سارے بزرگ سب کے بزرگ
(اتحاد امت کے لئے امت کی سوچ بدلنا ضروری ہے)
محی الدین غازی
دارالعلوم دیوبند کے بزرگ استاذ مولانا نعمت اللہ صاحب کی ایک ادا رہ رہ کر یاد آتی ہے، ہیں تو وہ مسلک کے لحاظ سے حنفی، لیکن دوران درس یوں کہا کرتے: ہمارے امام شافعی نے یہ کہا اور آپ کے امام ابوحنیفہ نے یہ کہا۔ ان کے درس میں بیٹھ کر یہ احساس پیدا ہوتا کہ تمام مسالک دلائل کی قوت سے مالا مال ہیں۔
حد اعتدال میں رہتے ہوئے امت میں اختلافات کا پایا جانا تشویش کی بات نہیں ہے، لیکن بہت زیادہ تشویش کی بات امت کے اندر پائے جانے والے بٹوارے ہیں، افراد کے بٹوارے، مسجدوں کے بٹوارے، مدرسوں کے بٹوارے، عبادت کے طریقوں کے بٹوارے، اور ایک بہت خطرناک بٹوارہ اکابر کا بٹوارہ، بہت خطرناک اس لئے کہ جب اکابر کی تقسیم ہوجاتی ہے تو باقی ساری تقسیمیں اور زیادہ گہری ہوجاتی ہیں۔
بے شک اس امت کا ایک بڑا امتیاز اس امت کے اکابر ہیں، یہ وہ عظیم علماء ہیں جنہوں نے دین کی تجدید، امت کی امامت اور کتاب وسنت کی حفاظت واشاعت کے عظیم کارنامے انجام دئے۔ یہ بڑی شخصیات تمام مسلمانوں کے لئے سرمایہ افتخار ہیں، اور ان کے شایان شان ہے کہ سارے مسلمان ان تمام اکابر سے محبت کریں اور ان کا احترام کریں۔
المیہ یہ ہے کہ جن اکابر کی خدمات اتنی وسیع اور شان اتنی بلند تھی کہ وہ پوری امت کے اکابر ہوتے اور پوری امت ان پر محبت واحترام کے پھول نچھاور کرتی وہ چھوٹے بڑے فرقوں مسلکوں اور حلقوں کے اکابر بنادئے گئے، اور پھر ’’ہمارے اکابر‘‘ اور ’’ان کے اکابر‘‘ جیسی اصطلاحیں رائج ہوگئیں۔
اس تقسیم کے ساتھ سونے پر سہاگہ ہمارا یہ مزاج ہے کہ جنہیں ہم اپنے اکابر قرار دیتے ہیں، ان کی ہر ہر خوبی کو بڑھا چڑھا کر سامنے لاتے ہیں، اور ان کی ہر ہر خامی سے چشم پوشی، اور ہر ہر غلطی کی تاویل کرتے ہیں۔ اور جنہیں ہم اپنے اکابر کا حریف سمجھتے ہیں ان کے سلسلے میں ہمارا رویہ سخت گیری پر مبنی ہوتا ہے، خواہ وہ کتنے بڑے عالم اور بزرگ ہوں۔ مثال کے طور پر آپ فقہی مسالک کی مفصل کتابوں میں دیکھیں گے تو آپ کو ہر ہر مسئلے میں اپنے امام کے موقف کی وکالت اور دوسرے سارے اماموں کے موقف کی کمزوری کا بیان ملے گا۔ کسی بھی حلقے کا لٹریچر اٹھاکر دیکھیں، اس حلقے کے بزرگوں پر تنقید آپ کو شاذ ونادر ہی ملے گی۔ جب کہ دوسروں پر تنقید کے سلسلے میں کافی سخاوت نظر آئے گی۔
اسی طرح اپنے اکابر کے ناموں کے لئے تو ہمارے پاس القاب وآداب کی خوب فراوانی ہوتی ہے، جبکہ اسی سطح کے دوسرے علماء اور بزرگوں کے ناموں کے لئے ہماری جھولی خالی ہوجاتی ہے۔ ہر فرقے اور ہر حلقے کے اپنے اپنے شیخ الاسلام، حکیم الامت اور اعلی حضرت ہیں۔ پوری امت کا شیخ الاسلام کوئی نہیں ہے، حالانکہ ان میں سے ہر کوئی پوری امت کا شیخ الاسلام ہوسکتا تھا۔ اگر امام بخاری اور امام مسلم پوری امت کے محدث ہوسکتے ہیں، امام طبری اور امام سیوطی سب کے مفسر ہوسکتے ہیں، امام حسن بصری کا نام پوری امت احترام سے لیتی ہے۔ تو ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ باقی بزرگ بھی سب کے بزرگ قرار پائیں۔
یہ دراصل بڑوں کے سلسلے میں چھوٹوں کی چھوٹی سوچ اور تنگ ظرفی ہے۔ اس سے بزرگوں کی حق تلفی بھی ہوتی ہے، اور فرقہ بندیوں کو تقویت بھی ملتی ہے، اگر ہم اپنے اکابر کو پوری امت کے اکابر کی حیثیت سے دیکھیں، اور امت کے تمام بزرگوں کو اپنا سجھنے لگیں، تو ہمارے اختلافی افکار تو باقی رہیں گے، لیکن ہمارے اختلافی جذبات سرد پڑجائیں گے۔ جب ہم اکابر کے سلسلے میں اپنے اور پرائے کی تفریق میں گرفتار ہوتے ہیں تو ہم اختلافی مسائل میں عقل ودانش کے تقاضوں کو بھول کر شدید قسم کی جذباتیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور یوں دماغوں کے اختلاف دلوں کی دوری میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
امت کے تمام بزرگوں کو اپنے بزرگ مان لینے کے نتیجے میں ایک بڑی تبدیلی یہ آسکتی ہے کہ جس حسن ظن اور حسن تاویل کا معاملہ ہم کچھ بزرگوں کے ساتھ کرتے ہیں وہی معاملہ ہم تمام بزرگوں کے ساتھ کریں۔ اماموں اور بزرگوں کے اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے بجائے انہیں ان کے اصل حجم میں یا اس سے بھی کم کرکے دیکھیں۔ جس طرح ہم امام ابوحنیفہ اور ان کے دونوں شاگردوں امام ابویوسف اور امام محمد کے آپسی اختلافات کو آپس کا اختلاف قرار دیتے ہیں، کیونکہ وہ تینوں ہمارے مسلک کے امام ہیں، اسی طرح امام ابوحنیفہ اور امام مالک اور امام شافعی کے اختلافات کو بھی آپس کا اختلاف سمجھنے لگیں، کہ وہ سب بھی ہماری امت کے امام ہیں۔ اور پھر یہی وسعت اور نرمی کا رویہ ہم دور حاضر کے اکابر کے ساتھ بھی اختیار کریں۔
خاندان کے بچوں میں باپ اور چچا کے اختلاف اس وقت شدت کے ساتھ منتقل ہوتے ہیں، جب وہ بچے اپنے باپ کو تو باپ کے مقام پر رکھتے ہیں لیکن اپنے چچا کو چچا کا مقام نہیں دیتے، بلکہ صرف باپ کے حریف کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ اگر ان سب کو یہ احساس ہوجائے کہ معاملہ خاندان کے جن دو بزرگوں کا ہے وہ دونوں ہی قابل محبت واحترام ہیں تو باپ اور چچا کے اختلافات زیاہ شدت کے ساتھ اگلی نسلوں تک منتقل نہیں ہوں گے۔ اور جو اختلافات پیدا ہوچکے ہیں، ان کی شدت کافی حد تک کم ہوجائے گی۔ اسی لئے ایک بزرگ کا یہ مشورہ بہت اہم ہے کہ ’’بڑوں کے اختلافات میں چھوٹوں کو فریق نہیں بننا چاہئے‘‘۔
مسجدوں کی طرح اماموں اور بزرگوں کی تقسیم بھی سراسر غلط ہے، یہ سب پوری امت کا مشترک سرمایہ ہیں، ان میں سے کسی ایک کی طرف اپنی نسبت کرکے دیگر کی علمی خدمات کو نظرانداز کردینا دراصل اپنے آپ کو علم ومعرفت کے بہت سے چشموں سے محروم کرلینا ہے، آپ تقلید کسی کی کریں اور رائے کسی کی مانیں، مگر اپنا اور امت کا امام سب اماموں کو مانیں، سب کی علمی فتوحات کو قدرکی نگاہ سے دیکھیں، سب کے علمی کارناموں سے فیض اٹھائیں، اور سب کے لئے شکروسپاس کے جذبات رکھیں۔
اکابر نے اجتہاد کیا اور غور وفکر کی بہت سی راہیں دریافت کیں، اسی لئے ان میں اختلاف بھی ہوئے، امت کے تقریبا تمام ہی اختلافات کا سرا اکابر کے اختلافات میں ملتا ہے، خواہ وہ قدیم اکابر ہوں یا جدید اکابر ہوں، اکابر کے ان اختلافات کو ختم کرنا ممکن بھی نہیں ہے اور شاید مطلوب بھی نہیں ہے، تاہم اگر اختلافات کے باوجود تمام اکابر کے سلسلے میں یہ نقطہ نظر عام کیا جائے کہ وہ سب کے سب ساری امت کے اکابر ہیں، تو مسلکوں، فرقوں اور حلقوں کی سرحدیں ختم نہ ہوکر بھی قابل عبور تو ضرور ہوجائیں گی۔
یاد رکھیں تعلقات کی دنیا میں بہت فرق ہوتا ہے اس میں کہ سرحدیں بند ہیں یا کھلی ہوئی ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں