’’آنے والی پوری نسل قرآن کو سمجھ کر پڑھنے والی نسل ہو‘‘

’’آنے والی پوری نسل قرآن کو سمجھ کر پڑھنے والی نسل ہو‘‘
ایک خواب، ایک مشن
محی الدین غازی
اسلام پسند نوجوانوں کا ایک جلسہ تھا، سب نوجوان تعلیم یافتہ تھے، اردو ہندی اور انگریزی تینوں زبانیں جانتے تھے، اور اسلام کی خدمت کا جذبہ رکھتے تھے، میں نے ان سے پوچھا: آپ میں سے کتنے لوگوں نے قرآن مجید ترجمہ کے ساتھ ختم کیا ہے؟ ان تعلیم یافتہ نوجوانوں میں سے کسی ایک نے بھی ہاتھ نہیں اٹھایا۔ ان میں سے اکثر نوجوان ہر رمضان میں ختم قرآن کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ صورت حال اسلام پسند نوجوانوں کی ہے، تو باقی کروڑوں اور کروڑوں عام مسلم نوجوانوں کا کیا حال ہوگا، آسانی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
میرے محترم دوست نے ایک بار کہا، سوچو ایک بڑھیا ہے جو کسی زبان میں قرآن کا ترجمہ نہیں پڑھ سکتی ہے۔ اس نے صرف ناظرہ قرآن مجید پڑھنا سیکھا ہے، اس پر کیسے لازم کیا جائے کہ وہ قرآن سمجھ کر پڑھے، اور اس سے کیسے کہا جائے کہ تمہارا اس طرح پڑھنا کافی نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا وہ بوڑھی عورت تو معذور ہے، اور معذور اللہ کی رحمت سے محروم نہیں رہتے ہیں۔ مجھے تو ان کی صورت حال بے چین رکھتی ہے جو ترجمہ کی مدد سے قرآن سمجھ کر پڑھ سکتے ہیں، مگر زندگی بھر بے سمجھے بوجھے قرآن پڑھتے رہتے ہیں، وہ بھی اس یقین کے ساتھ کہ ان کو بے پناہ ثواب مل رہا ہے۔
ماضی میں لوگوں نے اسے ضروری نہیں سمجھا کہ قرآن سمجھ کر پڑھا جائے، تو نسلوں کی نسلیں ایسی تیار ہوئیں جو قرآن کو کسب ثواب اور ایصال ثواب کی نیت سے بے سمجھے بوجھے پڑھتی رہیں۔ آج کروڑوں کروڑوں مسلمان ہیں، جو قرآن کو ترجمہ کے ذریعہ سمجھ کر پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مگر وہ قرآن کو سمجھ کر نہیں پڑھتے، اور نہ ہی وہ ایسا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔ قرآن سے یہ عجیب وغریب قسم کی دوری ہے کہ کئی کئی بار پڑھ کر قرآن ختم بھی کرتے ہیں، مگر سمجھتے کچھ نہیں ہیں۔ اس دوری کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی تعلیمات کا اثر نہ ان کی فکر پر نظر آتا ہے، نہ رویہ پر، نہ عمل پر اور نہ رد عمل پر، نتیجہ یہ ہے کہ ان کا ایمان غیر محفوظ کہ کوئی بھی بھٹکا دے اور ان کا عمل غیر محفوظ کہ کبھی بھی گناہ کے کسی دلدل میں پھسل جائیں۔
میں ان نسلوں کے سلسلے میں فکر مند نہیں ہوں جو گزر گئیں یا گزرنے والی ہیں، دعا ہے کہ اللہ ان کی کوتاہی معاف کرے اور ان کے عذر قبول کرے۔ ہمیں تو اب موجودہ نوجوان نسل کی فکر کرنی ہوگی، اور آنے والی نسلوں کے بارے میں اپنا وژن اور نشانہ طے کرنا ہوگا۔ موجودہ نوجوان نسل بڑی حد تک خواندہ ہے، کسی نہ کسی زبان میں قرآن کا ترجمہ پڑھ سکتی ہے، آنے والی نسل کے بارے میں قوی امید ہے کہ وہ صد فی صد خواندہ ہوگی، وہ کسی نہ کسی زبان میں ترجمہ قرآن ضرور پڑھ لے گی۔ اللہ سے دور کرنے والی بے شمار کتابیں اور باتیں اس کے سامنے آئیں گی، اور اس کے پاس اللہ کی کتاب بھی ہوگی۔ کیا ان نسلوں کے ذہنوں میں یہ بسانا ضروری نہیں ہوگا کہ اللہ کی کتاب کو پڑھنا ضروری ہے، بار بار پڑھنا ضروری ہے، ہر کتاب سے زیادہ پڑھنا ضروری ہے، زندگی بھر پڑھتے رہنا ضروری ہے، اور سمجھ کر پڑھنا ضروری ہے، باقی جو قرآن سمجھ کر پڑھے گا اسے قرآن خود یہ بتادے گا کہ قرآن پر عمل کرنا اور قرآن کے مطابق زندگی گزارنا بھی ضروری ہے۔
ہر والدین کو اپنی اولاد کے دل ودماغ میں اور تمام بزرگوں کو اپنے چھوٹوں کے دل ودماغ میں یہ حقیقت اچھی طرح بٹھانی ہوگی۔ نئی نسل قرآن کو عربی میں صحیح صحیح پڑھے اور ساتھ ہی اس کا ترجمہ کسی بھی ایک زبان میں پڑھے، اتنی استعداد پیدا کرنا ذرا بھی مشکل کام نہیں ہے، تھوڑی سی توجہ سے یہ کام بخوبی ہوجائے گا۔
صورت حال کو بدلنے کے لئے ہمیں اپنے بیانیے کو درست کرنا ہوگا، تاکہ آج کی نوجوان نسل اور آنے والی تمام نسلیں سب کی سب قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے والی نسلیں ہوں۔ ہمیں دوٹوک لفظوں میں یہ کہنا ہوگا کہ قرآن مجید کی تلاوت کرنا یہ ہے کہ اسے عربی میں پڑھا جائے اور ساتھ ہی کسی بھی زبان میں سمجھا بھی جائے، ہمیں صاف صاف یہ بتانا ہوگا کہ بے سمجھے قرآن پڑھنے کا رواج ایک غلط رواج تھا، اور ایک غلط صورت حال تھی، جو اللہ کے رسول اور صحابہ کرام کے زمانے میں بالکل نہیں تھی، اس غلط صورت حال سے اور اس غلط رواج سے پوری امت کو فورا نکل جانا چاہئے۔
ملت کے خیرخواہوں کو اندیشہ ہے کہ اگر ہم نے سمجھ کر پڑھنے پر زیادہ زور دیا تو لوگ پڑھنا ہی چھوڑ دیں گے۔ یہ اندیشہ بے بنیاد ہے اس اندیشے سے باہر نکلنا ضروری ہے، ہمیں اس امید اور حوصلے کے ساتھ اپنے مشن کو آگے بڑھانا ہوگا کہ جب سمجھ کر پڑھنے پر سارا زور دیا جائے گا تو لوگ پڑھنا نہیں چھوڑیں گے بلکہ سمجھ کر پڑھنے لگیں گے، یہی نہیں جب لوگ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے لگیں گے تو از خود نمازیں بھی سمجھ کر پڑھنے لگیں گے، اور اپنی زندگی کو درست کرنے کی فکر بھی کریں گے۔
بنا سمجھے پڑھنا سمجھ کر پڑھنے سے زیادہ آسان عمل ہے، اور آسان عمل کی طرف طبیعت زیادہ میلان رکھتی ہے۔ جب کہ سمجھ کر پڑھنے میں بنا سمجھے پڑھنے سے کہیں زیادہ معنویت ہوتی ہے۔ جب کسی عمل میں معنویت پائی جاتی ہے تو دل ودماغ کو حقیقی تسکین ملتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ سمجھ کر پڑھنے والا کبھی محرومی کے احساس سے دوچار نہیں ہوگا، اسے اپنی حقیقی ضرورتوں کی تکمیل کا احساس ہوگا، اسے اپنے وجود کی تکمیل کے راستے روشن نظر آئیں گے، اور اسے عمل اور تزکیہ کی اطمینان بخش راہیں صاف دکھائی دیں گی۔ بنا سمجھے پڑھتے ہوئے تو وہ ان سب سعادتوں اور خوش بختیوں سے محروم رہتا ہے۔
ہمارا یہ بیانیہ نہایت کمزور ہے کہ قرآن بنا سمجھے پڑھنے سے ثواب ملتا ہے، اور سمجھ کر پڑھنے سے ہدایت ملتی ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ بنا سمجھے پڑھنے سے ثواب ملتا ہے اور سمجھ کر پڑھنے سے ہدایت ملتی ہے، تو وہ شخص جو اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھتا ہے، سوچتا ہے کہ مجھے تو آخرت کی کامیابی اور جنت کے اونچے مقامات کے لئے بس ثواب کی ضرورت ہے۔ پھر سمجھ کر پڑھنے پر زور دینے والی ہماری ساری تقریر بے وزن اور غیر اہم ہوجاتی ہے، ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ سمجھ کر پڑھنا ہی پڑھنا ہے، اسی سے ہدایت بھی ملے گی، اور اسی سے ثواب بھی ملے گا۔
پوری امت کی صورت حال اسی وقت بدلے گی، جب پوری امت قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے لگے گی۔ اور ایسا اسی وقت ہوگا جب اسے ضروری سمجھا جائے گا اور ضروری سمجھایا جائے گا۔ ورنہ بے سمجھے بوجھے بار بار ختم قرآن ہوتا رہے گا، اور ملت اندھیروں میں ٹھوکریں کھاتی رہے گی۔
اس وقت ملت ایک اہم موڑ سے گزر رہی ہے، جماعت اسلامی قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی ضرورت پر پہلے سے زور دیتی رہی ہے، تبلیغی جماعت کی قیادت بھی ایسی شخصیت کے ہاتھ میں آگئی ہے جس کے نزدیک قرآن کو سمجھ کر پڑھنا ضروری ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے خصوصی موقعہ ہے جو تاریخ میں کبھی کبھی ملتا ہے، اس وقت ملت کی یہ دونوں عظیم جماعتیں مل کر پوری امت کو قرآن سمجھ کر پڑھنے والی امت بنانے میں ایک زبردست رول ادا کرسکتی ہیں۔ اللہ انہیں اور سب مسلمانوں کو اس کی توفیق دے۔

عوام کے لئے ترجمہ قرآن پڑھنا مضر نہیں، ضروری ہے

عوام کے لئے ترجمہ قرآن پڑھنا مضر نہیں، ضروری ہے
محی الدین غازی
مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بلاشبہ حکیم الامت تھے، انہوں نے جو بھی فتوی اور مشورہ دیا وہ اس یقین اور اطمینان کے ساتھ دیا کہ اس میں امت کی بھلائی ہے۔ بے شک ان کا یہ فتوی بھی امت کی بھلائی کے پیش نظر تھا کہ عوام کو قرآن کا ترجمہ نہیں پڑھنا چاہئے۔ یہ فتوی کسی قرآنی آیت یا کسی حدیث رسول کی بنا پر نہیں تھا، بلکہ ان کا اجتہاد تھا، جس کی بنیاد ’’احتیاط کا تقاضا‘‘ تھا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ ترجمہ قرآن پڑھنے سے عوام کسی عبارت کا کوئی غلط مفہوم نکال سکتے ہیں، اور اس طرح گمراہ ہوسکتے ہیں اس لئے احتیاط اس میں ہے کہ وہ قرآن کی تلاوت تو کریں مگر اس کا ترجمہ نہیں پڑھیں۔
میرے سامنے حکیم الامت کی کتاب اشرف الجواب کا صفحہ 196 ہے، عنوان ہے چھیالیسواں اعتراض۔۔۔عوام کے لئے ترجمہ قرآن شریف دیکھنا مضر ہے۔ اس عنوان کے تحت مندرجہ ذیل مضمون ہے:
ایک ملا جی میرے پاس مترجم قرآن لائے وہ ترجمہ شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ کا تھا، جس میں محاورہ کی زیادہ رعایت کی گئی ہے، اس میں {فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْن} کا یوں ترجمہ کیا گیا ہے کہ دھوو اپنے مونہوں اور ہاتھوں کو اور ملو اپنے سروں کو اور اپنے پیروں کو، جس میں لفظ اپنے پیروں کو واقع میں مونہوں اور ہاتھوں کے ساتھ لگتا ہے جو کہ دور ہے نہ کہ اس فقرے سے کہ ملو اپنے سروں کو جو کہ نزدیک ہے مگر وہ ملا جی قریب کے سبب یہی سمجھے کہ یہ قریب سے متصل ہے، تو وہ اب ترجمہ دکھلا کر مجھ سے پوچھنے لگے کہ قرآن سے تو پاؤں کا مسح ثابت ہوتا ہے۔ میں بڑا گھبرایا کہ اس جاہل کو کیونکر سمجھاؤں ؟ نہ یہ عطف کو سمجھے، نہ اعراب کو، تو میں نے اس سے کہا کہ ملا جی تم نے یہ کیوں کر معلوم کیا کہ یہ قرآن ہے؟ اور خدا کا کلام ہے؟ کہا علماء کے کہنے سے، میں نے کہا: اللہ اکبر علماء اس میں تو ایمان دار ہیں کہ وہ ایک عربی عبارت کو قرآن کہہ دیں اور اس میں ایمان دار نہیں کہ وہ پاؤں دھونے کو فرض کہیں، بس علماء نے فرمایا کہ پیروں کا دھونا فرض ہے اور مسح کرنا جائز نہیں اور نیز یہ بھی کہا ہے کہ تم جیسوں کو قرآن کا ترجمہ دیکھنا جائز نہیں۔ خبردار جو تم نے کبھی آئندہ ترجمہ دیکھا، بس قرآن کی تلاوت کیا کرو، ترجمہ ہرگز نہ دیکھو۔
اس سے بھی بڑھ کر ہمیں ایک بڑے میاں ملے جو بڑے تہجد گزار اور پابند تھے، مگر قرآن کا ترجمہ دیکھ کر گمراہ ہوئے تھے، وہ مجھ سے کہنے لگے کہ جب میں قرآن پڑھا کروں تو لفظ راعنا چھوڑ دیا کروں، کیوں کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا } جس کا ترجمہ یہ لکھا ہے کہ اے ایمان والو راعنا مت کہا کرو، تو کیا تلاوت کے وقت راعنا نہ پڑھا کروں؟ میں نے ان سے کہا کہ راعنا تو مت چھوڑو، مگر آج سے قرآن کا ترجمہ دیکھنا چھوڑ دو کیونکہ تم کو سمجھنے کی قابلیت نہیں۔
صاحبو ایسے ہی لوگوں نے شریعت کا ناس کیا ہے، جو ترجمہ قرآن وحدیث کا دیکھ کر مجتہد بن گئے ہیں۔ اب اگر ان کی کم لیاقتی کے سبب ان شبہات کا جواب نہ دیا جائے، بلکہ ان لوگوں کو ترجمہ دیکھنے سے منع کیا جائے تو بعض لوگ یوں کہتے ہیں کہ علماء کو ہمارے سوالات کا جواب نہیں آتا، میں کہتا ہوں کہ افسوس آپ کو سمجھنا نہیں آتا، جواب تو ہر سوال کا ہے۔ مگر یہ بتلاؤ کہ اس کا سمجھنے والا کون ہے۔ (اشرف الجواب 196-197)
اس مضمون سے یہ بات واضح ہے کہ حکیم الامت کا موقف احتیاط پر مبنی تھا، اس وقت انہوں نے احتیاط والے موقف کو اختیار کرنا مناسب سمجھا، یہ ان کا اجتہاد تھا، اور اس پر وہ ان شاء اللہ ماجور بھی ہوں گے۔ ان کے اس اجتہاد کی تحقیر وتضحیک ہرگز مناسب نہیں ہے۔ البتہ اس پر غور کرتے رہنا چاہئے کہ احتیاط کا وہ موقف درست تھا یا نہیں؟ مذکورہ بالا مضمون پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں کچھ خیالات آئے، جنہیں اس مقصد سے پیش کررہا ہوں کہ یہ ہمارے درمیان غور وفکر اور گفتگو کا موضوع بنیں۔
پہلی بات: عوام کو ترجمہ پڑھنے سے روکنے کے بجائے ایسے ترجمے تیار کئے جائیں جو اس طرح کے سوالات پیدا نہ ہونے دیں۔ اس کے لئے عوام کو ترجمہ پڑھنے کا موقعہ دیا جائے، اور ان کے ذہنوں میں اٹھنے والوں سوالوں کو نوٹ کیا جائے، مزید خود بھی عوام کے ذہن کو سامنے رکھ کر مختلف تراجم قرآن کا جائزہ لیا جائے، اور ایسے ترجمے تیار کئے جائیں، جو قرآن کے مطابق بھی ہوں، اور ان میں اس طرح کے سوالوں کے لئے گنجائش بھی کم سے کم ہوجائے۔ اوپر کے دونوں واقعات میں بھی جو دو سوال پیدا ہوئے ہیں، انہیں ترجمہ کرتے ہوئے آسانی سے دور کیا جاسکتا ہے۔
دوسری بات: عوام کو ہدایت کی جائے کہ اگر ترجمہ قرآن پڑھتے ہوئے کوئی ایسی بات ان کے سامنے آئے جو امت میں رائج عمل سے ٹکراتی ہو، یا کچھ عجیب سی ہو، تو اہل علم سے ضرور پوچھ لیا کریں۔ عہد رسالت میں یہی ہوتا تھا۔ ایک صحابی نے غسل کے بدلے تیمم کا مطلب مٹی میں لوٹنا سمجھا، اللہ کے رسول کے پاس معاملہ آیا تو آپ نے اصلاح فرمادی۔ اسی ضمن میں ایک اور بہت ضروری کام ہے جس کی طرف عام طور سے توجہ نہیں ہوئی وہ یہ کہ ترجمہ قرآن کے شروع میں عوام کے لئے ایسی رہنما ہدایات ذکر کی جائیں جو انہیں بہت سی غلطیوں اور بے اعتدالیوں میں پڑنے سے محفوظ رکھیں۔
تیسری بات: اوپر جو غلطیاں مذکور ہیں وہ ایسی نہیں ہیں کہ ان کی وجہ سے ترجمہ پڑھنے پر پابندی لگادی جائے۔ اگر اس آدمی کو یہ اشکال ہوا کہ وضو میں پاؤں پر مسح کیا جائے تو حضرت ابن عباس کے شاگرد عکرمہ کی تو رائے ہی یہی تھی کہ وضو میں پاؤں پر مسح کیا جائے گا، جو رائے ایک بڑے عالم کی بن گئی اگر اسی کا شبہ ایک عامی کو بھی ہوگیا تو اس کو اتنا بڑا مسئلہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ سارے عوام کو تا قیامت ترجمہ قرآن پڑھنے سے روک دیا جائے۔
چوتھی بات: اس پر بھی سوچا جائے کہ احتیاط کے یہ تقاضے صرف غیر عربوں کے لئے ہی کیوں؟ عرب عوام بھی تو قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے قرآن کا مفہوم بھی سمجھتے ہیں، اور وہ بھی تو ایسی کسی عامیانہ غلطی کا ارتکاب کرسکتے ہیں۔ ان کے لئے پھر کیا ضابطہ بنایا جائے گا۔ کیا انہیں قرآن کی تلاوت سے بھی منع کردیا جائے گا اس اندیشے کے تحت کہ وہ کوئی غلط مطلب نہ نکال لیں یا پھر یہ مانا جائے کہ عرب عوام گمراہی سے محفوظ رہتے ہیں، اور ہندوستانی عوام گمراہی سے محفوظ نہیں رہتے ہیں۔ مشاہدہ تو یہ ہے کہ جو گمراہیاں ہندوستانی عوام میں نظر آتی ہیں وہی گمراہیاں اسی پیمانے پر عرب عوام میں بھی نظر آتی ہیں۔
پانچویں بات: مولانا تھانوی کا یہ تاثر صحیح ہے کہ بعض لوگ ترجمہ قرآن وحدیث پڑھ کر خود کو مجتہد سمجھنے لگتے ہیں، اور فتوے اور تفسیری رائیں جاری کرنا شروع کردیتے ہیں۔ درحقیقت عوام کو یہ سمجھانا بھی علماء کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو اس طرح کے رویہ سے بچنا چاہئے۔ ترجمہ قرآن پڑھنے کا مقصد مفسر قرآن اور مفتی شریعت بننا نہیں ہونا چاہئے، بلکہ اپنی زندگی کو کتاب الہی کے نور سے روشن کرنا ہونا چاہئے۔ مفسر اورفقیہ ومجتہد بننے کے لئے تعلیم کے بہت سارے مرحلوں سے گزرنا ہوتا ہے، جب کہ زندگی کو نور ہدایت سے منور کرنے کے لئے سب سے زیادہ ضروری اور اپنے آپ میں بالکل کافی ہے کہ آپ ہدایت کی طلب کے ساتھ قرآن مجید سمجھ کر پڑھتے رہیں۔
چھٹی بات: علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام سے اپنے روابط اور زیادہ مضبوط کریں، عوام جہاں جہاں ترجمہ کی کسی عبارت کو سمجھنے میں غلطی کریں، علماء ان کی رہنمائی کرتے رہیں۔ عوام کو یہ بھی بتایا جائے کہ کسی ایک آیت کے ایک ٹکڑے کو لے کر کوئی رائے قائم نہ کریں بلکہ پورا قرآن ترجمہ کے ساتھ بار بار پڑھیں، پورا قرآن بار بار پڑھنے کے بعد قوی امید ہے کہ آدمی کی کوئی غلط رائے نہیں بنے گی۔
ساتویں بات: اگر یہ حقیقت ہے کہ عوام ترجمہ قرآن پڑھتے ہوئے کچھ غلطیاں کرسکتے ہیں، تو اس سے بڑی حقیقت تو یہ ہے کہ عوام قرآن کا ترجمہ پڑھ کر بہت ساری گمراہیوں سے بچ سکتے ہیں۔ اگر ترجمہ قرآن پڑھنے سے چھوٹی چھوٹی غلطیوں کا کچھ اندیشہ ہے تو ترجمہ قرآن پڑھنے سے بڑی بڑی گمراہیوں سے بچنے کی قوی امید بھی تو ہے۔ تو کیوں نہ اس بڑے پہلو کا لحاظ کرکے ترجمہ پڑھنے کو ترجمہ نہیں پڑھنے پر ترجیح دی جائے۔ اس کے علاوہ ترجمہ قرآن پڑھنے سے غلطی اگر ہوگی تو تھوڑے لوگوں سے ہوگی، مگر ترجمہ قرآن پڑھنے سے قرآنی ہدایت تو ہر طالب ہدایت کو ملے گی۔ اگر ایسا ہے تو پھر تھوڑے لوگوں کی غلطی کے اندیشے سے سارے لوگوں کو اس بڑی نعمت وسعادت سے کیوں کر محروم رکھا جائے۔
آخری بات یہ ہے کہ قرآن مجید ہر انسان کی ضرورت ہے، قرآن مجید میں کہیں یہ اشارہ بھی نہیں ہے کہ عوام اسے سمجھنے، اس پر غور کرنے اور اس سے اپنی زندگی کو روشن کرنے کی کوشش نہیں کریں۔ ہر خاص وعام قرآن مجید کی آیتوں کے مخاطب ہیں، اللہ کے رسول قرآن کی آیتیں ہر خاص وعام کو سناتے تھے۔ قرآن میں تو اس کا مطالبہ ہے کہ غیر مسلم عوام بھی قرآن مجید کو سمجھیں اور اس پر غور کریں تاکہ انہیں ہدایت کا راستہ ملے۔ جب کہ مسلم عوام پر لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی بنانے اور سنوارنے کے لئے اور گمراہیوں سے بچنے کے لئے قرآن مجید سمجھتے اور اس پر غور کرتے رہیں۔
خلاصہ یہ کہ حکیم الامت نے اس زمانے میں جو موقف اختیار کیا تھا وہ ان کا اجتہاد تھا اور احتیاط پر مبنی تھا، مگر واقعہ یہ ہے کہ اس احتیاط سے بات نہیں بن سکی اور امت کی حالت بگڑتی ہی رہی۔ اب امت کی موجودہ حالت دیکھ کر شدت کے ساتھ احساس ہوتا ہے کہ اس پرانے موقف پر نظر ثانی کرکے احتیاط کے بجائے اصلاح کے پہلو کو ترجیح دی جائے اور فتوی یہ دیا جائے کہ عوام ترجمہ قرآن پڑھیں، ضرور پڑھیں، اسے اپنی تلاوت کا لازمی جز بنالیں اور جہاں جہاں انہیں اشکال ہو، وہ اہل علم کے سامنے اپنے اشکال رکھیں، اور اہل علم حکمت کے ساتھ ان کے اشکال دور کریں۔

آپ نماز سمجھ کر کیسے پڑھیں؟

آپ نماز سمجھ کر کیسے پڑھیں؟
(آسان اور قابل عمل مشورے)
محی الدین غازی
کیا آپ کو کچھ اندازہ ہے؛
اگر آپ کو زندگی کے پچاس سال نماز پڑھنے کی توفیق ملتی ہے، اور آپ فرض نمازوں کے ساتھ سنتیں بھی ادا کرتے ہیں، اور کسی قدر نوافل کا اہتمام بھی کرتے ہیں، تو آپ اپنی زندگی میں کتنی مرتبہ سورۃ الفاتحۃ اور التحیات پڑھتے ہیں؟۔
ایک مسلمان جسے اللہ نماز کی توفیق دے، وہ زندگی میں بلا مبالغہ لاکھوں مرتبہ سورۃ الفاتحۃ پڑھتا ہے، لاکھوں مرتبہ التحیات پڑھتا ہے، لاکھوں مرتبہ نماز کے دوسرے اذکار اور دعائیں پڑھتا ہے، نماز کے یہ تمام اذکار اس پوری کائنات میں ادا کئے جانے والے بہترین کلمات ہیں۔ کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ لاکھوں بار پڑھے جانے والے ان بہترین اذکار کا مفہوم بھی پڑھنے والے کے ذہن میں موجود رہے، اور جب وہ یہ بہترین کلمات لاکھوں بار اپنی زبان سے ادا کرے تو ہر بار ان کے مفہوم کا لطف بھی اٹھائے۔
ذرا سوچیں، ہم نماز میں جو کلمات ادا کرتے ہیں، ان کا معنی ومطلب کتنا عظیم الشان اور زبردست ہوتا ہے، جبھی تو اللہ پاک نے زندگی بھر لاکھوں مرتبہ اپنے نیک بندوں کو انہیں پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز کے اذکار زندگی کو سنوارنے، نفس کو پاکیزہ بنانے اور شخصیت کو ترقی دینے کی زبردست اور بے مثال تاثیر رکھتے ہیں۔ جب جسم کی حالت، زبان کے الفاظ اور دماغ کی کیفیت بالکل ایک سی ہوجاتی ہے، اور جب تینوں ایک ساتھ نماز ادا کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں تو دل کو نماز کا حقیقی لطف حاصل ہوتا ہے، اور نماز مومن کی معراج بن جاتی ہے۔
نماز تو ایمان وعمل کی بے پناہ دولت کا زبردست خزانہ ہے، نماز سے زندگی کے ہر موڑ پر بہت بڑی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ نماز انسان کو ایسی بلندیوں تک پہونچاتی ہے جن کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔ ایسی نماز کو زندگی بھر بنا سمجھے پڑھتے رہنا سمجھ داری کا کام نہیں ہے۔ اقامت صلاۃ کی طرف نہایت ضروری قدم ہے نماز کو سمجھ کر پڑھنا۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ نماز میں ہم جو کچھ پڑھتے ہیں اسے سمجھنا عام طور سے نہ تو نماز کے ارکان میں ذکر کیا جاتا ہے، نہ سنتوں میں اور نہ ہی مستحبات اور آداب میں۔ تو پھر اس پر اتنا زور کیوں؟۔ میرے بھائی، حقیقت یہ ہے کہ نماز کو سمجھ کر پڑھنا تو نماز کی روح میں شامل ہے۔ اگر آپ کو ’’رب اغفرلي وارحمني‘‘ کا مطلب معلوم نہیں ہو اور آپ دونوں سجدوں کے درمیان اسے دوہراتے رہیں، اور ایک دن مطلب معلوم ہوجائے کہ ’’میرے رب مجھے معاف کردے اور میرے اوپر رحمت نازل کردے‘‘ اور پھر آپ یہ دعا دوہرائیں، یقین کریں آپ کو بہت بڑا فرق محسوس ہوگا۔ ہوسکتا ہے مفہوم کے اثر سے آپ کا دل سوز سے لبریز ہوجائے اورآپ کی آنکھوں سے آنسو بھی بہنے لگیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص ذائقہ کے احساس سے محروم ہو اور بہترین قسم کے شیریں آم کھاتا رہے، پھر ایک دن اس کے ذائقے کی حس جاگ اٹھے اور آم کھاتے ہوئے اس پر انکشاف ہو کہ وہ کیسے شان دار ذائقے والی چیز بنا مزا لئے کھارہا تھا۔ بلاشبہ اس وقت اسے محسوس ہوگا کہ ذائقہ کا احساس کتنی بڑی نعمت ہے جس سے وہ محروم تھا۔
عربی زبان نہیں جاننے والے نماز کو سمجھ کر کیسے پڑھیں؟ یہ سوال بہت سے لوگوں کو فکر مند رکھتا ہے، اس سلسلے میں کچھ مشورے یہاں ذکر کئے جاتے ہیں:
پہلی بات: اس کام کو ضروری سمجھیں، امام سفیان ثوری کہتے تھے: آدمی کو اس کی نماز کے اتنے حصے کا اجر ملے گا جتنا حصہ وہ سمجھ کر ادا کرے گا۔ (حلیۃ الاولیاء) مولانا منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ بڑی دردمندی سے لکھتے ہیں: ’’خشوع وحضور کی طرح نماز میں فہم معنی کی طرف سے بھی عام طور سے غفلت برتی جاتی ہے اور اس کی کوئی خاص ضرورت واہمیت نہیں سمجھی جاتی، حالانکہ خشوع وحضور کی طرح یہ بھی نماز کی روح ہے اور بلاشبہ اس کے بغیر نماز بہت ناقص درجہ کی رہتی ہے‘‘ آگے لکھتے ہیں: ’’اللہ اللہ، دنیا میں کسی معمولی سے معمولی آدمی سے بھی بے سوچے سمجھے بات کرنا کسی کو پسند نہیں، مگر اللہ تعالی سے عرض ومعروض کرنے کے لئے خود اپنی بات کا مطلب سمجھنے کی ضرورت اور اہمیت نہیں سمجھی جاتی۔ افسوس‘‘۔ (نماز کی حقیقت)
دوسری بات: نماز میں دوہرائے جانے والے اذکار کا ترجمہ یاد کرلیں، مقدار کے لحاظ سے یہ بہت کم ہیں اور انہیں یاد کرلینا بہت آسان ہے، قارئین کی سہولت اور فوری عمل درامد کے لئے یہاں ان اذکار کا ترجمہ درج کیا جارہا ہے (آپ کسی اور کتاب یا عالم کے ترجمے سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں):
((اللہ اکبر: اللہ سب سے بڑا ہے
ثنا: اے اللہ ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتے ہیں، اور تیرا نام با برکت ہے، اور تیری شان اونچی ہے، اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں.
استعاذہ: میں مردود شیطان سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔
بسملہ: اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔
سورۃ الفاتحۃ: ساری تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے انسانوں کا رب ہے، رحمان اور رحیم ہے، روز جزا کا مالک ہے، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں، ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، اور جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔
سبحان ربي العظیم: میں اپنے عظیم رب کی عظمت اور پاکی بیان کرتا ہوں۔
سمع اللہ لمن حمدہ: اللہ نے اسے سن لیا جس نے اس کی حمد کی۔
ربنا لک الحمد: ہمارے رب، تیرے ہی لئے حمد ہے۔
سبحان ربي الأعلی: میں اپنے بلند رب کی پاکی اور عظمت بیان کرتا ہوں۔
التحیات: تعظیم کے کلمات اللہ کے لئے، نیازمندیاں اللہ کے لئے، خوبیاں اللہ کے لئے، سلامتی ہو اے نبی آپ پر، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں۔ سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
درود: اے اللہ محمد پر اور محمد کے آل پر رحمت نازل فرما جس طرح ابراہیم پر اور ابراہیم کے آل پر رحمت نازل فرمائی، بے شک حمد تیری ہے اور تو اونچی شان والا ہے۔ اے اللہ محمد پر اور محمد کے آل پر برکت نازل فرما جس طرح ابراہیم پر اور ابراہیم کے آل پر برکت نازل فرمائی، بے شک حمد تیری ہے اور تو اونچی شان والا ہے۔
دعا: (اللھم انی ظلمت نفسی ۔۔۔) اے اللہ میں نے اپنے اوپر بہت ظلم کیا، اور گناہوں کو معاف کرنے والا صرف تو ہے، اپنی طرف سے خاص معافی دے کر مجھے معاف کردے، اور مجھے رحمت عطا فرمادے، بلا شبہ تو بہت معاف کرنے والا اور بہت مہربان ہے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ: تم پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو۔))
مولانا منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ ان اذکار کے حوالے سے بڑی حوصلہ افزا بات لکھتے ہیں: ’’اگر بالکل بے پڑھے آدمی بھی کوشش کریں تو ان شاء اللہ ہفتہ وعشرہ میں ان تمام اذکار کے معنی یاد کرسکتے ہیں‘‘۔
تیسری بات: جو سورتیں آپ کو یاد ہیں، ان کا ترجمہ پہلی فرصت میں بار بار پڑھ کر ذہن میں بٹھالیں، عوام کو عام طور سے کچھ ہی سورتیں یاد ہوتی ہیں، ان کا ترجمہ وہ تھوڑی توجہ سے ذہن نشین کرسکتے ہیں۔ جو عربی دعائیں یاد ہیں ان کا مطلب معلوم کرتے رہنے کو بھی اپنا پسندیدہ شوق بنالیں۔ نمازوں میں ان دعاؤں کو ان کا مفہوم سمجھتے ہوئے دوہرانے میں ناقابل بیان لطف حاصل ہوتا ہے۔
چوتھی بات: آج سے عہد کریں کہ جو بھی ذکر یا دعا یا سورت یاد کریں گے، اس کا ترجمہ بھی ضرور ذہن نشین کرلیں گے، اور وقتا فوقتا اسے تازہ کرتے رہیں گے۔
پانچویں بات: عربی نہیں جاننے والوں کو یہ سوال بہت زیادہ پریشان کرتا ہے کہ امام صاحب جب نماز میں قرآن کے کسی حصے کی تلاوت کرتے ہیں، تو اسے مقتدی کیسے سمجھ کر سنیں۔ اس کا آسان اور بہترین حل موجود ہے، البتہ اس حل میں دو پروگرام ہیں ایک زندگی بھر کے لئے مستقل پروگرام، اور ایک قلیل مدتی پروگرام، جس پر فوری عمل درامد ہوسکتا ہے۔
مستقل پروگرام یہ ہے کہ روزانہ قرآن مجید کی تلاوت کے لئے کچھ وقت مخصوص کرلیں، اور تلاوت کرتے ہوئے معمول یہ بنالیں کہ ہر ایک آیت کی تلاوت کے ساتھ ہی اس آیت کا ترجمہ بھی پڑھیں گے، اس طرح آیت بہ آیت ترجمہ کے ساتھ قرآن ختم کرنے کو اپنا معمول بنالیں، اس طرح کے چار پانچ ختم کے بعد ایسا ہونے لگے گا کہ امام صاحب جب قرآن کے کسی حصے کی تلاوت کریں گے تو آپ کے ذہن میں ایک ایک آیت کے ساتھ اس کا مفہوم بھی سامنے آتا رہے گا۔
کم مدت والے فوری پروگرام کی تفصیل یہ ہے (اور یہ بڑے پتے کی بات ہے) کہ زیادہ تر ائمہ کرام اپنی نمازوں میں کچھ خاص سورتوں اور آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں، ان سورتوں اور آیتوں کا آیت بہ آیت ترجمہ زیادہ کثرت سے پڑھیں تو ان کا مفہوم بہت کم وقت میں آپ کے ذہن نشین ہوجائے گا۔ سورۃ البقرۃ کا آخری رکوع، اسی طرح سورۃ آل عمران، سورۃ الفرقان، سورۃ الزمر، سورۃ الحشر، سورۃ الصف، سورۃ المنافقون، سورۃ التحریم، ان سب سورتوں کے آخری رکوع۔ مزید سورۃ الجمعۃ، سورۃ الملک، سورۃ القیامۃ، سورۃ الانسان، اور سورۃ المرسلات مکمل۔ اور آخری پارے کی تمام سورتیں، اور ان میں بھی خاص طور سے سورۃ الاعلی سے سورۃ الناس تک کی سورتیں۔ ان سورتوں اور آیتوں کا مفہوم ذہن نشین کرنا اس لئے بھی بہت مفید ہے کہ ان میں ایمانی تربیت کا بہت خصوصی انتظام ہے۔
ان کے علاوہ آپ خود بھی دھیان دے سکتے ہیں کہ آپ کی مسجد کے امام صاحب زیادہ تر کون سی سورتیں پڑھتے ہیں، ان سورتوں کا ترجمہ ذہن نشین کرنے پر آپ فوری توجہ دیں۔ آپ روزانہ اگر مناسب وقت اس اہم کام کے لئے خاص کرتے ہیں، تو یقین کریں چند ماہ کے اندر آپ زیادہ تر نمازوں میں محسوس کریں گے کہ امام صاحب نماز میں جو آیتیں تلاوت کررہے ہیں، وہ آپ بخوبی سمجھ رہے ہیں۔ اس سے نماز کے لطف میں وہ اضافہ ہوگا کہ آپ کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہے گا، اور آپ خود محسوس کریں گے کہ کتنی بڑی سعادت آپ کے حصے میں آگئی۔
البتہ طویل مدتی منصوبہ یعنی پورا قرآن مجید آیت بہ آیت ترجمے کے ساتھ ختم کرتے رہنے کا سلسلہ زندگی بھر جاری رہنا چاہئے، اس کے بے شمار فائدے ہیں، یہ منصوبہ آپ کی زندگی کو بدل دینے کی قوت رکھتا ہے، جسے آیت بہ آیت تلاوت وترجمہ کا مزا مل جاتا ہے، وہ پھر عمر بھر اسی معمول کے ساتھ زندگی گزارنا پسند کرتا ہے۔
اب تک ہمارے گھروں میں، مسجدوں میں اور کسی قدر اسکولوں میں بھی نماز سکھانے اور یاد کرانے کا تو اہتمام رہا ہے، مگر نماز سمجھ کر پڑھنے کی تربیت دینے پر توجہ بہت کم رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے درمیان اکثر لوگ نماز کو بنا سمجھے پڑھتے ہیں۔ آپ کو اپنے بچوں اور آنے والی نسل کے سلسلے میں اہم فیصلہ کرنا ہے، وہ یہ کہ ان کی آخرت کو بہتر بنانے کے لئے انہیں نماز سمجھ کر پڑھنے کی تعلیم اور تربیت لازمی طور پر دی جائے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ بالکل ابتدائی عمر میں اگر اذکار بنا سمجھے یاد کرائے جائیں، اور مفہوم ذہن نشین کرانا ممکن نہیں لگے، تو کچھ ہوشیار ہوجانے کے بعد ان اذکار کا مفہوم ذہن نشین کرانے کا اہتمام کرلیا جائے۔ بہرحال آپ کے دل میں یہ فکر پیدا ہوجائے کہ ہمارے بچے سمجھ کر نماز پڑھنے والے بن جائیں۔ یقین کریں آپ کی یہ فکر اور کوشش آپ کے بچوں کو ایک اچھا انسان بنانے میں بہت معاون ہوسکتی ہے۔
مولانا نسیم غازی (معروف نومسلم عالم) نے غیر مسلموں کے لئے ایک کتابچہ لکھا، ’’اذان اور نماز کیا ہے؟‘‘ اس کتابچے میں انہوں نے نماز میں پڑھی جانے والی چیزوں کا ترجمہ لکھا، جب غیر مسلموں کے ہاتھ میں یہ کتاب پہونچی، تو حیرت انگیز تاثرات سامنے آئے۔ بہت سے وہ لوگ جو مسجدوں اور نمازوں کے سلسلے میں سخت بدگمانی رکھتے تھے، ان کی رائے بالکل بدل گئی، اور انہوں نے کہا یہ نمازیں تو اس ملک کے لئے اور یہاں کے باشندوں کے لئے خیر اور بھلائی کا باعث ہیں، ایسی نمازیں تو ضرور پڑھی جانی چاہئیں۔ جن نمازوں میں ایسی اچھی اچھی باتیں کہی جاتی ہوں، وہ نمازیں یقینا بہت اچھے انسان بنائیں گی۔
سوچنے کا اصل مقام مسلمانوں کے لئے ہے، وہ ایسے انمول کلمات کو جنہیں وہ زندگی میں لاکھوں مرتبہ بنا سمجھے دوہراتے ہیں، سمجھ کر پڑھنے کا فیصلہ کتنی جلدی کریں گے، تاکہ ان کی زندگی ان کی نمازوں کے نور سے روشن ہوسکے۔
یاد رکھیں، موقعے بار بار نہیں ملا کرتے ہیں، اگر ابھی موقع ملا ہے اور توجہ ہوئی ہے، تو آج ہی سے اپنے اندر یہ بہت آسان مگر بہت عظیم تبدیلی لانے کا فیصلہ کرلیں، اور اسے زندگی کی میز پر اپنے ’’سب سے اہم اور فوری‘‘ کاموں کی فائل میں سب سے اوپر رکھ لیں۔ اللہ آپ کی مدد فرمائے۔

انسانو؛ کائنات کی کتاب کو سمجھ کر پڑھو

انسانو؛ کائنات کی کتاب کو سمجھ کر پڑھو
محی الدین غازی
(وحی الہی کائنات کو سمجھ کر پڑھنے کی ہدایت کرتی ہے، جب کہ وحی بیزار سائنس میں کائنات کو بنا سمجھے پڑھا جاتا ہے)
انسانوں کے درمیان کائنات کو پڑھنے کا رواج پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، کائنات کے ایک ایک پہلو کو الگ الگ کرکے بھی پڑھا جارہا ہے، اور ہر پہلو کی تقسیم در تقسیم بھی ہوتی جارہی ہے، فزکس، کیمسٹری، بایولوجی، سماجی علوم، لسانی علوم اور علم نفسیات انسانی، یہ اور ان جیسے علوم سے پھوٹنے والے بے شمار علوم، یہ سب کائنات کو پڑھنے کی مختلف شکلیں ہیں۔ ٹکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ کائنات کو پڑھنے کے لئے جدید ترین وسائل کا استعمال بھی کیا جاتا ہے اور پڑھانے کے لئے مفید ترین ذرائع اور اسلوب بھی اختیار کئے جاتے ہیں۔
تاہم تشویش اور فکرمندی کی بات یہ ہے کہ کائنات کی کتاب کو پڑھنے والے عام طور سے اسے بے سمجھے بوجھے پڑھ رہے ہیں۔ پڑھانے والے کائنات کو پڑھنا تو سکھا رہے ہیں لیکن وہ بھی بغیر سمجھے پڑھنے کا عادی بنا رہے ہیں۔ دور جدید میں کائنات کو بنا سمجھے پڑھنا ہی رواج اور فیشن ہوتا جارہا ہے، اور اسی کو پڑھائی کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ شکل سمجھا جارہا ہے۔ نرسری اور پرائمری اسکولوں سے لے کر دنیا کی بڑی بڑی تعلیمی اور تحقیقی جامعات سبھی کائنات کو بے سمجھے پڑھنے اور پڑھانے کی محنت اور عرق ریزی میں مصروف ہیں۔
کائنات کے خالق نے کائنات کو سمجھ کر پڑھی جانے والی ایک بامعنی بلکہ معانی سے بھرپور کتاب بنایا ہے۔ اس نے انسانوں کو سمجھ کر پڑھنے والی نگاہ اور عقل عطا کی ہے، اور پھر وحی بھیج کر سمجھ کر پڑھنے کی تعلیم کا بہترین انتظام بھی کیا ہے۔ وحی کی کتاب کی طرح کائنات کی کتاب بھی اللہ، رسالت اور آخرت کے اسباق پر مشتمل ہے، کائنات کو جب ہم سمجھ کر پڑھنے لگتے ہیں تو یہ سارے اسباق اچھی طرح سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔ اور ان سے متعلق سارے شکوک وشبہات اور وہم وگمان دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ انسان اور کائنات کا نظم بھی واضح ہوجاتا ہے، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حاضراور غیب کا نظم بھی اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے، نظر آنے والی کائنات کو سمجھ کر پڑھنے کے بعد غیب کی کوئی خبر ناقابل فہم نہیں رہتی ہے۔
کائنات کو بنا سمجھے پڑھنے سے انسانوں کی مادی ضرورتیں پوری ہوجاتی ہیں، اور ان کی سطحی جستجو کی تسکین بھی ہوجاتی ہے، لیکن کائنات کے اصل مفہوم سے محرومی برقرار رہتی ہے۔ بہت سے لوگ ثواب کمانے اور ثواب پہونچانے کی خاطر اور دکان ومکان کی خیر وبرکت بڑھانے کے لئے وحی کی کتاب کو بنا سمجھے پڑھتے ہیں، اور بہت سے لوگ کائنات کی کتاب کو مادی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے بنا سمجھے پڑھے جارہے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ کی حمد وتسبیح میں مصروف رہتے ہیں مگر وہ حمد وتسبیح نہیں جو کائنات کو سمجھ کر پڑھتے ہوئے کی جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وحی کی کتاب کو بھی سمجھ کر پڑھنا ضروری ہے اور کائنات کی کتاب کو بھی سمجھ کر پڑھنا ضروری ہے۔ دونوں کے وجود کا اصل مقصد ہی یہی ہے کہ انہیں سمجھ کر پڑھا جائے۔
کائنات سے انسان کا ضرورتوں کا رشتہ ہے، اور اس رشتے میں بھی سمجھ کر پڑھنے کے لئے بہت سے اسباق ہیں، انسان کے اندر بے شمار ضرورتیں رکھی گئی ہیں، ان میں بہت سی ضرورتیں دوسری مخلوقات سے مختلف اور انسانوں کے ساتھ مخصوص ہیں، انسان کے باہر کی دنیا میں ان ضرورتوں کی تکمیل کے بے پناہ انتظامات رکھے گئے ہیں، اور انسان کو اس قابل بنایا گیا ہے کہ وہ ان انتظامات کو دریافت کرسکے، اسے اس قابل بھی بنایا گیا ہے کہ وہ ان انتظامات سے فائدہ اٹھاسکے، یہ سب کچھ ایک حکیم خالق کی قدرت کے زبردست کرشمے ہیں۔ وہ ضرورتوں کے ساتھ پیدا کرتا ہے، وہ مخلوقات کی عام ضرورتوں سے بھی باخبر ہے اور ہر مخلوق کی مخصوص ضرورتوں کی بھی خبر رکھتا ہے۔ اور پھر ضرورتوں کی تکمیل کا بہترین اور عجیب ترین انتظام بھی کرتا ہے، تاکہ انسان صرف ضرورتوں کی تکمیل ہی پر دھیان نہ دے بلکہ آگے بڑھ کر اس عجائبات سے بھرپور نظام پر غور وفکر بھی کرے۔
ایک آگ پر غور کریں، ایک طرف انسانوں کی کتنی زیادہ ضرورتیں آگ سے جڑی ہوئی ہیں، اور دوسری طرف آگ حاصل کرنے کے کیسے کیسے انتظامات اس کائنات میں کتنے اہتمام سے رکھے گئے ہیں۔ وہ کون ہے جس نے خاص طور سے انسانوں کے اندر آگ کی ضرورت کو شامل تخلیق کیا؟ وہ کون ہے جس نے آگ ایسی خطرناک اور تباہ کن چیز کو انسانوں کے لئے اس قدر مفید اور ضروری بنادیا؟ اور کس نے انسانوں کی اس ضرورت کی تکمیل کا انتظام زمین میں جگہ جگہ کردیا؟ کچھ چیزوں سے چنگاری پیدا ہوتی ہے، اور کچھ چیزوں سے آگ بھڑکتی ہے، اور کچھ چیزوں سے آگ دیر تک جلتی رہتی ہے، اور کچھ چیزوں سے آگ توانائی میں تبدیل ہوتی ہے، اور کچھ چیزوں سے آگ روشنی دینے لگتی ہے، اور کچھ چیزوں سے آگ انسان کے کنٹرول میں آجاتی ہے۔ ایک آگ سے انسان کی کتنی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی ہے؟ اس آگ کو حاصل کرنے کے الگ الگ انتظامات کس نے کئے ہیں؟ اور کس نے انسان کے اندر یہ صلاحیت رکھی کہ وہ اپنی اس خاص ضرورت کو سمجھ سکے اور ان الگ الگ بکھرے ہوئے مخصوص انتظامات کو دریافت کرسکے، وہ بظاہر بے ربط نظر آنے والی اشیاء کے آپس کے ربط کو جان سکے، اور ان سے فائدہ اٹھانے کے قابل بن سکے؟
جلتی ہوئی آگ، جلاتی ہوئی آگ، اشیاء کو گرم کرتی، نرم کرتی اور پگھلاتی ہوئی آگ، ماحول میں گرمی پھیلاتی ہوئی آگ، گردوپیش کو روشن کرتی ہوئی آگ، اور انسانوں کی نوع بنوع اور نئی نئی ضرورتیں طرح طرح سے پوری کرتی ہوئی آگ کو اگر ہم دیکھتے رہے، اس کے عناصر اور خواص کو شمار کرتے رہے، مگر اپنے رب کی قدرت کے اس کرشمے کو دیکھ کر اپنے رب کو نہیں پہچانا تو بلاشبہ ہم نے کائنات کو بنا سمجھے پڑھا۔
اشیاء کے خواص جان لینا اور ان خواص کے خالق کو نہ جاننا دراصل کائنات کی اصل زبان کو نہیں سمجھنا اور کائنات کو بنا سمجھے پڑھنا ہے۔
کائنات کا انسانوں سے ایک او رشتہ بھی ہے، اور اس میں بھی بڑے اہم اسباق ہیں، ہماری کھال آگ سے صرف جلتی ہی نہیں ہے بلکہ جل کر تکلیف بھی محسوس کرتی ہے، اور آگ ہماری کھال کو صرف جلاتی ہی نہیں ہے بلکہ اس کو شدید قسم کی تکلیف بھی دیتی ہے۔ آگ سے انسانوں کا تکلیف والا یہ رشتہ آخرت کی جہنم کو دنیا ہی میں قابل فہم بنادیتا ہے۔ یہ آگ ایک سبق ہے آخرت کا، جس نے یہ نہیں سمجھا، اس نے کائنات کے ایک اہم سبق کو پڑھ تو لیا مگر سمجھا نہیں۔ دنیا کی زندگی میں آخرت کو سمجھ لینے کے لئے اس کائنات میں بے شمار انتظامات ہیں۔
وحی الہی کے اجالے میں آجانے کے بعد انسان پر انکشاف ہوتا ہے کہ وہ کائنات کو بنا سمجھے پڑھ رہا تھا، اور اسی بنا سمجھے پڑھنے کو سمجھنا گمان کئے ہوئے تھا، اور اسی لئے اس کی عقل شدید قسم کی بے اطمینانی اور اضطراب کا شکار تھی، اجالے میں اسے ادراک ہوتا ہے کہ کائنات ایک کھلی ہوئی روشن کتاب کی طرح اسے سمجھ میں آنے لگی ہے۔ اس کی عقل کو اطمینان محسوس ہوتا ہے، اور اب اس کے لئے کائنات میں کچھ بھی الجھن والی بات نہیں رہتی ہے۔
انسانوں کے درمیان کائنات کو سمجھ کر پڑھنے کی تحریک چلانا ایک عظیم قرآنی مشن ہے، قرآن حکیم کی بے شمار آیتیں اس تحریک کے لئے حوصلہ اور سامان فراہم کرتی ہیں، ہم اور ہماری نسلیں کائنات کو سمجھ کر پڑھنے کا طریقہ سیکھ لیں، ان کے اندر اس کا ذوق وشوق پیدا ہوجائے، علم کے سارے میدانوں میں سمجھنے کے اس عمل کی حکمرانی رہے، علم کی ہر شاخ اس سے اچھی طرح مربوط رہے، درس گاہوں میں کائنات کو سمجھ کر پڑھنے اور پڑھانے کا ماحول ہو، انسانی معاشرے میں ہر طرف کائنات کی کتاب کے اسباق کا چرچا ہو، یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے، جو جاننے اور سمجھنے والوں پر عائد ہوتی ہے۔

عید کا دن ہے، چلو دل کی صفائی کرلیں

عید کا دن ہے، چلو دل کی صفائی کرلیں
محی الدین غازی
گھروں اور دلوں میں کوڑا ہونا لازمی ہے، اس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے، البتہ گھروں اور دلوں سے کوڑا نکالتے رہنے کا صحیح انتظام اور بھرپور اہتمام ہونا چاہئے۔
صفائی پسند گھروں میں کوڑے دان ہوتے ہیں، اگر کوڑے دان کو روزانہ خالی نہ کریں تو بدبو پیدا ہونے لگتی ہے، اور چند روز میں یہ بدبو ناقابل برداشت ہوجاتی ہے۔ کچھ گندی چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جنھیں گھر کے کوڑے دان میں نہیں رکھا جاتا ہے، بلکہ انہیں فورا گھر سے باہر کہیں پھینک دیا جاتا ہے، جیسے سڑے ہوئے آلو اور گندے انڈے وغیرہ، یا پھر انہیں کسی پلاسٹک بیگ میں اچھی طرح ہوا بند کردیا جاتا ہے تاکہ اندر کی گندگی اور بدبو اندر ہی رہے، باہر نہیں نکلے۔ کوڑے دان کو خالی کرتے ہوئے ضروری سمجھا جاتا ہے کہ کوڑا پھینکنے کے بعد کوڑے دان کو اچھی طرح دھولیا جائے، ورنہ کوڑے سے رسنے والا بدبودار پانی کوڑے دان میں لگا رہ جاتا ہے۔ گھر کی صفائی کرکے کوڑے دان میں کوڑا جمع کرنا جس قدر ضروری ہوتا ہے، کوڑے دان کو خالی کرنا اور اسے اچھی طرح صاف کرتے رہنا بھی اتنا ہی ضروری ہوتا ہے۔
گھروں کی طرح دلوں میں بھی مسلسل کوڑا جمع ہوتا رہتا ہے۔ یہ کوڑا اگر وقفے وقفے سے باہر نہیں پھینکا جائے، تو اس کوڑے میں بدبو پیدا ہونے لگتی ہے، پھر وہ بدبو پھیل کر پہلے دل اور پھر زبان کو خراب کرتی ہے، لاپرواہی بڑھے تو دل کا کوڑا پوری شخصیت کو آلودہ اور پورے ماحول کو گندا کردیتا ہے۔ کسی عزیز کے گھر آپ کی شایان شان عزت نہیں ہوئی، کسی نے آپ کے ساتھ سخت لہجے میں گفتگو کردی، کسی نے آپ کی کہیں شکایت کی اور آپ کو خبر ہوگئی، کسی نے آپ کے تحفے کو پسند نہیں کیا، اور کسی نے آپ کی پسند کا مذاق اڑا دیا، کسی نے آپ کو اپنی خوشی کی تقریب میں یاد نہیں کیا، اور کسی نے آپ کا تکلیف میں ساتھ نہیں دیا۔ کسی نے آپ کے جذبات کو ٹھیس پہونچائی، اور کسی نے آپ سے کیا وعدہ پورا نہیں کیا۔ کسی نے شادی میں شرکت نہیں کی اور کسی نے بیماری میں عیادت نہیں کی۔ کسی نے آپ کو سلام نہیں کیا اور کسی نے آپ کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ کسی نے آپ کی محنت پر پانی پھیرنے والا کمنٹ پاس کردیا، اور کسی نے آپ سے سیدھے منھ بات نہیں کی۔ کسی نے آپ کو مانگنے پر قرض نہیں دیا، اور کسی نے وقت پر آپ کو قرض نہیں لوٹایا۔
غرض ایسے ہر موقع پر آپ کے دل میں پیدا ہونے والا شکایت اور ناراضگی کا احساس آپ کے دل کے لئے کوڑے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور کوڑے کی صفت یہ ہے کہ وہ اگر فوری طور پر گندا نہ بھی ہو، اور اس میں ذرا بھی بدبو نہ ہو، مگر پڑے پڑے وہ سڑنے لگتا ہے، اور اس میں بدبو اور کیڑے پڑنے لگتے ہیں۔ پھلوں اور ترکاریوں کے چھلکے گندے اور بدبودار نہیں ہوتے ہیں، مگر وقت کے ساتھ گندے اور بدبودار ہوجاتے ہیں۔
اچھی طرح یہ بات سمجھ لیں کہ کسی سے متعلق کسی بھی طرح کی شکایت یا ناراضگی آپ کے دل میں ایک کوڑے کی حیثیت رکھتی ہے، چاہے آپ اس شکایت میں بالکل برحق کیوں نہ ہوں۔ آپ کے دل کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ دوسرے سے جو آپ کو شکایت ہوئی ہے اس میں غلطی کس کی طرف سے ہوئی ہے، آپ کے دل کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے رویہ سے پیدا ہونے والی شکایتوں کو دل میں رکھ کر پالا پوسا جائے اور انڈے بچے کرنے کا موقع دیا جائے، یا انہیں کوڑا سمجھ کر جلد از جلد دل کے باہر کردیا جائے۔
ملنے کو تو ایسے عمر رسیدہ لوگ بھی ملتے ہیں، جو بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کی بے شمار شکایتوں اور ان شکایتوں سے پیدا ہونے والی نفرتوں کو اب تک دل میں سجائے ہوئے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ گندے کوڑے سے اگر گھر نہیں سجائے جاتے تو دل کیسے سجائے جاسکتے ہیں۔
تھوڑے تھوڑے وقفے سے اپنے دل کا تنقیدی جائزہ لینا، جھاڑو لے کر کونے کونے سے اچھی طرح سارا کوڑا سمیٹ کر باہر پھینک دینا، اور کوڑا پھینکنے کے بعد دل کی دیواروں کو اچھی طرح دھو دینا، تاکہ کوڑے کا کوئی اثر باقی نہ رہ جائے، یہی صفائی پسند کرنے والوں کا شعار ہونا چاہئے۔
یاد رکھیں، دل کا گندا کوڑا زبان کے راستے باہر نکالنا اچھی بات نہیں ہے، اس سے دل بھی ٹھیک سے صاف نہیں ہوتا ہے اور زبان بھی گندی ہوجاتی ہے۔ اللہ پاک نے دل کو پاک کرنے کا اصل انتظام یہ کیا ہے کہ زبان پر آئے بغیر سارا کوڑا دل سے سیدھا باہر نکل جائے، اس انتظام سے فائدہ نہ اٹھانا بہت بڑی نادانی ہے۔
اگر کبھی آپ کوڑے دان خالی کئے بغیر ہی گھر بند کرکے لمبے سفر پر نکل جائیں، اور مدت کے بعد واپس آئیں تو گھر کا کیا حال ہوگا، کیسی بدبو پورے گھر میں بھری ہوگی، اس کوڑے سے جنم لینے والے حشرات کس طرح ادھر ادھر اڑتے اور رینگتے ہوں گے۔ یہ دیکھ کر آپ کی طبیعت میں کیسا تکدر ہوگا۔ یقین مانیں دل کا کوڑا اگر زیادہ دن تک باہر نہیں نکالیں تو دل کی بھی ایسی ہی حالت ہوجاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جو لوگ بدبو اور سڑاند میں رہنے کے عادی ہوجاتے ہیں انہیں محسوس نہیں ہوتا، لیکن بدبو کا عادی بن جاتا اچھی بات تو نہیں ہے۔ جان لیں کہ دوسروں کے رویے سے پیدا ہونے والی شکایتیں وہ کوڑا کرکٹ ہے جسے بس تھوڑے سے وقفے کے لئے برداشت کیا جاسکتا ہے۔ رسول پاک ﷺ نے اس کی مدت زیادہ سے زیادہ تین دن بتائی ہے۔ مدت لمبی ہونے کی صورت میں بدبو اور گندگی بڑھتی ہی جاتی ہے۔
دل میں کچھ گندی چیزیں ایسی بھی آجاتی ہیں، جنہیں فورا صاف کرنا ضروری ہوتا ہے، اور ایک لمحہ کے لئے بھی دل میں ان کا رہنا صحیح نہیں ہوتا ہے، یہ وہ گندے احساسات ہیں جو دوسروں کے رویہ سے نہیں پیدا ہوتے ہیں بلکہ شیطان کی طرف سے دل میں ڈال دئے جاتے ہیں، بغض، کینہ، حسد، احساس کمتری، گھمنڈ اور تکبر وغیرہ۔ ایسی کسی بھی گندگی کو ایک لمحے کے لئے بھی دل میں نہیں رہنا چاہئے۔ یہ شیطان کے دئے ہوئے وہ گندے انڈے ہوتے ہیں جنہیں دل کے کسی کونے میں نہیں رکھا جاتا ہے، بلکہ ان سے اٹھنے والی بدبو سے بچنے کے لئے فورا کہیں بہت دور پھینک دیا جاتا ہے۔
آپ کے گھر میں بدبو پھیلانے والا کوڑا چاہے وہ کہیں سے آیا ہو، دوسروں کا نہیں آپ کا مسئلہ ہے۔ اگر کسی نے آپ کے یہاں خراب مچھلی بھیج دی، اور آپ نے غصہ اس طرح اتارا کہ اس خراب مچھلی کو گھر کے نعمت خانے میں پڑا رہنے دیا، تو اس کا سارا نقصان آپ کو ہوگا، بدبو آپ کے گھر میں پھیل کر آپ کو اذیت دے گی۔ دل کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، کسی دوسرے کے رویے سے بدمزا ہوکر اگر آپ نے اپنے دل میں شکایت اور نفرت کو پالا، تو آپ کا دل گندا ہوگا، آپ کے مزاج میں خرابی آئے گی، اور آپ کو اس سے اٹھنے والی بدبو کو برداشت کرنا پڑے گا۔ پس بہتر طریقہ یہی ہے کہ سڑی ہوئی مچھلی کو گھر سے باہر پھینک دیا جائے، اور دوسروں کی وجہ سے پیدا ہونے والی شکایتوں اور نفرتوں کو دل سے باہر نکال دیا جائے۔ دوسروں کی وجہ سے ہونے والی گندگی سے اپنے گھر اور اپنے دل کو خراب رکھنا دانائی کی بات نہیں ہے۔
ہر وہ شکایت اور ناراضگی جو اللہ کے لئے نہیں ہو، ایک کوڑا ہے جس کی جگہ دل نہیں ہوسکتا ہے۔ دل تو وہ مقدس ومحترم اعلی مقام ہے جسے ہمیشہ پاک وصاف رہنا چاہئے۔

حلالہ حرام ہے، حرام ہے، حرام ہے

حلالہ حرام ہے، حرام ہے، حرام ہے
محی الدین غازی
اچھی طرح سمجھ لیں کہ عوام کو حلالہ کا ایک ہی مفہوم معلوم ہے اور اس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے، عوام میں حلالہ کا ایک ہی طریقہ رائج ہے اور وہ حرام طریقہ ہے۔ اگر آپ کو عوام کا ذہن پڑھنے اور عوام کا عمل دیکھنے کی فرصت نہیں ہے تو اردو کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ڈکشنری فیروز اللغات اٹھا کر دیکھ لیں، اس میں بس اتنا لکھا ہے ’’حلالہ : طلاق دی ہوئی عورت کا عارضی نکاح کرنا، تاکہ دوسرے شخص سے نکاح کرنے کے بعد اپنے پہلے خاوند سے پھر نکاح کرسکے‘‘۔
لطف کی بات یہ ہے کہ لفظ حلالہ نہ تو عربی زبان کا لفظ ہے اور نہ اسلامی فقہ کا لفظ ہے، مجھے کسی عربی لغت میں یہ لفظ نہیں ملا، اور نہ شریعت کی کسی عربی کتاب میں یہ لفظ ملا (ہندوستانی عالموں کی عربی تصانیف اس سے مستثنی ہیں) واقعہ یہ ہے کہ یہ لفظ ہندوستان میں رائج ہوا ہے اور عوام کے ذہنوں میں اس کا وہی مفہوم ہے جو سراسر حرام ہے، اور عوام کا عمل بھی اسی صورت پر ہے جو سراسر حرام صورت ہے۔ اس لئے حلالہ کے لفظ سے بعض مسلمانوں کا جذباتی تعلق بالکل بے معنی اور بے بنیاد ہے۔
جسے ہم اردو میں حلالہ کہتے ہیں، اسے عربی میں تحلیل کہا جاتا ہے، اور تحلیل کے معنی حلال ہونا نہیں حلال کرنا ہوتا ہے، اور مطلقہ عورت کو کسی بھی طرح حلال کرنا ایک حرام کام ہے۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ قرآن مجید میں تحلیل یا حلالہ کی حلال صورت بیان کی گئی ہے۔ اردو میں حلالہ اور عربی میں تحلیل کا مطلب ہوتا ہے حلال کرنے کی صورت اختیار کرنا۔ قرآن مجید میں حلال کرنے کی کوئی صورت نہیں بیان کی گئی ہے، بلکہ حلال ہوجانے کی صورت بیان کی گئی ہے۔ حلال ہونے کی صورت اور حلال کرنے کی صورت میں بڑا فرق ہے۔ خاوند طلاق دے دے تو مطلقہ کے لئے اس کے بھائی سے نکاح کرنا حلال ہوجاتا ہے، اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہوتی ہے، لیکن خاوند کے بھائی سے نکاح کو حلال کرنے کے لئے خاوند سے طلاق لینا نہایت قبیح اور غیر شرعی عمل ہے۔ کچھ اسی طرح کا فرق ہے قرآن میں بیان کردہ صورت میں اور معاشرے کے حلالہ کی صورت میں۔ قرآن میں مذکور پاک صورت کو حلالہ کا نام دینا بہت بڑی غلطی ہے۔ قرآن میں حلالہ نہیں ہے، بس حلال ہونے کی ایک پاکیزہ صورت ہے۔
قرآن مجید (سورۃ البقرۃ آیت 230) میں جو صورت ذکر کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی تین طلاق کا نصاب پورا کرلیتا ہے، (ظاہر ہے صحیح طریقے پر طلاق دینے کے نتیجے میں یہ نصاب شاذ ونادر ہی کسی کی زندگی میں پورا ہوگا) تو اب اس مطلقہ عورت کے لئے اس سابق شوہر کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اس دروازے کو کھولنے کی کوئی بھی کوشش قرآن اور شریعت کے مقاصد کے خلاف قرار پائے گی۔ اللہ نے یہ دروازہ اس لئے نہیں بند کیا ہے کہ بندے اسے کھولنے کی کوشش کریں۔ اگر کسی بھی طرح وہ دروازہ کھولنا مقصود ہوتا تو اسے بند ہی نہیں کیا جاتا۔
تین طلاقوں کے پڑجانے کے بعد عورت اس مرد سے تو شادی نہیں کرسکتی ہے، البتہ کسی اور مرد سے ضرور شادی کرسکتی ہے، اس لئے اسے چاہئے کہ وہ اپنے سابق شوہر کو بالکل بھول کر کسی اور مرد سے شادی کے بارے میں سوچے۔ اور جب شادی کرے تو اسی نیت سے کرے کہ اسی کے ساتھ رہنا ہے، کیوں کہ سابق شوہر کے ساتھ رہنا اس کے لئے اب بالکل جائز نہیں رہا۔
اس کے بعد اگر کسی بھی وجہ سے اس نئے رشتے میں بھی طلاق کی نوبت آ جاتی ہے، تو پھر وہ عورت اس دوسرے شوہر سے علیحدہ ہوجائے گی، اور کسی بھی مرد سے شادی کرنا اس کے لئے جائز ہوگا، فرق صرف اتنا ہوگا کہ دوسرے مردوں کی طرح اب وہ اپنے سابق شوہر سے بھی شادی کرسکے گی۔ دھیان دینے کی بات یہ ہے کہ سابق شوہر سے نکاح کرنے کی یہ صورت بہت ہی کم پیش آنے والی صورت ہے۔ یہ صورت رواج بننے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی ہے، یہ تو نہایت ہی شاذ ونادر پیش آنے والی صورت ہے۔
یاد رہے کہ قرآن مجید کی اس صورت میں کسی بند دروازے کو کھولنے کی بات نہیں کہی گئی ہے۔ پاک شریعت کی اس پاک صورت میں کسی بھی طرح کی کوئی قباحت تلاش نہیں کی جاسکتی ہے۔ کسی طرح کا کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس میں رشتوں کی حرمت ذرا بھی پامال نہیں ہوتی ہے، اور نکاح وطلاق کے اعلی انسانی اصول کہیں ٹوٹتے ہوئے نظر نہیں آتے ہیں۔
عربی میں تحلیل اور اردو میں حلالہ اس لئے حرام ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ کے بند کئے ہوئے دروازے کو کھولنے اور شریعت میں چور دروازہ نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس طریقے میں زنا والی قباحت بھی ہے، اللہ کے حدود کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کا گھناؤنا جرم بھی ہے۔ یہ مردانہ غیرت اور نسوانی حیا کو پیروں تلے روند دینے والا عمل ہے۔ اس عمل میں جو نکاح کیا جاتا ہے وہ حرام نکاح ہے اور جو اس کے بعد طلاق دی جاتی ہے وہ حرام طلاق ہے۔ اسے صاف صاف حرام کہنا اہل علم پر فرض ہے۔
یہ بحث کہ حلالہ تو حرام ہے، مگر کیا اس کا نتیجہ واقع ہوجائے گا؟ اور حلالہ کے حرام ہونے کے باوجود کیا سابق شوہر کے لئے وہ عورت حلالہ کے بعد حلال ہوجائے گی؟ یہ بحث اس وقت جائز ہوسکتی تھی جب کہ کم علمی میں اکا دکا یا چند ایک واقعات پیش آگئے ہوں۔ لیکن جب اس حرام عمل کو شریعت کا بند دروازہ کھولنے، اور شریعت کی دیوار میں نقب لگانے کے لئے برملا استعمال کیا جانے لگے، اور جب مقصد شریعت کے خلاف ایک ناجائز رواج وجود میں آجائے، اور اس ناجائز رواج کی بنیاد پر ناجائز کاروبار شروع ہوجائیں، تو پھر اس بحث کی بھی گنجائش نہیں رہتی ہے۔ اور یہ طے ہوجاتا ہے کہ حلالہ حرام ہی ہے، اور حلالہ کرنے کے باوجود وہ عورت اپنے سابق شوہر پر حرام ہی رہے گی۔
یاد رہے کہ جس معاشرے میں طلاق دینے کا صحیح طریقہ اختیار کیا جائے گا، وہاں تیسری طلاق کی نوبت شاذ ونادر ہی پیش آئے گی۔ اور جہاں تیسری طلاق شاذ ونادر پیش آتی ہو، وہاں سابق شوہر سے نکاح کے حلال ہونے کی نوبت بھی شاذ ونادر ہی پیش آئے گی۔ حلالہ کا مسئلہ دراصل اس سماج کا مسئلہ ہے جہاں ایک مجلس میں تین طلاقوں کے واقعات عام ہوجاتے ہیں۔ اگر حلالہ کی لعنت سے سماج کو بچانا ہے تو لازما ایک مجلس کی تین طلاقوں کی برائی سے سماج کو پاک کرنا ہوگا۔
ایک مجلس میں تین طلاقیں دینا شریعت کے کھولے ہوئے دروازوں کو بند کرنا ہے، اور حلالہ کرنا شریعت کے بند کئے ہوئے دروازے کو کھولنا ہے، اور یہ دونوں ہی اللہ کو ناراض کرنے والے کام ہیں۔
ملک کی پارلیمنٹ یا عدالت حلالہ کے سلسلے میں کوئی قانون بنائے تو ہمارا صحت مند رد عمل کیا ہوگا اس پر ابھی سے سوچنا چاہئے۔ لیکن اس سے بہت زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں ایک مجلس کی تین طلاقوں کی طرح حلالہ کے معاملے کو بھی اہل وطن میں اسلام کو بدنام کرنے اور خود مسلمانوں کو اسلام سے بدگمان کرنے کے لئے ضرور استعمال کریں گی۔ اسلام سے محبت کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کا داغ بھی اسلام کی پیشانی سے مٹائیں، اور حلالہ کا داغ بھی اسلام کی پیشانی سے مٹائیں۔ اللہ کی پاک وصاف اور حسین وجمیل شریعت ایسے داغوں سے پاک ہے۔

دو نمازوں کو جمع کرنا، دعوت اعتدال

دو نمازوں کو جمع کرنا، دعوت اعتدال
محی الدین غازی
جب میں دار العلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کررہا تھا تو ایک سفر میں دار العلوم کے دو اساتذہ اور کچھ طلبہ کا ساتھ نصیب ہوا۔ ٹرین ایک اسٹیشن پر کچھ زیادہ دیر کے لئے رکی، طے پایا کہ مصلی بچھاکر مغرب کی نماز پڑھ لی جائے، اساتذہ نے مجھے آگے کردیا، اور ہم نے تین رکعت مغرب کی نماز پڑھی، پھر مجھےاساتذہ کی جانب سے ہدایت ملی کہ عشاء کی نماز بھی پڑھادو، میں نے دو رکعت عشاء کی نماز پڑھادی۔ اپنے اساتذہ کا یہ عمل مجھے بہت معقول اور مناسب لگا، کیونکہ ٹرین چلنے کے بعد عشاء کے وقت میں نماز ادا کرنے کی ایسی سہولت ملنے کی امید نہیں تھی۔ تاہم تعجب یہ ہوا کہ حنفی مسلک میں تو اس طرح نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
بعد میں جب مطالعہ بڑھا تو معلوم ہوا کہ حنفی فقہاء نے بھی ضرورت پڑنے پر اس کی گنجائش کی ضرورت کو محسوس کیا ہے۔
جب ہم امام سرخسی اور امام کاسانی جیسے قدیم فقہاء احناف کی عبارتیں دیکھتے ہیں تو واقعی ہمیں کوئی اجازت نہیں نظر آتی ہے۔ احناف صرف جمع صوری کی اجازت دیتے ہیں۔ جمع صوری یہ ہے کہ ظہر کو اس کے آخر وقت میں اور عصر کو اس کے اول وقت میں اس طرح ادا کیا جائے کہ بظاہر لگے کہ دونوں کو ملا لیا، مگر حقیقت میں دونوں اپنے اپنے وقت میں پڑھی جائیں۔ جمع صوری کے نام پر یہ جو اجازت نظر آتی ہے وہ ممکن ہے پہلے قابل عمل رہی ہو جب مسافر اپنی مرضی سے نکلتا اور ٹھہرتا تھا، لیکن اب اپنے وقت پر چلنے والی بسوں ٹرینوں اور جہازوں کے زمانے میں وہ صورت کسی طرح قابل عمل نہیں لگتی ہے۔
تاہم بعد کے فقہاء میں حنفی فقیہ علامہ حصفکی کی کتاب الدر المختار میں ہمیں اس موقف میں حیرت انگیز تبدیلی نظر آتی ہے، وہ امام شافعی کا مسلک بیان کرتے ہیں کہ ان کے یہاں جمع کی اجازت ہے، پھر احناف کا مسلک بیان کرتے ہیں کہ ان کے یہاں اس کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں: "ضرورت کے وقت دوسرے امام کی تقلید میں کوئی حرج نہیں ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس دوسرے مسلک میں جو باتیں ضروری قرار دی گئی ہیں ان کا التزام کرے"۔
بہت خاص بات یہ ہے کہ اس اہم کتاب میں دوسرے مسلک پر عمل کرنے کی اس طرح کی اجازت مجھے صرف اسی مسئلے کے تحت ملی (ممکن ہے بعض اور مسائل میں بھی ایسی اجازت موجود ہو)۔
مذکورہ کتاب کا حاشیہ رد المحتار کے نام سے علامہ ابن عابدین نے لکھا ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہاں ضرورت سے مراد مشقت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر دونوں نمازوں کو الگ الگ وقتوں میں ادا کرنے میں مشقت ہو تو دونوں کو ایک ساتھ ادا کرسکتے ہیں۔
معروف حنفی محقق علامہ عبدالحی لکھنوی احناف کے موقف پر بے اطمینانی ظاہر کرتے ہیں، احناف نے حدیثوں کی جو تاویلیں کی ہیں ان پر بھی بے اطمینانی ظاہر کرتے ہیں، اور لکھتے ہیں، اللہ کے رسول کا سفر کی حالت میں اور عذر کی وجہ سے جمع کرنا تو بہرحال ثابت ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں: معاملہ مشکل ہے، غور کرتے رہو شاید کوئی راہ نکل آئے۔ (التعلیق الممجد)
جمع کے سلسلے میں احناف کے سخت موقف سے معروف حنفی عالم علامہ انور شاہ کشمیری بھی مطمئن نہیں نظر آتے ہیں، اور وہ جمع کی ایک اور صورت سے متعارف کراتے ہیں اور وہ یہ کہ ظہر اور عصر کے درمیان اچھا خاصا وقت وہ ہوتا ہے جو دونوں نمازوں کا مشترک وقت ہوتا ہے، اسی طرح سے مغرب اور عشاء کے درمیان بھی دونوں نمازوں کے لئے اچھا خاصا مشترک وقت ہوتا ہے۔ (فیض الباری)
معلوم یہ ہوا کہ سفر میں نماز ادا کرنے کی دشواریوں کو سامنے رکھتے ہوئے جمع کرنے کی گنجائش فقہ حنفی میں کچھ نہ کچھ موجود ہے۔ فقہ حنفی کے محققین کو اس اجازت کے دلائل کے قوی ہونے کا احساس بھی ہے، اور بندگان خدا کے لئے اس اجازت کی ضرورت کا احساس بھی ہے۔ سفر کے بڑھتے ہوئے رجحان اور وقت سے جڑی دشواریوں کو دیکھتے ہوئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اب اس اجازت کا عام اعلان کیا جائے۔
دوسری طرف یہ پہلو بھی سامنے رہے کہ جمع کرنا ایک استثنائی حالت ہے، اصل تو یہ ہے کہ نماز کے ہر وقت کو نماز کی خوشبو سے معمور کیا جائے۔ نماز کے ہر وقت میں نماز سے اچھی کوئی اور مصروفیت نہیں ہوسکتی ہے، اس لئے اپنے معمولات اور پروگراموں کے ٹائم ٹیبل اس طرح بنائے جائیں کہ ہر نماز کے وقت میں نماز کا وقت نکل آئے۔ بعض دینی اجتماعات میں دیکھا گیا ہے کہ نمازوں کو جمع کرنے کا شوق اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ لگتا ہے جمع کرنے میں زیادہ ثواب ہے۔ دین کا صحیح فہم رکھنے والوں کا یہ طریق نہیں رہا ہے۔
امام ابن تیمیہ نے بڑے نکتے کی بات لکھی ہے: نبی پاک ﷺ نے سفر میں عام طور سے قصر کیا مگر جمع کم دفعہ ہی کیا، اس لئے حدیث کا فہم وشعور رکھنے والے پسند یہی کرتے ہیں کہ جمع نہیں کریں مگر اسی وقت جب کہ اس کی ضرورت ہو، رسول پاک ﷺ کے نمونہ کو اختیار کرتے ہوئے کہ جب سفر درپیش ہوا اور پا بہ رکاب ہوئے تو جمع کیا، یہی وجہ ہے کہ امام احمد سے اس بارے میں مختلف قول ہیں کہ کیا اس مسافر کے لئے جمع کرنا جائز ہے جو بر سر سفر نہ ہو اور کہیں ٹھہر گیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت ایک طرف سفر میں قصر کرنے کے جواز پر متفق ہیں، اور قصر نہ کرنے کے جواز پر ان کا اختلاف ہے، دوسری طرف وہ نمازیں اپنے اپنے وقت پر پڑھنے میں متفق ہیں، اور نمازوں کو جمع کرنے کے جواز میں ان کا اختلاف ہے۔ (مجموع الفتاوی)
بعض لوگ قصر اور جمع میں فرق نہیں سمجھتے ہیں، قصر کا مطلب ظہر عصر اور عشاء کی نمازیں چار رکعت کے بجائے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ جمع کا مطلب ظہر عصر کو ملا کر پڑھنا اور مغرب اور عشاء کو ملا کر پڑھنا ہوتا ہے۔
بعض لوگ جمع کرنے کے تمام احکام سے واقف نہیں ہوتے اور جمع کرنے میں غلطی کر بیٹھتے ہیں، واضح رہے کہ فجر کو ہر حال میں اپنے وقت میں پڑھنا ہے، بس ظہر کو عصر کے ساتھ ملانے اور مغرب کو عشاء کے ساتھ ملانے کی اجازت ملتی ہے۔ فجر کو عشاء یا ظہر کے ساتھ ملانے کی اجازت نہیں ہے، اسی طرح عصر کو مغرب کے ساتھ ملانے کی اجازت بھی نہیں ہے۔
جمع کی اجازت کو تسلیم کرنے والے زیادہ اہل علم کی رائے یہ رہی ہے کہ جب سفر شروع ہورہا ہو یا سفر جاری ہو تو جمع کریں، اگر سفر کے دوران کہیں قیام کرلیا ہے اور ہر نماز آسانی سے اپنے وقت میں پڑھی جاسکتی ہے تو ہر نماز اس کے وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کریں۔
واضح رہے کہ اس مضمون میں جمع کرنے اور جمع نہیں کرنے کے دلائل کا جائزہ نہیں لیا گیا ہے، کیونکہ بہت سی کتابوں میں ان کا حد سے زیادہ تذکرہ ہوچکا ہے۔ اس مضمون کا مقصد دونوں مسلک والوں کو اپنے مسلک میں اعتدال اختیار کرنے کی دعوت دینا ہے۔

اپنے گھر کو نماز والا گھر بنائیں

اپنے گھر کو نماز والا گھر بنائیں
محی الدین غازی
(اس سال ماہ رمضان میں آپ ایک بڑا کام یہ بھی کرسکتے ہیں کہ اپنے گھر میں نماز کو اس کا اصل مقام لوٹادیں، کسی اور ماہ میں یہ کام اتنا آسان نہیں ہوگا، ماہ رمضان میں اس کے لئے گھر میں ماحول سازگار ہوتا ہے)
اسلامی گھر کی پہلی اور سب سے اہم علامت یہ ہے کہ وہاں نماز کو ہر مصروفیت سے زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اسلامی گھر کے ٹائم ٹیبل میں نماز کے اوقات بہت روشن اور جلی حرفوں میں لکھے ہوتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب نماز کا وقت ہوجائے تو گھر کے سب لوگوں کے سامنے ایک ہی ضروری کام رہے اور وہ نماز کی ادائیگی ہو۔
جس طرح ہر ذات سے بڑھ کر اللہ کی ذات سے محبت کرنا نجات کے لئے ضروری ہے، اسی طرح ہر کام سے بڑھ کر نماز کے کام کو اہمیت دینا نجات کے لئے ضروری ہے۔ آپ کے گھر کو اللہ کے گھر سے گہری نسبت ہونی چاہئے، اور وہ نسبت نماز سے قائم ہوتی ہے، جس طرح اللہ کے گھر میں سب اہم کام نماز ہے، اسی طرح آپ کے گھر میں نماز کے وقت سب سے اہم کام نماز بن جائے۔ اللہ کے رسول کی سیرت سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے۔
جس گھر میں نماز کا اہتمام ہوتا ہے، اس گھر میں برائیوں اور بے حیائیوں کا داخلہ مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ نماز برے کاموں سے اور فحش کاموں سے روکتی ہے۔ گھر میں بچے بدتمیزی نہیں کریں، برائی اور بے حیائی سے بچے رہیں، اس کا سب سے موثر نسخہ یہ ہے کہ بچوں کے اندر نماز کا شوق پیدا کردیا جائے۔ خبردار رہیں کہ جب کسی گھر میں برائی اور بے حیائی کا سیلاب داخل ہوجاتا ہے تو پھر بچنا اور بچانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
جس گھر میں بڑے اور بچے نماز کا اہتمام کرتے ہیں، اس گھر میں بچے بڑوں کا خیال اور احترام کرتے ہیں۔ جب بڑے اپنے بچوں کی تربیت اس طرح کرتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے حقوق پہچانیں، تو اللہ ان بچوں کے دلوں میں اپنے والدین اور بزرگوں کے حقوق کا شعور پیدا کردیتا ہے۔ جو لوگ اپنے بچوں کی تربیت کرتے وقت ان کے دلوں میں اللہ سے تعلق کی آبیاری نہیں کرتے ہیں، انہیں ڈرنا چاہئے کہ کہیں اللہ ان بچوں کی نشوونما کرتے ہوئے ان کے دلوں سے ان کے بڑوں کا خیال نہ نکال دے۔ قرآن مجید میں اس بات کے لئے اشارے موجود ہیں۔
بچوں کو نماز کا عادی اور شوقین بنانے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں اپنی نمازوں کا ساتھی بنالیں۔ جب آپ گھر میں رہیں تو کوئی نماز ان کے بنا نہیں پڑھیں۔ فجر سے لے کر عشاء تک ہر نماز میں ان کے ساتھ مسجد جائیں اور ساتھ ہی واپس آئیں۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ بچے نماز کے عادی اور شوقین بنیں گے، دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ بچے آپ کے دوست بنیں گے، نماز کی قربت جنریشن گیپ کو کم کرنے کا بہترین ذریعہ بن سکتی ہے۔
جتنی کم سنی سے آپ اپنے بچے کو مسجد کا ساتھی بنالیں اتنا ہی اچھا ہے۔ مسجد جائیں تو بچوں کے ساتھ پرلطف باتیں کرتے ہوئے جائیں، مسجد کا سفر ان کے لئے بوجھ نہیں بلکہ شوق بن جائے، اور یہ اس وقت ہوگا جب کہ مسجد جانا خود آپ کے لئے بوجھ نہیں بلکہ شوق ہو۔ یہ بات جان لیں کہ میٹھی اور گہری نیند سے اٹھ کر نماز پڑھنا ایک مشکل کام ہے، لیکن اگر محنت کرکے اسے زندگی کا معمول بنالیں تو وہ بالکل مشکل نہیں رہتا ہے۔
ضروری ہے کہ گھر کے سارے لوگوں کے دلوں میں نماز کا مقام ہر کام سے بلند رہے، ساتھ ہی گھر کے سارے افراد کو یہ بھی معلوم رہے کہ آپ کے دل میں نماز کا مقام ہر کام سے بلند ہے۔ آپ کے تعلقات کی بنیاد نماز بن جائے، اگر بچے اسکول کا ہوم ورک نہیں کریں یا اپنے حصے کا گھر کا کام نہیں کریں تو ہوسکتا ہے آپ نظر انداز کردیں، لیکن اگر وہ نماز نہیں پڑھیں تو آپ ان سے ضرور ناراض ہوجائیں، اور اس وقت تک ناراض رہیں جب تک وہ نماز پڑھنا نہیں شروع کردیں۔ ان کو ہمیشہ یہ احساس رہے کہ ان کے نماز پڑھنے سے آپ کو بہت خوشی حاصل ہوتی ہے، اور ان کا نماز چھوڑ دینا آپ کے دل پر انتہائی شاق اور ناقابل برداشت ہوتا ہے۔
جب بچے آپ کی مصروفیات میں مداخلت کرکے آپ کو بتائیں کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے، اور جب بچے تھکن کے باوجود یہ تجویز دیں کہ مسجد میں جاکر نماز پڑھ لی جائے، تو سمجھیں کہ بچوں کی نشوونما نماز کی محبت کے ساتھ ہورہی ہے۔ نہایت ضروری ہے کہ بچوں کی نشونما میں غذا کے ساتھ نماز بھی شامل رہے، غذا جزو بدن بنے اور نماز جزو روح بنے، ورنہ لاغر روح والے فربہ جسم کو تیار کرکے آپ اپنے بچے کے ساتھ کوئی بھلائی نہیں کریں گے۔
آپ کے گھر آنے والوں کو بھی یہ معلوم رہے کہ آپ کے گھر میں نماز کو اللہ سے تعلق کی ضروری علامت سمجھا جاتا ہے، اور اللہ سے محبت کو ہر محبت پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اگر کوئی بے نمازی میہمان آپ کی پرتکلف ضیافتوں کا لطف اٹھاتا رہے، اور آپ اس کی روش پر فکرمندی اور ناپسندیدگی ظاہر نہیں کریں تو یہ اچھی بات نہیں ہے۔ اس کا خراب اثر آپ کے بچوں پر بھی پڑتا ہے، غیر شعوری طور پر ان کے دل میں نماز کی اہمیت کم ہونے لگتی ہے۔
شوہر اور بیوی اور بچوں کے درمیان تعلقات بہت مضبوط اور مستحکم ہوجاتے ہیں، جب وہ نماز کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں، شوہر بیوی کو نماز کے لئے اٹھائے، اور بیوی شوہر کو نماز کے لئے اٹھائے۔ یاد رکھیں جب آپ اپنے بیوی بچوں کو نماز کے لئے ترغیب دیتے ہیں تو آپ ایک زبردست انبیائی سنت پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں۔
ابراہیم علیہ السلام نے اپنی ذریت کو اللہ کے محترم گھر کے پاس بسایا، ایک ایسی وادی میں جہاں کوئی پودا نہیں اگتا، اور مقصد صرف یہ تھا کہ وہ نماز کا اہتمام کریں۔ ابراہیم علیہ السلام جب بہت بوڑھے ہوگئے، اس وقت بھی دعا کرتے اور کہتے، رب اجعلني مقیم الصلاۃ ومن ذریتي، میرے رب مجھے نماز کا اہتمام کرنے والا بنادے، اور میری اولاد کو بھی نماز کا اہتمام کرنے والا بنادے۔ اسماعیل علیہ السلام کی اللہ پاک کے نزدیک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکات کی تاکید کرتے تھے۔ لقمان علیہ السلام بھی اپنے بیٹے کو نماز کا اہتمام کرنے کی نصیحت کرتے۔ عیسی علیہ السلام نے بچپن میں اپنے بارے میں بیان دیا، تو بتایا کہ میرے رب نے مجھے تاکید کی ہے کہ زندگی بھر نماز اور زکات کا اہتمام کرتا رہوں۔ رسول پاک ﷺ کو خصوصی ہدایت تھی، کہ اپنے اہل کو نماز کا حکم دیں، اور اس پر جمے رہیں۔ ازواج مطہرات کو بھی نماز اور زکات کے اہتمام کا خصوصی حکم دیا گیا تھا۔
رسولوں کی اس روشن تاریخ سے ہم بھی اپنے گھروں کو روشن کرسکتے ہیں۔

آؤ دسترخوان بچھائیں، مل جل کر سب کھانا کھائیں

آؤ دسترخوان بچھائیں، مل جل کر سب کھانا کھائیں
محی الدین غازی
مشفق میزبان بہت فکرمند تھے کہ رات کے ڈیڑھ بجے اسٹیشن ویران ہوجاتا ہے، اور ملک کا ماحول خراب ہے، ان کا خیال تھا کہ میرا رات میں اکیلے اسٹیشن جانا اور پھر تنہا ایک لمبا سفر کرنا خطرناک ہے، خاص طور سے مذہبی حلئے میں۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرین کے سفر میں پیش آنے والے کچھ انسانیت سوز واقعات اور پھر ان کی سوشل میڈیا پر مسلسل گردش نے بہت سے لوگوں کے دل میں شدید خوف پیدا کردیا ہے۔
پروگرام کے مطابق میں اسٹیشن پہونچ گیا، اور رات ڈیڑھ بجے ایک طویل سفر شروع ہوا، اگلے دن ایک اسٹیشن پر تقریبا پندرہ ہندو جوان ڈبے میں داخل ہوئے اور اپنے ریزرویشن کے مطابق مختلف سیٹوں پر بیٹھ گئے، دوپہر کا وقت تھا اور میں کھانا کھاچکا تھا، اپنے کیبن میں میں اکیلا تھا اور باقی سیٹیں خالی تھیں، میں نے دیکھا کہ ان سب نے آپس میں کچھ مشورہ کیا اور میرے کیبن میں جمع ہونے لگے، میرے دل میں تشویش کی ایک لہر سی دوڑ گئی، مگر تھوڑی دیر میں مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ لوگ مل بیٹھ کر کھانا کھانا چاہتے ہیں، اور اس کے لئے انہیں یہ خالی کیبن مناسب لگا ہے۔
میں کھڑکی کی طرف کھسک کر بیٹھ گیا، ان میں سے کچھ تو سیٹوں پر بیٹھ گئے اور باقی وہیں کھڑے ہوگئے۔ ان کے پاس زیادہ سے پراٹھے تھے اور طرح طرح کی سبزیاں اور چٹنیاں تھیں، پہلے دو دو پراٹھے سب کے ہاتھوں میں تھمادئے گئے، اور پھر ہر ایک اپنے اپنے ٹفن میں سے تھوڑی تھوڑی ہر طرح کی سبزی اور چٹنی سب کے پراٹھوں پر ڈالنے لگا، میں کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھنے لگا، اتنے میں ایک نے پراٹھا میری طرف بڑھایا، میں نے فورا معذرت کرلی اور اپنے جھولے کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ میں ابھی کھانے سے فارغ ہوا ہوں، تھوڑی ہی دیر بعد پھر انہوں نے کھانے میں شریک ہونے کی پیش کش کی، میں نے معذرت کی مگر وہ سب اصرار کرنے لگے۔
میرے ذہن میں کئی باتیں آرہی تھیں، بچپن میں امی کی نصیحت کہ راستے میں کسی اجنبی کی دی ہوئی چیز مت کھانا، زہر خورانی کے بہت سارے آنکھوں دیکھے واقعات، اور پھر ان کا ہاتھ دھوئے بغیر کھانا بانٹنا، اور پھر ہندووں سے سدا کی اجنبیت، میں نے اور زیادہ شدت کے ساتھ معذرت کرلی۔
اب ان سب نے کھانا کھانا شروع کردیا اور میں کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ اللہ کے رسول کا مکہ والوں سے قبیلہ کا تعلق تھا، اور عرب کے دوسرے لوگوں سے شعب (قوم) کا تعلق تھا، قبیلے اور قومیں اللہ تعالی نے ایک بڑی حکمت کے تحت بنائے ہیں، ان سے آپس میں تعارف ہوتا ہے، ایک قبیلے کے لوگ آپس میں ایک دوسرے سے خوب مانوس رہتے ہیں، اور ایک قوم کے لوگ بھی ایک دوسرے سے آسانی سے مانوس ہوجاتے ہیں (وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا)۔ ہم مسلمانوں کا اس ملک میں رہنے والوں سے نہ قبیلے کا تعلق رہا اور نہ قوم کا تعلق باقی رہ سکا، اجنبیت کے بڑے بڑے صحرا ہمارے بیچ میں حائل ہیں، اس قدر اجنبیت کے ساتھ ہم اپنا پیغام ان تک کس طرح پہونچا سکتے ہیں، اور اپنے بارے میں غلط فہمیاں کیسے دور کرسکتے ہیں۔
ابھی میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ انہوں نے دوبارہ مجھے متوجہ کرکے پراٹھا میری طرف بڑھایا، مجھے بھوک بالکل نہیں تھی مگر میں نے دل تھام کر وہ پراٹھا تھام لیا، پراٹھا میرے ہاتھوں میں آنا تھا کہ ان کے درمیان خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی، اور ہر کسی نے کچھ نہ کچھ میرے پراٹھے پر ڈالنا شروع کردیا، میں نے کھانا شروع ہی کیا تھا کہ انہوں نے ایک اور پراٹھا اصرار کے ساتھ دے دیا، اب مجھے ان کے ساتھ کھانے میں لطف آنے لگا تھا، تھوڑی دیر میں مجھے احساس ہوا کہ میں ان کے قبیلے کا ایک فرد ہوں، یہ احساس اپنے اندر عجیب سی فرحت لئے ہوئے تھا، کھانا ختم ہوا تو شکر اور گھی پر لپٹی ہوئی روٹیاں آدھی آدھی کرکے تقسیم کی گئیں، آدھی روٹی میرے حصے میں بھی آئی، میں سوچنے لگا کہ یہ سب اپنے اپنے گھر سے لائی ہوئی چیزیں تقسیم کرکے کھارہے ہیں، آخر میں کیسے اس تقسیم میں اپنا حصہ شامل کروں، پھر خیال آیا اور میں نے بیگ سے عرب کی کھجوریں نکالیں اور اپنے ہاتھ سے سب کو بانٹ دیں، شاید ہمارے ملک کے ہندو کھجور سے زیادہ آشنا نہیں ہیں، بہرحال انہیں وہ کھجور بہت اچھی لگی۔
شام ہوئی تو ان میں سے ایک نے چاول کے لڈو نکال کر بانٹے، ایک لڈو میرے حصہ میں بھی آیا، بہت لذیذ تھا، رات میں میرا اسٹیشن آگیا اور سب نے دروازے پر آکر مجھے اس طرح رخصت کیا جیسے وہ اپنے قبیلے کے ایک فرد کو رخصت کررہے ہوں، کچھ نے میرے ساتھ سیلفی بھی لی۔ میں اترگیا، پھر ٹرین چل دی اور میں اپنے چاہنے والوں کی طرف دیر تک دیکھتا رہا، یہ سب لوگ بہت دور کسی ’’دیوی‘‘ کے درشن کے لئے جارہے تھے۔
میرا یہ احساس پہلے بھی تھا، اور اب تو اور گہرا ہوگیا ہے، کہ ہندوستانی عوام کے ذہن کو پڑھنے کے لئے اور ہندوستان کے حالات کو جانچنے کے لئے سب سے معتبر اور بہترین ذریعہ ٹرین ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا غیر معتبر ہے، اور سوشل میڈیا تو بالکل بھروسے کی چیز نہیں ہے، بستیوں کا حال یہ ہے کہ مسلمان اور ہندو ایک دوسرے سے الگ تھلگ تحفظات کے ساتھ رہتے ہیں، اور ایک دوسرے کو ٹھیک سے پڑھنے کا موقع نہیں ملتا، ٹرین میں سب لوگ ایک دوسرے سے بہت قریب آجاتے ہیں، اور ایک دوسرے کو آسانی سے پڑھ سکتے ہیں۔ آپ ٹرین میں جتنا زیادہ سفر کریں گے اتنا ہی زیادہ لوگوں کو پڑھ سکیں گے۔ میں نے ٹرین میں سفر کرتے ہوئے جس قدر ہندووں کو پڑھا ہے، میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہندووں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے ابھی تک اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں، بہت سے ہندو ابھی بھی مسلمانوں سے نفرت نہیں رکھتے ہیں، اور حلئے سے مذہبی نظر آنے والے مسلمانوں کا تو وہ بہت احترام کرتے ہیں۔
یہ صورت حال ایسی ہی رہے گی یہ ضروری نہیں ہے، نفرت پھیلانے والے اپنا کام مسلسل کئے جارہے ہیں، ایسے میں مسلمانوں کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے، انہیں آگے بڑھ کر نفرت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنا ہوگا، یہ کام سیکولر ہندووں سے زیادہ اچھی طرح دین دار مسلمان کرسکتے ہیں۔ اس ملک میں اسلام کا تعارف عام ہونا بہت ضروری ہے، کہ وہ سچا اور بہت اچھا دین ہے، اور مسلمانوں کا تعارف عام ہونا بھی بہت ضروری ہے کہ وہ اچھے اور قابل اعتماد لوگ ہوتے ہیں، ان کی انسانیت، دین داری اور امانت داری پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے، ملک کی بساط پر اچھا دسترخوان چننے 

میرا پیارا بچپن

میرا پیارا بچپن
محی الدین غازی
امی پورے خاندان میں اپنی سختی کے لئے ممتاز تھیں، میرے نانیہال کے سارے بچے ان سے ڈرتے تھے، دوسری طرف ابا اپنی نرمی کے لئے ممتاز کہ کسی کو ذرا تکلیف میں دیکھتے اور دل بے قرار ہوجاتا، اس بے مثال سختی اور اس بے نظیر نرمی کے درمیان میرا بچپن بڑے مزے سے گزرا۔
مجھے بچپن کی دو چیزیں سب سے زیادہ یاد ہیں، کتابیں پڑھنا اور بہنوں کے ساتھ کھیلنا، کبھی وہ میرے ساتھ فٹ بال جیسے کھیل کھیلتی تھیں، اور کبھی میں ان کے ساتھ گڑیا اور گھروندے کے کھیل کھیلتا تھا۔
امی باہر کے ماحول سے بہت زیادہ خوف زدہ رہتی تھیں، اور سختی سے نگرانی کرتی تھیں کہ میں باہر کی کسی برائی کے نزدیک نہیں چلا جاؤں یا باہر کی کوئی برائی میرے پاس نہیں آجائے۔
گلی میں کھیلنے والے بچے گالیاں بھی بکتے تھے اور فلمی گانے بھی گاتے تھے، لیکن میری مجال نہیں تھی کہ زبان پر کوئی گندا لفظ یا کوئی فلمی گانا آجائے، امی کی دھمکی کان میں گونجتی تھی کہ کوئی گندی بات سنی تو زبان جلادوں گی، مجھے امی کی دھمکی کے سچ ہوجانے کا پورا پورا یقین تھا، اس لئے نہ میں نے کبھی کوئی گندی بات کہی اور نہ امی نے زبان جلائی۔
امی نے گلاس ٹوٹنے پر کبھی نہیں مارا، لیکن بڑوں کے ساتھ بے ادبی کرنے پر کبھی نہیں بخشا، بڑوں کا ادب امی نے بچپن سے ہی عادت کا حصہ بنادیا تھا۔ گھر میں کام کرنے والی خاتون ہوں یا دودھ لانے والے بزرگ ہوں ہمارے لئے کوئی خالہ اور دادی تھیں اور کوئی چچا اور دادا تھے، کسی کو نام لے کر پکارنے کی مجال نہیں تھی۔
کتابیں پڑھنا میرا بہترین مشغلہ تھا، امی کے ساتھ کسی کے یہاں گھومنے جاتا تو میزبان کے گھر میں کھلونوں کے بجائے کتابیں تلاش کرتا، اور کوئی کتاب مل جاتی تو اس میں غرق ہو جاتا، اور پھر کسی بات کا ہوش نہیں رہتا۔ امی مجھے اچھی کتابیں پڑھنے دیتی تھیں، اور نگاہ رکھتی تھیں کہ کوئی نامناسب کتاب میرے ہاتھ نہ لگ جائے۔
نانا ابا شیروانی پہنتے تھے اور انہوں نے میرے لئے اس وقت شیروانی سلوائی جب میری عمر محض چھ سات سال تھی، نانا ابا اپنے بیٹوں اور نواسوں کو شیروانی میں دیکھ کر خوش ہوتے تھے، اور اس طرح بڑی خوب صورتی سے ہمارے دلوں میں اپنے اونچے خواب تعمیر کیا کرتے تھے۔
بچپن سے ہی میرے دل میں بڑا عالم بننے کا شوق پیدا ہوگیا تھا، یہ شوق ابا جان کو دیکھ کر پیدا ہوا تھا، لیکن اس شوق کی مسلسل آبیاری امی نے کی تھی، وہ سدا یہی کہتی رہیں کہ تم کو اپنے ابا کے جیسا بننا ہے۔ ابا جان ان کے لئے ایک مثالی شخصیت تھے۔ بڑا عالم بننے کے شوق نے مجھے ایک پرشوق طالب علم بنا دیا، اور اب تمنا یہ ہے کہ زندگی طالب علمی کا لطف اٹھاتے ہوئے گزرتی رہے۔
میں نے اردو اور ہندی دونوں زبانیں جتنی بھی سیکھیں گھر میں سیکھیں، میں ان دونوں زبانوں کے سلسلے میں صرف امی کا شاگرد رہا، ابا جان کو ہر وقت پڑھتے اور لکھتے دیکھ کر پڑھنے اور لکھنے کا شوق پیدا ہوا، لیکن حروف پہچاننا اور قلم پکڑنا امی سے سیکھا، میرا داخلہ اسکول میں پہلی بار درجہ چہارم میں ہوا، اس سے پہلے کی ساری تعلیم گھر میں امی کی درس گاہ میں ہوئی، اس چھوٹی سی درس گاہ میں امی تھیں اور میں اور میری چھوٹی دو بہنیں۔
بچپن میں بہت سے اساتذہ سے سیکھنے کا موقع ملا، رامپور کی مرکزی درس گاہ میں درجہ چہارم میں داخلہ لیا اور نامکمل چھوڑ کر امی کے ساتھ اور ابا کے پاس مدینہ منورہ چلا گیا، وہاں عربی مدرسے میں درجہ اول میں داخلہ ہوا اور پھر پانچ سالوں میں تین بار مکان بدلا اور ساتھ ہی اسکول بھی بدلا، اس طرح چار مدرسوں کے بہت سے اساتذہ سے بچپن ہی میں ملاقات ہوگئی، ان میں سے چند ایسے بھی ملے جو چھوٹے طلبہ کو اونچے خواب دکھانے کی فکر کرتے تھے۔ میرے محسن بزرگوں کی فہرست میں وہ اونچے خواب دکھانے والے اساتذہ سرفہرست نظر آتے ہیں۔
میں نے اپنے بچپن سے یہ سیکھا ہے کہ بچپن میں اونچے خواب دکھانے والے لوگ مل جائیں تو بچپن بہت حسین وجمیل ہوجاتا ہے۔ میں اس لحاظ سے بچپن میں بہت خوش نصیب رہا۔ ابا جان سے عزائم کو جلا دینے والی اور حوصلہ بڑھانے والی باتیں سننے کو ملتی رہیں، یہ باتیں دل میں اترجاتی تھیں اور کئی کئی دن تک دل کو پرجوش رکھتی تھیں، ان سے پیدا ہونے والی کیفیتیں میری زندگی کا نہایت قیمتی سرمایہ ہیں۔
بچپن میں امی نے ہمیں رزق کی قدر کرنے پر بہت ابھارا، ان کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ روٹی تازہ ہو یا باسی ہمیں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا، کھانے میں دال روٹی ہو یا قورمہ اور بریانی، ہر حال میں بہت خوش ہو کر کھانا کھاتے۔ امی نے اس کی تربیت بھی دی تھی کہ جو چیز کم ہو اسے بھائی بہنوں میں بانٹ کر کھایا جائے۔ امی کی تربیت کا نتیجہ ہے کہ آج بھی مل بانٹ کر کھانے میں جو لطف ملتا وہ کبھی اکیلے کھانے میں نہیں ملتا۔
بچپن میں سب سے زیادہ تکلیف اس وقت ہوتی تھی جب کوئی بڑا سب کے سامنے ڈانٹ دیتا تھا۔ بہت سے بڑے لوگ چھوٹے بچوں کے جذبات کا لحاظ نہیں کرتے ہیں، اور برسر عام جھڑک کر بے عزت کردیتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کے پاس جذبات نہیں ہوتے ہیں، حالانکہ بچوں کے پاس جذبات ہوتے ہیں اور بچوں کی طرح ہی ان کے جذبات بھی نازک ہوتے ہیں۔
بچپن میں دادی جان کی خدمت کرنے کا موقعہ بھی خوب ملا، میری دادی بہت ضعیف تھیں، اور ان کے جسم میں درد رہتا تھا، امی خود بھی دادی کا بہت خیال رکھتی تھیں، اور ہم سے بھی ان کی خوب خدمت کراتی تھیں۔ ہم بھائی بہن مل کر روز شام کو کافی دیر تک ان کے پاؤں دبایا کرتے تھے۔ امی نے اس طرح ہمیں دادی کی دعائیں لینے کا خوب خوب موقعہ فراہم کیا۔ جب ہم دادی کے پاؤں دباتے تو ابا ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ ابا دادی سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کی ذرا سی تکلیف پر بے چین ہوجاتے تھے۔
بچپن میں بڑی بڑی شخصیات کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا، مولانا جلیل احسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ کو میں مدرسہ والے دادا کہتا تھا، ان کے کمرے جاتا تو کچھ نہ کچھ کھانے کو ضرور مل جاتا، مشہور شاعر حفیظ میرٹھی کو روبرو سنا اور متاثر ہوا، ان کی کئی غزلیں بچپن ہی میں یاد کرلیں۔
کلاس مانیٹر اور ٹیم کیپٹن بننے کا شوق مجھے شروع سے رہا، اور ہمیشہ یہ شوق پورا بھی ہوتا رہا، کھیل اور تعلیم سے جڑے مقابلوں میں شرکت کا شوق بھی بہت زیادہ تھا، ہر مقابلے میں شرکت ضرور کرتا تھا، چاہے کوئی پوزیشن آئے یا نہ آئے۔ سب سے پہلے اسٹیج پر مرکزی درس گاہ رامپور کے سالانہ تعلیمی ہفتے میں حدیث پڑھنے کے لئے گیا، پہلی پوزیشن آئی، اس سے حوصلہ ملا اور سرگرمیوں میں شرکت کرنا ایک شوق بن گیا۔ میرا تجربہ ہے کہ بچپن میں ملنے والے مواقع پوری زندگی پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔
ایک دن امی کی آنکھوں سے زارو قطار آنسو بہتے ہوئے دیکھے، پوچھا امی کیوں رو رہی ہیں، امی نے بتایا مولانا مودودی کا انتقال ہوگیا، بس اس دن سے مولانا مودودی کی عظمت دل پر نقش ہوگئی۔ اسی طرح ایک دن ابا کی تقریر مرکزی درس گاہ رام پور میں سنی، ابا حسن البنا کا ذکر کررہے تھے اور رہ رہ کر رونے لگتے تھے، میں بھی اس دن سے حسن البنا شہید کا عقیدت مند ہوگیا۔ دونوں شخصیتوں کے بارے میں جب بعد میں پڑھا تو ان کی قدر اور بڑھی۔
میں نے بچپن میں بہت سے بڑوں کا پیار پایا، اللہ سے دعا ہے کہ انہیں ان کے پیار کا بہت پیارا صلہ ملے، ان کا پیار نہیں ہوتا تو میرا بچپن اتنا حسین وجمیل نہیں ہوتا۔
(یہ مضمون ’’جنت کے پھول‘‘ کے مدیر نے اصرار کرکے لکھوادیا، موصوف کا بہت بہت شکریہ)

طلاق کا ’’دینا‘‘ اور طلاق کا ’’پڑنا‘‘

طلاق کا ’’دینا‘‘ اور طلاق کا ’’پڑنا‘‘
محی الدین غازی
مسلم پرسنل لا کے تعلق سے سب سے سنگین مسئلہ طلاق کا ہے، اگر طلاق کے مسئلے پر امت ایک صحیح موقف اختیار کرنے کا فیصلہ کرلے، تو مسلم پرسنل لا بڑی حد تک محفوظ ہوسکتا ہے۔
شوہر بیوی کو مختلف حالات میں اور مختلف طریقوں سے طلاق دیتا ہے، اور پھر شریعت کی رو سے بیوی پر یا تو طلاق پڑ جاتی ہے یا نہیں پڑتی ہے۔ بیوی پر طلاق پڑی یا نہیں پڑی، یہ جاننے کے لئے صاحب معاملہ کسی مفتی صاحب سے رجوع کرتے ہیں، اور مفتی صاحب اپنے فقہی مسلک کی روشنی میں جواب دیتے ہیں، ان کا جواب عام طور سے ان کے فقہی مسلک کے مطابق ہوا کرتا ہے۔
طلاق کے سلسلے میں اصلاح کا ایک محاذ یہ ہے کہ شوہر کو طلاق دینے کا مثالی طریقہ اور طلاق دینے کے آداب بتائے جائیں۔ طلاق کے آداب اور طلاق کا صحیح طریقہ نہیں جاننے اور نہیں اختیار کرنے کی وجہ سے پورا خاندان پریشانی اور مصیبت سے دوچار ہوتا ہے۔
طلاق کے سلسلے میں اصلاح کا ایک دوسرا اہم محاذ یہ ہے کہ طلاق پڑنے کے سلسلے میں ایک درست اور مناسب موقف اختیار کیا جائے۔ طلاق پڑنے کے معاملے میں بے اعتدالی کے نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں۔ ایک بہترین اور صحت مند سماجی صورت حال قائم رکھنے کے لئے طلاق دینا بھی اصلاح طلب ہے، اور طلاق پڑنا بھی توجہ طلب ہے۔
طلاق پڑنے کے سلسلے میں دو فقہی رویے پائے جاتے ہیں، ایک رویہ یہ ہے کہ شوہر کے منھ سے طلاق نکل گئی ہے، تو وہ واقع ہوجائے گی، خواہ کیسے ہی حالات میں طلاق کے یہ الفاظ اس کے منھ سے نکلے ہوں۔ ایک دوسرا رویہ یہ ہے کہ طلاق اس وقت تک نہیں واقع ہوگی جب تک کہ یقین نہ ہوجائے کہ شوہر کی حقیقی منشا طلاق واقع ہونے کی ہے۔ دونوں رویوں میں بڑا فرق ہے، ایک طرف کوشش یہ ہوتی ہے کہ طلاق دے دی گئی ہے تو پڑ بھی جائے، اور دوسری طرف یہ کوشش ہوتی ہے کہ طلاق کسی طرح نہیں پڑے۔
برصغیر کے مسلم سماج میں جو فقہی رویہ رائج ہے وہ طلاق پڑنے والا رویہ ہے، طلاق کو پڑنے سے روکنے والا رویہ نہیں ہے۔ یہاں طلاق کا دینا بھی بہت آسان سمجھا جاتا ہے، اور طلاق کا پڑنا بھی بہت آسان مانا جاتا ہے، ادھر گولی نکلی اور ادھر نشانے پر جا بیٹھی، کبھی کبھی تو طلاق دینے والا شوہر بھی حیران ہوجاتا ہے کہ طلاق کیسے ہوگئی، میں نے تو ایسا کچھ نہ چاہا تھا اور نہ سوچا تھا۔
اس کے برعکس یہاں خلع کا عمل بہت دشوار ہے، خلع چاہنے والی عورت اور اس کے گھر والے شوہر کا پیچھا کرتے اور دار القضا کے چکر لگاتے عاجز آجاتے ہیں، اور خلع حاصل نہیں ہوپاتا۔ حالانکہ نہ طلاق کو اتنا آسان ہونا چاہئے اور نہ خلع کو اس قدر مشکل ہونا چاہئے۔
طلاق کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی مذاق میں طلاق دے دے، ایسے شخص کو اس کے غیر شرعی مذاق کی قرار واقعی سزا ملنی چاہئے، لیکن اس کے مذاق کی سزا پورے خاندان کو دینے کی کیا ضرورت ہے۔ جب طلاق دینا خود طلاق دینے والے کا مقصد نہیں ہے، تو طلاق پڑجانے پر اصرار کیوں کیا جائے۔
طلاق کی ایک صورت یہ ہے کہ غلطی سے یہ لفظ منھ سے نکل جائے، لیکن غلطی سے اگر کوئی لفظ زبان سے نکل جائے تو اس کی اتنی بڑی سزا تو نہیں ہونی چاہئے۔
طلاق کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی غصہ سے بے قابو ہو کر طلاق دے دے، اور جب غصہ اترجائے تو اسے احساس ہو کہ اس نے غصہ کے نشے میں کیا بک دیا، سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہوش میں آنے کے بعد وہ خود محسوس کرتا ہے کہ جو بھی ہوا بلا ارادہ ہوا، اور وہ ہر طرح سے یہی چاہتا ہے کہ طلاق نہیں پڑے تو اس کے پڑنے پر اصرار کیوں کیا جائے۔
اسی طرح نیند کی حالت کی طلاق ہے، شراب کے نشے میں دی گئی طلاق ہے، ڈرا دھمکا کر دلائی گئی طلاق ہے، ایسی سب طلاقوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ شوہر بیوی سے جدا ہونا نہیں چاہتا ہے۔ جب شوہر جدا ہونا چاہتا ہی نہیں ہے، تو شوہر اور بیوی کے رشتہ زوجیت کو بچانے کی راہیں کیوں نہ تلاش کی جائیں، طلاق پڑنے کی راہ کو ترجیح کیوں دی جائے۔
طلاق کی مذکورہ بالا صورتوں کے سلسلے میں بہت سے فقہاء یہی کہتے ہیں کہ طلاق واقع ہوجائے گی، تاہم ایسی ہر صورت کے سلسلے میں ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی، اس نقطہ نظر کی بھرپور تائید اور ترجمانی ڈاکٹر احمد دسوقی اپنی ایک کتاب میں کرتے ہیں۔ کتاب کا نام ہے، الاسرۃ فی التشریع الاسلامی، اور اس کے مصنف قطر یونیورسٹی میں فقہ کے پروفیسر ہیں۔ کتاب میں اسلامی خاندان سے متعلق فقہی مسائل پر بڑی اچھی گفتگو ہے، خاص طور سے طلاق کے مسئلے پر تو بہت ہی عمدہ اور معرکۃ الآرا بحثیں ہیں۔
طلاق بدعی کے سلسلے میں عام فقہاء کی رائے یہ ہے کہ ایسی طلاق دینا تو غلط اور خلاف سنت کام ہے، لیکن اگر طلاق دے دی تو پھر وہ پڑ جائے گی۔ ڈاکٹر دسوقی دوسری رائے کو ترجیح دیتے ہیں کہ ایسی طلاق دینے کی سزا تو ملنی چاہئے لیکن طلاق واقع نہیں ہوگی، طلاق بدعی یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے، یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس نے صحبت کر لی ہو، ایسے وقت میں طلاق دینے سے منع کیا گیا ہے، اس کی حکمت یہ بتائی جاتی ہے کہ طلاق کے لئے مناسب وقت وہ ہے جب بیوی کی طرف رغبت کے سارے امکانات کے باوجود شوہر طلاق دے، غرض ایسی صورت میں جب کہ طلاق دینا خلاف سنت ہے، ڈاکٹر موصوف کے مطابق طلاق دینے پر وہ واقع نہیں ہوگی۔
ڈاکٹر دسوقی اس رائے کو بھی ترجیح دیتے ہیں، کہ ایک بار کی تین طلاقوں کو ایک ہی مانا جائے، اس کے علاوہ وہ یہ رائے بھی رکھتے ہیں کہ اگر ایک طلاق دے دی ہے تو اس طلاق کی عدت میں مزید طلاقیں دینے پر وہ مزید طلاقیں واقع نہیں ہوں گی، ایک عدت میں ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔ گویا ایک طلاق دے دی، تو پھر اس عدت میں اس پر مزید طلاقیں نہیں پڑیں گی، یا تو عدت کے اندر رجوع ہوجائے، یا پھر عدت ختم ہوجانے پر وہ اس رشتے سے بالکل آزاد ہوجائے۔
ڈاکٹر موصوف یہ رائے بھی بیان کرتے ہیں کہ طلاق کے وقت گواہوں کی موجودگی ضروری ہے، اور اگر گواہوں کی موجودگی کے بغیر طلاق دی گئی تو وہ بھی واقع نہیں ہوگی۔
طلاق کی عام صورت تو یہ ہے کہ شوہر کہہ دے میں نے تم کو طلاق دی، لیکن اس عام صورت کے علاوہ بھی کچھ صورتوں کا تذکرہ فقہاء کے یہاں ملتا ہے، ایک صورت یہ ہے کہ شوہر کسی آدمی کو اپنا وکیل بنادے اور کہے کہ میری طرف سے طلاق دے دو، ایک صورت یہ ہے کہ شوہر بیوی سے کہے اگر تم نے فلاں حرکت کی تو تم پر طلاق ہے، ایک اور صورت یہ ہے کہ شوہر بیوی سے کہے کہ ابھی تو نہیں پر اتنے عرصے کے بعد تم پر طلاق ہے۔
فقہاء کے درمیان ان سب صورتوں میں اختلاف موجود ہے، ڈاکٹر دسوقی کا موقف یہ ہے کہ ان تمام صورتوں میں طلاق نہیں پڑے گی۔ کیونکہ یہ سب وہ صورتیں ہیں جن میں یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ عین طلاق کے پڑنے کے وقت شوہر کی واقعی نیت طلاق کی ہوگی اور وہ نیت عین وقت پر نہیں بدلے گی۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو وکیل بنانے کے بجائے وہ خود اگر بیوی کے سامنے طلاق دینے کی نیت سے رو برو ہو تو بہت ممکن ہے کہ اس کا ارادہ بدل جائے۔ اسی طرح اگر بیوی وہ کام کردے جس سے شوہر نے روکا ہے پھر بھی ممکن ہے کہ عین طلاق دینے کے وقت شوہر طلاق نہیں دے اور اپنا فیصلہ بدل لے۔
ان مثالوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ طلاق کے الفاظ منھ سے نکل جانے کے باوجود طلاق کو پڑنے سے روکنے والا فقہی رویہ کیا ہے۔
ڈاکٹر موصوف یہ رائے بھی رکھتے ہیں کہ اگر شوہر نے بلا کسی وجہ کے طلاق دی ہے، تو بیوی کو حق ہے کہ وہ بلا وجہ طلاق دینے کے حوالے سے مناسب معاوضے کا مطالبہ کرے۔
ڈاکٹر موصوف کی رائے ہے کہ بیوی کے مطالبے پر اسے خلع ضرور ملنا چاہئے، شوہر راضی ہو خلع دینے پر یا راضی نہ ہو۔ مزید یہ کہ اگر شوہر کے ظلم وزیادتی کی وجہ سے بیوی خلع کا مطالبہ کررہی ہو تو شوہر کو خلع کا معاوضہ مانگنے کا حق نہیں ہے۔
ڈاکٹر دسوقی کی کتاب پڑھنے سے پہلے بھی اور پڑھنے کے بعد بھی میں نے جس قدر سوچا ہے اسی بات پر اطمینان ہوا ہے کہ طلاق واقع ہونے کی صورتوں کو کم سے کم کیا جائے، اور اسی صورت میں طلاق پڑجانے کا فیصلہ کیا جائے جب کہ طلاق کے پڑجانے کا پہلو بالکل واضح اور روشن ہو۔ میرا احساس ہے کہ اگر ہندوستان کے مسلم فقہاء اس دوسرے فقہی رویہ پر بھی غور کریں، تو مسلم معاشرہ کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ بے شمار معاملات ایسے پیش آتے ہیں جن میں نہ شوہر چاہتا ہے کہ طلاق پڑے اور نہ بیوی چاہتی ہے، لیکن شریعت کے حوالے سے انہیں ماننا پڑتا ہے کہ طلاق پڑگئی ہے۔ ضرورت ہے کہ شریعت کے موقف کا اس سلسلے میں از سر نو جائزہ لیا جائے۔
ایک بار کی تین طلاقوں کے سلسلے میں میری ایک رائے یہ بھی ہے کہ موجودہ صورت حال میں جب کہ عوام الناس کو ایک طلاق اور تین طلاق کا صحیح اور تفصیلی فرق معلوم نہیں ہے، ایک بار کی تین طلاقوں کو ایک طلاق ہی ماننا چاہئے، اور مکمل معلومات نہیں ہونے کے عذر کا اعتبار کرنا چاہئے۔
طلاق دینے کی ایک مثالی صورت ہے، جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے، اور جس کے مثالی ہونے پر تمام لوگ متفق ہیں، اس کے پڑنے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے، اور نہ ہی اختلاف کی گنجائش ہے، البتہ مثالی طریقے سے ہٹ کر جو طلاق دی جائے، اس کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے صورت حال کا بھی لحاظ ہونا چاہئے۔
اگر یہ روایت درست ہے کہ حضرت عمر نے عوامی رویہ کی اصلاح کے لئے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین طلاق قرار دیا تھا، تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ طلاق دینے کے مثالی طریقے سے ہٹ کر جو طلاقیں دی جاتی ہیں ان کے سلسلے میں اجتہاد کی گنجائش ہے، ان کے سلسلے میں کسی ایک موقف پر اصرار نہیں کرنا چاہئے، بلکہ وہ موقف اختیار کرنا چاہئے جو دین کی روح اور شریعت کے مقاصد سے ہم آہنگ ہو۔
بدلتے ہوئے حالات کا تقاضا بھی ہے، اور اس سے پہلے خود شریعت کا اپنا تقاضا ہے کہ مسلم پرسنل لا کی حفاظت کے ساتھ مسلم پرسنل لا پر نظر ثانی کا کام بھی جاری رہنا چاہئے، اس طرح مسلم پرسنل لا کی اچھی تصویر بھی سامنے رہے گی، اور اس کی حفاظت کا کام بھی آسان ہوجائے گا۔