قوموں کی طاقت، قائد کا یقین وبصیرت
محی الدین غازی
ساتویں صدی ہجری اختتام پر تھی، اور تاتاریوں کی فوجیں شام اور مصر کی طرف بڑھ رہی تھیں، ان کی تباہ کاریوں سے پورا عالم اسلام لرز اٹھا تھا، بے شمار آبادیاں قبرستانوں میں تبدیل ہوچکی تھیں، تاتاری فوجوں کی دہشت کا یہ عالم تھا کہ بڑی بڑی فوجیں ان کی آمد کی خبر سن کر ہی اپنے اوسان کھودیتی تھیں، بغداد بری طرح تباہ ہوچکا تھا، اور لوگ اب بھاگ بھاگ کر شام خالی کررہے تھے، اور کوئی ان سے مقابلے کی ہمت نہیں کررہا تھا، ایسے میں امام ابن تیمیہ نے عزم کیا کہ تاتاریوں کا سیلاب روکنا ضروری ہے، بری طرح سے ہمت اور حوصلہ ہاری ہوئی اسلامی فوجوں اور ان کے سالاروں کو انہوں نے نیا حوصلہ دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ بہت مشکل کام تھا، اس کے لئے یقین کی غیر معمولی طاقت درکار تھی، اور امام ابن تیمیہ یقین کی زبردست طاقت رکھتے تھے۔
امام ابن تیمیہ کے شاگرد وجانشین امام ابن قیم بیان کرتے ہیں کہ امام صاحب نے سالاروں اور سپاہیوں کے دلوں میں یقین بٹھایا کہ اس بار تاتاریوں کو شکست ہوگی، اور ظفرمندی مسلمانوں کے حصے میں آئے گی۔ لوگوں کو یقین نہیں آیا تو انہوں نے ستر بار قسم کھائی کہ فتح تم کو ہی ملے گی۔ لوگوں نے کہا ان شاء اللہ تو کہہ دیں، انہوں نے ان شاء اللہ کہا، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس ان شاء اللہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ "اگر اللہ چاہے"، بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ "اللہ نے چاہ لیا ہے"۔ اور جب لوگوں نے آپ کی یقین دہانیوں پر بہت زیادہ حیرت وتعجب ظاہر کیا تو آپ نے کہا: زیادہ تعجب نہ کرو اللہ نے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے کہ اس مرتبہ وہ شکست سے دوچار ہوجائیں گے، اور فتح اسلامی فوجوں کے حصے میں آئے گی۔ امام صاحب خود کہتے ہیں کہ میں نے دشمن کے مقابلہ کے لئے نکلنے سے پہلے کچھ سالاروں اور سپاہیوں کو فتح کی شیرینی بھی کھلادی تھی۔ (ملاحظہ ہو امام ابن قیم کی کتاب مدارج السالکین)
اندیشہ ہے کہ بعض لوگ امام ابن تیمیہ کے ان بیانات کو سن کر ان پر گمراہی کے فتوے چپکانا شروع کردیں گے۔ لیکن میں اس واقعہ میں ایک عظیم قائد کی تصویر دیکھ رہا ہوں، جس نے پوری قوم کو ایک سنگین بحران سے باہر نکالا۔
جب مایوسی اور بددلی پھیل چکی ہو، منزل دور دور تک نظر نہیں آتی ہو، راستہ چلتے چلتے طبیعت شدید اکتاہٹ کا شکار ہوچکی ہو، لوگ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر راستہ بدلنے کی باتیں کرنے لگیں، مقصد سے فرار کی خوشنما تاویلیں کی جانے لگیں، اوپر سے نیچے تک سبھی نصب العین سے بیزاری کا شکار ہورہے ہوں۔ ایسے میں قائد کا یقین ہی ہمتوں اور حوصلوں کو جلا دینے والا واحد سرچشمہ رہ جاتا ہے۔
امام ابن تیمیہ نے فتح کو یقین کی آنکھوں سے دیکھا، اور پھر لوگوں کی آنکھوں میں یقین کی وہ روشنی تقسیم کردی۔ انہوں نے جب یہ محسوس کیا کہ لوگوں کے بے محل استعمال کی وجہ سے اس موقع پر ان شاء اللہ کہنا بھی انہیں کسی تردد میں مبتلا کرسکتا ہے، تو پہلے تو وہ بھی نہیں کہا، اور جب کہا تو ایسی وضاحت کے ساتھ کہا جو یقین میں غیر معمولی اضافہ کردے۔ انہوں نے الزاموں کی پرواہ کئے بنا یہ بھی کہہ دیا کہ اس بار فتح تم کو ملے گی یہ بات تو لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے۔ انہوں نے مرعوبیت اور دہشت کی شکار سپاہ کو فتح کی مٹھائی بھی کھلادی۔ یہ ایک پر یقین قیادت کی زبردست مثال ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان فوج نے ہمت اور حوصلے سے مقابلہ کیا اور ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے تاتاریوں کو پسپائی پر مجبور کردیا۔
قائد کو یقین کی ایسی سچی دولت اس وقت حاصل ہوتی ہے، جب اس نے میدان کو اچھی طرح پڑھ لیا ہوتا ہے، ایسے پختہ اور انقلاب آفریں یقین کے پیچھے کوئی تباہ کن حماقت اور کوئی ہلاکت خیز فریب کارفرما نہیں ہوتا ہے، بلکہ حکمت وبصیرت اور فہم وفراست کی روشنی کے ساتھ یہ یقین پیدا ہوتا ہے۔ یقین کی قوت اور بصیرت کی روشنی سے مالامال قائد فتح کی مٹھائی کھلا کر تباہی کے گڑھے میں نہیں ڈھکیلتا ہے، بلکہ سچ مچ ظفر مندی کی جانب لے کر جاتا ہے۔ امام ابن تیمیہ نے تاتاریوں سے فیصلہ کن معرکے کا فیصلہ واقعات وحقائق کے گہرے جائزے کے بعد کیا تھا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ امام صاحب کو یہ یقین اور یہ بصیرت قرآن مجید سے عطا ہوئی تھی۔
اس وقت ساری دنیا میں مسلم امت بھی پست ہمتی کا شکار ہے اور اسلامی تحریکات بھی سخت آزمائشوں اور حوصلہ شکن مصیبتوں سے دوچار ہیں۔ کہیں مخالفت شدید ہے تو کہیں غفلت بڑھی ہوئی ہے۔ ایسے میں یقین کی روشنی اور فتح کی شیرینی تقسیم کرنے والے امام ابن تیمیہ جیسے قائد کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
پتے کی بات یہ ہے کہ ایسا قائد اعظم انتخابی عمل کے ذریعہ قیادت کے کسی منصب پر فائز نہیں ہوتا ہے، بلکہ گہری بصیرت اور جرأت مندانہ کردار کے ذریعہ قیادت کی بھاری بھاری ذمہ داریاں ادا کرتا ہے۔ امام ابن تیمیہ کے پاس قیادت وسیادت کا کوئی معروف منصب نہیں تھا، بس ذمہ داری کا شدید احساس تھا جس نے تاریخ کے نہایت نازک موڑ پر ان سے قیادت کا عظیم کام کروادیا۔ یقین اور بصیرت سے بھر پور ذمہ داری کا یہ احساس بستی بستی اور قریہ قریہ بے شمار افراد میں پیدا ہوجائے تو امت کی تقدیر بدل جائے۔
ایک تبصرہ شائع کریں