ایک کھلا تجویز نامہ مرکز جماعت اسلامی ہند کی خدمت میں

ایک کھلا تجویز نامہ
مرکز جماعت اسلامی ہند کی خدمت میں
محی الدین غازی
یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ ایک رکن جماعت کی یہ تحریر کسی بھی طرح کی تنقیدی تحریر نہیں ہے، بلکہ یہ ایک اچھی تعمیر کو اور زیادہ بہتر تعمیر بنانے کے لئے محض ایک تجویز ہے، جسے اسی صورت میں قبول کرنا چاہئے جب کہ اس کے درست ہونے پر پورا اطمینان ہوجائے۔ اطمینان نہ ہونے کی صورت میں اس تجویز کے ساتھ سب سے اچھا سلوک یہ ہوگا کہ اسے رد کردیا جائے۔
جماعت اسلامی ہند کے میقاتی انتخابات قریب ہیں، اور ان کے لئے فہرست ارکان کی تیاری کا کام شروع ہوچکا ہے، یہ تجاویز اسی فہرست ارکان سے متعلق ہیں اور مناسب ترین وقت پر پیش کی جارہی ہیں۔
مجھے اپنے مشاہدے کی حد تک اس پر پورا اطمینان ہے کہ جماعت اسلامی ہند کا طریقہ انتخاب ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے بہت سے ملکوں کی تنظیموں سے زیادہ منظم، زیادہ شفاف، اور زیادہ مبنی بر انصاف ہے۔ جماعت میں رائج انتخابات کا طریقہ واقعی بہترین طریقوں میں ایک ہے، اور جماعت میں موجود انتخابات کا ماحول بھی بہت صاف ستھرا اور اعلی اخلاقی قدروں سے مزین ہوتا ہے۔ اور عام طور سے انتخابات کے حوالے سے کسی طرح کی غیر اخلاقی حرکتوں کی خبر نہیں ملتی ہے۔ خدا کرے یہ امتیاز ہمیشہ باقی رہے۔
جماعت کی اس امتیازی پہچان کا اعتراف کرتے ہوئے، اور اسی امتیاز کو مزید ترقی دینے کے لئے فہرست ارکان سے متعلق چار تجاویز پیش خدمت ہیں، ان تجاویز میں قدر مشترک یہ ہے کہ فہرست ارکان میں ملک کے تمام ارکان کو مساوی حیثیت حاصل رہے، اس مساویانہ حیثیت کا مطالبہ کرنے کا حق ہر رکن شرعی اور اخلاقی اعتبار سے حاصل ہے۔
پہلی تجویز: فہرست ارکان کو مکمل طور سے حروف تہجی کی ترتیب کے مطابق ہونا چاہئے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ہر مقام کی لسٹ میں سر فہرست مقامی ذمہ دار کا نام ہوتا ہے اور اس کے بعد باقی لوگوں کا نام ہوتا ہے، اس کے بجائے ہر علاقے یا ضلع یا مقامی جماعت کی فہرست مکمل طور پر حروف تہجی کے مطابق ہو۔ اس طرح سے کسی بھی نام کو فہرست میں امتیازی حیثیت حاصل نہیں رہے گی۔
دوسری تجویز: حلقوں کی فہرست سے علاقہ حلقہ فہرست ارکان سے یکسر ختم کردیا جائے (علاقہ حلقہ میں حلقہ کے ذمہ داروں کے نام ہوتے ہیں) علاقہ حلقہ میں موجود ناموں کو حلقے کی سطح پر یک گونہ امتیازی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے، اس طرح کی ممتاز حیثیت کا فہرست ارکان میں نظر آتا مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے۔
تیسری تجویز: علاقہ مرکز یا حلقہ مرکز کو فہرست ارکان سے یکسر ختم کردیا جائے، (علاقہ مرکز میں مرکزی ذمہ داروں کے نام ہوتے ہیں) اس میں موجود ناموں کو عام ارکان کے مقابلے میں غیر معمولی امتیازی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ خاص طور سے غیر علاقائی نمائندگان اور مرکزی شوری کے ارکان کے انتخاب کے وقت علاقہ مرکز کی اس امتیازی حیثیت کا اثر انداز ہوجانا عین قرین قیاس ہوتا ہے۔
چوتھی تجویز: جو ارکان ملک سے باہر مقیم ہوتے ہیں ان کے نام کے آگے ایک علامت ہوتی ہے، یہ علامت ان ارکان کی حق تلفی کا سبب بنتی ہے۔ ایسی علامت کو بھی ہٹادینا چاہئے۔
ان تجاویز کی اخلاقی بنیاد یعنی ہر رکن کا حق مساوات تو بالکل واضح ہے، مزید ان کی شرعی بنیاد وہ احادیث ہیں جن میں شبہ پیدا کرنے والے اور تہمت کو جنم دینے والے اسباب سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔
اس سے انکار نہیں ہے کہ فہرست ارکان کا موجودہ خاکہ جماعت کے مصالح کے حصول کے لئے ہی بنایا گیا ہے، لیکن انتخابات کے حوالے سے فہرست ارکان کی سب سے بڑی مصلحت یہی سمجھ میں آتی ہے کہ اس میں تمام ارکان کی حیثیت بالکل یکساں رہے۔ اور کہیں کسی طرح کا امتیاز نظر نہ آئے، چاہے اس امتیاز کی پشت پر کیسی ہی اعلی مصلحت اور کتنی ہی اچھی نیت کارفرما کیوں نہ ہو۔
اس میں بھی شبہ نہیں ہے کہ عام ارکان جماعت سمجھ داراور بالغ النظر ہوتے ہیں، اور یہ ماننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ فہرست ارکان میں کسی طرح کی امتیازی حیثیت یا علامت ان کی قدرت انتخاب پر اثر انداز نہیں ہوتی ہے، لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ ان کی بالغ نظری پر ہی اعتماد کرتے ہوئے، ہر طرح کی امتیازی علامت وحیثیت کو ہٹادینا فہرست ارکان اور جماعت اسلامی کے طریقہ انتخاب کو ساری دنیا کے لئے مثالی بنادے گا۔ اور کسی کو کسی طرح کے اعتراض کا موقع نہیں رہے گا۔
اس تجویز کو پبلک فورم پر لانے کا ایک مقصد یہ ہے کہ جماعت کے تمام ارکان تک اس تجویز کی خبر پہونچ جائے، اور نہ صرف وہ بلکہ آئندہ منتخب ہونے والی مجلس نمائندگان کے ارکان بھی اس سے متعلق اپنی آزادانہ رائے قائم کرسکیں۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ امت کے افراد کو معلوم ہو کہ جماعت اسلامی میں تجویز دینے کا ماحول نہایت حوصلہ افزا اور صحت بخش ہے۔ تیسرا مقصد یہ ہے کہ امت کے دوسرے ادارے اور جماعتیں بھی اپنے اپنے انتخابی طریقے اور انتخابی ماحول کو بہتر بنانے کی طرف متوجہ ہوں۔
آخری بات یہ ہے کہ حق معلومات کے اس زمانے میں اگر کسی طریقے اور اس سے متعلق کسی تجویز کا علم عام لوگوں کو ہوجائے تو اس پر ذرا بھی کھٹک یا خلش کسی کے دل میں نہیں ہونی چاہئے، بلکہ اسلامی تحریکات کے اندر باہر کی دنیا سے بھی زیادہ حق معلومات کے میسر رہنے کا رجحان بننا چاہئے۔

ایک تبصرہ شائع کریں