(ماہ رمضان سے پہلے پڑھنے کے لئے)
شب قدر کی فضیلت قرآن مجید میں جن لفظوں اور اسلوب میں بیان کی گئی ہے، اس سے یقین ہوجاتا ہے کہ یہ رات ہمارے لئے بہت اہم ہے اور اس کی اہمیت ہمارے تصور سے کہیں زیادہ ہے، ایک رات کا ایک ہزار مہینوں سے افضل ہونا اس رات کو بے حد پرکشش اور اس کی فضیلت کو انسانوں کے تخیل سے فزوں تر بنا دیتا ہے۔ اس پوری رات میں سارے اہم فیصلے تقسیم ہوتے ہیں، اور یہ فیصلے بندوں سے متعلق ہر چیز کے سلسلے میں ہوتے ہیں، وہ مادی اسباب ہوں یا روحانی مراتب ہوں۔
شب قدر میں رب کریم کی طرف سے ترقی کے پروانے بھی جاری ہوتے ہیں، یہ ان بندوں کو ملتے ہیں جن سے رب راضی ہو۔ اس دنیا میں اصل ترقی یہ ہے کہ بندہ اصحاب الشمال سے نکل کر اصحاب الیمین میں اور اس سے آگے بڑھ کر سابقون اور مقربون کے زمرے میں شامل ہوجائے۔ رب کو راضی کرنے کے لئے لوگ شب قدر کو تلاش کرتے ہیں، وہ ہر اس رات کو پالینا چاہتے ہیں جس کے بارے میں انہیں قدر والی رات ہونے کی امید ہوتی ہے۔ ان راتوں میں وہ خصوصی عبادت اور بہت زیادہ دعائیں کرتے ہیں۔ بعض اعلی ہمت والے تو ماہ رمضان کی تمام راتوں میں شب قدر کو تلاش کرتے ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ لوگ شب قدر کے لئے جو بھی کرتے ہیں وہ شب قدر کے اندر ہی کرتے ہیں، شب قدر سے پہلے شب قدر کے لئے کچھ کرنے کا تصور زیادہ عام نہیں ہے، شب قدر کی برکتوں کو حاصل کرنے کے لئے اس رات میں عبادت اور دعا کی یقینا بہت اہمیت ہے، لیکن بہت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس رات سے پہلے بھی اس رات کی بھرپور تیاری کی جائے، تیاری کی ایک بہترین صورت یہ ہے کہ شب قدر سے پہلے اپنی شخصیت میں کچھ ایسی تبدیلیاں لائی جائیں جو رب کو راضی کرنے والی ہوں، اور ہماری ترقی کے حق میں سفارشی بن سکتی ہوں۔
اپنی خراب کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوئی کوشش نہ کرکے صرف پروموشن کی امید رکھنا اور اس کے لئے درخواست پر درخواست دینا دانشمندانہ رویہ نہیں سمجھا جاتا ہے۔ شب قدر کو ترقی (promotion) کی رات قرار دے کر اور اس سے پہلے ہی اپنی زندگی کو بدلنے کی بہت ساری کوششیں اور فیصلے کرلینے کے بعد جب بندہ شب قدر کو تلاش کرکے اس میں دعائیں مانگے، تو قبولیت کے امکانات یقینا بڑھ جاتے ہوں گے۔
عمل کو دعا کا وسیلہ بنانے کے سلسلے میں میرے علم کی حد تک سب کا اتفاق ہے، تو کیوں نہ ماہ رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی یہ بھی طے کرلیا جائے کہ اس بار قدر والی رات میں دعاؤں کے ساتھ اعمال کا کون سا وسیلہ شامل کرنا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ قدر کی رات ہو، فجر تک سلام ہی سلام ہو، زمین پر سجدہ ریز جبینیں اور آنسؤوں میں ڈوبی ہوئی دعائیں ہوں، اور پھر خاص اس رات کے لئے بہترین اعمال کا وسیلہ بھی بھیجا جاچکا ہو، تو ایسے بندے کی خوش نصیبی کا کیا کہنا۔
اگر شب قدر کے لئے بہترین اعمال کا خصوصی وسیلہ آگے بھیج دیا، تو اللہ کی بے پایاں رحمت سے یہ امید بھی رکھ سکتے ہیں کہ کسی مجبوری کی وجہ سے وہ رات نہیں مل سکے، یا اس رات کے شایان شان عبادت اور دعائیں کرنے کا موقع نہیں مل سکے، تو اعمال کا خصوصی وسیلہ قائم مقامی کردے۔
شب قدر کی بے انتہا فضیلت کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس کو پالینے کی طلب میں سال بھر تیاری کی جائے، اور سال بھر کے جرأت مندانہ فیصلوں اور محنتوں کے ذریعہ اپنی شخصیت کو شب قدر کی ترقیوں کا اہل بنالیا جائے، لوگوں کے حقوق ادا کردئے جائیں، حرام کاریوں سے اور ناجائز پیشوں سے دامن چھڑالیا جائے، غفلتوں کی سیلیں توڑ دی جائیں، نیکیوں کے مینار بلند کردئے جائیں، جہد وعمل کی مثالیں قائم کردی جائیں، اس امید پر کہ شب قدر میں ترقی کا فیصلہ ہو اور اصحاب الیمین کے زمرے میں بلکہ اس سے بھی آگے سابقون اور مقربون کے زمرے میں شامل کردیا جائے۔
ہر سال آنے والی شب قدر کو ہماری زندگی میں ایک اہم سنگ میل بن جانا چاہئے، بہت سارے ناپسندیدہ امور ہوتے ہیں جن کو ہم چھوڑنے میں ٹال مٹول کرتے ہیں، اور بہت سارے پسندیدہ امور ہوتے ہیں جن کو ہم آئندہ کے بستے میں ڈالتے رہتے ہیں اور یوں زندگی کے بہت سارے ماہ وسال غفلت وتردد میں گزر جاتے ہیں۔ اگر ہم قدر والی رات کو زندگی کا اہم سنگ میل اور حتمی ڈیڈ لائن قرار دے کر اس سے پہلے ہی ٹال مٹول کے سارے سلسلوں کو خوب صورت اختتام دے دیں تو قوی امید ہے کہ زندگی حسین وجمیل اور مفید وبابرکت ہوجائے۔ اور ہر سال قدر والی رات میں رب کریم کی طرف سے بہترین ترقی کا بے بہا پروانہ ملا کرے۔
ایک تبصرہ شائع کریں