کچھ باتیں اتنی سادہ ہوتی ہیں کہ بغیر سمجھے سب لوگوں کی سمجھ میں آجائیں، لیکن لوگوں کی عملی زندگی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ سادہ سی باتیں زیادہ تر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکی ہیں، بلکہ اعلی تعلیم اور بہترین دماغ رکھنے والے بھی ان کو سمجھنے سے معذور نظر آتے ہیں۔
محبت کے ساتھ رہنے کا فائدہ سب سے پہلے محبت کے ساتھ رہنے والوں کو حاصل ہوتا ہے، اور نفرت کے ساتھ رہنے کا نقصان سب سے پہلے نفرت کے ساتھ رہنے والوں کو اٹھانا پڑتا ہے، یہ جاننے کے باوجود بہت سارے لوگ نفرت کے ساتھ رہنے میں زیادہ آرام محسوس کرتے ہیں۔
جن رشتہ داروں میں آپس میں محبت ہوتی ہے وہ کتنے فائدے میں رہتے ہیں، اس کا تصور بھی وہ لوگ نہیں کرسکتے جو نفرت کے ماحول میں جینے کے عادی ہوجاتے ہیں، اور جن کے دل نفرت کے جذبات سے غذا حاصل کیا کرتے ہیں۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ محبت کے ساتھ رہنے والے رشتہ داروں کے پاس زندگی سے لطف اٹھانے کے مواقع کئی سو گنا زیادہ ہوجاتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے اپنے ان رشتے داروں کی بدولت جن سے میرے تعلقات خوش گوار ہیں، زندگی کو اتنا زیادہ انجوائے کیا کہ اگر تعلقات کی خوش گواری شامل حال نہیں ہوتی تو میں زندگی کی بہت ساری لذتوں سے محروم رہتا۔
مجھے لگتا ہے کہ محبت کا رویہ اپنانے کے لئے آدمی کو نفس کے ایک پست مقام سے نکل کر ایک بلندی تک پہونچنا ہوتا ہے، اور اس کی سہل پسند طبیعت اس چڑھائی کے لئے آمادہ نہیں ہوپاتی۔ حالانکہ پہاڑی راستوں کی طرح یہ کوئی مشکل چڑھائی نہیں ہوتی ہے، ایک لمحہ کا فیصلہ ہوتا ہے، اور آدمی بلندیوں کی سیر کرنے لگتا ہے۔ ایک مشہور ماہر تربیت سے جب ایک شوہر نے پوچھا کہ میں شادی کے بعد کچھ سال تک تو اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا تھا پر اب نہیں کرتا ہوں، اس کا علاج بتائیے۔ تو اس نے کہا کہ اس کا علاج صرف یہ ہے کہ اپنی بیوی سے پھر سے محبت کرنے لگو۔ سچ پوچھئے تو مجھے یہ جواب بہت تشفی بخش لگا۔
محبت کے تعلقات کا بہت زیادہ دارومدار کسی ایک کی سبقت پر ہوتا ہے، بعض مرتبہ شادی کے وقت لڑکی سوچتی ہے کہ میری ساس مجھ سے محبت سے پیش آئے گی تبھی میں اس سے محبت سے پیش آؤں گی، ساس بھی بہو کے متعلق اسی طرح کا ارادہ رکھتی ہے، چنانچہ دونوں کا جی تو یہی چاہتا ہے کہ محبت کے ساتھ رہیں، لیکن پوری زندگی دونوں انتظار کرتے ہوئے گزار دیتی ہیں، اگر بہواس طرح سوچتی کہ میں پہلے دن سے اپنی ساس سے محبت سے پیش آؤں گی کہ وہ بھی مجھ سے محبت سے پیش آنے پر مجبور ہوجائے، تو یقینا وہ اپنی ساس کا دل جیت لیتی۔ مطلب یہ کہ محبت سے پیش آنے کی پہلی ذمہ داری کون قبول کرے یہ بہت اہم بات ہے۔ یاد رہے قرآن مجید میں خیر کے کاموں میں آگے بڑؑھ جانے والوں کی بڑی تعریف کی گئی ہے۔ فاستبقوا الخیرات۔
لوگوں کو اس وقت بڑا تعجب ہوتا ہے جب وہ ساس اور بہو کو محبت کے ساتھ رہتے ہوئے دیکھتے ہیں، یا کسی بہو کو اپنی ساس کی بہت زیادہ تعریف کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، اور اگر کوئی خاتون اپنی سوکن کی تعریف کرے تب تو لوگ اس کی دماغی حالت پر بھی شک کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ محبت کے ساتھ تو سب کو رہنا چاہئے، خواہ وہ ماں اور بیٹی ہو، شوہر اور بیوی ہوں، ساس اور بہو ہوں، نند اور بھاوج ہوں یا دو سوکنیں ہوں۔ اصل میں ہمارے معاشرے نے بہت سارے رشتوں کے بارے میں لوگوں کے ذہن میں یہ بٹھادیا ہے کہ یہ باہم کشیدگی اور کھینچا تانی کے رشتے ہیں۔ لیکن یہ سوچ یکسر غلط ہے، اللہ تعالی نے جتنے رشتے بنائے ہیں وہ سب محبت کی بنیاد پر قائم ہوں تبھی دلکش لگتے ہیں، ورنہ ان کی دلکشی ختم ہوجاتی ہے، ساتھ ہی ان رشتوں سے جڑے رشتہ داروں کی شخصیت بھی پھر اچھی نہیں لگتی ہے۔
گھروں میں کھڑکی اور روشن دان نہیں ہوں اور گرمی کے موسم میں بجلی بھی چلی جائے تو گھٹن کا احساس ہوتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ اس سے شدید گھٹن اس وقت ہوتی ہے جب گھر میں ساتھ رہنے والوں کے باہمی تعلقات ناخوش گوار ہوں۔ بجلی نہ ہو تو لوگ ہاتھ کے پنکھے جھلتے ہوئے سرکار کو برا بھلا کہتے ہیں، اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کرپاتے۔ لیکن آپس کے تعلقات خوش گوار بنانے کے لئے تو ایک پیش قدمی کافی ہوتی ہے، اور لمحوں میں برسوں کا دل پر جما میل دھل جاتا ہے۔ دل صاف ہوجاتے ہیں، اور صاف دل والے بندے اللہ کو بہت پسند ہیں۔ واللہ یحب المتطھرین۔
ذرا سی زندگی میں دشمنی کیا بغض وکینہ کیا
محبت کے تقاضے پورے ہوجائیں غنیمت ہے
محبت کے تقاضے پورے ہوجائیں غنیمت ہے
ایک تبصرہ شائع کریں