"سب رائیں اچھی ہیں"
محی الدین غازی
ہم مسلمانوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تو نہیں پایا ہے، تاہم جذبہ اور خواہش یہی ہے کہ ہماری ہر عبادت اللہ کے رسول کی سنت کے مطابق ہو، ہمارا یہ یقین بھی ہے کہ عبادت وہی قابل قبول ہوگی جو اللہ کے رسول کے سکھائے ہوئے طریقہ کے مطابق ہو۔ ہم نے چونکہ عہد رسالت اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اس لئے ہم کسی طریقہ کو سنت ماننے کے لئے ایسے دلائل تلاش کرتے ہیں جن کی بنیاد پر کسی عمل کو سنت مانا جاسکے۔
محی الدین غازی
ہم مسلمانوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تو نہیں پایا ہے، تاہم جذبہ اور خواہش یہی ہے کہ ہماری ہر عبادت اللہ کے رسول کی سنت کے مطابق ہو، ہمارا یہ یقین بھی ہے کہ عبادت وہی قابل قبول ہوگی جو اللہ کے رسول کے سکھائے ہوئے طریقہ کے مطابق ہو۔ ہم نے چونکہ عہد رسالت اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اس لئے ہم کسی طریقہ کو سنت ماننے کے لئے ایسے دلائل تلاش کرتے ہیں جن کی بنیاد پر کسی عمل کو سنت مانا جاسکے۔
تراویح کتنی رکعت پڑھی جائے اس سلسلے میں دو سے زیادہ رائے ہیں، تاہم حالیہ زمانے میں دو رائیں زیادہ مشہور ہیں، ایک رائے آٹھ رکعت کی ہے، اور دوسری رائے بیس رکعت کی ہے، دونوں کے ماننے والے دلائل بھی رکھتے ہیں، میں نے جب دونوں کے دلائل کا مطالعہ کیا، تو اس نتیجہ پر پہونچا کہ دونوں کے دلائل بہت مضبوط ہیں، اور کسی عمل کو سنت مان لینے کے لئے جن دلائل کی ضرورت ہوتی ہے وہ دونوں کے پاس ہیں، بیس رکعت کا سنت ہونا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر کے زمانے میں مسجد نبوی میں انصار ومہاجرین کی موجودگی میں جماعت کے ساتھ بیس رکعت تراویح پڑھی گئی اور کسی نے اعتراض نہیں کیا، اگر یہ عمل سنت سے مختلف ہوتا تو کوئی تو اعتراض کرتا۔ آٹھ رکعت کا سنت ہونا اس سے ثابت ہے کہ روایتوں کے مطابق اللہ کے رسول کا قیام لیل آٹھ رکعت کا ہوا کرتا تھا۔
تمام روایات کو دیکھتے ہوئے اس بات پر اطمینان ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول قیام لیل میں خود آٹھ رکعت پڑھتے تھے، اور آپ نے صحابہ کو بیس رکعت پڑھنے کی بھی تعلیم دی تھی، چنانچہ کچھ صحابہ آٹھ پڑھتے تھے، اور کچھ صحابہ بیس پڑھتے تھے۔ اور صحابہ کے نزدیک دونوں عمل سنت کا درجہ رکھتے تھے۔
صحابہ کے زمانے میں اصل توجہ اس پر ہوتی تھی کہ ماہ رمضان کی راتوں کا زیادہ حصہ نماز پڑھتے ہوئے گزارا جائے۔ نماز میں طویل قیام کرنے والے آٹھ رکعت پڑھتے تھے، مختصر قیام کرنے والے بیس رکعت پڑھتے تھے، مزید مختصر قیام کرنے والے چھتیس رکعت بھی پڑھ لیتے تھے، سب کا ہدف ایک ہوتا تھا، کہ رات کا بڑا حصہ عبادت میں گزرے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ آٹھ رکعت پڑھنے والے ہوں یا بیس رکعت پڑھنے والے، تھوڑے سے وقت میں سب لوگ فارغ ہوجاتے ہیں، اور پھر اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ قیام لیل کا حق ادا ہوگیا۔ تعداد کے مسئلے سے آگے بڑھ کر قیام لیل کی اس روح کو عام کرنے کی ذمہ داری ان تمام لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو نبی کی سنت کو عام کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔
تراویح کے سلسلے میں مطالعہ کرتے ہوئے علامہ ابن تیمیہ کا ایک جملہ میری نظر سے گزرا، اور میں نے نگینہ حکمت سمجھ کر اسے اپنے دل میں محفوظ کرلیا۔ علامہ نے تراویح کے سلسلے میں تین رایوں کا ذکر کرنے کے بعد کہا: الصَّوَابُ أَنَّ ذَلِكَ جَمِيعَهُ حَسَنٌ (صحیح بات یہ ہے کہ یہ سب رائیں اچھی ہیں) میں سمجھتا ہوں کہ علامہ ابن تیمیہ کا یہ جملہ اتحاد امت کی تدبیری کوششوں کے لئے نقش راہ بن سکتا ہے، بہت سارے اختلافی مسائل ایسے ہیں جن میں ہر رائے کے حق میں مضبوط دلائل ہوتے ہیں، لیکن بعض لوگوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی رائے کے دلائل کو مضبوط اور دیگر تمام رایوں کے دلائل کو کمزور ثابت کریں، اس سے کسی ایک رائے پر اتفاق تو دور کی بات ہے، آپس کے اختلافات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ سنت پر عمل کرنے کا جذبہ بلاشبہ لائق ستائش ہے، لیکن یہ ثابت کرنے کا جذبہ قابل تعریف نہیں ہے کہ سنت پر عمل پیرا صرف میں ہوں باقی سب سنت سے دور ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر کچھ مسائل میں تمام رایوں کے ماننے والے اپنے دلائل کے ساتھ دوسروں کے دلائل کی مضبوطی کا بهی اعتراف کرلیں، اور سب مل کر کہیں کہ "سب رائیں اچھی ہیں" تو اتحاد واتفاق کی ایک اچھی فضا تیار ہوسکتی ہے۔
ظاہر ہے کہ "سب رائیں اچھی ہیں" کہنا ہر مسئلے میں ممکن نہیں ہے، بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جن میں رایوں میں تعارض ہوتا ہے اور کوئی ایک ہی رائے درست ہوسکتی ہے، لیکن ایسے بہت سارے مسائل پائے جاتے ہیں جن میں آسانی کے ساتھ ساری رایوں کو درست کہا جاسکتا ہے، اس کی مثال تراویح کا معاملہ ہے، کہ آٹھ پڑھنے اور بیس پڑھنے میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، بڑی آسانی سے ایک ہی مسجد میں کچھ لوگ آٹھ اور کچھ لوگ بیس رکعت پڑھ سکتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے عمل کو سنت کے مطابق سمجھ سکتے ہیں، اور دونوں ایک دوسرے کی نمازوں کا احترام کرسکتے ہیں، صرف نقطہ نظر کو تبدیل کرنے اور دلوں کو کشادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
امت میں اتحاد واتفاق کی فضا ہموار کرنے کی ایک تدبیری کوشش یہ ہوسکتی ہے کہ ایسے تمام مسائل کو جمع کیا جائے جن میں ہر رائے کی پشت پر مضبوط دلائل ہوں، اور ان رایوں میں باہم تعارض بھی نہ ہو، اور ہر سال کم از کم کسی ایک مسئلے کے سلسلے میں سب مل کر اعلان کریں کہ اس مسئلے میں "سب رائیں اچھی ہیں"۔ بلاشبہ اتحاد امت کی اس تدبیری کوشش میں علماء، دینی جماعتیں اور دینی مدارس زبردست کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں