"دہشت گردی دہشت گردی" کھیلنا بند کریں

"دہشت گردی دہشت گردی" کھیلنا بند کریں
محی الدین غازی
لمحوں کے بیان نے برسوں کے زخم تازہ کردئے۔ سترہ مارچ 2016 کو دلی میں صوفی کانفرنس ہوئی، اس کانفرنس کے ذریعہ زور وشور سے یہ بات کہی گئی کہ وہابی ملک کے غدار ہیں، اور ملک میں دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں۔ اس کانفرنس میں جب وہابیوں کو دہشت گرد کہا گیا تو وہابیوں سے مراد ندوہ والے، دیوبند والے، اہل حدیث اور جماعت اسلامی وغیرہ سب ہی تھے۔ اس کانفرنس میں اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا کہ ہم حکومت کی مدد سے ملک کے ان تمام وہابیوں کو ختم کردیں گے۔
میرے علم کی حد تک یہ ایک نہایت خطرناک کھیل کا آغاز تھا، اس سے پہلے مختلف گروہ کافر کافر کھیلا کرتے تھے۔ کافر کافر والا کھیل بھی بہت خراب ہے، لیکن اس کا نقصان امت کے اندر ہی رہ جاتا ہے، ایک دوسرے پر دہشت گردی کا الزام لگا کر تو امت کے دشمنوں کو یہ کھلی گواہی فراہم کی جاتی ہے، کہ دہشت گرد مسلمان ہی ہیں، اور مسلمانوں کے کسی نہ کسی فرقے میں چھپے ہوئے ہیں۔
صوفی کانفرنس کے دو سال بعد یکایک کچھ سلفی اس کھیل کا شوق فرمانے لگے، اور انہوں نے ہندوستان کے مختلف مقامات پر جلسے کئے جہاں سے اعلان کیا گیا کہ اخوان المسلمون اور دیگر اسلامی تحریکات دہشت گرد ہیں، دہشت گردی کے افکار کو فروغ دے رہی ہیں، اور دہشت گردوں کو تیار کررہی ہیں۔ چوبیس فروری 2018 کو شولا پور میں ہونے والا جلسہ اس کی ایک مثال ہے۔ بعد میں پھر سوشل میڈیا میں یہ الزامات اور زیادہ شدت سے بھیلائے جانے لگے۔ عام مسلمانوں کی خاموشی اور اسلامی تحریکات کی رواداری سے انہیں شہ ملتی رہی اور وہ فضا میں یہ زہر گھولتے رہے۔
اور اب حال میں ایک دیوبندی صاحب نے بھی یہ شغل فرمالیا، اور ملک کی پارلیمنٹ کے اندر سلفیوں کو دہشت گرد قرار دے دیا، یہ الگ بات ہے کہ سوشل میڈیا پر ہوئے ردعمل کو دیکھتے ہوئے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد معذرت بھی کرلی۔
سوال یہ ہے کہ اس معذرت سے کیا وہ داغ دھل جائے گا جو حضرت والا نے امت کی پیشانی پر لگا دیا ہے، پارلیمنٹ کے ریکارڈ سے آپ اسے حذف کرسکتے ہیں، لیکن اس ملک کے سو کروڑ انسانوں نے جو آپ کی زبان سے یہ زہر بھرا جملہ سنا کہ دس فی صد مسلمان دہشت گرد ہوتے ہیں، کیا ان کے ذہنوں سے وہ زہر محض آپ کی معذرت خواہی سے نکل جائے گا۔ یہ داغ تو وہ ہے کہ اگر دنیا کے سارے سمندروں میں ڈال دیا جائے تو سارے سمندر زہر زہر ہوجائیں۔
ایک فرقہ دوسرے فرقے کو کافر کہے، یہ گندی بات ہے مگر آپس کی بات ہے۔ لیکن ایک فرقہ دوسرے فرقے کو جب دہشت گرد کہتا ہے تو وہ ملک کے عوام اور ملک کی حکومت کو اکساتا ہے کہ اس فرقے کے خلاف سخت کارروائی کر کے اسے صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے۔
دہشت گرد چاہے سلفیوں کو کہا جائے یا وہابیوں کو کہا جائے یا اسلامی تحریکات کو کہا جائے، اس کا نقصان راست مسلمانوں کو اور سارے مسلمانوں کو پہونچتا ہے۔ کسی ایک فرقے کو دہشت گرد کہنے کا مطلب تمام مسلمانوں کو دہشت گرد کہنا ہے۔ اور ملک کے عوام اور حکومت کو سارے مسلمانوں کے سلسلے میں بدگمان کرنا ہے۔
وقت کی نزاکت تو شدت سے تقاضا کرتی ہے کہ اگر مسلمانوں کے دشمن اور بدخواہ مسلمانوں کے کسی ایک گروہ کو دہشت گرد قرار دیں تو سارے مسلمان مل کر اس الزام کو روکیں، اور صاف صاف پوری قوت سے کہیں کہ مسلمانوں کا کوئی گروہ دہشت گرد نہیں ہوسکتا ہے، نہ یہ کہ خود مسلمان ایک دوسرے پر دہشت گردی کا الزام لگانا شروع کردیں، یہ تو نہایت نادانی کی بات ہوگی۔
اس لئے التجا ہے، اور تمام مسلمانوں سے التجا ہے کہ جو ہورہا ہے، اس کی خطرناکی سمجھیں اور اس پر فوری روک لگانے کا فیصلہ کریں۔ اور جو شخص بھی ایسی حرکت کرے سب مل کر اس کا ہاتھ پکڑیں۔ اور اعلان کردیں کہ ملت کی کشتی میں چھید کرنے، اور ملت کے خرمن میں چنگاری پھینکنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔

ایک تبصرہ شائع کریں