میرا پیارا بچپن

میرا پیارا بچپن
محی الدین غازی
امی پورے خاندان میں اپنی سختی کے لئے ممتاز تھیں، میرے نانیہال کے سارے بچے ان سے ڈرتے تھے، دوسری طرف ابا اپنی نرمی کے لئے ممتاز کہ کسی کو ذرا تکلیف میں دیکھتے اور دل بے قرار ہوجاتا، اس بے مثال سختی اور اس بے نظیر نرمی کے درمیان میرا بچپن بڑے مزے سے گزرا۔
مجھے بچپن کی دو چیزیں سب سے زیادہ یاد ہیں، کتابیں پڑھنا اور بہنوں کے ساتھ کھیلنا، کبھی وہ میرے ساتھ فٹ بال جیسے کھیل کھیلتی تھیں، اور کبھی میں ان کے ساتھ گڑیا اور گھروندے کے کھیل کھیلتا تھا۔
امی باہر کے ماحول سے بہت زیادہ خوف زدہ رہتی تھیں، اور سختی سے نگرانی کرتی تھیں کہ میں باہر کی کسی برائی کے نزدیک نہیں چلا جاؤں یا باہر کی کوئی برائی میرے پاس نہیں آجائے۔
گلی میں کھیلنے والے بچے گالیاں بھی بکتے تھے اور فلمی گانے بھی گاتے تھے، لیکن میری مجال نہیں تھی کہ زبان پر کوئی گندا لفظ یا کوئی فلمی گانا آجائے، امی کی دھمکی کان میں گونجتی تھی کہ کوئی گندی بات سنی تو زبان جلادوں گی، مجھے امی کی دھمکی کے سچ ہوجانے کا پورا پورا یقین تھا، اس لئے نہ میں نے کبھی کوئی گندی بات کہی اور نہ امی نے زبان جلائی۔
امی نے گلاس ٹوٹنے پر کبھی نہیں مارا، لیکن بڑوں کے ساتھ بے ادبی کرنے پر کبھی نہیں بخشا، بڑوں کا ادب امی نے بچپن سے ہی عادت کا حصہ بنادیا تھا۔ گھر میں کام کرنے والی خاتون ہوں یا دودھ لانے والے بزرگ ہوں ہمارے لئے کوئی خالہ اور دادی تھیں اور کوئی چچا اور دادا تھے، کسی کو نام لے کر پکارنے کی مجال نہیں تھی۔
کتابیں پڑھنا میرا بہترین مشغلہ تھا، امی کے ساتھ کسی کے یہاں گھومنے جاتا تو میزبان کے گھر میں کھلونوں کے بجائے کتابیں تلاش کرتا، اور کوئی کتاب مل جاتی تو اس میں غرق ہو جاتا، اور پھر کسی بات کا ہوش نہیں رہتا۔ امی مجھے اچھی کتابیں پڑھنے دیتی تھیں، اور نگاہ رکھتی تھیں کہ کوئی نامناسب کتاب میرے ہاتھ نہ لگ جائے۔
نانا ابا شیروانی پہنتے تھے اور انہوں نے میرے لئے اس وقت شیروانی سلوائی جب میری عمر محض چھ سات سال تھی، نانا ابا اپنے بیٹوں اور نواسوں کو شیروانی میں دیکھ کر خوش ہوتے تھے، اور اس طرح بڑی خوب صورتی سے ہمارے دلوں میں اپنے اونچے خواب تعمیر کیا کرتے تھے۔
بچپن سے ہی میرے دل میں بڑا عالم بننے کا شوق پیدا ہوگیا تھا، یہ شوق ابا جان کو دیکھ کر پیدا ہوا تھا، لیکن اس شوق کی مسلسل آبیاری امی نے کی تھی، وہ سدا یہی کہتی رہیں کہ تم کو اپنے ابا کے جیسا بننا ہے۔ ابا جان ان کے لئے ایک مثالی شخصیت تھے۔ بڑا عالم بننے کے شوق نے مجھے ایک پرشوق طالب علم بنا دیا، اور اب تمنا یہ ہے کہ زندگی طالب علمی کا لطف اٹھاتے ہوئے گزرتی رہے۔
میں نے اردو اور ہندی دونوں زبانیں جتنی بھی سیکھیں گھر میں سیکھیں، میں ان دونوں زبانوں کے سلسلے میں صرف امی کا شاگرد رہا، ابا جان کو ہر وقت پڑھتے اور لکھتے دیکھ کر پڑھنے اور لکھنے کا شوق پیدا ہوا، لیکن حروف پہچاننا اور قلم پکڑنا امی سے سیکھا، میرا داخلہ اسکول میں پہلی بار درجہ چہارم میں ہوا، اس سے پہلے کی ساری تعلیم گھر میں امی کی درس گاہ میں ہوئی، اس چھوٹی سی درس گاہ میں امی تھیں اور میں اور میری چھوٹی دو بہنیں۔
بچپن میں بہت سے اساتذہ سے سیکھنے کا موقع ملا، رامپور کی مرکزی درس گاہ میں درجہ چہارم میں داخلہ لیا اور نامکمل چھوڑ کر امی کے ساتھ اور ابا کے پاس مدینہ منورہ چلا گیا، وہاں عربی مدرسے میں درجہ اول میں داخلہ ہوا اور پھر پانچ سالوں میں تین بار مکان بدلا اور ساتھ ہی اسکول بھی بدلا، اس طرح چار مدرسوں کے بہت سے اساتذہ سے بچپن ہی میں ملاقات ہوگئی، ان میں سے چند ایسے بھی ملے جو چھوٹے طلبہ کو اونچے خواب دکھانے کی فکر کرتے تھے۔ میرے محسن بزرگوں کی فہرست میں وہ اونچے خواب دکھانے والے اساتذہ سرفہرست نظر آتے ہیں۔
میں نے اپنے بچپن سے یہ سیکھا ہے کہ بچپن میں اونچے خواب دکھانے والے لوگ مل جائیں تو بچپن بہت حسین وجمیل ہوجاتا ہے۔ میں اس لحاظ سے بچپن میں بہت خوش نصیب رہا۔ ابا جان سے عزائم کو جلا دینے والی اور حوصلہ بڑھانے والی باتیں سننے کو ملتی رہیں، یہ باتیں دل میں اترجاتی تھیں اور کئی کئی دن تک دل کو پرجوش رکھتی تھیں، ان سے پیدا ہونے والی کیفیتیں میری زندگی کا نہایت قیمتی سرمایہ ہیں۔
بچپن میں امی نے ہمیں رزق کی قدر کرنے پر بہت ابھارا، ان کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ روٹی تازہ ہو یا باسی ہمیں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا، کھانے میں دال روٹی ہو یا قورمہ اور بریانی، ہر حال میں بہت خوش ہو کر کھانا کھاتے۔ امی نے اس کی تربیت بھی دی تھی کہ جو چیز کم ہو اسے بھائی بہنوں میں بانٹ کر کھایا جائے۔ امی کی تربیت کا نتیجہ ہے کہ آج بھی مل بانٹ کر کھانے میں جو لطف ملتا وہ کبھی اکیلے کھانے میں نہیں ملتا۔
بچپن میں سب سے زیادہ تکلیف اس وقت ہوتی تھی جب کوئی بڑا سب کے سامنے ڈانٹ دیتا تھا۔ بہت سے بڑے لوگ چھوٹے بچوں کے جذبات کا لحاظ نہیں کرتے ہیں، اور برسر عام جھڑک کر بے عزت کردیتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کے پاس جذبات نہیں ہوتے ہیں، حالانکہ بچوں کے پاس جذبات ہوتے ہیں اور بچوں کی طرح ہی ان کے جذبات بھی نازک ہوتے ہیں۔
بچپن میں دادی جان کی خدمت کرنے کا موقعہ بھی خوب ملا، میری دادی بہت ضعیف تھیں، اور ان کے جسم میں درد رہتا تھا، امی خود بھی دادی کا بہت خیال رکھتی تھیں، اور ہم سے بھی ان کی خوب خدمت کراتی تھیں۔ ہم بھائی بہن مل کر روز شام کو کافی دیر تک ان کے پاؤں دبایا کرتے تھے۔ امی نے اس طرح ہمیں دادی کی دعائیں لینے کا خوب خوب موقعہ فراہم کیا۔ جب ہم دادی کے پاؤں دباتے تو ابا ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ ابا دادی سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کی ذرا سی تکلیف پر بے چین ہوجاتے تھے۔
بچپن میں بڑی بڑی شخصیات کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا، مولانا جلیل احسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ کو میں مدرسہ والے دادا کہتا تھا، ان کے کمرے جاتا تو کچھ نہ کچھ کھانے کو ضرور مل جاتا، مشہور شاعر حفیظ میرٹھی کو روبرو سنا اور متاثر ہوا، ان کی کئی غزلیں بچپن ہی میں یاد کرلیں۔
کلاس مانیٹر اور ٹیم کیپٹن بننے کا شوق مجھے شروع سے رہا، اور ہمیشہ یہ شوق پورا بھی ہوتا رہا، کھیل اور تعلیم سے جڑے مقابلوں میں شرکت کا شوق بھی بہت زیادہ تھا، ہر مقابلے میں شرکت ضرور کرتا تھا، چاہے کوئی پوزیشن آئے یا نہ آئے۔ سب سے پہلے اسٹیج پر مرکزی درس گاہ رامپور کے سالانہ تعلیمی ہفتے میں حدیث پڑھنے کے لئے گیا، پہلی پوزیشن آئی، اس سے حوصلہ ملا اور سرگرمیوں میں شرکت کرنا ایک شوق بن گیا۔ میرا تجربہ ہے کہ بچپن میں ملنے والے مواقع پوری زندگی پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔
ایک دن امی کی آنکھوں سے زارو قطار آنسو بہتے ہوئے دیکھے، پوچھا امی کیوں رو رہی ہیں، امی نے بتایا مولانا مودودی کا انتقال ہوگیا، بس اس دن سے مولانا مودودی کی عظمت دل پر نقش ہوگئی۔ اسی طرح ایک دن ابا کی تقریر مرکزی درس گاہ رام پور میں سنی، ابا حسن البنا کا ذکر کررہے تھے اور رہ رہ کر رونے لگتے تھے، میں بھی اس دن سے حسن البنا شہید کا عقیدت مند ہوگیا۔ دونوں شخصیتوں کے بارے میں جب بعد میں پڑھا تو ان کی قدر اور بڑھی۔
میں نے بچپن میں بہت سے بڑوں کا پیار پایا، اللہ سے دعا ہے کہ انہیں ان کے پیار کا بہت پیارا صلہ ملے، ان کا پیار نہیں ہوتا تو میرا بچپن اتنا حسین وجمیل نہیں ہوتا۔
(یہ مضمون ’’جنت کے پھول‘‘ کے مدیر نے اصرار کرکے لکھوادیا، موصوف کا بہت بہت شکریہ)

ایک تبصرہ شائع کریں