جو غلط ہے چھوڑ دو، جو صحیح ہے لے لو
(اترک ما أخطأ، وخذ ما أصاب)
(اترک ما أخطأ، وخذ ما أصاب)
محی الدین غازی
ایک سبق آموز واقعہ مطالعہ سے گزرا، حمیدی ایک بڑے محدث گزرے ہیں، وہ کہتے ہیں: احمد بن حنبل مکہ آئے اور ہمارے یہاں قیام کیا، ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا: یہاں قریش خاندان کا ایک شخص درس دیتا ہے، اور وہ بیان ومعرفت میں امتیازی شان رکھتا ہے، میں نے پوچھا کون ہے وہ؟ کہا: محمد بن ادریس شافعی۔ (عراق میں ان دونوں کی ملاقات رہی تھی)۔ وہ مجھے اکساتے رہے یہاں تک کہ ان کے پاس کھینچ لے گئے۔ شافعی کی مجلس میزاب کے سامنے ہوا کرتی تھی، ہم ان کے حلقے میں بیٹھ گئے، وہاں بہت سے مسائل زیر بحث آئے۔ جب ہم اٹھے تو احمد بن حنبل نے پوچھا، کہو کیسا پایا، میں چن چن کر ان کی غلطیاں بتانے لگا، احمد بن حنبل نے کہا: سوچو سو مسائل پر انہوں نے گفتگو کی اور غلطی محض پانچ یا دس میں ہوئی۔ تو تم ایسا کرو جو باتیں غلط کہی ہیں وہ چھوڑ دو ، اور جو باتیں صحیح کہی ہیں وہ لے لو۔ (اترک ما أخطأ، وخذ ما أصاب) حمیدی کہتے ہیں ان کی یہ بات میرے دل میں اتر گئی۔ میں شافعی کے حلقے میں بیٹھنے لگا یہاں تک کہ تمام اہل مجلس سے زیادہ ان کے قریب ہوگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ امام احمد نے اس واقعہ میں علم ومعرفت کا شوق رکھنے والوں کو بہت زبردست اصول دیا ہے۔ ہر شخصیت جو پرانی باتیں دوہرانے اور متن پر حاشیے چڑھانے کے بجائے علمی فتوحات کا راستہ اختیار کرتی ہے، اور علم کے میدان میں تجدید واجتہاد کے کچھ کارنامے انجام دینے کا حوصلہ رکھتی ہے، اس سے لغزشیں ضرور ہوسکتی ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی غلطیوں کی فہرست تیار کرکے سوشل میڈیا پر گھمادی جائے، اور عام منادی کرادی جائے کہ فلاں نے چالیس غلط باتیں لکھی ہیں، اس لئے اس کی تمام کتابوں سے شدید پرہیز کیا جائے۔ ہزاروں صحیح اور قیمتی باتیں لکھنے والے سے اگر آپ کو سو باتوں میں اختلاف ہے تو وہ اختلاف سے کہیں زیادہ اتفاق ہے، لیکن آپ اسے محسوس نہیں کررہے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ کچھ غلطیوں کی وجہ سے پوری شخصیت کو رد کردینے کے رویے نے امت کو شدید علمی نقصان پہونچایا ہے۔ راقم نے علم حاصل کرنے والے بہت سے نوجوانوں کی جیب کو ٹٹولا تو ان کے پاس ایسے اہل علم کی طویل فہرست ملی، جنہیں وہ استفادے کا اہل نہیں سمجھتے ہیں، کیونکہ ان کے بارے یہ سن رکھا ہے کہ کچھ مسائل میں وہ غلط رائے رکھتے ہیں۔
مطالعہ کا شوق رکھنے والوں سے کہا جاتا ہے کہ پہلے مستند اور معتبر علماء کی کتابیں پڑھ لو، اس کے بعد جب ذہن پختہ ہوجائے تو دوسروں کی کتابیں پڑھنا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مستند اور معتبر علماء کی رہنمائی میں کتابوں کا مطالعہ ہونا چاہئے۔ میرا جائزہ ہے کہ یہ بات کہنے والے دراصل معتبر ومستند سے مراد صرف اپنے حلقے اور اپنے مسلک ومشرب کے علماء مراد لیتے ہیں۔ شوق مطالعہ کو اس قید وبند میں گرفتار کردینے کے بعد پھر نہ صرف یہ کہ مطالعہ محدود رہ جاتا ہے، بلکہ قلب ونظر بھی تنگی سے باہر نہیں نکل پاتے ہیں۔
اہل علم کی کتابیں پڑھ کر بہک جانے کا ڈراوا بہت زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے، اس سے طالب علم کے اندر ایک جھجھک پیدا ہوجاتی ہے، پھر وہ زندگی بھر ڈرتے ڈرتے اور دھیرے دھیرے چلتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو آزاد اور بے خوف ہو کر بلا تفریق تمام اہل علم کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں، بلاشبہ ان کا گزر مختلف اونچے نیچے راستوں اور بل کھاتی پگڈنڈیوں سے ہوتا ہے، ان کی زندگی میں حیرت واضطراب کے بہت سے مرحلے آتے ہیں، مگر وہ شخصیت کی تعمیر وارتقا کے صحیح راستہ پر مناسب رفتار سے چلتے ہیں۔ وہ کھوتے کم ہیں اور پاتے زیادہ ہیں۔
حق کی اپنی روشنی ہوتی ہے، اور وہ جہاں بھی ہوتی ہے دل کو موہ لیتی ہے، اس روشنی پر اعتماد کرنے سے حقیقی خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ اندیشے دور ہوجاتے ہیں، اور علم کے چاہنے والے اطمینان اور بے خوفی کے ساتھ امت کے تمام اہل علم ودانش سے فائدہ اٹھالیتے ہیں۔
حق بات کی قوت کا بہت زبردست اعتراف امام شافعی کے یہاں ملتا ہے، وہ اپنے شاگردوں سے کہتے تھے: "ہر وہ بات جو میں تم سے کہوں اور تمہاری عقل اس کی تائید نہیں کرے، اسے قبول نہیں کرے اور اسے درست نہیں سمجھے، تو اسے تم قبول مت کرنا، کیوں کہ عقل تو صحیح بات قبول کرنے پر مجبور ہوتی ہے"۔ «كُلُّ مَا قُلْتُ لَكُمْ، فَلَمْ تَشْهَدْ عَلَيْهِ عُقُولُكُمْ وَتَقْبَلْهُ، وَتَرَهُ حَقًّا فَلا تَقْبَلُوهُ، فَإِنَّ الْعَقْلَ مُضْطَرُّ إِلَى قَبُولِ الْحَقِّ» جب استاذ طلبہ کے اندر ایسی خود اعتمادی پیدا کردے، تو پھر دل ودماغ پر کسی نگراں یا سرپرست کو بٹھانے کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں