عبدالرحمان سوار الذھب
کار اصلاح سے محبت، اور منصب اقتدار سے بے نیازی
کار اصلاح سے محبت، اور منصب اقتدار سے بے نیازی
محی الدین غازی
ایک طبیب لکھتا ہے: حج کا موسم تھا اور جمعہ کا دن تھا، میری ڈیوٹی حرم سے متصل ایک طبی مرکز میں لگی تھی، مجھے ہدایت ملی تھی کہ جمعہ کی فرض نماز ادا کر کے فورا مرکز پہونچوں وہاں بھیڑ بہت ہوگی، میں نماز بعد آیا تو واقعی مرکز بیماروں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا، میں بڑی مشکل سے اپنے کیبن میں پونچا اور جلدی جلدی مریض دیکھنے لگا، کچھ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ایک صاحب اپنی باری پر اندر داخل ہوئے، اور بڑی شائستگی سے اپنی بیماری بتانے لگے، اتنے میں مرکز میں کام کرنے والے ایک سوڈانی کی ان پر نظر پڑی، اس نے لپک کر انہیں سلام کیا اور بولا، ڈاکٹر صاحب آپ انہیں جانتے ہیں؟ یہ سوار الذھب ہیں، سوڈان کے سابق صدر۔ میں چونک گیا، پھر ان سے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا آپ نے ہمیں کیوں نہیں بتایا، اتنی لمبی لائن میں لگنے کی آپ کو بالکل ضرورت نہیں تھی، آپ جیسے لوگوں کے لئے تو الگ سے بہت خصوصی سہولتیں رہتی ہیں، اس پر انہوں نے ایک بات کہی، نہایت سبق آموز، انہوں نے کہا، ہم حج کرنے آئے ہیں ہم سب یہاں برابر ہیں، ہمیں بس اس کی چاہ ہے کہ ہمارے رب کی رحمت ہمیں اپنے آغوش میں لے لے، اس کے سوا ہمیں کسی سے کچھ نہیں چاہئے۔
سوار الذھب سے پہلے جعفر نمیری نے فوجی انقلاب لا کر سوڈان پر سولہ سال حکومت کی، اور ظالمانہ آمریت کی ایک سیاہ تاریخ رقم کی۔ اس دوران سوار الذھب فوج میں اپنی غیر معمولی صلاحیت کی بنا پر تیزی کے ساتھ ترقی کرتے رہے، اور چیف آف آرمی اسٹاف ہونے کے ساتھ ملک کے وزیر دفاع بن گئے،1985 میں جب نمیری امریکہ کے سفر پر تھا اس کے خلاف عوام سڑکوں پر اتر آئے، موقع مناسب دیکھ کر سوار الذھب کی قیادت میں فوج نے نمیری کو برطرف کرنے کا اعلان کردیا، اور سوار الذھب ملک کے عبوری صدر بن گئے۔ اب ان کے ساتھ فوج کی طاقت تھی اور عوام کی تائید بھی، وہ چاہتے تو ظلم وجبر نہیں بلکہ عدل وانصاف کے ساتھ کچھ نہیں تو تیس سال تو حکومت کر ہی سکتے تھے، لیکن انہوں نے پورے عالم اسلام کے سامنے ایک بے نظیر نمونہ پیش کیا، صرف ایک سال کے اندر صاف وشفاف انتخابات کرائے، اور اقتدار کوعوام کی نمائندہ حکومت کے حوالے کردیا۔ ساتھ ہی اقتدار میں شرکت کا شوق رکھنے والے فوجی افسروں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے اصل محاذ کی طرف لوٹ جائیں۔ واقعہ یہ ہے کہ سوار الذھب کے اس اقدام پر پوری دنیا حیران رہ گئی تھی۔ ان کے اس فیصلے نے انہیں پوری سوڈانی قوم کا محسن بنادیا تھا۔ جب الیکشن ہوئے تو ان سے بڑے پیمانے پر درخواست کی گئی کہ وہ بھی بطور امیدوار الیکشن میں حصہ لیں، اور اس وقت یہ بات قدرے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی تھی کہ وہ الیکشن میں کھڑے ہوتے تو جیت جاتے، کیونکہ سوڈانی عوام انہیں نجات دہندہ کے روپ میں دیکھ رہے تھے، لیکن انہوں نے سختی سے انکار کردیا۔ وہ فوج کا کوئی شائبہ بھی حکومت میں نہیں چاہتے تھے۔
سوار الذھب چاہتے تو ایک اچھی حکومت کر کے بھی اپنی قوم کا دل جیت سکتے تھے، لیکن ان کے نزدیک اچھا حاکم اچھے نظام حکومت کا بدل نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن انہیں شاید یہ معلوم نہیں تھا کہ اچھا نظام حکومت بھی اپنی بقائے طویل کے لئے بہت سی ذہنی اور زمینی تبدیلیاں چاہتا ہے۔ چنانچہ ملک کے ساتھ فوجی چیرہ دستیوں کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔
سوار الذھب نے اقتدار کو عوامی نمائندوں کے حوالے کرنے کے بعد ایک اور بے نظیر نمونہ قائم کیا، انہوں نے فوج کی اعلی ترین پوزیشن، اور حکومت کا اعلی ترین منصب چھوڑ کر دین کی تبلیغ واشاعت، انسانوں کی فلاح وبہبود اور تعلیم کے فروغ کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا، اور پھر پوری زندگی اسی کی خاطر جدوجہد کرتے رہے، انہوں نے منظمۃ الدعوۃ الاسلامیۃ نامی ایک غیر سیاسی رفاہی تنظیم کو آگے بڑھایا، جس نے مشرقی یوروپ اور افریقہ کے نہایت پسماندہ علاقوں میں دعوت وتبلیغ اور تعلیم وخدمت کے میدانوں میں زبردست کام کیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس تنظیم کے تحت پچپن انٹر کالج ایک سو پچاس اسکول، دو ہزار مسجدیں، ایک ہزار کنویں اور چھ یتیم خانے بنائے گئے۔
افسوس کہ مسلم ملکوں کے حکمرانوں نے دونوں میں سے کسی نمونے کی قدر نہیں کی۔ اور اس طرح مسلم دنیا کی کسمپرسی بڑھتی ہی گئی۔
سوار الذھب بہت نیک صفت اور نرم مزاج انسان تھے، دینداری انہیں وراثت میں ملی تھی جس کی انہوں نے فوجی زندگی میں بھی بڑی قدر کی تھی۔ قریب سے جاننے والوں کی روایت ہے کہ سوار الذھب نے زندگی کا بڑا حصہ فوج میں گزارا تھا، لیکن ان کے مزاج میں فوجی افسروں والی رعونت ذرا بھی نہیں تھی، بلکہ ایک داعی دین والی نرمی اور شفقت تھی۔ محبت سے بھرا ملنے کا انداز اور شیرینی سے بھرپور آواز۔ جس سے ملتے اس کا دل جیت لیتے۔
پانچ سال قبل جب اہل فلسطین کی حوصلہ افزائی کے لئے علامہ یوسف قرضاوی مصر کے راستے غزہ گئے تھے تو سوار الذھب بھی ان کے ساتھ تھے، تجزیہ نگاروں نے اس سفر اور اس رفاقت کو بہت زیادہ اہمیت دی تھی۔ راوی کہتا ہے کہ برسوں پہلے کسی نے علامہ یوسف قرضاوی سے پوچھا تھا کہ آپ کے بعد علماء امت کے وسیع اتحاد اور امت مسلمہ کی رہنمائی کے لئے کوئی بڑی دینی شخصیت نظر نہیں آتی؟۔ علامہ قرضاوی نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا تھا سوار الذھب تو ہیں۔ لیکن افسوس اب تو وہ بھی نہیں رہے۔
ہمیں اللہ کی رحمت سے امید ہے، اور اسی سے دعا ہے کہ دنیا میں نمونہ بن جانے والے صالحین اور مصلحین کا سلسلہ جاری رہے۔