’’آنے والی پوری نسل قرآن کو سمجھ کر پڑھنے والی نسل ہو‘‘
ایک خواب، ایک مشن
ایک خواب، ایک مشن
محی الدین غازی
اسلام پسند نوجوانوں کا ایک جلسہ تھا، سب نوجوان تعلیم یافتہ تھے، اردو ہندی اور انگریزی تینوں زبانیں جانتے تھے، اور اسلام کی خدمت کا جذبہ رکھتے تھے، میں نے ان سے پوچھا: آپ میں سے کتنے لوگوں نے قرآن مجید ترجمہ کے ساتھ ختم کیا ہے؟ ان تعلیم یافتہ نوجوانوں میں سے کسی ایک نے بھی ہاتھ نہیں اٹھایا۔ ان میں سے اکثر نوجوان ہر رمضان میں ختم قرآن کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ صورت حال اسلام پسند نوجوانوں کی ہے، تو باقی کروڑوں اور کروڑوں عام مسلم نوجوانوں کا کیا حال ہوگا، آسانی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
میرے محترم دوست نے ایک بار کہا، سوچو ایک بڑھیا ہے جو کسی زبان میں قرآن کا ترجمہ نہیں پڑھ سکتی ہے۔ اس نے صرف ناظرہ قرآن مجید پڑھنا سیکھا ہے، اس پر کیسے لازم کیا جائے کہ وہ قرآن سمجھ کر پڑھے، اور اس سے کیسے کہا جائے کہ تمہارا اس طرح پڑھنا کافی نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا وہ بوڑھی عورت تو معذور ہے، اور معذور اللہ کی رحمت سے محروم نہیں رہتے ہیں۔ مجھے تو ان کی صورت حال بے چین رکھتی ہے جو ترجمہ کی مدد سے قرآن سمجھ کر پڑھ سکتے ہیں، مگر زندگی بھر بے سمجھے بوجھے قرآن پڑھتے رہتے ہیں، وہ بھی اس یقین کے ساتھ کہ ان کو بے پناہ ثواب مل رہا ہے۔
ماضی میں لوگوں نے اسے ضروری نہیں سمجھا کہ قرآن سمجھ کر پڑھا جائے، تو نسلوں کی نسلیں ایسی تیار ہوئیں جو قرآن کو کسب ثواب اور ایصال ثواب کی نیت سے بے سمجھے بوجھے پڑھتی رہیں۔ آج کروڑوں کروڑوں مسلمان ہیں، جو قرآن کو ترجمہ کے ذریعہ سمجھ کر پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مگر وہ قرآن کو سمجھ کر نہیں پڑھتے، اور نہ ہی وہ ایسا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔ قرآن سے یہ عجیب وغریب قسم کی دوری ہے کہ کئی کئی بار پڑھ کر قرآن ختم بھی کرتے ہیں، مگر سمجھتے کچھ نہیں ہیں۔ اس دوری کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی تعلیمات کا اثر نہ ان کی فکر پر نظر آتا ہے، نہ رویہ پر، نہ عمل پر اور نہ رد عمل پر، نتیجہ یہ ہے کہ ان کا ایمان غیر محفوظ کہ کوئی بھی بھٹکا دے اور ان کا عمل غیر محفوظ کہ کبھی بھی گناہ کے کسی دلدل میں پھسل جائیں۔
میں ان نسلوں کے سلسلے میں فکر مند نہیں ہوں جو گزر گئیں یا گزرنے والی ہیں، دعا ہے کہ اللہ ان کی کوتاہی معاف کرے اور ان کے عذر قبول کرے۔ ہمیں تو اب موجودہ نوجوان نسل کی فکر کرنی ہوگی، اور آنے والی نسلوں کے بارے میں اپنا وژن اور نشانہ طے کرنا ہوگا۔ موجودہ نوجوان نسل بڑی حد تک خواندہ ہے، کسی نہ کسی زبان میں قرآن کا ترجمہ پڑھ سکتی ہے، آنے والی نسل کے بارے میں قوی امید ہے کہ وہ صد فی صد خواندہ ہوگی، وہ کسی نہ کسی زبان میں ترجمہ قرآن ضرور پڑھ لے گی۔ اللہ سے دور کرنے والی بے شمار کتابیں اور باتیں اس کے سامنے آئیں گی، اور اس کے پاس اللہ کی کتاب بھی ہوگی۔ کیا ان نسلوں کے ذہنوں میں یہ بسانا ضروری نہیں ہوگا کہ اللہ کی کتاب کو پڑھنا ضروری ہے، بار بار پڑھنا ضروری ہے، ہر کتاب سے زیادہ پڑھنا ضروری ہے، زندگی بھر پڑھتے رہنا ضروری ہے، اور سمجھ کر پڑھنا ضروری ہے، باقی جو قرآن سمجھ کر پڑھے گا اسے قرآن خود یہ بتادے گا کہ قرآن پر عمل کرنا اور قرآن کے مطابق زندگی گزارنا بھی ضروری ہے۔
ہر والدین کو اپنی اولاد کے دل ودماغ میں اور تمام بزرگوں کو اپنے چھوٹوں کے دل ودماغ میں یہ حقیقت اچھی طرح بٹھانی ہوگی۔ نئی نسل قرآن کو عربی میں صحیح صحیح پڑھے اور ساتھ ہی اس کا ترجمہ کسی بھی ایک زبان میں پڑھے، اتنی استعداد پیدا کرنا ذرا بھی مشکل کام نہیں ہے، تھوڑی سی توجہ سے یہ کام بخوبی ہوجائے گا۔
صورت حال کو بدلنے کے لئے ہمیں اپنے بیانیے کو درست کرنا ہوگا، تاکہ آج کی نوجوان نسل اور آنے والی تمام نسلیں سب کی سب قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے والی نسلیں ہوں۔ ہمیں دوٹوک لفظوں میں یہ کہنا ہوگا کہ قرآن مجید کی تلاوت کرنا یہ ہے کہ اسے عربی میں پڑھا جائے اور ساتھ ہی کسی بھی زبان میں سمجھا بھی جائے، ہمیں صاف صاف یہ بتانا ہوگا کہ بے سمجھے قرآن پڑھنے کا رواج ایک غلط رواج تھا، اور ایک غلط صورت حال تھی، جو اللہ کے رسول اور صحابہ کرام کے زمانے میں بالکل نہیں تھی، اس غلط صورت حال سے اور اس غلط رواج سے پوری امت کو فورا نکل جانا چاہئے۔
ملت کے خیرخواہوں کو اندیشہ ہے کہ اگر ہم نے سمجھ کر پڑھنے پر زیادہ زور دیا تو لوگ پڑھنا ہی چھوڑ دیں گے۔ یہ اندیشہ بے بنیاد ہے اس اندیشے سے باہر نکلنا ضروری ہے، ہمیں اس امید اور حوصلے کے ساتھ اپنے مشن کو آگے بڑھانا ہوگا کہ جب سمجھ کر پڑھنے پر سارا زور دیا جائے گا تو لوگ پڑھنا نہیں چھوڑیں گے بلکہ سمجھ کر پڑھنے لگیں گے، یہی نہیں جب لوگ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے لگیں گے تو از خود نمازیں بھی سمجھ کر پڑھنے لگیں گے، اور اپنی زندگی کو درست کرنے کی فکر بھی کریں گے۔
بنا سمجھے پڑھنا سمجھ کر پڑھنے سے زیادہ آسان عمل ہے، اور آسان عمل کی طرف طبیعت زیادہ میلان رکھتی ہے۔ جب کہ سمجھ کر پڑھنے میں بنا سمجھے پڑھنے سے کہیں زیادہ معنویت ہوتی ہے۔ جب کسی عمل میں معنویت پائی جاتی ہے تو دل ودماغ کو حقیقی تسکین ملتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ سمجھ کر پڑھنے والا کبھی محرومی کے احساس سے دوچار نہیں ہوگا، اسے اپنی حقیقی ضرورتوں کی تکمیل کا احساس ہوگا، اسے اپنے وجود کی تکمیل کے راستے روشن نظر آئیں گے، اور اسے عمل اور تزکیہ کی اطمینان بخش راہیں صاف دکھائی دیں گی۔ بنا سمجھے پڑھتے ہوئے تو وہ ان سب سعادتوں اور خوش بختیوں سے محروم رہتا ہے۔
ہمارا یہ بیانیہ نہایت کمزور ہے کہ قرآن بنا سمجھے پڑھنے سے ثواب ملتا ہے، اور سمجھ کر پڑھنے سے ہدایت ملتی ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ بنا سمجھے پڑھنے سے ثواب ملتا ہے اور سمجھ کر پڑھنے سے ہدایت ملتی ہے، تو وہ شخص جو اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھتا ہے، سوچتا ہے کہ مجھے تو آخرت کی کامیابی اور جنت کے اونچے مقامات کے لئے بس ثواب کی ضرورت ہے۔ پھر سمجھ کر پڑھنے پر زور دینے والی ہماری ساری تقریر بے وزن اور غیر اہم ہوجاتی ہے، ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ سمجھ کر پڑھنا ہی پڑھنا ہے، اسی سے ہدایت بھی ملے گی، اور اسی سے ثواب بھی ملے گا۔
پوری امت کی صورت حال اسی وقت بدلے گی، جب پوری امت قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے لگے گی۔ اور ایسا اسی وقت ہوگا جب اسے ضروری سمجھا جائے گا اور ضروری سمجھایا جائے گا۔ ورنہ بے سمجھے بوجھے بار بار ختم قرآن ہوتا رہے گا، اور ملت اندھیروں میں ٹھوکریں کھاتی رہے گی۔
اس وقت ملت ایک اہم موڑ سے گزر رہی ہے، جماعت اسلامی قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی ضرورت پر پہلے سے زور دیتی رہی ہے، تبلیغی جماعت کی قیادت بھی ایسی شخصیت کے ہاتھ میں آگئی ہے جس کے نزدیک قرآن کو سمجھ کر پڑھنا ضروری ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے خصوصی موقعہ ہے جو تاریخ میں کبھی کبھی ملتا ہے، اس وقت ملت کی یہ دونوں عظیم جماعتیں مل کر پوری امت کو قرآن سمجھ کر پڑھنے والی امت بنانے میں ایک زبردست رول ادا کرسکتی ہیں۔ اللہ انہیں اور سب مسلمانوں کو اس کی توفیق دے۔