پریم کرنے کی چھمتا بڑھائیں

پریم کرنے کی چھمتا بڑھائیں
محی الدین غازی
رشتہ کوئی بھی ہو، والدین اور اولاد کا ہو، شوہر اور بیوی کا ہو، یا ساس اور بہو کا ہو، یا سوکن اور سوتیلی ماں کا ہو، کوئی رشتہ شیطان کا بنایا ہوا نہیں ہے کہ اس کے خمیر میں بغض ونفرت ہو، سارے رشتے خدا نے بنائے ہیں، محبت کی اساس پر بنائے ہیں، اور اس لئے بنائے ہیں کہ ان کو خوب چاہا جائے اور خوب صورتی سے نباہا جائے، رشتے اپنی زندگی اور تازگی کے لئے محبت چاہتے ہیں، محبت ہوتی ہے تو وہ توانا اور صحت مند رہتے ہیں، محبت نہ ہو تو کمزور اور بیمار ہوجاتے ہیں۔
دل محبت پیدا کرنے والی مشین ہے، مگر لوگ دل کو محبت سے چلنے والی مشین سمجھ لیتے ہیں، اپنے دل کو نہیں سمجھ پانے کی وجہ سے آدمی سوچتا ہے کہ جب کوئی مجھ سے محبت کرے گا تبھی میں اس سے محبت کروں گا۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دل خود محبت پیدا نہیں کرپا رہا ہے، بلکہ دوسرے کی محبت اس کو ملتی ہے تب وہ محبت کرنے کا اپنا کام کرپاتا ہے، اور اتنی ہی دیر تک کرتا ہے اور اتنی ہی حد تک کرتا ہے۔ یہ دل کو اس کے مقام بلند سے گرادینا ہے، دل کو تو شخصیت میں سب سے اونچا مقام دیا گیا ہے۔ دل تو اس جنریٹر مشین کی طرح ہے جو توانائی کو خود پیدا کرتی ہے، اور دوسری مشینوں کو چلانے کے لئے سپلائی کرتی ہے، دل ان بہت ساری مشینوں کی طرح نہیں ہے جو باہر کی توانائی سے چلا کرتی ہیں، اور توانائی نہ ملے تو چلنے سے انکار کردیتی ہیں۔
رشتے داروں کے درمیان اگر یہ انتظار پایا جاتا ہو کہ محبت کی شروعات دوسرا کرے اور ہم اس کی شروعات کو خوش آمدید کہیں، اور اس طرح زندگی بھر دوسرے کی طرف سے شروعات کا انتظار کرتے رہیں، تو مانو کہ ان کو اپنے دل کی بے پناہ صلاحیتوں کا اندازہ نہیں ہے، خالق عظیم نے یہ طاقت صرف دل میں رکھی ہے کہ وہ خود شروعات کرکے نیم مردہ رشتوں میں زندگی کی لہر دوڑادے، اور ایک کے بعد ایک سارے رشتوں کو فتح کرتا چلا جائے۔ دوسروں کی طرف سے محبت کا انتظار چھوڑ کر خود محبت کی شروعات کردینا دل کی زندگی اور صحت مندی کی بہت بڑی دلیل ہے۔
عام طور سے جب کوئ نیا رشتے دار زندگی میں داخل ہوتا ہے تو اندیشوں کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے کہ محبت کی اس نئی تقسیم میں نہ جانے کس کس کی محبت میں کٹوتی کی جائے گی، اور جہاں جہاں کٹوتی ہوتی ہے، وہاں وہاں رشتوں میں کمزوری آتی ہے، اور اس پر احتجاج بھی ہوتا ہے، جبکہ ادھر سے صرف ایک ٹکا سا جواب ملتا ہے کہ ’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘‘۔ اس مسئلے کا صرف ایک حل ہے اور وہ یہ کہ ہر نئے رشتے کی آمد پر دل کے اندر محبت کے پروڈکشن میں کافی اضافہ کردیا جائے، تاکہ کسی کی محبت میں کٹوتی کئے بغیر ہر نئے رشتے کو بھرپور محبت سے سیراب کیا جاسکے۔
ایک انسان کا دل بیک وقت بہت سارے انسانوں سے محبت کرسکتا ہے، اور ہر کسی سے بہت زیادہ محبت کرسکتا ہے، وہ بہت سارے رشتوں کو سیراب کرسکتا ہے اور ہر رشتے کو خوب خوب سیراب کرسکتا ہے، کیونکہ دل کی یہ خوبی ہے کہ وہ چاہے تو بہت زیادہ محبت پیدا کردے، دل کی اس خوبی سے جو لوگ غافل ہوتے ہیں، اور محبت کی کم پیداوار پر قناعت کرلیتے ہیں، وہ رشتوں کو نباہنے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔
ہمارے گھروں میں پیدا ہونے والے بہت سارے سنگین مسائل کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم دوسروں تک محبت کی بھرپور ترسیل نہیں کرپاتے۔ اس کی وجہ سے ایسے ایسے مسائل اور جھگڑے سر اٹھاتے ہیں کہ جن کا حل کسی کی سمجھ میں نہیں آتا۔ محبت میں تو جادوئی تاثیر ہوتی ہے، یہ بہت ساری تکلیفوں کو بھلادیتی ہے اور بہت ساری شکایتوں کو خاموش کردیتی ہے، اور جب محبت میں کٹوتی ہوتی ہے تو تکلیفیں ابھر آتی ہیں اور شکایتیں جاگ اٹھتی ہیں، آدمی پریشان ہوکر ادھر ادھر حل ڈھونڈتا ہے، جبکہ حل تو اس کے بہت قریب ہوتا ہے، عین اس کے دل کے اندر۔
ہماری طرح ہمارا دل بھی آرام پرست اور سہولت پسند ہوتا ہے، وہ محبت پیدا کرنے کی محنت سے جی چراتا ہے، اور اسی قدر پروڈکشن پر اکتفا کرتا ہے جس کا وہ عادی ہوتا ہے، تمام رشتوں کو نباہنے کے لئے لازم ہوتا ہے کہ دل پر دباؤ ڈال کر اسے زیادہ محبت کرنے کا عادی بنایا جائے، اور حسب موقعہ محبت کی پیداوار بڑھائی جاتی رہے، پیداوار بڑھانے کی صورت میں شروع شروع میں تو اوور لوڈ ہوجانے جیسی محنت اور تھکن کا احساس ہوتا ہے، تاہم جلد ہی حضرت دل زیادہ محبت پیدا کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ پھر رشتوں کا حسن نکھر آتا ہے، ان کی شادابی بڑھ جاتی ہے اور زندگی بہت خوشگوار ہوجاتی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر عزیز سے اتنی زیادہ محبت کرتے تھے، کہ اسے لگتا کہ سب سے زیادہ محبت اسی سے کرتے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں