بال برابر فاصلہ رکھنا، ایک حکیمانہ اصول

بال برابر فاصلہ رکھنا، ایک حکیمانہ اصول
محی الدین غازی
نماز میں دوسروں کے پاؤں سے پاؤں ملاکر کھڑے ہونے کا مسئلہ نازک بھی ہے اور اہم بھی ہے، نماز کے دوسرے اختلافی مسائل کے برعکس اس مسئلے میں نزاکت کا خاص پہلو یہ ہے کہ ہمارا یہ عمل ہماری ذات تک محدود نہیں رہتا ہے، بلکہ دوسروں کی ذات کو راست متاثر کرتا ہے، خاص طور سے جب ایک شخص اپنے پاؤں کو دوسرے شخص کے پاؤں سے چپکانا چاہتا ہے، اور وہ دوسرا شخص اس کے لئے آمادہ نہیں ہوتا ہے۔
میں نے ہندوستان کی مسجدوں میں متعدد بار دیکھا کہ جو لوگ پاؤں ملاکر کھڑے ہونے سے مانوس نہیں ہیں، وہ محض اس وجہ سے اپنی جگہ بدل دیتے ہیں کہ ان کے پاس کھڑا ہوا شخص پاؤں ملاکر کھڑے ہونے کے موڈ میں ہوتا ہے۔
بعد میں مشاہدہ ہوا کہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی ایسی بہت ساری مسجدوں کا یہی حال ہے، جہاں اہل حدیث اور غیر اہل حدیث ساتھ نماز پڑھتے ہیں، ایسے میں بعض اہل حدیث حضرات کا اصرار ہوتا ہے کہ وہ پاؤں سے پاؤں چپکا کر کھڑے ہوں، جبکہ دیگر مسالک کے ماننے والے اپنے دونوں پاؤں کے درمیان کم فاصلے کو سنت سمجھتے ہیں، اور ساتھ والے نمازی کے پاؤں سے پاؤں ملانے کے عادی نہیں ہوتے ہیں، بسا اوقات ان کو اس سے الجھن بھی ہوتی ہے، چنانچہ بہت ساری مسجدوں میں پاؤں ملانے کے مسئلے پر خطرناک جھگڑے ہوجاتے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اس ناگواری اور الجھن کا علم اور احساس خود ان لوگوں کو بھی ہوتا ہے جو اتباع سنت کے جذبے کے تحت پاؤں ملاکر کھڑے ہونے کو نیکی اور کارثواب سمجھتے ہیں، اور ایک سنت کو زندہ کرنے کی خاطر یہ خطرہ مول لیتے ہیں۔ ایک قابل احترام اہل حدیث بزرگ شیخ عبیداللہ مبارکپوری لکھتے ہیں، ’’جب کوئی اہل حدیث کسی حنفی کے پاس نماز میں کھڑا ہوتا ہے، اور سنت کی پیروی کے لئے اپنے پیر اس کے پیر سے ملانا چاہتا ہے تو حنفی اپنا پیر دور کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے دونوں پاؤں ملالیتا ہے، اور دونوں پاؤں کے بیچ ذرا فاصلہ نہیں بچتا ہے، کبھی وہ تیوری چڑھالیتا ہے، اور اپنے مسلم بھائی کی طرف غصے کی نظر سے دیکھتا ہے، اور کبھی تو نیل گائے کی طرح بھاگ کھڑا ہوتا ہے‘‘۔(مرعاۃ المفاتیح)
مطالعہ کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ پاؤں ملانے سے متنفر ہونے کا یہ مسئلہ بہت پرانا ہے، روایت ہے کہ مشہور صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوں کو درست کرنے کی ترغیب دی، تو میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنے قدم کو اپنے ساتھی کے قدم سے ملاتے تھے، حضرت انس نے اپنے شاگردوں سے یہ بھی کہا کہ ’’اگر تم ایسا کرنے لگے تو لوگوں کو دیکھو گے کہ گویا وہ بپھرے ہوئے خچر ہیں‘‘۔ واضح رہے کہ یہ بات ہمارے زمانے کی نہیں بلکہ تابعین کے زمانے کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے سے متعلق تمام دلائل کو جمع کریں تو یہ مان لینا آسان ہوجاتا ہے کہ نماز میں پاؤں ملا کر کھڑا ہونا بھی سنت ہے، اور پاؤں نہ ملاکر قریب قریب کھڑا ہونا بھی سنت ہے، دونوں ہی طریقوں پر امت کا دور اول سے عمل رہا ہے، اصل کوشش اس کی ہو کہ صف سیدھی رہے، نمازیوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ قربت ہو، اور دونوں طریقوں کے ماننے والے ایک دوسرے کا لحاظ کریں۔
دینی سوجھ بوجھ کا تقاضا ہے کہ پاؤں نہیں ملانے والے پاؤں ملانے کو بھی سنت سمجھیں اور اس عمل کو بھی احترام کی نظر سے دیکھیں، اور اپنے اندر اتنا تحمل پیدا کریں کہ اگر کبھی کوئی شخص پاؤں سے پاؤں ملاتا ہے، تو خوش دلی کے ساتھ اسے قبول کریں، اور اگر کوئی پریشانی محسوس ہوتی ہو تو ثواب کی نیت کے ساتھ اسے برداشت کرلیں، اور اس پر کوئی ناروا ردعمل ظاہر نہ کریں۔
دینی سوجھ بوجھ کا تقاضا یہ بھی ہے کہ پاؤں ملانے والے اس وقت تو بلاتکلف پاؤں ملانے کی سنت پر عمل کریں جب ان کے پہلو میں ان کے ہم خیال لوگ ہوں، لیکن جب کوئی ایسا فرد ساتھ میں ہو جو پاؤں ملانے پر آمادہ نہ لگتا ہو، تب ضرور احتیاط اور حکمت سے کام لیں، اپنے عمل کے ساتھ اس کے عمل کو بھی سنت سمجھیں، اور اگر پاؤں کے بیچ کے فاصلے کو ختم کرنا ہی چاہتے ہوں تو ایسا کریں کہ اپنا پاؤں اس کے پاؤں کے قریب لے جاکر بس بال برابر فاصلہ چھوڑ دیں، کہ اس کے پیر کو آپ کے پیر کے لمس کا احساس نہ ہو، اور درمیان میں فاصلہ بھی نظر نہیں آئے، اس طرح صفوں کے بیچ دوری بھی نہیں رہے گی، اور آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والا آپ سے متنفر اور پریشان بھی نہیں ہوگا۔
اجتماعی زندگی میں جہاں طرح طرح کی طبیعت اور مزاج والے لوگ ساتھ رہتے ہوں، اور قدم قدم پر نوک جھونک اور تصادم کا خطرہ درپیش ہوتا ہو، بال برابر فاصلہ رکھنے کا اصول بہت کارگر ثابت ہوتا ہے۔ بال برابر کا ذرا سا فاصلہ بڑی بڑی دوریوں سے بچاسکتا ہے۔
(اس نقطہ نظر کی مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو، مضمون نگار کی تازہ تصنیف ’’نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل‘‘)

ایک تبصرہ شائع کریں