اپنے دل سے کہیں، محبت کرے

اپنے دل سے کہیں، محبت کرے
محی الدین غازی
چمن کے حسن اور رنگینی کو بڑھانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ خوب صورت اور خوشبودار پھولوں کے پودے لگائے جائیں اور پھر ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کی جائے۔ انسانوں کی اس دنیا کو حسین اور دل کش بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان رہتے ہوئے انسانوں کے لئے کوئی خوب صورت سی مثال قائم کردی جائے کہ انسانوں کو انسانوں سے آباد یہ دنیا بہت اچھی نظر آنے لگے، یہ طریقہ حسین بھی ہے اور آسان بھی ہے، اسے ہر کوئی اختیار کرسکتا ہے، نہ اس کے لئے طاقت اور اقتدار درکار ہے اور نہ ہی دولت اور وسائل کی ضرورت ہے، بس سینے میں ایک زندہ، جیتا جاگتا اور حسن وجمال کو چاہنے والا دل ہونا چاہئے۔ میں نے بہت قریب سے کچھ لوگوں کو محبت کے پودے لگاتے ہوئے اور بڑے چاؤ اور لگن سے انہیں سیراب کرتے ہوئے پایا، اس وقت ان کا تذکرہ کرنے کے لئے طبیعت بے تاب ہے، کہ پھر موقعہ ملے، ملے نہ ملے۔
میرے نانا ابا اور نانی امی
امی کا انتقال ہوا تو ہم گیارہ بھائی بہن تھے، میں سب سے بڑا تھا، مگر کچھ زیدہ بڑا نہیں تھا، اور میرے چھوٹے بھائی بہن چھوٹے اور کچھ تو بہت چھوٹے تھے۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ چھوٹے بھائی بہنوں کی مناسب پرورش اور صحیح دیکھ بھال کے لئے مجھے شادی کرلینی چاہئے، اور گھر میں کسی صورت سوتیلی ماں کو نہیں آنا چاہئے۔ لیکن میرے نانا ابا اس رائے کے حق میں نہیں تھے، انہوں نے امی کے انتقال کے بعد ہی سے ابا جان کے لئے مناسب رشتہ تلاش کرنا شروع کردیا، اور پھر چند ماہ کے اندر ابا جان کا نکاح اپنے ایک دوست کی بیٹی سے کرادیا، نانا ابا اور نانی امی زندگی بھر ہماری دوسری امی کو اپنی بیٹی کی طرح مانتے رہے، وہ اکثر ہم بھائی بہنوں کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ اپنی دوسری امی کے ساتھ بہت اچھی طرح رہا کرو جس طرح تم سب اپنی پہلی امی کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ نانا ابا اور نانی امی کے اس نیک جذبے اور اس حسین رویے کی برکتیں ہم سب اپنے گھر میں برسہا برس سے محسوس کررہے ہیں۔
میری خالہ اپیا
خالہ اپیا کے حصے میں تین طرح کے بچے آئے، کچھ وہ جو ان کے پہلے شوہر سے تھے، کچھ وہ جو پہلے شوہر سے جدا ہونے کے بعد ان کے دوسرے شوہر سے ہوئے، اور کچھ وہ جو ان کے دوسرے شوہر کی پہلی بیوی سے تھے، خالہ اپیا نے اپنے بہت کشادہ اور آرام دہ دل میں ان سب کو بسالیا۔ تین طرح کے بچوں کی وہ حقیقی ماں بن گئیں۔ جن بچوں کی وہ حقیقی ماں نہیں ہیں، اگر ان سے ساری دنیا مل کر کہے کہ یہ تمہاری حقیقی ماں نہیں ہیں تو شاید وہ ماننے سے انکار کردیں۔
میرے بچوں کے نانا اور نانی
جب میں نے اپنی پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کی، تو بہت سے لوگوں نے ناراضگی کا اظہار کیا، لیکن مجھے سب سے زیادہ فکر بچوں کے نانا اور نانی کی تھی مبادا میں ان کی محبتوں سے محروم نہ ہوجاؤں۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ میں نے دوسرا نکاح کرلیا ہے، تو مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ان کا رد عمل کس طرح کا ہوگا، لیکن جو رد عمل سامنے آیا اس نے مجھے حیران کردیا، میں دنیا کی سب سے اونچی عمارت کو پہلی مرتبہ دیکھ کر ذرا بھی حیران نہیں ہوا تھا لیکن اس دن ان دونوں کے قد کی بلندی کو دیکھ کر حیرت واستعجاب کے سمندر میں ڈوب گیا، انہوں نے پوری بات سن لینے کے بعد تسلی بخش لہجے میں کہا کہ اب تک ہماری دو بیٹیاں تھیں مگر آج سے ہم سمجھیں گے کہ ہماری تین بیٹیاں ہوگئی ہیں۔ میرے دل کو سکون ملا اور آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اس کے بعد انہوں نے اس نئے رشتے کو بڑی ہی خوب صورتی سے نباہا، انہوں نے اپنی بیٹی کی سوکن کو اپنی بیٹی بنایا اور اس طرح بنایا کہ وہ سگی بیٹی کی طرح عزیز لگنے لگی۔ میری پہلی بیوی کے بچوں کے لئے وہ مشفق نانا اور نانی تھے ہی میری دوسری بیوی کا بچہ بھی ان کا نواسا بلکہ چہیتا نواسا بن گیا، ان کا گھر میری پہلی بیوی کا میکہ تو تھا ہی دوسری بیوی کے لئے بھی وہ دوسرا میکہ اور ماں کے گھر کی طرح محبت کا گہوارہ بن گیا۔ میں جب بھی اپنی دوسری بیگم کے ساتھ اپنی پہلی سسرال جاتا ہوں بچوں کی نانی بڑے شوق اور چاؤ سے ہمارے لئے لذیذ کھانوں کا پرتکلف دسترخوان چن دیتی ہیں۔
ایک دن بہت جذباتی ہو کر دوسری بیگم نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں بچوں کی نانی سے کہا، امی آپ کھانا کچن میں نہیں بناتی ہیں، وہ حیرت سے دیکھنے لگیں کہ اس جملے کا کیا مطلب ہے، اس نے اگلا جملہ کہا امی آپ کھانا دل میں بناتی ہیں، آپ جو بھی بناتی ہیں سب بہت مزے دار اور لذیذ ہوتا ہے۔ اتنا مزے دار اور لذیذ کھانا دل کے اندر ہی بن سکتا ہے۔
اپنی بیٹی کی سوکن کو بھی اپنی بیٹی بنالینا، اور اس پر اور اس کے بچے پر بے پناہ شفقت اور پیار لٹاتے رہنا بہت سوں کی نظر میں مشکل اور تعجب خیز ہوگا، لیکن میرے بچوں کے نانا اور نانی کے لئے یہ کبھی مشکل نہیں رہا، بنا کسی مشقت اور بنا کسی بناوٹ کے بالکل سادہ اور فطری انداز میں وہ ہم سب پر بے حساب محبت لٹاتے ہیں۔ انہوں نے میرے فیصلے کو محض برداشت اور گوارا نہیں کیا بلکہ اسے بھرپور عزت وتکریم سے نوازا۔
ایک مجلس میں جب میں نے اپنے مشاہدات کی بنیاد پر کہا کہ جن رشتوں کو دنیا سوتیلے رشتے کہتی ہے، انہیں بھی محبت والفت کا خوب صورت رشتہ بنایا جاسکتا ہے تو کئی لوگوں نے مجھ سے اختلاف کیا اور کہا کہ یہ خیالی بات ہے، حقیقت کی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ لیکن میں نے اپنے قریبی ماحول میں جتنا دیکھا ہے اور جس قدر سوچا ہے، کسی بھی رشتے کو محبت کا رشتہ بنالینا بہت آسان ہے، صرف دل کے اندر ایک ہلکی سی تبدیلی کرنی ہوتی ہے، اپنی نگاہ اور اپنے رویے کے تاروں کو نفرت ترسیل کرنے والی لائن سے الگ کر کے محبت ترسیل کرنے والی لائن سے جوڑنا ہوتا ہے، اس کے بعد بڑی آسانی کے ساتھ آپ جس سے چاہیں اور جتنی چاہیں محبت کرسکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انسان کا نفس بہت سے آسان کاموں کو بہت مشکل بلکہ ناممکن بناکر پیش کرتا ہے۔
دل سے محبت کے چشمے جاری ہوتے ہیں تو نیکی اور بھلائی کے بہت سے پودے سیراب ہوتے اور پروان چڑھتے ہیں، ایسے ہی پودوں سے زمین کا بناؤ سنگھار ہوتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں