بلا سودی سوسائٹی سے بلا فیس سوسائٹی تک

بلا سودی سوسائٹی سے بلا فیس سوسائٹی تک
محی الدین غازی
ایوت محل (مہاراشٹر) میں بلا سودی راحت سوسائٹی کا دفتر دیکھنے کا موقع ملا، یہ سوسائٹی اپنے حقیقی اخراجات کی تکمیل کے لئے قرض داروں سے فیس لیتی ہے، یہ فیس سودی بینکوں کی شرح سود کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ سوسائٹی کے لوگوں میں خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، ساتھ ہی دینی احکام کی پابندی کی بہت زیادہ فکر ہے۔
سوسائٹی کے ذمہ داروں نے بڑے یقین اور اعتماد کے ساتھ بتایا کہ ان کا ہدف یہ ہے کہ کم سے کم وقت میں راحت سوسائٹی بلا فیس قرضے دینے کی پوزیشن میں آجائے، اور اس کے لئے وہ کوششیں کررہے ہیں۔ میں نے ان کے عزم کو سراہا اور ان سے گزارش کی کہ اپنے اس مبارک ہدف کو فریم میں سجاکر آفس میں اس طرح آویزاں کردیں کہ آفس کے ذمہ داروں کی نگاہ کے سامنے یہ ہدف ہمیشہ رہے اور باہر سے آنے والے لوگ بھی اسے دیکھا کریں۔ انہوں نے پوری رضامندی کے ساتھ اس کا وعدہ کیا۔
بلاسودی سوسائٹی کی کامیابی کا حقیقی پیمانہ یہی ہے کہ اس کی شرح فیس اور سودی بینکوں کی شرح سود میں فاصلہ بڑھتا ہی جائے۔ یہ فاصلہ ذرا کم ہوا تو اسے بڑی ناکامی سمجھا جائے، اور یہ فاصلہ بڑھ جائے تو اسے قدرے کامیابی مانا جائے۔ اور اصل کامیابی یہ سمجھی جائے کہ قرض پر لی جانے والی ہر طرح کی فیس سے مکمل نجات مل جائے۔
بلا سودی سوسائٹی کی اصل کامیابی یہ نہیں ہے کہ کتنے زیادہ لوگوں کو قرضہ دیا، یہ بھی نہیں ہے کہ کتنی زیادہ رقم تقسیم ہوئی، یہ بھی نہیں ہے کہ کتنی زیادہ رقم واپس ہوسکی۔ بلاسودی سوسائٹی کی اصل کامیابی یہ ہے کہ شرح فیس کتنی زیادہ کم ہوسکی۔ اگر اس کامیابی میں دوسری پیش قدمیاں بھی شامل ہوجائیں تو بلا سودی سوسائٹی کو چار چاند لگ جائیں۔
معلوم ہوا کہ بعض بلا سودی اداروں میں قرضہ لینے والوں سے فیس تو زیادہ لی جاتی ہے، مگر سال کے آخر میں جو رقم بچ جاتی ہے وہ ان سب قرض داروں کو واپس لوٹادی جاتی ہے، اس طریقے میں ایک قباحت ہے، وہ یہ کہ سال بھر سماج میں لوگوں تک یہی پیغام جاتا ہے کہ یہ بلا سودی ادارہ فیس زیادہ لیتا ہے، بعد میں یہ بات بہت کم اور صرف متعلقہ لوگوں کو معلوم ہوپاتی ہے کہ حقیقی اخراجات پر صرف ہونے کے بعد باقی رقم واپس کردی گئی۔ بلا سودی اداروں کو اپنی شناخت کی حفاظت پر بہت زیادہ توجہ دینی چاہئے۔
بلاسودی سوسائٹی چلانے والوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ فیس کے نام پر لی جانے والی رقم خواہ وہ کتنی ہی کم ہو، بہرحال مشکوک رقم ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں ہمیں مختلف اجرتوں کا ذکر ملتا ہے، زکات وصول کرنے کے کام کی اجرت، قاضی کے تحریری کاموں کی اجرت، مفتی کی تحریری محنت کی اجرت، یتیموں کے مال کی نگہداشت کی اجرت، وقف کے متولی کی اجرت۔ لیکن قرض دینے کے کام کی اجرت کا تصور ہمیں پوری اسلامی تاریخ میں نہیں ملتا ہے۔
اسلامی تاریخ میں کبھی قرض کوئی ایسی صنعت نہیں رہی جس سے وابستہ لوگوں کو تنخواہیں اور اجرتیں دی جاتی رہی ہوں۔ یہاں تک کہ جو قرض لینے والوں کی طرف سے ادائیگی کی ضمانت لیتے، ان کے سلسلے میں بھی یہ واضح تھا کہ وہ کسی اجرت کے مستحق نہیں ہیں۔ ہر مسلک کے فقہاء نے یہ صراحت کی ہے کہ قرض اور قرض جیسے امور کی اجرت لینا حرام ہے، کیوں کہ قرض صرف اللہ کے لئے ہوتا ہے۔ یہ اصول سب کے یہاں مسلم ہے کہ قرض دینے کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی منفعت خواہ کتنی ہی چھوٹی ہو وہ حرام ہے۔ قرض کے سلسلے میں صالحین اس قدر محتاط رہا کرتے تھے کہ قرض لینے والے کے گھر کی دیوار کے سائے سے بھی دور رہتے تھے کہ کہیں یہ قرض دار سے فائدہ لینے کے تحت نہیں آجائے۔
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ سود دینے سے زیادہ خطرناک جرم سود لینے کا ہے، قرآن مجید کی ساری لرزہ خیز وعیدیں سود کھانے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ فیس کے معاملے میں ہم بہت زیادہ محتاط رہیں، کیوں کہ اس میں ذرا سی کوتاہی سود کھانے والا بنادیتی ہے۔ کیوں کہ فیس لینے کا خاندانی تعلق سود کھانے سے ہے، دنیا کے بہت سے بینک سود نہیں لیتے، اور اس کی جگہ بھاری فیس وصول کرتے ہیں۔
جو اہل علم قرض کے سلسلے میں "بقدر اخراجات" فیس لینے کی اجازت دے رہے ہیں، وہ بھی یہ خیال ضرور رکھیں کہ آپ چھوٹی فیس کے لئے دروازہ کھولیں گے، تو لوگ اس دروازے کو بڑی فیسوں کے لئے کھول دیں گے، دو فی صد سے بات چالیس فی صد تک پہونچ جائے گی۔ اسلامی بینکوں میں یہی ہوا کہ ذرا سی گنجائش سے بات شروع ہوئی اور پھر نوبت یہاں تک پہونچی کہ اسلامی اور غیر اسلامی کا فرق بیان کرنا مشکل ہوگیا۔ اس لئے اس دروازے کو بند کرنے اور متعلقہ ضرورت پوری کرنے کے لئے غیر مشتبہ راستے نکالنے کی کوشش ہونی چاہئے۔
فیس "بقدر اخراجات" کی تعبیر میں لغزش کے بے شمار امکانات پائے جاتے ہیں، تساہل کے نتیجے میں یہ اخراجات اتنے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں کہ سود میں اور ان اخراجات میں فرق ہی محسوس نہ ہوسکے۔ اور احتیاط کے نتیجے میں یہ اتنے کم بھی ہوسکتے ہیں کہ دیکھنے میں بالکل قابل اعتراض محسوس نہ ہوں۔ بلا سودی اداروں کو پہلے دن سے یہ طے کرنا ہوگا کہ "اخراجات" کی مقدار کو کم سے کم کرنے پر سارا زور رہے۔ کیوں کہ "اخراجات" کے معاملے میں ذرا سا تساہل سود خوری کے جوہڑ میں ڈھکیل سکتا ہے۔
یہ بات بھی سامنے رہے کہ بلا سودی ادارے سماج میں قرض کی حالتوں کو بڑھانے کا سبب نہیں بنیں۔ مثالی سماج وہ نہیں ہے جہاں ہر شخص کی ضرورت قرض سے پوری ہوجائے، خواہ وہ بلا سودی قرض کیوں نہ ہو۔ مثالی سماج وہ ہے جہاں ضرورتوں کو کم کرنے اور آمدنی کے ذرائع بڑھانے کا رجحان ہو۔ مثالی خدمت خلق قرض دینا نہیں، بلکہ لوگوں کو قرض لینے کی صورت حال سے باہر نکالنا ہے۔ قرض کو سماج میں رواج بننے کے بجائے ہمیشہ ایک استثنائی حالت کے طور پر رہنا چاہئے۔ اور یہ ایک بڑا فرق ہے انسان دوست اسلامی سماج اور مادہ پرست استحصالی سماج میں۔

ایک تبصرہ شائع کریں