تشدد کا پھل کڑوا ہوتا ہے، خواہ کیسا ہی تشدد ہو، بسا اوقات تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے والے خود تشدد میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ تشدد کی بہت ساری قسمیں ہیں ،لیکن مذہبی تشدد اس کی ایک زیادہ خطرناک قسم ہے۔ کیونکہ مذہبی تشدد انسانوں کے مسیحاؤں کو انسانوں کا قاتل بنادیتا ہے۔
میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ مذہبی تشدد پر تنقید کرتے ہوئے مذہب پر کیچڑ اچھالنے لگتے ہیں، حالانکہ مذہب کی سب سے معتبر اور مقبول کتاب قرآن مجید میں مذہبی غلو اور مذہبی تشدد کی جس طرح بھرپور مذمت کی گئی ہے، شاید ہی کسی اور کتاب میں کی گئی ہو۔ قرآن مجید تو (لست علیھم بمصیطر) کا طاقت ور اصول دے کر مذہبی تشدد کے سارے راستے بند کردیتا ہے۔ یہ اصول یاد رہے تو مذہبی اقدار کا بول بالا ہوتا ہے، اور یہ سبق فراموش کردیا جائے تو مذہبی تشدد کا آغاز ہوجاتا ہے۔
مذہب اور مذہبی تشدد میں تاریکی اور اجالے جیسا فرق ہے، مذہب انسان کو سماج کے لئے باعث رحمت وسعادت بناتا ہے، اور مذہبی تشدد سے انسان سماج کے لئے ایک خطرناک مسئلہ اور مشکل مرض بن جاتا ہے۔
جب کوئی مذہبی تشدد میں گرفتار ہوجاتا ہے، تو وہ مذہب کے نام پر مذہب کی قدروں کو پامال کرنے لگتا ہے، اور مذہب نے جو حدود طے کئے ہیں ان کو توڑتا چلا جاتا ہے، وہ نہ مسجدوں کی حرمت کا خیال کرتا ہے اور نہ اہل علم کی بے حرمتی کرنے میں تامل کرتا ہے۔
کفر کے فتوے لگانا مذہبی تشدد کی ایک نمایاں علامت ہے، مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگانا کوئی نئی بات نہیں ہے، لوگوں نے مذہبی تشدد کا شکار ہوکر بڑے بڑے صحابہ پر کفر کے فتوے لگائے یہاں تک کہ حضرت علی کی ذات گرامی کو بھی نہیں چھوڑا۔
انسانوں کا بے دریغ خون بہانا بھی مذہبی تشدد کی علامت ہے، مذہبی تشدد کے حامل لوگ جب خون بہانے پر آتے ہیں تو ان کی درندگی کا نشانہ اللہ کے نیک بندے زیادہ بنتے ہیں، ایسے لوگوں نے مذہبی تشدد کے نشہ میں حضرت خباب بن ارت کو قتل کیا اور ان کی حاملہ بیوی کا پیٹ چاک کردیا، امام احمد بن حنبل کو تعذیب کا نشانہ بنایا، تو امام بخاری کو اذیتیں دیں۔
مذہب کے حاملین دعوت وموعظت پر یقین رکھتے ہیں، اس راہ میں آزمائشوں پر صبر کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اور قتال کے مرحلے میں اس وقت تک نہیں داخل ہوتے جب تک ناگزیر نہ ہوجائے۔
جب کہ مذہبی تشدد کا آغاز ہی تکفیر اور قتال سے ہوتا ہے، گفتگو اور افہام وتفہیم کی یہاں سرے سے گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ ایسے لوگ ہر اس انسان کو قابل گردن زدنی سمجھتے ہیں جو ان کی بات سے اتفاق نہیں رکھتا ہو۔
مذہبی تشدد کے بھی بہت سارے مراتب ہیں، مسلک ومشرب کو جو لوگ مذہب کا درجہ دے کر مسلکی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ بھی دراصل ایک طرح کے مذہبی تشدد میں گرفتار ہوتے ہیں۔
مذہبی تشدد اور آزادی رائے میں شدید قسم کا بیر ہوتا ہے، جہاں مذہبی تشدد کا بول بالا ہوتا ہے وہاں فکرو خیال کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔ مذہبی تشدد کا نتیجہ ہی ہے کہ جب کوئی صاحب علم عام رائے سے ہٹ کر کوئی نیا خیال پیش کرتا ہے، تو اس کے خیال پر گفتگو کرنے کی بجائے اس کی نیت پر حملہ شروع کردیا جاتا ہے۔
منکر قرآن، منکر حدیث اور منکر اجماع جیسی بہت ساری اصطلاحات کا جنم بھی مذہبی تشدد کے بطن سے ہوا ہے، مخالف کو دلائل کی بجائے اصطلاحات سے کچلنے کے لئے ان کا استعمال عام ہے۔
مذہب کی کارفرمائی ہوتی ہے تو مصلحین اور مجددین پیدا ہوتے ہیں جو پوری امت کی اصلاح وتربیت اور ساری انسانیت کی رہنمائی کی فکر کرتے ہیں، مذہبی تشدد کے نتیجہ میں فرقے بنتے ہیں اور فرقوں کی حفاظت کرنے والے پیدا ہوتے ہیں، جو اپنے فرقے کو اہل سنت اور دوسرے سب فرقوں کو گمراہ قرار دیتے ہیں۔
مذہبی تشدد کا نتیجہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ لوگ عقیدہ اور خیال میں فرق کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ چنانچہ ایسے خیالات جو محض خیالات ہوتے ہیں، اور جن کی پشت پر بسا اوقات کوئی کمزور سی دلیل ہوتی ہے، اسے بھی عقیدہ کا درجہ دے دیا جاتا ہے، اور اس پر گفتگو کو قابل تعزیر جرم قرار دے دیا جاتا ہے۔
مذہبی تشدد کے نتیجہ میں لوگ یہ بھی فراموش کردیتے ہیں کہ مذہب سے متعلق کچھ مسائل میں اختلاف رائے کی گنجائش بھی ہوتی ہے، کچھ مسائل میں اختلاف کرنے سے آدمی دین سے خارج نہیں ہوتا ہے خواہ اس کی دلیل کمزور اور آپ کی مضبوط کیوں نہ ہو، بعض چیزیں آپ کی نظر میں منکر ہوں تب بھی ان پر دوسروں کی نکیر کرنے سے پہلے نکیر کرنے کے ضابطوں کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
مذہبی تشدد سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو ماؤف کردیتا ہے، ایسے لوگوں کے سامنے دلائل بے وزن اور اہل علم بے وقعت ہوجاتے ہیں۔ قرآن مجید غوروفکر کرنے کی دعوت اس لئے بھی دیتا ہے کہ مذہبی تشدد سے باہر آنے کا یہی ایک راستہ ہے۔
میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ مذہبی تشدد پر تنقید کرتے ہوئے مذہب پر کیچڑ اچھالنے لگتے ہیں، حالانکہ مذہب کی سب سے معتبر اور مقبول کتاب قرآن مجید میں مذہبی غلو اور مذہبی تشدد کی جس طرح بھرپور مذمت کی گئی ہے، شاید ہی کسی اور کتاب میں کی گئی ہو۔ قرآن مجید تو (لست علیھم بمصیطر) کا طاقت ور اصول دے کر مذہبی تشدد کے سارے راستے بند کردیتا ہے۔ یہ اصول یاد رہے تو مذہبی اقدار کا بول بالا ہوتا ہے، اور یہ سبق فراموش کردیا جائے تو مذہبی تشدد کا آغاز ہوجاتا ہے۔
مذہب اور مذہبی تشدد میں تاریکی اور اجالے جیسا فرق ہے، مذہب انسان کو سماج کے لئے باعث رحمت وسعادت بناتا ہے، اور مذہبی تشدد سے انسان سماج کے لئے ایک خطرناک مسئلہ اور مشکل مرض بن جاتا ہے۔
جب کوئی مذہبی تشدد میں گرفتار ہوجاتا ہے، تو وہ مذہب کے نام پر مذہب کی قدروں کو پامال کرنے لگتا ہے، اور مذہب نے جو حدود طے کئے ہیں ان کو توڑتا چلا جاتا ہے، وہ نہ مسجدوں کی حرمت کا خیال کرتا ہے اور نہ اہل علم کی بے حرمتی کرنے میں تامل کرتا ہے۔
کفر کے فتوے لگانا مذہبی تشدد کی ایک نمایاں علامت ہے، مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگانا کوئی نئی بات نہیں ہے، لوگوں نے مذہبی تشدد کا شکار ہوکر بڑے بڑے صحابہ پر کفر کے فتوے لگائے یہاں تک کہ حضرت علی کی ذات گرامی کو بھی نہیں چھوڑا۔
انسانوں کا بے دریغ خون بہانا بھی مذہبی تشدد کی علامت ہے، مذہبی تشدد کے حامل لوگ جب خون بہانے پر آتے ہیں تو ان کی درندگی کا نشانہ اللہ کے نیک بندے زیادہ بنتے ہیں، ایسے لوگوں نے مذہبی تشدد کے نشہ میں حضرت خباب بن ارت کو قتل کیا اور ان کی حاملہ بیوی کا پیٹ چاک کردیا، امام احمد بن حنبل کو تعذیب کا نشانہ بنایا، تو امام بخاری کو اذیتیں دیں۔
مذہب کے حاملین دعوت وموعظت پر یقین رکھتے ہیں، اس راہ میں آزمائشوں پر صبر کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اور قتال کے مرحلے میں اس وقت تک نہیں داخل ہوتے جب تک ناگزیر نہ ہوجائے۔
جب کہ مذہبی تشدد کا آغاز ہی تکفیر اور قتال سے ہوتا ہے، گفتگو اور افہام وتفہیم کی یہاں سرے سے گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ ایسے لوگ ہر اس انسان کو قابل گردن زدنی سمجھتے ہیں جو ان کی بات سے اتفاق نہیں رکھتا ہو۔
مذہبی تشدد کے بھی بہت سارے مراتب ہیں، مسلک ومشرب کو جو لوگ مذہب کا درجہ دے کر مسلکی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ بھی دراصل ایک طرح کے مذہبی تشدد میں گرفتار ہوتے ہیں۔
مذہبی تشدد اور آزادی رائے میں شدید قسم کا بیر ہوتا ہے، جہاں مذہبی تشدد کا بول بالا ہوتا ہے وہاں فکرو خیال کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔ مذہبی تشدد کا نتیجہ ہی ہے کہ جب کوئی صاحب علم عام رائے سے ہٹ کر کوئی نیا خیال پیش کرتا ہے، تو اس کے خیال پر گفتگو کرنے کی بجائے اس کی نیت پر حملہ شروع کردیا جاتا ہے۔
منکر قرآن، منکر حدیث اور منکر اجماع جیسی بہت ساری اصطلاحات کا جنم بھی مذہبی تشدد کے بطن سے ہوا ہے، مخالف کو دلائل کی بجائے اصطلاحات سے کچلنے کے لئے ان کا استعمال عام ہے۔
مذہب کی کارفرمائی ہوتی ہے تو مصلحین اور مجددین پیدا ہوتے ہیں جو پوری امت کی اصلاح وتربیت اور ساری انسانیت کی رہنمائی کی فکر کرتے ہیں، مذہبی تشدد کے نتیجہ میں فرقے بنتے ہیں اور فرقوں کی حفاظت کرنے والے پیدا ہوتے ہیں، جو اپنے فرقے کو اہل سنت اور دوسرے سب فرقوں کو گمراہ قرار دیتے ہیں۔
مذہبی تشدد کا نتیجہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ لوگ عقیدہ اور خیال میں فرق کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ چنانچہ ایسے خیالات جو محض خیالات ہوتے ہیں، اور جن کی پشت پر بسا اوقات کوئی کمزور سی دلیل ہوتی ہے، اسے بھی عقیدہ کا درجہ دے دیا جاتا ہے، اور اس پر گفتگو کو قابل تعزیر جرم قرار دے دیا جاتا ہے۔
مذہبی تشدد کے نتیجہ میں لوگ یہ بھی فراموش کردیتے ہیں کہ مذہب سے متعلق کچھ مسائل میں اختلاف رائے کی گنجائش بھی ہوتی ہے، کچھ مسائل میں اختلاف کرنے سے آدمی دین سے خارج نہیں ہوتا ہے خواہ اس کی دلیل کمزور اور آپ کی مضبوط کیوں نہ ہو، بعض چیزیں آپ کی نظر میں منکر ہوں تب بھی ان پر دوسروں کی نکیر کرنے سے پہلے نکیر کرنے کے ضابطوں کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
مذہبی تشدد سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو ماؤف کردیتا ہے، ایسے لوگوں کے سامنے دلائل بے وزن اور اہل علم بے وقعت ہوجاتے ہیں۔ قرآن مجید غوروفکر کرنے کی دعوت اس لئے بھی دیتا ہے کہ مذہبی تشدد سے باہر آنے کا یہی ایک راستہ ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں