یزید کی جبری بیعت کی ایک مثال صحیح بخاری سے

یزید کی جبری بیعت کی ایک مثال صحیح بخاری سے
محی الدین غازی
اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے حضرت حسین کے مشن کی تائید میں ایک مضمون "حسین، مجاہد خلافت، شہید خلافت" لکھنے کا موقع دیا، جسے غیر معمولی نشر واشاعت حاصل ہوئی، حضرت حسین کا مشن اتنا عظیم اور مبارک ہے کہ اس سے ذرا بھی نسبت ہوجائے تو اسے خوش نصیبی سمجھنا چاہئے۔ بہت سے قارئین نے اس کوشش کو سراہا، تاہم کچھ لوگوں نے میری تحریر اور اپروچ سے اختلاف بھی کیا، اور انہیں بجا طور پر اس کا حق حاصل ہے، کچھ نے میرے سلسلے میں سب وشتم کا لہجہ اختیار کیا، اس پر مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے، بلکہ وہ گالیاں چونکہ حضرت حسین کے مشن کے حوالے سے میرے حصے میں آٗئیں اس لئے اس میں بھی یک گونہ لذت محسوس ہوئی۔
جن لوگوں نے اس مضمون کو پڑھ کر مجھ پر رافضیت اور شیعیت کا الزام لگایا، ان سے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ ابھی کچھ دن پہلے میں شیعیت کے غلط نظریات کے خلاف ایک مضمون شائع کرچکا ہوں، اس کے بعد یہ الزام لگانا مضحکہ خیز ہے۔ اور جب امام شافعی جیسا اہل سنت کا عظیم امام رافضیت کے الزام سے نہیں بچ سکا تو میں اس الزام کی پرواہ کیوں کروں۔
بعض قارئین نے کہا کہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ حسین کا قتل یزید کے حکم سے ہوا تھا، اس پر عرض ہے کہ اتنی بڑی سرکاری کارروائی کے لئے جس میں سرکاری فوج کا استعمال ہوا ہو، اور وقت کے سب سے بڑے اپوزیشن لیڈر کا قتل ہوا ہو، پھر ان قاتلوں کے خلاف ذرا بھی ایکشن نہیں لیا گیا ہو، بلکہ قاتل گورنر کو اس کے منصب پر بحال رکھا گیا ہو، تو یہی مانا جاتا ہے کہ قتل سربراہ کے حکم سے ہوا ہے۔ ایسے قتل میں ضروری نہیں ہوتا ہے کہ ریکارڈ میں کوئی حکم پایا ہی جائے۔ کیا خاندان رسول کے پندرہ افراد کا ایک ساتھ قتل کسی بڑے ایکشن کا تقاضا نہیں کرتا تھا۔
بعض قارئین کا یہ موقف سامنے آیا کہ یزید کی بیعت بہت نارمل حالات میں صحابہ سے آزادانہ مشاورت کے بعد پوری رضا ورغبت کے ساتھ لی گئی تھی، اور کسی قسم کے جبر کا استعمال نہیں کیا گیا تھا، اور اس سلسلے میں جو بھی تاریخی روایات ہیں ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ میں نے بغیر کسی دلیل کے یزید کی بیعت کو جبری بیعت قرار دیا۔
یزید کی بیعت جبری بیعت تھی، اس سلسلے میں تاریخ کی کتابوں میں تو بہت سی باتیں ملتی ہیں، تاہم میں ایک روایت صحیح بخاری کی ذکر کروں گا، جس سے حقیقی صورت حال کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس روایت کے مطابق امیر معاویہ کے زمانے میں جب حجاز کے گورنر مروان بن الحکم نے مدینہ میں لوگوں کو جمع کر کے یزید کے حق میں تقریر کی اور لوگوں کو یزید کی بیعت کے لئے آمادہ کرنا چاہا، تو حاضرین میں سیدنا ابوبکر صدیق کے بیٹے عبدالرحمان بھی تھے، جو ایک جلیل القدر صحابی تھے، انہوں نے اٹھ کر اختلاف کیا (ایک روایت کے مطابق انہوں نے کہا کہ یہ اللہ کے رسول کی سنت نہیں روم کے قیصر کا طریقہ ہے)، عبدالرحمان کا یہ کہنا ہی تھا کہ مروان نے حکم دیا کہ پکڑو انہیں، عبدالرحمان جان بچانے کے لئے بھاگ کر اپنی بہن سیدہ عائشہ کے گھر میں گھس گئے، اور وہ لوگ انہیں نہیں پکڑ سکے۔ اس پر مروان نے ان پر الزام لگایا کہ اللہ تعالی نے قرآن کی آیت (جو نہایت سخت کافر اولاد کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی) عبدالرحمان کے سلسلے میں نازل کی ہے، اس پر سیدہ عائشہ نے سختی سے تردید کی اور کہا ایسا نہیں ہے۔ یہ روایت صحیح بخاری میں ہے اور اس کے الفاظ درج زیل ہیں:
قال: كان مروان على الحجاز استعمله معاوية فخطب، فجعل يذكر يزيد بن معاوية لكي يبايع له بعد أبيه، فقال له عبد الرحمن بن أبي بكر شيئا، فقال: خذوه، فدخل بيت عائشة فلم يقدروا، فقال مروان: إن هذا الذي أنزل الله فيه، {والذي قال لوالديه أف لكما أتعدانني} [الأحقاف: 17]، فقالت عائشة من وراء الحجاب: «ما أنزل الله فينا شيئا من القرآن إلا أن الله أنزل عذري»
ایسی اور بھی صحیح روایات ہیں جو یزید کی بیعت میں استعمال کئے گئے غیر اخلاقی طریقوں کو اچھی طرح بے نقاب کرتی ہیں۔ اگر حضرت ابوبکر صدیق کے بیٹے کے زبانی اختلاف کرنے پر انہیں دوڑا لیا گیا اور انہیں اپنی جان بچانے کے لئے سیدہ عائشہ کے گھر میں پناہ لینی پڑی، اور اس کے بعد ان کو بے عزت کرنے کے لئے جھوٹا الزام لگایا گیا تو اس سے اس وقت کے عمومی ماحول کا بہت اچھی طرح اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اس واقعہ سے اس غلط خیال کی بھی نفی ہوتی ہے کہ حضرت حسین کا سخت موقف دو خاندانوں کی اقتدار کی خاطر کشمکش کا حصہ تھا، کیوں کہ سیدنا ابوبکر کے بیٹے کا دونوں خاندانوں سے تعلق نہیں تھا، اور وہ غیر جانب دارانہ موقف میں یزید کی بیعت کو غلط سمجھتے تھے۔
امید ہے یہ وضاحتیں بہت سی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔
اہل سنت کے عظیم محقق امام ذھبی کی سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے، نوفل بن ابی فرات کہتے ہیں: میں عمر بن عبدالعزیز کے پاس تھا، ایک آدمی نے کہا: "امیر المومنین یزید نے کہا" یزید کو امیرالمومنین کہنے پر عمر بن عبدالعزیز نے اس آدمی کو بیس کوڑے لگانے کی سزا دی۔
مت بھولیں کہ عمر بن عبدالعزیز اموی خلیفہ تھے...

ایک تبصرہ شائع کریں