تحریک کی آب وتاب، کارکنوں کی توبہ سے ہے

تحریک کی آب وتاب، کارکنوں کی توبہ سے ہے
محی الدین غازی
تحریک اسلامی کے ایک بزرگ قائد کی توبہ کا اثر انگیز واقعہ پڑھا، اس کے راوی شیخ محمد احمد راشد ہیں، بیان کرتے ہیں: ’’شیخ صالح عشماوی اخوان المسلمون کے ابتدائی ارکان میں سے تھے، ان کا شمار سابقون اولون میں ہوتا تھا، بانی تحریک امام حسن البنا کے ساتھ ایک بہترین کارکن کی حیثیت سے اچھا خاصا وقت گزارا، اور مرکزی قیادت میں شامل ہوگئے، پھر تحریک پر آزمائشوں کا دور آیا اور اسی بیچ بانی تحریک شہید کردئے گئے، امیر کی جگہ خالی ہوئی تو تحریک پر فتنوں کے کچھ سیاہ بادل چھاگئے، صداقتیں ان کی اوٹ میں چھپ گئیں، غلط فہمیوں اور بدگمانیوں نے ڈیرے ڈالے، وسوسوں کے طوفان اٹھے، اور ایک گروہ فتنوں کا شکار ہوگیا، اس گروہ نے صالح عشماوی کو اپنا لیڈر بنالیا، تحریک پر کئی مشکل برس بیتے، اور آزمائش طویل ہوتی گئی، پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب صالح عشماوی کو اپنے کئے پر ندامت ہوئی، اور انہوں نے سچی توبہ کی ایک شاہکار مثال قائم کی۔
راوی لکھتے ہیں: ایک دن میں تحریکی ترجمان الدعوۃ کے آفس میں گیا، دیکھا فلیٹ کے دروازے پر ایک بزرگ چوکیدار، خاکساری کی تصویر بنے، خستہ سی بید کی پرانی کرسی پر بیٹھے ہیں، ان کے چہرے پر بلا کا وقار تھا، اور پیشانی پر نور دمک رہا تھا۔ میں نے سلام کیا، اجازت لی اور اندر داخل ہوگیا، وہاں ایک تحریکی ساتھی نے مجھ سے پوچھا، اس باوقار شخص کو جو چوکیدار کی جگہ پر بیٹھا ہے، تم نے پہچانا، میں نے کہا پہچانا تو نہیں مگر جاننے کی طلب ضرور پیدا ہوئی ہے۔
میرے ساتھی نے کہا یہ صالح عشماوی ہیں، توبہ کی تڑپ انہیں بے قرار رکھتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ جب کچھ ضدی قسم لوگوں نے مجھے اپنا سردار بنایا تھا، اور امیر کہہ کر پکارا تھا، اس وقت نفس کو یک گونہ لطف محسوس ہوا تھا، اپنے نفس کو اس غلط احساس کی نجاست سے پاک کرنے کے لئے انہوں نے طے کیا ہے کہ اب وہ تحریک میں آخری صف کے سپاہی کی حیثیت سے زندگی گزاریں گے، ان کا اصرار ہے کہ ان کی توبہ کی تکمیل اسی طرح ممکن ہے، اس لئے انہوں نے مرکز کا چوکیدار بن کر باقی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ اس سے کم درجے کی بھی تحریک میں کوئی جگہ ہے تو وہ اس کو دوڑ کر اختیار کرلیتے، دل میں اٹھنے والی منصب کی خواہش نے دل پر جو داغ لگادئے وہ اسی طرح انہیں دھودینا چاہتے ہیں۔
میں اس پاکیزہ روح اور بڑے دل کے بارے میں جان کر حیرت ومسرت سے ڈوب گیا۔
امیر تحریک شیخ عمر تلمسانی نے ہمیں بتایا کہ ہم نے ان کے لئے دعا بھی کی، اور انہیں دعوت بھی دی کہ وہ ہمارے بھائی بن کر دوسروں کی طرح ہماری ٹیم کا حصہ رہیں، اور اللہ تو توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہے، لیکن انہوں نے صاف انکار کردیا، ہم نے بہت اصرار کیا، انہیں مطمئن کرنے کی بہت کوشش کی، مگر ان کا شدید اصرار ہے کہ انہوں نے اپنے لئے آخری صف میں جو جگہ متعین کی ہے اسی پر انہیں رہنے دیا جائے۔
اس واقعہ کے کئی سال بعد ایک بار امیر تحریک شیخ عمر تلمسانی نے ایک تقریر میں بڑے درد کے ساتھ کہا، شیخ صالح عشماوی نے جو توبہ کی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر قاہرہ کے تمام داعیان اسلام پر اسے تقسیم کردی جائے، تو سب کے لئے کافی ہوگی‘‘۔
تحریکی قیادت کے خلاف ایک محاذ کی اگوائی کرنے والے صالح عشماوی کی توبہ اور تحریک کے قائد عمر تلمسانی کی کشادہ ظرفی میں تحریکی کارکنان اور تحریکی قیادت کے لئے نصیحت کا بڑا سامان ہے۔ ایسے واقعات تحریک کے حسن وجمال میں وہ اضافہ کرتے ہیں جو فلک شگاف نعروں اور فلک نما عمارتوں سے کبھی نہیں ہوسکتا۔
ہر کارکن اپنے اندرون میں جھانکتا رہے کہ کہیں اس سے کوئی غلطی تو سرزد نہیں ہوئی ہے، تحریک کے حوالے سے بہت سنگین غلطی یہ ہے کہ تحریک سے دنیا طلبی کی کوئی خواہش وابستہ ہوجائے، غلطی کا احساس ہوتے ہی کارکن ندامت میں ڈوب کر کفارہ ادا کرنے کے لئے بے چین ہوجائے، نہ غلطی کا احساس دیر سے ہو، اور نہ توبہ کرنے میں تاخیر ہو، تحریک کے اندرونی ماحول کو ندامت وتوبہ کے لئے بہت سازگاراور حوصلہ بخش ہونا چاہئے۔
درحقیقت وہ اسلامی تحریک نہیں ہوسکتی ہے جہاں کچھ لوگ دھڑلے کے ساتھ تحریک کے وقار کو اپنے پاؤں تلے روند رہے ہوں، اور ان کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کی کسی کو جرأت نہیں ہوتی ہو، یا جہاں غلطی کرنے والوں کے خلاف اخراج کی کارروائی ہوتی ہو، اور پھر وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے تحریک سے الگ کردئے جاتے ہوں، یا جہاں لوگ کسی شکایت کی بنا پر استعفی دے کر نکلتے ہوں، اور یہ سمجھ کر نکلتے ہوں کہ اب ان کے لئے تحریک کے دروازے کبھی نہیں کھلیں گے۔
اسلامی تحریک میں غلطی کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی بھی ہو، توبہ کرنے کے لئے سازگار اور حوصلہ بخش مواقع بھی ہوں، اور توبہ کی قدر کرنے کا کشادہ ماحول بھی ہو، توبہ کرنے اور توبہ کو سراہنے کی مثالیں بھی دیکھنے والوں کو جہاں تہاں بار بار نظر آتی رہیں، یہ ایک صحت مند اسلامی تحریک کے لئے بے حد ضروری ہے۔
جو کارکن تحریک سے کسی غلط فہمی یا بدگمانی کی بنا پر نکل جائیں، ان کی واپسی کے لئے دروازے کھلے ہوں، اور جو کارکن تحریک سے کسی غلطی کی وجہ سے نکال دئے گئے ان کے لئے اپنی اصلاح کرکے دوبارہ قافلے میں شامل ہونے کا پورا پورا موقع ہو، ایسا ہوگا تو یہ خوش گوار احساس بھی ہوگا کہ اسلامی تحریک میں اسلام کی روح موجود ہے۔ کیونکہ جہاں توبہ کا نظام، رواج اور موقعہ نہیں ہو، سمجھئے وہاں جو کچھ بھی ہو اسلام نہیں ہے، کیونکہ اسلام تو غلطی ہوجانے پر توبہ کرنے والوں کا دین ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں