اگر ہے دل، تو چلو دل سے مل کے دیکھتے ہیں

اگر ہے دل، تو چلو دل سے مل کے دیکھتے ہیں
محی الدین غازی
خیالوں کی دنیا میں ہم بہت لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں، کسی سے خوشگوار ماحول میں ملتے ہیں، اور کسی سے ناخوش گوار ماحول میں ملتے ہیں، کسی سے مل کر لطف اندوز ہوتے ہیں، اور کسی سے مل کر بد مزا ہوجاتے ہیں، یہ سب ہم دل کے اشارے پر کرتے ہیں، اور دل کی دنیا میں رہتے ہوئے کرتے ہیں۔
لوگ دل کی دہلیز کا زیادہ تر استعمال لوگوں سے ملاقات کے لئے ہی کرتے ہیں، دل کسی کو چاہتا ہے، تو کسی سے نفرت کرتا ہے، کسی سے حسد رکھتا ہے، تو کسی کی ٹوہ میں رہتا ہے، کسی کے لئے رشک کے جذبات رکھتا ہے، تو کسی کے لئے حقارت کے، کسی کی عظمت سے مرعوب تو کسی سے خوف زدہ، اور ایسے تمام مختلف عنوانوں سے ہم لوگوں سے روبرو ہوتے ہیں، اور ان سے ملتے رہتے ہیں۔ بسا اوقات جن سے ہم نفرت کرتے ہیں، انہی سے دل کے ڈرائنگ روم میں ہماری ملاقات زیادہ ہوتی ہے۔
یوں تو دل کے واسطے سے ہم بہت لوگوں سے ملتے رہتے ہیں، لیکن افسوس کہ خود دل سے ملنے کا ہمیں موقعہ نہیں مل پاتا ہے۔ دل کے اشارے پر ہم بہتوں کی خوبیوں اور خامیوں سے باخبر ہوجاتے ہیں، لیکن خود اپنے دل کے احوال سے واقف نہیں ہوپاتے۔
دل کے دورے کرتے رہنا بہت ضروری ہے، تاکہ اس کے احوال معلوم ہوسکیں۔ دل کی زمین پر ایمان کی کھیتی لہلہائے، اس کے لئے اس کا نرم ہونا ضروری ہے، سخت زمین پر ایمان کے پودے نہیں پنپتے ہیں۔ دل پر نور الہی کا نزول ہو، اس کے لئے اس کا پاک وصاف ہونا ضروری ہے، گندی جگہ پر اللہ کا نور نازل نہیں ہوتا۔ دل سے بڑے فیصلوں کا صدور ہو، اس کے لئے دل کا کشادہ ہونا ضروری ہے، تنگ دلوں میں بڑے کاموں کی تحریک پیدا نہیں ہوسکتی ہے۔ دل میں کوئی بیماری نہیں ہو، اس پر منفی اور بیمار سوچ کا غلبہ نہ ہو، دل آزاد ہو کسی حقیر خواہش کا غلام نہ ہو۔ من کی دنیا من کی دنیا جذب ومستی سوز وشوق۔
دل کی خبرگیری بہت ضروری ہے، کیونکہ زندگی کے تمام بڑے کام دل کو انجام دینے ہوتے ہیں، ایمان لانا دل کی ذمہ داری ہے، ایمان کے بنیادی تقاضے بھی دل کو پورے کرنے ہوتے ہیں، محبت، خشیت، تقوی، احسان، سپردگی، قربانی، توبہ اور انابت یہ سب دل کے اعمال ہیں۔ یہی نہیں بلکہ جو کام اعضاء وجوارح کے کرنے کے ہیں ان میں بھی دل کی شمولیت ضروری ہوتی ہے، دل کے خشوع کے بغیر عمل بے روح ہوتا ہے، اور دل کے اخلاص کے بغیر عمل بے قیمت ہوتا ہے۔ غرض جس دل کو زندگی کے سارے بڑے کام انجام دینے ہوں، اس کا توانا اور صحت مند رہنا بے حد ضروری ہے۔
اہل تربیت کہتے ہیں کہ تنہائی کے لمحات دل کی تربیت کے لئے بہت مفید ہیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ جب ہم بظاہر تنہا ہوتے ہیں تو بھی دل ہمیں اپنے ساتھ نہیں بیٹھنے دیتا اور ساری دنیا کی سیر کراتا رہتا ہے، اور اس بظاہر تنہائی کے وقت میں بھی ہمیں دل سے ملنے کا موقعہ نہیں ملتا ہے۔ تنہائی اور یکسوئی کی اعلی ترین حالت نماز ہوسکتی ہے، اس میں بھی ہمارا دل ہمیں تنہائی نصیب ہونے نہیں دیتا، اس دوران بھی دل کے واسطے سے ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔
دراصل دل سے ملنے کے لئے جسم والی تنہائی کم اور خیالات والی تنہائی زیادہ ضروری ہے، دل سے ملنے کا مضبوط ارادہ کریں، طے کریں کہ جب دل سے ملیں گے تو صرف دل سے ملیں گے۔ ساری توجہ اور سارا دھیان دل کے احوال پر مرکوز کردیں۔ یہ مشکل کام ہے، اس کے لئے ریاض درکار ہے، تنہائی کے حقیقی تجربہ سے گزرنا ضروری ہے۔ اصل تنہائی وہ ہے جب تھوڑی دیر کے لئے دل سے ہر شخص کا خیال رخصت ہوجائے، آپ ہوں اور آپ کا دل ہو، اور آپ دل کے اندر دل کی طرف متوجہ ہوں نہ کہ دل میں کسی اور کے ساتھ مصروف ہوں۔
مولانا فاروق خان صاحب ایک مقام پر لکھتے ہیں: ’’کہا جاتا ہے کہ لوگ اپنی پوری زندگی میں اپنے دماغ کا محض دس فیصد استعمال کرتے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ لوگ اپنے دل کا استعمال بھی محض اتنا ہی کرتے ہیں‘‘۔ یہ بہت اہم اور قیمتی انکشاف ہے۔ دنیا بھر میں اس کی تدبیریں تو بہت ہورہی ہیں کہ انسان اپنے دماغ کی کارکردگی کس طرح بڑھائے، لیکن دل کی کارکردگی بڑھانے کی طرف توجہ عام طور سے نہیں ہے۔
جب تک اپنے دل سے خود مل کر اس کے احوال سے واقف نہیں ہوں گے، ہم اس سے مستفید اور لطف اندوز کیسے ہوسکیں گے، ہمارے دل پر دوسروں کا تسلط رہتا ہے، ان میں وہ بھی ہوتے ہیں جو ہمیں اچھے لگتے ہیں، اور وہ بھی جو ہمیں اچھے نہیں لگتے ہیں، انہیں کی وہاں مجلسیں جمتی ہیں، اور انہیں کے وہاں تذکرے ہوتے ہیں، کوئی ایک لمحہ نہیں ہوتا کہ وہ مجلسیں وہاں سے برخاست ہوں اور ہمیں اپنے دل سے روبرو اور ہم کلام ہونے کا موقعہ ملے۔
مکمل تنہائی کے تجربے سے گزر کر صرف اپنے دل کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ آدمی عزلت نشین ہوجائے، مقصود یہ ہے کہ آدمی اپنے دل کی خبرگیری کرے اور اسے زندگی کے عظیم ترین کاموں کے لئے آمادہ کرتا رہے۔ دل پر توجہ نہیں دی جائے تو وہ حقیر اور بے مصرف کاموں میں مصروف رہتا ہے، اونچی سطح پر پہونچ کر بڑے کاموں کی انجام دہی کے لئے بڑی جرأت وہمت اور سخت محنت ومشقت کی ضرورت ہوتی ہے، جسے چھوٹے اور آسان کاموں کا چسکہ لگ جائے وہ بڑے کاموں کا ذوق وشوق کھو بیٹھتا ہے۔
تعلقات کی بھیڑ، مسائل کے ہجوم اور معلومات کے اژدحام میں دل کے تھکنے، ناتواں ہونے اور اپنا اصل کام بھول جانے کے اندیشے بڑھ جاتے ہیں، ایسے میں اسے تنہائی مہیا کرنا اور اس سے مل کر مطلوب غذا اور مناسب علاج وریاض فراہم کرتے رہنا ازحد ضروری ہے۔ دل زندہ اور صحت مند ہو، کشادہ اور نرم ہو، صاف اور پاکیزہ ہو، درد مند اور بلند حوصلہ ہو، بندوں کے لئے تڑپنے والا اور اللہ سے لو لگانے والا ہو، اس کی فکر ہر بندہ مومن کو ہر وقت رہنی چاہئے۔ ألا بذکر اللہ تطمئن القلوب۔

ایک تبصرہ شائع کریں