شکر گزاری رشتوں کو مضبوط کرتی ہے

 
یہ بالکل صحیح ہے کہ انسان کو بے غرض ہونا چاہئے، اور احسان مندی کی توقع کے بغیر بے لوثی کے ساتھ احسان کرتے رہنا چاہئے، یہ بھی درست ہے کہ نیکی کو جتانے سے نیکی ضائع ہوجاتی ہے خواہ وہ کتنی بڑی نیکی کیوں نہ ہو۔ اس میں بھی شبہ نہیں کہ بھلائی کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لئے شکر گزاری کی شرط لگانا کم ظرفی کی دلیل ہے۔ درحقیقت بندوں کے ساتھ نیکی کرکے اپنے رب سے صلہ کی امید رکھنا ہی کامیاب ترین سودا ہے۔
لیکن دوسری طرف شکر گزاری اور احسان مندی بھی ایک خوبی ہے، اور اس خوبی کا بھی معاشرے میں بھر پور اظہار ہونا چاہئے۔
انسانی معاشرہ میں ہر شخص کسی نہ کسی کی کسی طور خدمت اور مدد کرتا ہے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی آپ کی مدد کرتا ہے، اور آپ اس سے شکریہ کہتے ہیں، وہ جوابا کہتا ہے کہ شکریہ کی کیا بات، یہ تو میرا اخلاقی فرض تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نے آپ کے ساتھ جو نیکی کی وہ ایک اخلاقی فرض ہو یا نہ ہو، آپ کا اس کی نیکی پر شکریہ کہنا ضرور ایک اخلاقی فرض بنتا ہے۔
شکرگزاری شخصیت کی بلندی کی علامت ہے، بعض لوگ پہلے سے دل میں طے کرلیتے ہیں کہ سامنے والے نے نیکی کرکے اپنے اخلاقی فرض کو ادا کیا، یا کسی پرانی نیکی کا بدلہ دیا، اور یوں شکریہ ادا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ یہ سوچ شخصیت کو ایک اعلی اخلاقی صفت سے محروم کردیتی ہے۔
شکر گزاری اپنے آپ میں ایک بڑی سماجی خدمت ہے، اس سے معاشرے میں نیکی اور بھلائی کے رجحان کو قوت حاصل ہوتی ہے، کسی نیکی کرنے والے کی جس قدر بھر پور طریقے سے شکر گزاری کی جائے گی، اس کا نیکی کا جذبہ اور حوصلہ اتنا ہی اور پروان چڑھے گا، اور جس قدر اعلانیہ شکر گزاری کی جائے گی اسی قدر دوسرے لوگوں میں بھی نیکی کا جذبہ نشوونما پائے گا۔
شکر گزاری سے رشتے اور تعلقات بھی بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ تحفہ دینے سے تعلقات کی خوشگواری پر اچھا اثر ہوتا ہے، لیکن اس سے کہیں زیادہ اثر اس بھرپور شکریہ کا ہوتا ہے جو تحفے کو قبول کرنے والے کی طرف سے ادا کیا جاتا ہے۔
شکرگزاری محض ایک زبانی عمل نہیں ہے جسے بے دلی اور بے دھیانی سے ادا کردیا جائے، شکر گزاری تو باہمی تعلقات کی عمارت اٹھانا ہے، نیکی کرنے والے کی تکریم اور اس کی نیکی کا خوب صورت اعتراف کرنا ہے، گھر سے لے کر سماج تک جس قدر ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی اور بھلائی پر شکر گزاری کا چلن ہوگا، اتنا ہی زیادہ اچھے تعلقات اور خوب صورت رشتوں کی تعمیر ہوگی۔
بعض لوگ دل سے شکر گزار ہونا کافی سمجھتے ہیں، اور زبان سے اس کے اظہار کی ضرورت نہیں سمجھتے، لیکن یہ رویہ درست نہیں ہے، اور اس سے شکریہ کا مقصد حاصل نہیں ہوتا ہے، شکریہ کے جذبات دل کی گہرائیوں سے ہوں، اور ان کی بھرپور ادائیگی زبان سے ہو، تبھی شکریہ کا حق ادا ہوتا ہے، اور اس کی برکتیں ظاہر ہوتی ہیں۔
بعض لوگ شکریہ تو ادا نہیں کرتے ہیں، لیکن دل میں طے کرلیتے ہیں، کہ بہترین صلہ دے کر احسان کا بوجھ ضرور اتاریں گا. نیکی کا صلہ نیکی سے دینا بہت اچھی بات ہے، لیکن یہ شکر گزاری کا بدل نہیں ہوسکتا ہے۔ شکر گزاری ایک تو اس لئے ضروری ہے کہ نیکی کی شروعات تو سامنے والے نے کی، آپ تو بہرحال اس کا بدلہ دیں گے، اور اس لئے بھی کہ کیا پتہ بدلہ دینے کا موقعہ ملے نا ملے، نہ زندگی کا بھروسہ اور نہ حالات کا، فوری شکرگزاری سے ایک اخلاقی فرض کی ادائیگی تو بروقت ہوجاتی ہے، اور اس طرح شکر گزاری کے بے شمار فائدے بھی معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں۔
بعض لوگ شکریہ اسی وقت ادا کرتے ہیں جب بالکل بے عیب نیکی ان کے ساتھ کی جائے، اگر ذرا سی بھی خامی نکل آئے، تو وہ شکریہ کی اخلاقی ذمہ داری بھول کر شکوہ وشکایت کی بے منزل راہوں پر نکل پڑتے ہیں۔ بڑی اعلی ظرفی کی بات ہوتی ہے، کہ آپ کو کوئی تحفہ پیش کرے، وہ آپ کو بالکل پسند نہ آئے، پھر بھی آپ اس کا دل کھول کر شکریہ ادا کریں، اور بڑی کم ظرفی کی بات ہوتی ہے کہ کوئی آپ کو تحفہ دے کر آپ کے رویہ سے محسوس کرے کہ اس سے کوئی خطا سرزد ہوگئی ہے۔
سادہ سی بات ہے کہ میزبانی سے تعلقات میں مضبوطی اور خوش گواری آنا چاہئے، لیکن گھر گھر کی کہانی یہ ہے کہ ذرا سی کوتاہی مہمان رشتے دار کو ناراض کردیتی ہے اور وہ دل میں شکایتوں کا دفتر لئے رخصت ہوجاتا ہے۔ میں نے بہت دفعہ دیکھا ہے کہ جن لوگوں کے تعلقات برسوں سے نارمل چلے آرہے تھے، ایک وقت کی یا چند دنوں کی میزبانی کے بعد بہت زیادہ خراب ہوگئے۔ اس میں میزبان کا قصور بھی ہوسکتا ہے، لیکن مہمان کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس میزبان کی کوتاہیوں اور خامیوں سے درگزر کرتے ہوئے اس کی میزبانی کی لاج رکھے، اگر وہ مثالی اور معیاری میزبان نہیں بن سکا تو آپ تو ایک اچھے مہمان بن سکتے تھے۔ خراب میزبان کو سبق سکھانے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ آپ خراب مہمان بن جائیں، صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس وقت آپ اس کے اچھے مہمان بن جائیں، اور موقعہ ڈھونڈ کر اسے اچھا میزبان بن کر بھی دکھا دیں۔
مشہور کہاوت ہے، دسترخوان نہ بچھے تو ایک عیب، اور بچھے تو سو عیب۔ پر یاد رہے کہ یہ کہاوت صحتمند رویہ کی عکاسی نہیں کرتی، دسترخوان کا نہ بچھنا بہت بڑا عیب ہے، جو مجبوری کی حالت میں ہی گوارا کیا جاسکتا ہے، اور دسترخوان کا بچھ جانا بہت بڑی خوبی ہے، اس خوبی کے ہوتے ہوئے کشادہ ظرف لوگ سو عیب کیا ہزار عیبوں سے چشم پوشی کرلیتے ہیں۔
جب خود غرضی اور صرف اپنے اوپر خرچ کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہو، صارفیت کا سیلاب خدمت کے حوصلوں کو شدید دھمکیاں دے رہا ہو تو معاشرہ میں خدمت، نیکی اور بھلائی کے رجحان کو قوت پہونچانا بہت زیادہ ضروری ہوجاتا ہے۔ شکر گزاری اور احسان مندی کی اہمیت اس سے اور اجاگر ہوجاتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں