بہترین امت کا رشتہ بہترین کتاب سے

بہترین امت کا رشتہ بہترین کتاب سے
محی الدین غازی
خلیفہ دوم حضرت عمرؓ نے ایک بار خطبہ دیا اور کہا: اچھی طرح سن لو، نکاح کے موقعہ سے عورتوں کا جو مہر طے کرتے ہو، اسے بہت زیادہ بڑھا کر مت طے کرو، سن لو اللہ کے رسولﷺ کے زمانے میں جتنی رقم بطور مہر رکھی جاتی تھی، اس سے زیادہ کسی نے رکھی، تو میں زائد رقم اس سے لے کر بیت المال میں دے دوں گا۔
اعلان مکمل ہوا، خلیفہ دوم منبر سے اترے، راستے میں ایک خاتون نے انہیں روک لیا۔ اور بڑی جرأت کے ساتھ کہا: امیر المومنین ، آپ کی بات مانی جائے گی یا اللہ کی کتاب کی بات مانی جائے گی؟ انہوں نے ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر کہا، یقیناً اللہ کی کتاب کی بات مانی جائے گی، لیکن آخر ہوا کیا؟ خاتون نے کہا، ابھی آپ نے اعلان کیا کہ مہر زیادہ مت طے کرو۔ جبکہ اللہ اپنی کتاب میں فرماتا ہے، (وآتیتم احداھن قنطارا) اس کی رو سے تو مہر بہت زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔ خلیفہ دوم فورا منبر پر گئے اور کہا میں نے زیادہ مہر طے کرنے سے منع کیا تھا، لیکن سنو، اپنے مال میں سے جتنی چاہو مہر دے سکتے ہو۔
واقعہ یہ ہے کہ اس بہترین امت کا ہر فرد قرآن مجید کی ایک ایک آیت پر غور کرتا تھا، اس کے اندر موجود احکام سے گہری واقفیت رکھتا تھا، اور قرآن کے حکم کو ہر حکم اور ہر حاکم سے بالا تر سمجھتا تھا، دراصل خیر امت کو نبی اکرم ﷺ نے قرآن مجید کی تعلیم کے ذریعہ تیار کیا تھا، اور قرآن مجید کی تلاوت کو خیر امت کے ہر فرد کی سب سے اہم مصروفیت بنادیا تھا، کتاب الہی کی تلاوت امت کی سطح پر جتنی زیادہ خیر امت نے کی، کسی اور امت نے نہیں کی، قرآن مجید میں پوشیدہ حکمت کے خزانوں کی تلاش خیر امت کے ہر فرد کا مطمح نظر تھا، ان خزانوں کی تلاش میں کسی نے سورہ بقرہ پر دس سال صرف کئے اور کسی نے بارہ سال، اور اتنے سال صرف کرنے کے بعد ان کو جو کچھ پالینے کا احساس ہوتا تھا، اس کی خوشی میں اونٹ ذبح کئے جاتے تھے اور دعوت عام ہوتی تھی۔ اس امت میں سب سے زیادہ ذہین اور صاحب فراست وہ مانا جاتا تھا جو سب سے زیادہ قرآن مجید پر غور کرتا تھا، خلیفہ وقت کی شوری کے لئے ان لوگوں کو اہل سمجھا جا تا تھا، جن کے دامن حکمت قرآنی کے موتیوں سے مالا مال ہوتے تھے۔
ہر طرف قرآن مجید کی حکمرانی تھی، دل کی دنیا پر بھی اور باہر کی دنیا پر بھی، کسی کو کسی علاقے کا گورنر یا قاضی بناکر بھیجا جاتا، اور پوچھا جاتا کہ فیصلے کس طرح کرو گے تو اس کا ایک ہی جواب ہوتا، اللہ کی کتاب میرے فیصلوں کی اساس ہوگی۔ کتاب الہی پر ایمان اس درجہ کا تھا، کہ وہ پورے اعتماد کے ساتھ کہتے تھے، کوئی بھی نیا مسئلہ درپیش ہو، ہمیں اللہ کی کتاب میں رہنمائی مل جائے گی۔
قرآن مجید سے ان کے لگاؤ کا عالم یہ تھا کہ وہ جب قرآن مجید پڑھتے تھے اور اس کی آیتوں پر گفتگو کرتے تھے تو ان کو لگتا تھا کہ وہ قیمتی گفتگو کررہے ہیں، اس کے علاوہ کوئی گفتگو ہو تو ان کو لگتا تھا کہ وقت ضائع ہورہا ہے، عطاء بن ابی رباح جنہوں نے صحابہ کا زمانہ پایا تھا، کہتے ہیں، تم سے پہلے جو لوگ تھے وہ ہر بات کو فضول سمجھتے تھے، ماسوا اللہ کی کتاب کے، بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے اور ان باتوں کے جو زندگی گذارنے کے لئے ضروری ہیں۔
ان کی مجلسیں قرآن مجید پر غور وفکر کے لئے ہوتی تھیں، ان کی تنہائیاں قرآن مجید کی تلاوت سے آراستہ رہتی تھیں، وہ نماز پڑھتے تو قرآن مجید کی آیتوں میں ڈوب جاتے، بسا اوقات ایک آیت کو اس قدر دوہراتے کہ صبح ہوجاتی، حضرت اسماء نماز کے لئے کھڑی ہوئیں ، دوران تلاوت عذاب کی ایک آیت آگئی، حال یہ ہوا کہ آیت پڑھ رہی ہیں اور دعا مانگ رہی ہیں، راوی کہتا ہے کہ میں بازار گیا، واپس آیا، مگر حضرت اسماء کو اسی حال میں پایا۔
وہ جہاد کے لئے نکلتے تو قرآن مجید کی تلاوت سے قوت اور توانائی حاصل کرتے، اور جام شہادت پیتے تو ان کے لبوں پر قرآن مجید کی کوئی آیت سجی ہوتی۔
ان کے دلوں میں قرآن مجید کی عظمت اس قدر بسی ہوئی تھی ، کہ جو قرآن مجید یاد کرلیتا وہ بھی ان کی نظروں میں عظیم ہوجاتا، وہ کہتے تھے ’’ہم میں سے کوئی سورہ بقرہ پوری یاد کرلیتا تو اس کی قدر ہماری نظروں میں بڑھ جاتی‘‘ اللہ کے رسول ﷺ نے واضح لفظوں میں فرمادیا تھا: ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے‘‘۔
جسے قرآن مجید کو یاد کرنے اور اس پر غور کرنے کا جتنا زیادہ موقعہ ملتا، اسے اپنی ذمہ داریوں کا بھی اسی قدر زیادہ احساس ہوتا، حضرت سالم اسلام لانے سے پہلے غلام تھے، لیکن قرآن مجید سے گہرے تعلق نے انہیں وہ مقام عطا کیا تھا کہ وقت کے بڑے بڑے سردار رشک کرتے تھے، قرآن مجید سے گہرا لگاؤ تھا، اللہ کے رسول ﷺ کو ان کی تلاوت بہت پسند تھی، ایک بار فرمایا: ساری حمد اللہ کی ہے، جس نے تمہارے جیسے لوگ میری امت میں شامل کئے۔ یہی سالم جنگ یمامہ میں اسلامی لشکر کا پرچم اپنے ہاتھ میں اٹھائے تھے، اور زبان پر یہ جملہ تھا: میں بہت برا حامل قرآن ٹھیروں گا، اگر میری سمت سے مسلمانوں پر حملہ ہوا اور میں نہیں روک سکا۔
دوسری طرف ان کے جگری دوست ابو حذیفہ پکار پکار کر حاملین قرآن کو اپنی ذمہ داری یاد دلا رہے تھے، اور کہہ رہے تھے، اے اہل قرآن، قرآن کو اپنے کارناموں سے سجادو۔ غور کرنے والے غور کریں، قرآن کو سجانے کی بات ہے، ریشمی جزدانوں سے نہیں، دلآویز نقش ونگار سے نہیں، عطر بیز محفلوں سے نہیں، بلکہ اپنے کارناموں سے۔ کیا شاندار تصور ہے قرآن مجید کو سجانے کا، آدمی قرآن مجید پڑھے، اس میں بڑا آدمی بننے کا راستہ تلاش کرے، کوئی بڑا کارنامہ انجام دے، اور اس کارنامہ کا جذبہ اور توفیق اس کو قرآن مجید کی آیتوں سے ملے۔
انہوں نے قرآن مجید سے گہرا تعلق قائم کیا، تو قرآن مجید نے ان کی زندگیوں میں عظیم انقلاب برپا کردیا، دنیا کے دوسرے نظام یا تو آزادی چھین لیتے ہیں، یا آزادی دے کر بڑی عیاری کے ساتھ قوت پرواز چھین لیتے ہیں، قرآن مجید نے ان کے ذہن ودماغ کو آزادی عطا کی تھی، اور آزادی کے ساتھ قوت پرواز بھی دی تھی، ساتھ ہی دوران پرواز گمراہ نہ ہونے کی ضمانت بھی دی تھی، اللہ کے رسول ﷺ نے جاتے ہوئے فرمایا: میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب چھوڑ کر جارہا ہوں، جب تک اسے مضبوطی سے تھامے رہو گے گمراہ نہیں ہوگے۔ خیر امت نے اللہ کی کتاب کو جس مضبوطی کے ساتھ تھاما، اس کی مثال کسی اور امت میں نہیں ملتی۔
بی بی عائشہ سے پوچھا گیا کہ آپ ﷺ کے اخلاق کیسے تھے، ام المومنین نے جواب دیا کہ آپ ﷺ کے اخلاق قرآن جیسے تھے، اس جواب میں زبردست پیغام ہے، کہ اگر تمہیں محض اپنی معلومات میں اضافہ کرنا ہے، تو الگ بات ہے، لیکن اگر واقعی اللہ کے رسول ﷺ کے اخلاق اپنانے کا شوق رکھتے ہو، اور اگر اللہ کے رسولﷺ کی سنت پر عمل کرنے کا سچا جذبہ رکھتے ہو، تو قرآن مجید کی طرف رجوع کرو۔
خیر امت میں شامل ہونے کے دروازے ابھی بھی ہر مسلمان کے سامنے کھلے ہیں، شرط یہ ہے کہ زندگی کی عمارت کی تعمیر قرآن مجید کی رہنمائی میں کی جائے، نقشہ بھی وہیں سے حاصل کیا جائے، اور نقش ونگار بھی وہیں سے اخذ کئے جائیں، بنیاد کے پتھر بھی وہیں سے لئے جائیں، اورعمارت بنانے کا طریقہ بھی وہیں سے دریافت کیا جائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں