رکوع، عبادت کا ایک اعلی مقام
محی الدین غازی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رکوع میں رب کی تعظیم کرو" آپ نے رکوع میں ہم کو سبحان ربی العظیم پڑھنے کی تعلیم دی، جس کا مطلب ہے کہ "میرا رب عظیم ہے، اور میں اپنے عظیم رب کی پاکی اور عظمت کے گن گاتا ہوں" یہ ذکر رکوع کے دوران بندے کے دل کی کیفیت کو اس کے جسم کی کیفیت کے مطابق کردیتا ہے۔ اس مختصر مگر عظیم الشان ذکر کے تین اجزاء ہیں، اور تینوں بہت معنی خیز اور ایمان افروز ہیں، ان پر جتنا زیادہ غور کریں، رکوع کی لذت میں اضافہ ہوتا ہے۔
محی الدین غازی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رکوع میں رب کی تعظیم کرو" آپ نے رکوع میں ہم کو سبحان ربی العظیم پڑھنے کی تعلیم دی، جس کا مطلب ہے کہ "میرا رب عظیم ہے، اور میں اپنے عظیم رب کی پاکی اور عظمت کے گن گاتا ہوں" یہ ذکر رکوع کے دوران بندے کے دل کی کیفیت کو اس کے جسم کی کیفیت کے مطابق کردیتا ہے۔ اس مختصر مگر عظیم الشان ذکر کے تین اجزاء ہیں، اور تینوں بہت معنی خیز اور ایمان افروز ہیں، ان پر جتنا زیادہ غور کریں، رکوع کی لذت میں اضافہ ہوتا ہے۔
(ربی) "میرا رب"، کتنا پیارا ہے یہ لفظ، اور کتنا دل افروز ہے اس کا مفہوم، میں خوش نصیب ہوں کہ میں نے اپنے رب کو پالیا، اگر میں اپنے رب کو نہیں پاتا تو نہ جانے کہاں کہاں اور کس کس کے در پر سر کو جھکاتا رہتا، میری روح کو اپنے رب کے سامنے نہ جھک پانے کی محرومی بھی ستاتی، اور دوسروں کے سامنے جھکنے کی اذیت اور رسوائی بھی ساتھ لگی رہتی۔
(العظیم) میرا رب عظیم ہے، اور میں خوش قسمت ہوں کہ ایک عظیم ہستی کے سامنے جھکنے کا موقعہ اور توفیق ملی، اس کے آگے جھک جانے سے میرے پورے وجود کی عظمت بڑھ گئی، دنیا میں بہت سارے لوگ جھکتے ہیں، لیکن وہ عظیم ہستی کے سامنے نہیں جھکتے ہیں، وہ ان کے سامنے جھکتے ہیں جن کو خود اپنے رب کے سامنے جھکنا چاہئے، عظمت سے خالی ہستیوں اور نقص سے بھرپور چیزوں کے سامنے جھک جانا تو خود کو ذلیل کرنا ہے، جبکہ وہ ہستی جو محسن حقیقی ہے اور عظیم وباکمال ہے، اس کے آگے جھک جانا خود کو سربلند کرلینا ہے۔
رب عظیم کی عظمت کا اعتراف کرنے یا نہیں کرنے سے رب کی عظمت پر فرق نہیں پڑتا، وہ تو غنی اور حمید ہے، لیکن عظمت کا اعتراف کرلینے سے بندے کو اپنا حقیقی مقام ضرور حاصل ہوجاتا ہے، کیونکہ بندے کا اصل مقام رب کی عظمت کا اعتراف ہے، اس سے اونچے مقام کا کوئی بندہ تصور نہیں کرسکتا، اور یہ ایک بندے کے لئے بہت اونچا مقام ہے۔
رب عظیم کی عظمت کا اعتراف کرنے یا نہیں کرنے سے رب کی عظمت پر فرق نہیں پڑتا، وہ تو غنی اور حمید ہے، لیکن عظمت کا اعتراف کرلینے سے بندے کو اپنا حقیقی مقام ضرور حاصل ہوجاتا ہے، کیونکہ بندے کا اصل مقام رب کی عظمت کا اعتراف ہے، اس سے اونچے مقام کا کوئی بندہ تصور نہیں کرسکتا، اور یہ ایک بندے کے لئے بہت اونچا مقام ہے۔
(سبحان) میں پاکی اور عظمت کے گن گارہا ہوں، تسبیح بہت بامعنی لفظ ہے، یہ شکر بھی ہے، تعظیم بھی ہے، اور تقدیس بھی ہے۔ بندہ خوش نصیب ہوجاتا ہے جب اسے کائنات کا سب سے عظیم الشان نغمہ گانے کا موقعہ ملتا ہے۔ اسے اپنے عظیم رب کے سامنے جھک کر یہ کہنے کا موقعہ مل جاتا ہے کہ میرا رب میرا محسن ومنعم ہے، وہ ہر عیب سے پاک ہے اور ہر کمال سے متصف ہے۔
بندوں پرعظیم رب کے بہت زیادہ احسانات ہیں، اتنے احسانات ہیں کہ بندہ شمار نہیں کرسکتا، اور ہر بندہ اتنا بے بساط ہے کہ ان احسانات کا محض شکر ادا کرسکتا ہے، اور اس کے لئے بھی اللہ کی دی ہوئی توفیق کا محتاج ہوتا ہے، بندے کے اندر شکر گزاری کی ایک پیاس ہوتی ہے، اور جب بندہ رکوع میں جاکر اپنے عظیم رب کی تسبیح کرتا ہے تو اس کی روح کو بلا کی آسودگی نصیب ہوتی ہے۔ جن کو شکر کی توفیق نہیں ملتی ان کی روح ہمیشہ پیاس سے تڑپتی ہے۔
بندہ اس وسیع کائنات کی ہر شئے میں اپنے رب کی کاریگری دیکھتا ہے، ہر طرف اس کی صناعی کے جلوے نظر آتے ہیں، وہ اس کی صناعی کی داد دینا چاہتا ہے، اور اپنے رب کے سامنے رکوع کرکے وہ اپنے اس جذبے کی تکمیل کرلیتا ہے۔ رکوع کی حالت میں بندے کی نظر سامنے زمین پر ہوتی ہے، مگر بندے کا خیال اللہ کی عظمت کی گواہی دینے والی پوری کائنات کی سیر کررہا ہوتا ہے، اس کے سامنے کائنات میں بکھری ہوئی رب کی روشن نشانیاں بھی ہوتی ہیں اور ہر طرف کارفرما اس کی اعلی صفات بھی ہوتی ہیں۔
رکوع کی حالت میں بندے کے قدم زمین پر ایک جگہ جمے ہوتے ہیں، لیکن اس کی روح ان گنت قدوسیوں کے ساتھ بہت اعلی مقامات کی جانب پرواز کررہی ہوتی ہے، وہ مقامات جو ادراک کی حد سے پرے ہیں۔ فَالَّذِينَ عِنْدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُونَ لَهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا يَسْأَمُونَ [فصلت:38]۔ " تو وه جو تمہارے رب کے پاس ہیں وه تو رات دن اس کی تسبیح بیان کر رہے ہیں اور کبھی نہیں اکتاتے"۔
رکوع کی حالت میں رب کے سامنے صرف سر نہیں جھکتا ہے، بلکہ پورا وجود جھک جاتا ہے، اور اس طرح صرف سربلند نہیں ہوتا بلکہ پورا وجود سربلند ہوجاتا ہے۔ اور پھر وہ کسی اور کے آگے نہیں جھکتا، کیونکہ پھر بندہ اس یقین سے سرشار ہوجاتا ہے کہ میرے رب کے سوا نہ کوئی میرا رب ہے، نہ کوئی العظیم ہے، اور نہ کوئی تسبیح کے لائق ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں کبھی یہ ذکر بھی پڑھتے تھے: اللهمَّ لكَ رَكَعْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، ولَكَ أسْلَمْتُ، خَشَعَ لَكَ سَمْعِي وَبَصَرِي ومُخِّي وَعَظْمِي وَعَصبِي۔ "اے اللہ میں نے تیرے سامنے رکوع کیا، تیرے اوپر ایمان لایا، خود کو تیرے حوالے کیا، میری سماعت، میری بصارت، میرا دماغ میری ہڈیاں اور میری رگیں، سب تیرے سامنے جھک گئے" یہ ایمان افروز الفاظ رکوع کی حقیقی روح کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔
بندہ اپنے رب کے سامنے جب رکوع کی حالت میں ہوتا ہے، تو اسے بڑی آسودگی حاصل ہوتی ہے، گو کہ وہ اپنے رب کو دیکھ نہیں پاتا ہے، لیکن اس کے یقین کی آنکھیں دیکھتی ہیں کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے، اور اس کے اطمینان کے لئے یہ احساس کافی ہوتا ہے، کہ اس کے رب نے اسے اپنے سامنے رکوع کرتے ہوئے دیکھا ہے، اس احساس میں بے پناہ لذت ہوتی ہے۔
جن سعید بندوں کو رکوع کی حقیقی لذت حاصل ہوجاتی ہے، ان کے رکوع بڑے اہتمام سے اور خوب طویل ہوتے ہیں، اور ان طویل رکوعوں میں سبحان ربی العظیم کی تکرار کرتے ہوئے جسم کی حالت، زبان کی حرکت اور دل کی کیفیت تینوں سے رب عظیم کی تعظیم کا اظہار ہوتا ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں