قرآن مجید، علمی اور فکری منصوبوں کا مخزن



قرآن مجید، علمی اور فکری منصوبوں کا مخزن
محی الدین غازی
(جنوبی ہند کی عظیم درس گاہ جامعہ دار السلام عمراباد کے طلبہ کا سالانہ جلسہ ہوا، اہل جامعہ کی محبت ناچیز کو جلسے کی کرسی صدارت تک کھینچ لے گئی، جامعہ کا منفرد علمی ماحول، اور طلبہ کی دھن، لگن اور صلاحیتیں دیکھ کر ایک اہم موضوع پر گفتگو کرنے کا داعیہ پیدا ہوا، عام قارئین کے فائدے کے لئے اسے تحریری شکل میں پیش کیا جاتا ہے)
قرآن مجید علوم ومعارف کا بہت بڑا مخزن ہے، زمین کو حسین اور زندگی کو کامیاب بنانے والے بے شمار علمی وفکری منصوبے (projects) اس مخزن سے حاصل کئے جاسکتے ہیں، قرآن مجید میں مذکور ہر منصوبہ اپنے آپ میں اتنا عظیم اور اس قدر مفید ہے کہ بڑے اطمینان کے ساتھ اس کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کی جاسکتی ہے، ان منصوبوں کی تکمیل میں حصہ لینے سے علم ومعرفت کے میدان میں زبردست پیش رفت ہوسکتی ہے۔
اگر ’’واستعینوا بالصبر‘‘ کی رو سے صبر سے مدد حاصل کرنا مطلوب ہے، تو یہ بھی ضروری ہے کہ بہت سے دماغ اس تلاش میں سرگرم ہوجائیں کہ صبر کے ذریعہ زندگی کے مسائل کیسے حل کئے جاتے ہیں، نیک مقاصد کی راہ میں حائل رکاوٹیں کیسے دور کی جاتی ہیں اور قدم قدم پر کامیابی کی منزلیں کیسے سر کی جاتی ہیں۔
اگر ’’فأصلحوا بین أخویکم‘‘ کی رو سے افراد کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا مطلوب ہے، تو تعلقات بہتر بنانے کا فن دریافت کرنا اور اس کے لاتعداد پہلووں کا احاطہ کرنا اہل ایمان کی تگ ودو کا موضوع بن جانا چاہئے۔
اگر ’’وأمرھم شوری بینھم‘‘ کا تقاضا ہے کہ مسلمانوں کے فیصلے مسلمانوں کے مشورے سے ہوا کریں، تو لازم ہے یہ کھوج کرنا کہ زندگی کے ہر شعبہ میں شورائی مزاج، شورائی نظام اور شورائی کلچر کو کس طرح فروغ دیا جائے۔
(وقل لھم فی أنفسھم قولا بلیغا) ’’اور ان سے وہ بات کہو جو ان کے دل میں اتر جانے والی ہو‘‘حق بات کس طرح کہی جائے کہ وہ من کی دنیا میں پہونچے اور دل کے شہر میں جا بسے، یہ اہل علم کے غور وفکر اور تحقیق ودریافت کے لئے اہم موضوع ہے۔ ’’وقل لھم فی أنفسھم قولا بلیغا‘‘ ایک بہت بڑے منصوبے کا عنوان ہے جس پر جس قدر علمی وفکری محنت کی جائے کم ہے۔ اگر ’’وقل لھم فی أنفسھم قولا بلیغا‘‘ کی رو سے بات کو موثر بنانا مطلوب ہے، تو بات کیسے موثر بنائی جائے، یہ جاننا بھی ضروری ہے، اور یہ موضوع بہت سی دماغی کاوشوں کا محور بن جائے یہ بھی مطلوب ہے۔
قرآن مجید میں ایسے بے شمار عنوانات ہیں، ہر عنوان ایک بڑے علمی وفکری منصوبے کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جن حوصلہ مند ذہین انسانوں کو اپنے دماغ کسی عظیم منصوبے کے لئے وقف کردینے کا شوق ہو، وہ قرآن مجید سے ایک بڑا منصوبہ حاصل کرکے اپنے دماغ کو کارآمد اور اپنی زندگی کو بامعنی بناسکتے ہیں۔
امت کی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے بھی اور ساری انسانیت کو خیر کے چشموں سے سیراب کرنے کے لئے بھی لازم ہے کہ قرآن مجید سے علمی اور فکری منصوبے اخذ کئے جائیں، اور ہر منصوبہ کی تکمیل کے لئے آفاق وانفس کا گہرا مطالعہ کیا جائے۔ اور جس منصوبے پر کام کیا جائے، اس طرح کیا جائے کہ وہ اقوام عالم کے لئے بے مثال اور قابل رشک بن جائے۔
آفاق وأنفس کی ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ دلائل کا خزانہ ہیں، ان دلائل سے عالم غیب کی عظیم حقیقتوں کے سلسلے میں اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ آفاق وأنفس کی نشانیوں سے آگاہی لینا، ان پر مسلسل غور وفکر کرتے رہنا اور ان سے دل ودماغ کو ایمان ویقین کی غذا فراہم کرنا بہت اہم ہے، ان نشانیوں سے غفلت ہوجائے تو سارا علم بے سود اور سارا عمل اکارت ہوجاتا ہے۔
لا تعداد واضح دلائل اور بے پناہ روشن نشانیوں کے ساتھ ساتھ آفاق وأنفس میں علوم معارف کے عظیم خزانے بھی پوشیدہ ہیں۔ نشانیوں سے غیبی حقائق پر ایمان کی دولت حاصل ہوتی ہے، تو علوم ومعارف سے قرآن مجید میں مذکور علمی منصوبوں کی تکمیل ہوتی ہے۔ دونوں جہتوں کی بہت اہمیت ہے۔ اور اہل ایمان کے شایان شان ہے کہ وہ دونوں ہی جہتوں میں امتیازی درجے کی پیش قدمی کریں۔
طالبان علم کے لئے لازم ہے کہ قرآن مجید میں مذکور علمی منصوبوں کی طرف اپنی توجہ مبذول کریں، آفاق میں پنہاں علوم ومعارف سے دل ودماغ کو مانوس کریں، اور نفس انسانی میں سربستہ اسرار سے پردہ اٹھانے کا ذوق پیدا کریں، اور اس راہ میں انسانی مشاہدات وتجربات سے بھی حتی المقدور فائدہ اٹھائیں۔ احساس ہوتا ہے کہ قرآن مجید سے علمی وفکری منصوبے حاصل کرنے اور آفاق وأنفس کا مطالعہ کرکے ان منصوبوں کی تکمیل کرنے کی طرف افراد امت کی توجہ بہت کم رہی ہے، ورنہ امت علمی وفکری افلاس کا اس بری طرح شکار نہیں ہوتی، اور ایسا بھی نہیں ہوتا کہ جن عنوانات پر قرآن مجید کی ترغیب وتاکید موجود ہے، ان پر بھی دوسروں کی علمی وفکری کاوشیں امت کی کاوشوں سے کہیں زیادہ ہوجائیں۔
غوروفکر اور بحث وتحقیق کے لئے عظیم منصوبوں کے بے شمار عنوانات قرآن مجید میں تاقیامت محفوظ رہیں گے، اور آفاق وأنفس میں پنہاں معلومات کے خزانے بھی دعوت مطالعہ دیتے رہیں گے۔ علمی فتوحات کا شوق رکھنے والوں کے لئے پہلے بھی موقعہ تھا کہ وہ اپنی زندگیاں ان منصوبوں کے لئے وقف کریں، اور آج بھی بھرپور موقعہ ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں