گھر کے کام سب کریں، گھر میں آرام سب کریں

گھر کے کام سب کریں، گھر میں آرام سب کریں
محی الدین غازی
میرے ایک دوست کی اہلیہ کا معمول تھا جب وہ اپنے شوہر کے ہمراہ ہمارے یہاں کھانے کی دعوت پر آتیں تو کھانا کھانے کے بعد کچن میں جاکر زبردستی سارے برتن دھوڈالتیں۔ ان کا ایسا کرنا ہمیں بالکل اچھا نہیں لگتا تھا، لیکن ان کے جانے کے بعد دل سے ان کے لئے دعائیں بھی بہت نکلتی تھیں۔
میری بڑی بیٹی گرمی کی چھٹیوں میں اپنے نانیہال جارہی تھی، اس نے اپنے ساتھ کھانا پکانے کے کچھ خاص سامان بھی رکھ لئے جو وہاں میسر نہیں تھے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ نانی نانا کو نئے نئے پکوان بناکر کھلانے کا ارادہ ہے۔ مجھے اس کا یہ شوق بہت پسند آیا۔ دل سے دعا نکلی کہ اللہ ایسے پیارے شوق سے ہر دل کو آباد کرے۔
گھر اگر سکون وآرام کی جگہ ہے تو کاموں کی کبھی نہیں رکنے والی چکی بھی ہے۔ یہ چکی ہر روز چلتی رہتی ہے، مہمان نہیں آتے ہیں تب بھی چلتی ہے، اور مہمان آتے ہیں تو اور زیادہ چلنے لگتی ہے۔ بہت سے لوگ مہمانوں کو اس لئے خوش آمدید نہیں کہتے کیوں کہ مہمانوں کے آنے سے کاموں کی چکی پر لوڈ بڑھ جاتا ہے، اور زیادہ لوڈ کے ساتھ چکی چلانے کی وہ سکت نہیں رکھتے ہیں۔
کاموں کی چکی چلانے میں جتنے زیادہ لوگ شامل ہوجائیں اتنی ہی زیادہ آسانی اور روانی کے ساتھ یہ چکی چلتی ہے۔ اس لئے بہترین صورت یہ ہے کہ جس گھر میں جس وقت جتنے لوگ رہیں، سب گھر کے کاموں میں برابر کے شریک رہیں، وہ بھی جو گھر کے مستقل مکین ہیں اور وہ بھی جو کچھ دن کے لئے رہنے آئے ہیں۔ مل جل کر کام کرنے کی صورت میں سب کو کچھ نہ کچھ مشقت ضرور اٹھانی پڑتی ہے، لیکن سب کو اچھی خاصی راحت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ راحت کا احساس مشقت کو بھلادیتا ہے۔
گھر کے کاموں میں سب کی شرکت گھر کی فضا کو خوش گوار بنائے رکھنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ گھر کا موسم بہت خراب ہونے لگتا ہے جب گھر کے کچھ افراد یہ طے کرلیں کہ انہیں صرف اپنے کام کرنے ہیں، اور گھر کے کام دوسروں کو کرنے ہیں۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے گھر کا ماحول تناؤ کا شکار رہتا ہے۔ عورتیں ہی نہیں گھر کے مردوں کو بھی جس قدر ہوسکے گھر کے کاموں میں شریک ہونا چاہئے، اور جن مردوں کی عورتیں کام کرنے میں کچھ پیچھے ہوں ان مردوں کو کچھ اور آگے رہنا چاہئے۔
گھر کو خالص آرام کی جگہ کبھی نہیں سمجھنا چاہئے۔ جسے کچھ دن صرف آرام کرنے کی خواہش ہو، اس کے لئے اچھا اور باعزت طریقہ یہ ہے کہ کسی ہوٹل میں جاکر کچھ دن گزارلے، وہاں بس آرام ہوتا ہے، آپ بھی خوش رہتے ہیں اور آپ کو آرام مہیا کرنے والے آپ سے بھی زیادہ خوش رہتے ہیں۔ آپ بل ادا کرتے رہیں اور شوق سے جتنا زیادہ ہوسکے آرام فرماتے رہیں۔ لیکن اہل نظر اس مشورے کو بھی درست نہیں سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک دنیا کاموں کی جگہ ہے، اور جنت آرام وراحت کی جگہ ہے، دنیا میں رہتے ہوئے آرام کے مواقع تلاش کرنے کے بجائے اچھے کاموں کی جستجو کرنی چاہئے۔
آرام کے ساتھ تفریح کرنے کے لئے کسی گھر کا انتخاب کرنا ہرگز مناسب نہیں ہے۔ ایسی صورت میں آپ کو آرام ملے یا نہ ملے مگر گھر والوں کی بے آرامی میں اضافہ ضرور ہوجاتا ہے۔ اگر گھر والے آپ سے محبت اور اپنی مروت کی وجہ سے اظہار نہیں کریں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اتنی سادہ سی بات خود آپ بھی محسوس نہ کرسکیں۔ یاد رکھیں تفریح کرنے کا شوق کام کرتے ہوئے بھی پورا کیا جاسکتا ہے، اس کے لئے مکمل فارغ ہونا کوئی ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ خود کو مہمان قرار دینے کے بجائے دوست اور شریک کار بن کر رہیں گے تو قیام کا زیادہ لطف اٹھاسکیں گے۔
یہ سوچ کہ بیٹی اپنے میکے میں آرام کرے، اور بہو اپنی سسرال میں کام کرے، بیٹی آرام کرچکے تو سسرال چلی جائے، اور بہو کام کرتے کرتے تھک جائے تو آرام کرنے میکے چلی جائے، بہت غلط سوچ ہے۔ یہ بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ جس وقت جس گھر میں جتنے لوگ رہیں وہ سب مل جل کر گھر کے کام کریں۔ اور جلدی سے کام ختم کرکے سب لوگ اچھی طرح آرام بھی کرلیں۔ اس سے گھر کا ماحول سب کے لئے خوش گوار رہتا ہے۔ میکہ ہو یا سسرال یا گھر کی کوئی اور قسم، گھر کے سب لوگوں کو گھر میں اس طرح رہنا چاہئے کہ سب کا گھر سب کے لئے خوشی، سکون اور عزت کا گہوارہ بنا رہے۔
کبھی ایسا ہوسکتا ہے کہ گھر کا کوئی فرد کسی مجبوری کی وجہ سے گھر کے کاموں میں شریک نہیں ہوپائے، ایسی صورت میں اعلی اخلاق کا تقاضا ہے کہ گھر کے باقی لوگ اس کی مجبوری کا خیال کریں۔ نہ صرف یہ کہ اس کے کام اپنے ذمہ لے لیں بلکہ اس کی دل جوئی بھی کرتے رہیں، اور اس کے حال پر کوئی ایسا تبصرہ نہیں کریں جس سے اسے دوسروں پر بوجھ بننے کا تکلیف دہ احساس ہونے لگے۔
جو شخص کسی مجبوری کی وجہ سے گھر کے کاموں میں شریک نہ ہوسکے، اسے یہ احساس ضرور رہنا چاہئے کہ گھر میں کام کرنے والے سب لوگ اس کے محسن ہیں۔ اسے سب کے ساتھ احسان شناسی کا رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ (دل جیت لینے والی مسکراہٹ، تکان دور کردینے والی پیاری بات، روح کو سکون دینے والی اچھی سی دعا، کوتاہیوں سے درگزر اور دل کھول کر تعریف۔۔وغیرہ)۔ اور جو شخص احسان شناسی اور شکرگزاری کا ظرف اور سلیقہ نہیں رکھتا ہو اس کے لئے مدد اور خدمت لینے کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔
اگر آپ کچھ کام نہیں کرسکتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کوئی کام نہیں کرسکتے ہیں۔ اپنے ذمہ ایسے کام لے لیجئے جو آپ کرسکتے ہوں۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ایک خاتون کھانا بنائیں تو دوسری خاتون جو کھانا نہیں بناسکتی ہیں سب بچوں کا ہوم ورک دیکھ لیں۔
گھر اور خاندان میں بہت سی تلخیاں باتوں کو لے کر پیدا ہوتی ہیں، اور بہت سی تلخیاں کاموں کو لے کر پیدا ہوتی ہیں۔ جنہیں دوسروں کے ساتھ گزر بسر کرنے کا موقعہ ملے، خواہ وہ چند ساعتوں کا ساتھ ہو یا سالہا سال کا ساتھ ہو، انہیں ساتھ رہنے کا سلیقہ ضرور سیکھنا اور برتنا چاہئے۔ مل جل کر ایک ساتھ رہنے کا سلیقہ جنہیں آجاتا ہے وہ سدا خوش رہتے ہیں، اور ان کے دم سے دوسرے بھی خوش رہتے ہیں۔

1 تبصرے:

تحریر انتہائی جامع ، موزوں اور ہر کسی کے لیے سوچنے پر دلالت کرتی ہے۔
ہم نے گھریلو کاموں کو بے جا طور پر مختلف خانوں میں بانٹ رکھا ہے، ایسے میں غازی بھائی کا یہ مضمون خصوصاً گھریلو سرگرمیوں میں شمولیت پر عمدگی سے رہنمائی کرتا ہے۔
اللہ کرے کہ زور قلم ہو اور زیادہ

Reply

ایک تبصرہ شائع کریں