قرآن کی تلاوت کریں، قرآن کا پیغام سنیں
محی الدین غازی
قرآن مجید کی تلاوت بہت مبارک اور نہایت مفید عمل ہے۔ بگڑتی اور خراب ہوتی اس دنیا کو سنبھالنے اور بہتر بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ قرآن مجید کی تلاوت ہے۔ اپنے آپ کو بنانے اور سنوارنے کا بھی ایک ہی راستہ ہے اور وہ بھی قرآن مجید کی تلاوت ہے۔ تلاوت اپنے آپ میں نیکی کا کام ہے، اور تلاوت سے نیکیوں کے سب راستے بھی روشن ہوتے جاتے ہیں۔ جس عظیم کلام کی تلاوت کرتے ہوئے انسانوں کی زندگی میں نیکیوں کی بہار آجائے، اس کے ایک ایک حرف کے بدلے دس دس نیکیوں کا ثواب مل جانا تعجب کی بات نہیں ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت سے انسان کو حقیقی علم حاصل ہوتا ہے۔ تلاوت کرتے ہوئے معلوم ہوتا رہتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں سے کب کیا چاہتا ہے۔ اتنی اہم بات تلاوت کے بغیر معلوم ہی نہیں ہوسکتی۔ اس زندگی میں ایک بندے کے لئے سب سے اہم دریافت یہ ہے کہ اسے اپنے رب کی پسند اور ناپسند یقینی طور سے معلوم ہوجائے۔ یہ دریافت عظیم ترین کامیابی کی شاہ کلید ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت کا اثر زندگی پر نظر آنا چاہئے، اتنا واضح اثر کہ ہر کوئی اسے محسوس کرلے۔ اگر تلاوت کا کوئی اثر زندگی پر نظر نہیں آتا تو سمجھ لو کہ تلاوت کے عمل میں کوئی بڑی کمی رہ گئی ہے، یا تو سمجھے بغیر محض قرآن خوانی ہورہی ہے، یا پھر دماغ سمجھ رہا ہے مگر دل اثر نہیں لے رہا ہے۔ تلاوت کے عمل میں زبان اور دماغ کے ساتھ ساتھ دل کی شرکت نہایت ضروری ہے۔
ضروری ہے کہ تلاوت کرنے والے کی زندگی تلاوت کے ساتھ ساتھ ہر لحظہ بہتر ہوتی جائے، دیکھنے اور سوچنے کا انداز بدلے، لوگوں کے ساتھ پیش آنے کا طریقہ بدلے، چاہتیں اور نفرتیں بدلیں، فکرمندیاں اور اندیشے بدلیں۔ غرض تلاوت کے ذریعہ شخصیت کے ہر پہلو کی اصلاح ہوتی رہے، اور زندگی خوب سے خوب تر ہوتی جائے۔ جس تلاوت سے زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی نہ ہو سکے وہ تلاوت خود اصلاح طلب ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت کرنا حقیقت میں بلندیوں کا سفر طے کرنا ہے، وہ بلندیاں جو صرف تلاوت کرنے والے کے حصے میں آسکتی ہیں۔ جو شخص دنیا میں قرآن مجید کی تلاوت کا حق ادا کرے گا، قیامت کے دن اس سے کہا جائے گا: جس طرح تم دنیا میں تلاوت کرتے تھے، اب یہاں بھی تلاوت کرتے ہوئے جنت کی بلندیوں کو سر کرتے جاؤ، جس بلندی پر تمہاری تلاوت کا سلسلہ رکے گا وہی بلندی تمہارا مقام قرار پائے گی۔ دانائی کا تقاضا ہے کہ یہاں زندگی کی آخری سانس تک تلاوت کا سلسلہ جاری رہے، تاکہ وہاں جنت میں اونچے سے اونچا مقام حاصل ہوسکے۔
تلاوت کرتے ہوئے انسان سوچے کہ قرآن مجید کی رو سے اس کی پہچان کیا بننی چاہئے۔ اگر تلاوت کرنے والے کو قرآن مجید میں سب سے زیادہ زور ایمان اور عمل صالح پر نظر آئے، تو یہی خوبی اس کی پہچان بن جائے۔ وہ سارے انسانوں میں سب سے زیادہ مضبوط ایمان والا، اور سارے انسانوں میں سب سے زیادہ اچھے کام کرنے والا ہوجائے۔ اس کے ایمان کی مضبوطی پر پہاڑ تعجب کریں، اور اس کے کردار کی بلندی پر ستارے رشک کریں۔
تلاوت کرتے ہوئے انسان غور سے دیکھے کہ قرآن مجید میں کن کاموں کا حکم بار بار دیا گیا ہے، تلاوت کے نتیجے میں وہ سارے کام زندگی میں بھی اسی کثرت سے نظر آنے لگیں، جس کثرت سے قرآن مجید کی آیتوں میں نظر آتے ہیں۔ بار بار قرآن مجید ختم کرنے والے ایک بار اس طرح بھی ختم کرکے دیکھیں۔
قرآن مجید کی ایسی تلاوت مطلوب نہیں ہے جس میں زبان تلاوت سے تر ہوتی رہے اور باقی پورے وجود میں سوکھا پڑا رہے۔ قرآن مجید زندگی بخش کلام ہے، اس کی تلاوت بھی زندگی سے بھرپور ہونی چاہئے۔ تلاوت ایسی ہو کہ زبان قرآن مجید کی تلاوت کرے اور دل ودماغ کان لگا کر پوری توجہ سے قرآن مجید کا پیغام سنیں۔ تلاوت اس طرح ہو کہ تلاوت کرنے والوں کے دل ودماغ کا تزکیہ کرتے ہوئے قرآن مجید کا پیغام دوسرے انسانوں تک پہونچنے لگے۔ قرآن مجید میں اسی طرح تلاوت کرنے کو کہا گیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنا دراصل قرآن مجید کا پیغام خود کو اور پھر سارے انسانوں کو سنانا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہورہا ہو، تو سمجھ لو کہ قرآن مجید کی تلاوت اس طرح نہیں ہورہی ہے جس طرح ہونی چاہئے۔
روز بروز بڑھتی اور سر چڑھتی ہوئی مادی ضرورتوں نے شہر کی سڑکوں ہی کو مصروف نہیں کیا ہے، فرد کے اندرون کو بھی بری طرح بھیڑ بھاڑ کا شکار بنادیا ہے۔ نہ دل میں ایمان ویقین کے لئے جگہ چھوڑی ہے، اور نہ زندگی میں اچھے کاموں کے لئے کوئی فرصت رکھی ہے۔ اگر دل یقین سے خالی ہوجائیں، اور زندگی اچھے کاموں سے عاری ہوجائے تو پھر انسان کے پاس کتے کی طرح ہانپتے رہنے کے سوا کیا رہ جاتا ہے۔ ذلت اور تکلیف کی اس کیفیت کا مداوا صرف قرآن مجید میں ہے۔ قرآن مجید ہی میں وہ قوت اور تاثیر ہے جو دل کو ایمان ویقین سے روشن کردے اور زندگی کو اچھے کاموں سے آراستہ کردے۔
قرآن مجید کی تلاوت اس طرح کریں کہ تلاوت کا حق بھی ادا ہو، اور زندگی میں تلاوت کی برکتیں بھی ظاہر ہوں۔ اس کے لئے تلاوت کے ساتھ ساتھ ترجمہ پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن سمجھے بغیر تلاوت کرنے میں مضائقہ ضرور ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں