہو، صاف اور پاکیزہ ہو، درد مند اور بلند حوصلہ ہو، بندوں کے لئے تڑپنے والا اور اللہ سے لو لگانے والا ہو، اس کی فکر ہر بندہ مومن کو ہر وقت رہنی چاہئے۔ ألا بذکر اللہ تطمئن القلوب۔

قرآن مجید، علمی اور فکری منصوبوں کا مخزن



قرآن مجید، علمی اور فکری منصوبوں کا مخزن
محی الدین غازی
(جنوبی ہند کی عظیم درس گاہ جامعہ دار السلام عمراباد کے طلبہ کا سالانہ جلسہ ہوا، اہل جامعہ کی محبت ناچیز کو جلسے کی کرسی صدارت تک کھینچ لے گئی، جامعہ کا منفرد علمی ماحول، اور طلبہ کی دھن، لگن اور صلاحیتیں دیکھ کر ایک اہم موضوع پر گفتگو کرنے کا داعیہ پیدا ہوا، عام قارئین کے فائدے کے لئے اسے تحریری شکل میں پیش کیا جاتا ہے)
قرآن مجید علوم ومعارف کا بہت بڑا مخزن ہے، زمین کو حسین اور زندگی کو کامیاب بنانے والے بے شمار علمی وفکری منصوبے (projects) اس مخزن سے حاصل کئے جاسکتے ہیں، قرآن مجید میں مذکور ہر منصوبہ اپنے آپ میں اتنا عظیم اور اس قدر مفید ہے کہ بڑے اطمینان کے ساتھ اس کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کی جاسکتی ہے، ان منصوبوں کی تکمیل میں حصہ لینے سے علم ومعرفت کے میدان میں زبردست پیش رفت ہوسکتی ہے۔
اگر ’’واستعینوا بالصبر‘‘ کی رو سے صبر سے مدد حاصل کرنا مطلوب ہے، تو یہ بھی ضروری ہے کہ بہت سے دماغ اس تلاش میں سرگرم ہوجائیں کہ صبر کے ذریعہ زندگی کے مسائل کیسے حل کئے جاتے ہیں، نیک مقاصد کی راہ میں حائل رکاوٹیں کیسے دور کی جاتی ہیں اور قدم قدم پر کامیابی کی منزلیں کیسے سر کی جاتی ہیں۔
اگر ’’فأصلحوا بین أخویکم‘‘ کی رو سے افراد کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا مطلوب ہے، تو تعلقات بہتر بنانے کا فن دریافت کرنا اور اس کے لاتعداد پہلووں کا احاطہ کرنا اہل ایمان کی تگ ودو کا موضوع بن جانا چاہئے۔
اگر ’’وأمرھم شوری بینھم‘‘ کا تقاضا ہے کہ مسلمانوں کے فیصلے مسلمانوں کے مشورے سے ہوا کریں، تو لازم ہے یہ کھوج کرنا کہ زندگی کے ہر شعبہ میں شورائی مزاج، شورائی نظام اور شورائی کلچر کو کس طرح فروغ دیا جائے۔
(وقل لھم فی أنفسھم قولا بلیغا) ’’اور ان سے وہ بات کہو جو ان کے دل میں اتر جانے والی ہو‘‘حق بات کس طرح کہی جائے کہ وہ من کی دنیا میں پہونچے اور دل کے شہر میں جا بسے، یہ اہل علم کے غور وفکر اور تحقیق ودریافت کے لئے اہم موضوع ہے۔ ’’وقل لھم فی أنفسھم قولا بلیغا‘‘ ایک بہت بڑے منصوبے کا عنوان ہے جس پر جس قدر علمی وفکری محنت کی جائے کم ہے۔ اگر ’’وقل لھم فی أنفسھم قولا بلیغا‘‘ کی رو سے بات کو موثر بنانا مطلوب ہے، تو بات کیسے موثر بنائی جائے، یہ جاننا بھی ضروری ہے، اور یہ موضوع بہت سی دماغی کاوشوں کا محور بن جائے یہ بھی مطلوب ہے۔
قرآن مجید میں ایسے بے شمار عنوانات ہیں، ہر عنوان ایک بڑے علمی وفکری منصوبے کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جن حوصلہ مند ذہین انسانوں کو اپنے دماغ کسی عظیم منصوبے کے لئے وقف کردینے کا شوق ہو، وہ قرآن مجید سے ایک بڑا منصوبہ حاصل کرکے اپنے دماغ کو کارآمد اور اپنی زندگی کو بامعنی بناسکتے ہیں۔
امت کی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے بھی اور ساری انسانیت کو خیر کے چشموں سے سیراب کرنے کے لئے بھی لازم ہے کہ قرآن مجید سے علمی اور فکری منصوبے اخذ کئے جائیں، اور ہر منصوبہ کی تکمیل کے لئے آفاق وانفس کا گہرا مطالعہ کیا جائے۔ اور جس منصوبے پر کام کیا جائے، اس طرح کیا جائے کہ وہ اقوام عالم کے لئے بے مثال اور قابل رشک بن جائے۔
آفاق وأنفس کی ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ دلائل کا خزانہ ہیں، ان دلائل سے عالم غیب کی عظیم حقیقتوں کے سلسلے میں اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ آفاق وأنفس کی نشانیوں سے آگاہی لینا، ان پر مسلسل غور وفکر کرتے رہنا اور ان سے دل ودماغ کو ایمان ویقین کی غذا فراہم کرنا بہت اہم ہے، ان نشانیوں سے غفلت ہوجائے تو سارا علم بے سود اور سارا عمل اکارت ہوجاتا ہے۔
لا تعداد واضح دلائل اور بے پناہ روشن نشانیوں کے ساتھ ساتھ آفاق وأنفس میں علوم معارف کے عظیم خزانے بھی پوشیدہ ہیں۔ نشانیوں سے غیبی حقائق پر ایمان کی دولت حاصل ہوتی ہے، تو علوم ومعارف سے قرآن مجید میں مذکور علمی منصوبوں کی تکمیل ہوتی ہے۔ دونوں جہتوں کی بہت اہمیت ہے۔ اور اہل ایمان کے شایان شان ہے کہ وہ دونوں ہی جہتوں میں امتیازی درجے کی پیش قدمی کریں۔
طالبان علم کے لئے لازم ہے کہ قرآن مجید میں مذکور علمی منصوبوں کی طرف اپنی توجہ مبذول کریں، آفاق میں پنہاں علوم ومعارف سے دل ودماغ کو مانوس کریں، اور نفس انسانی میں سربستہ اسرار سے پردہ اٹھانے کا ذوق پیدا کریں، اور اس راہ میں انسانی مشاہدات وتجربات سے بھی حتی المقدور فائدہ اٹھائیں۔ احساس ہوتا ہے کہ قرآن مجید سے علمی وفکری منصوبے حاصل کرنے اور آفاق وأنفس کا مطالعہ کرکے ان منصوبوں کی تکمیل کرنے کی طرف افراد امت کی توجہ بہت کم رہی ہے، ورنہ امت علمی وفکری افلاس کا اس بری طرح شکار نہیں ہوتی، اور ایسا بھی نہیں ہوتا کہ جن عنوانات پر قرآن مجید کی ترغیب وتاکید موجود ہے، ان پر بھی دوسروں کی علمی وفکری کاوشیں امت کی کاوشوں سے کہیں زیادہ ہوجائیں۔
غوروفکر اور بحث وتحقیق کے لئے عظیم منصوبوں کے بے شمار عنوانات قرآن مجید میں تاقیامت محفوظ رہیں گے، اور آفاق وأنفس میں پنہاں معلومات کے خزانے بھی دعوت مطالعہ دیتے رہیں گے۔ علمی فتوحات کا شوق رکھنے والوں کے لئے پہلے بھی موقعہ تھا کہ وہ اپنی زندگیاں ان منصوبوں کے لئے وقف کریں، اور آج بھی بھرپور موقعہ ہے۔

قرآن مجید پڑھیں اور قرآن مجید سے سیکھیں

قرآن مجید پڑھیں اور قرآن مجید سے سیکھیں
محی الدین غازی
مسلمان قرآن مجید سے قریب ہوکر بھی کس قدر دور ہیں، اور ان کا قرآن مجید کے ساتھ اجنبیت کا کیسا رویہ ہے، اسے معروف مفکر علامہ محمد غزالی نے ایک چھوٹے جملے میں بیان کردیا، وہ کہتے ہیں: ہم پڑھنے کے لئے سیکھتے تو ہیں، لیکن سیکھنے کے لئے پڑھتے نہیں ہیں۔ نتعلم لنقرأ، ولا نقرأ لنتعلم۔ اس ایک جملے میں مرض کی تشخیص بھی ہے اور علاج کی تدبیر بھی ہے۔
لوگ یہ تو سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید پڑھنے کی کتاب ہے اس لئے پڑھنا سیکھ لیتے ہیں، وہ ناظرہ بھی سیکھ لیتے ہیں، عربی زبان بھی سیکھ لیتے ہیں، نحو اور بلاغت بھی سیکھ لیتے ہیں۔ لیکن سب کچھ سیکھ کر یہ بھول جاتے ہیں کہ قرآن مجید بار بار پڑھ کر بہت کچھ سیکھنے کی کتاب ہے، بندگی کا طریقہ اور زندگی کا سلیقہ، آخرت بنانے کا فن اور دنیا سنوارنے کا ہنر، حکمت کے نسخے اور انکشاف کے فارمولے، صحیح نقطہ نظر اور درست طرز عمل، بہترین انداز بیان اور اعلی طریق استدلال اور وہ سب کچھ جو دنیا وآخرت کی کامیابی اور سرخ روئی کے لئے ضروری ہے۔
افسوس کہ قرآن مجید بار بار پڑھنے والے اور ایک ماہ میں کئی بار ختم کرنے والے بھی بسا اوقات قرآن مجید سے کچھ سیکھنے کی نعمت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ ہم قرآن مجید پڑھنا سیکھ لینے کے بعد پڑھتے تو ہیں، لیکن سیکھنے کے لئے نہیں پڑھتے ہیں، صرف پڑھنے کے لئے پڑھتے ہیں۔ جب کہ قرآن مجید تلاوت کے لئے بھی بہترین کتاب ہے اور زندگی کے قیمتی راز اور انمول نسخے جاننے کے لئے بھی بہترین کتاب ہے۔ نہ ایسی کوئی اور کتاب تلاوت ہے، نہ ایسی کوئی اور کتاب ہدایت ہے۔
قرآن مجید کی آیتوں پر غور وفکر کے تعلق سے ایک بڑے عالم وزیر ابن ھبیرہ نے بڑے پتے کی بات کہی اور بڑی جرأت کے ساتھ کہی، ایسی جرأت کے نمونے ہمیں بڑی مشکل سے ملتے ہیں، وہ کہتے ہیں: شیطان کی ایک چال یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو قرآن مجید پر غور کرنے سے برگشتہ کردیتا ہے، شیطان اچھی طرح جانتا ہے کہ تدبر کرنے سے ہدایت حاصل ہوجاتی ہے، اس لئے وہ لوگوں کو ورغلاتا ہے کہ قرآن مجید میں تدبر کرنا بڑے خطرے کا کام ہے، آیتوں کا غلط مفہوم سمجھ کر بہک جانے کا امکان رہتا ہے، اس لئے تدبر سے دور رہو، چنانچہ شیطان کے بہکاوے میں آکر انسان کہنے لگتا ہے کہ میں پرہیزگار ہوں اس لئے قرآن کے حوالے سے کوئی بات نہیں کہوں گا۔ من مكايد الشيطان تنفيره عباد الله من تدبر القرآن لعلمه أن الهدى واقع عند التدبر، فيقول: هذه مخاطرة، حتى يقول الإنسان: أنا لا أتكلم في القرآن تورعا.
جہاں تہاں یہ بات بھی سنی جاتی ہے کہ ’’عام لوگ قرآن مجید سمجھنے کی کوشش کریں تو بہک سکتے ہیں، اور بہک کر گمراہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لئے آدمی قرآن مجید کی تلاوت تو خوب کرے، لیکن اسے خود سے سمجھنے اور اس پر تدبر کرنے کا خطرہ مول نہ لے‘‘ یہ بے بنیاد اندیشہ اور ایسا غلط مشورہ اس شخص کے ذہن میں تو آسکتا ہے جو قرآن مجید سے ذرا بھی واقف نہیں ہو، لیکن جو قرآن مجید سے تھوڑا بھی واقف ہوچکا ہو وہ اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ یہ اندیشہ یکسر باطل ہے۔ قرآن مجید تو اصل میں ہدایت کی کتاب ہے، اور انسانوں کی ہدایت کے لئے ہی نازل ہوئی ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص ہدایت کی نیت سے قرآن مجید پڑھے، اس پر غور کرے اور پھر گمراہ ہوجائے۔ یہ اللہ کے وعدے کے بھی خلاف ہے، اور قرآن مجید کی شان کے بھی منافی ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ کوئی سائل حاتم طائی کے دروازے سے خالی ہاتھ لوٹ جائے، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی بندہ قرآن مجید میں ہدایت تلاش کرے اور اس کے ہاتھ گمراہی آجائے۔
قرآن مجید پڑھنے سے صرف ان لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے، جو گمراہی کے پرستار ہوں، اور اپنی گمراہی کو بڑھانے کے لئے قرآن مجید کی من مانی تاولیں کرتے ہوں، ایسے بدنصیب لوگ اپنی بدنیتی اور نفس پرستی کی وجہ سے قرآن مجید پڑھتے ہوئے بھی جادہ حق سے دور ہوتے چلے جائیں تو تعجب کی بات نہیں۔
قرآن مجید تدبر کی کتاب اور ہدایت کا سرچشمہ ہے، یہ بات قرآن مجید پر ایمان کا دعوی کرنے والوں کو معلوم ہو یا نہ ہو شیطان مردود کو اچھی طرح معلوم ہے، اس لئے وہ کسی طور اللہ کے بندوں کو قرآن مجید سے قریب ہوتے نہیں دیکھ سکتا ہے۔ وہ بڑی عیاری کے ساتھ قرآن مجید میں غوروفکر کو ایک خطرناک چیز بناکر پیش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید خطرناک کتاب نہیں بلکہ خطروں سے بچانے والی کتاب ہے۔ اگر ایسی کوئی جائے امان ہے جہاں پہونچ کر دل ودماغ بالکل محفوظ ومامون ہوجائیں اور بھرپور اطمینان وراحت محسوس کریں تو وہ قرآن مجید ہے۔
علامہ ابن ھبیرہ نے ایک زبردست حقیقت بیان کی، وہ یہ کہ کبھی انسان کسی راستے کو پرہیزگاری کا راستہ سمجھ کر اختیار کرتا ہے، جب کہ وہ محض شیطان کا بہکاوا ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ احتیاط بھی قرآن مجید سے سیکھی جائے اور پرہیزگاری کے معیارات بھی قرآن مجید میں تلاش کئے جائیں۔ اگر قرآن مجید ساری انسانیت کو اپنی آیتوں پر تدبر کی دعوت دیتا ہے، اور بار بار تدبر کی دعوت دیتا ہے، تو اہل اسلام کی ایک بھاری اکثریت کا قرآن مجید پر تدبر نہ کرنا، اور خود ساختہ شرطیں عائد کرکے تدبر کے عمل کو مشکل بنادینا تقوی اور پرہیزگاری کیسے قرار پاسکتا ہے۔
قرآن مجید پر تدبر کے لئے قرآن مجید کی ٖغیر معمولی عظمت ووسعت کا یقین ضروری ہے۔ قرآن مجید کا اعجاز یہ ہے کہ اللہ پاک نے علم وحکمت کی ایک بڑی کائنات کو ایک کتاب میں سمو دیا ہے، اور قرآن مجید میں تدبر یہ ہے کہ اس ایک کتاب میں اس بڑی کائنات کو دیکھنے کی کوشش کی جائے۔ کتاب الہی کو دینی معلومات کی محض ایک کتاب نہیں بلکہ حکمت ومعرفت کی ایک لامتناہی کائنات سمجھا جائے۔ سمندر کو کوزے میں بند کردیا گیا ہو تو دیکھنے والے کو اس کوزے میں سمندر ہی دیکھنا چاہئے صرف کوزہ نہیں۔ یہی دانائی ہے اور یہی تدبر کی روح ہے۔