قرآن مجید پڑھیں اور قرآن مجید سے سیکھیں

قرآن مجید پڑھیں اور قرآن مجید سے سیکھیں
محی الدین غازی
مسلمان قرآن مجید سے قریب ہوکر بھی کس قدر دور ہیں، اور ان کا قرآن مجید کے ساتھ اجنبیت کا کیسا رویہ ہے، اسے معروف مفکر علامہ محمد غزالی نے ایک چھوٹے جملے میں بیان کردیا، وہ کہتے ہیں: ہم پڑھنے کے لئے سیکھتے تو ہیں، لیکن سیکھنے کے لئے پڑھتے نہیں ہیں۔ نتعلم لنقرأ، ولا نقرأ لنتعلم۔ اس ایک جملے میں مرض کی تشخیص بھی ہے اور علاج کی تدبیر بھی ہے۔
لوگ یہ تو سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید پڑھنے کی کتاب ہے اس لئے پڑھنا سیکھ لیتے ہیں، وہ ناظرہ بھی سیکھ لیتے ہیں، عربی زبان بھی سیکھ لیتے ہیں، نحو اور بلاغت بھی سیکھ لیتے ہیں۔ لیکن سب کچھ سیکھ کر یہ بھول جاتے ہیں کہ قرآن مجید بار بار پڑھ کر بہت کچھ سیکھنے کی کتاب ہے، بندگی کا طریقہ اور زندگی کا سلیقہ، آخرت بنانے کا فن اور دنیا سنوارنے کا ہنر، حکمت کے نسخے اور انکشاف کے فارمولے، صحیح نقطہ نظر اور درست طرز عمل، بہترین انداز بیان اور اعلی طریق استدلال اور وہ سب کچھ جو دنیا وآخرت کی کامیابی اور سرخ روئی کے لئے ضروری ہے۔
افسوس کہ قرآن مجید بار بار پڑھنے والے اور ایک ماہ میں کئی بار ختم کرنے والے بھی بسا اوقات قرآن مجید سے کچھ سیکھنے کی نعمت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ ہم قرآن مجید پڑھنا سیکھ لینے کے بعد پڑھتے تو ہیں، لیکن سیکھنے کے لئے نہیں پڑھتے ہیں، صرف پڑھنے کے لئے پڑھتے ہیں۔ جب کہ قرآن مجید تلاوت کے لئے بھی بہترین کتاب ہے اور زندگی کے قیمتی راز اور انمول نسخے جاننے کے لئے بھی بہترین کتاب ہے۔ نہ ایسی کوئی اور کتاب تلاوت ہے، نہ ایسی کوئی اور کتاب ہدایت ہے۔
قرآن مجید کی آیتوں پر غور وفکر کے تعلق سے ایک بڑے عالم وزیر ابن ھبیرہ نے بڑے پتے کی بات کہی اور بڑی جرأت کے ساتھ کہی، ایسی جرأت کے نمونے ہمیں بڑی مشکل سے ملتے ہیں، وہ کہتے ہیں: شیطان کی ایک چال یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو قرآن مجید پر غور کرنے سے برگشتہ کردیتا ہے، شیطان اچھی طرح جانتا ہے کہ تدبر کرنے سے ہدایت حاصل ہوجاتی ہے، اس لئے وہ لوگوں کو ورغلاتا ہے کہ قرآن مجید میں تدبر کرنا بڑے خطرے کا کام ہے، آیتوں کا غلط مفہوم سمجھ کر بہک جانے کا امکان رہتا ہے، اس لئے تدبر سے دور رہو، چنانچہ شیطان کے بہکاوے میں آکر انسان کہنے لگتا ہے کہ میں پرہیزگار ہوں اس لئے قرآن کے حوالے سے کوئی بات نہیں کہوں گا۔ من مكايد الشيطان تنفيره عباد الله من تدبر القرآن لعلمه أن الهدى واقع عند التدبر، فيقول: هذه مخاطرة، حتى يقول الإنسان: أنا لا أتكلم في القرآن تورعا.
جہاں تہاں یہ بات بھی سنی جاتی ہے کہ ’’عام لوگ قرآن مجید سمجھنے کی کوشش کریں تو بہک سکتے ہیں، اور بہک کر گمراہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لئے آدمی قرآن مجید کی تلاوت تو خوب کرے، لیکن اسے خود سے سمجھنے اور اس پر تدبر کرنے کا خطرہ مول نہ لے‘‘ یہ بے بنیاد اندیشہ اور ایسا غلط مشورہ اس شخص کے ذہن میں تو آسکتا ہے جو قرآن مجید سے ذرا بھی واقف نہیں ہو، لیکن جو قرآن مجید سے تھوڑا بھی واقف ہوچکا ہو وہ اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ یہ اندیشہ یکسر باطل ہے۔ قرآن مجید تو اصل میں ہدایت کی کتاب ہے، اور انسانوں کی ہدایت کے لئے ہی نازل ہوئی ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص ہدایت کی نیت سے قرآن مجید پڑھے، اس پر غور کرے اور پھر گمراہ ہوجائے۔ یہ اللہ کے وعدے کے بھی خلاف ہے، اور قرآن مجید کی شان کے بھی منافی ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ کوئی سائل حاتم طائی کے دروازے سے خالی ہاتھ لوٹ جائے، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی بندہ قرآن مجید میں ہدایت تلاش کرے اور اس کے ہاتھ گمراہی آجائے۔
قرآن مجید پڑھنے سے صرف ان لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے، جو گمراہی کے پرستار ہوں، اور اپنی گمراہی کو بڑھانے کے لئے قرآن مجید کی من مانی تاولیں کرتے ہوں، ایسے بدنصیب لوگ اپنی بدنیتی اور نفس پرستی کی وجہ سے قرآن مجید پڑھتے ہوئے بھی جادہ حق سے دور ہوتے چلے جائیں تو تعجب کی بات نہیں۔
قرآن مجید تدبر کی کتاب اور ہدایت کا سرچشمہ ہے، یہ بات قرآن مجید پر ایمان کا دعوی کرنے والوں کو معلوم ہو یا نہ ہو شیطان مردود کو اچھی طرح معلوم ہے، اس لئے وہ کسی طور اللہ کے بندوں کو قرآن مجید سے قریب ہوتے نہیں دیکھ سکتا ہے۔ وہ بڑی عیاری کے ساتھ قرآن مجید میں غوروفکر کو ایک خطرناک چیز بناکر پیش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید خطرناک کتاب نہیں بلکہ خطروں سے بچانے والی کتاب ہے۔ اگر ایسی کوئی جائے امان ہے جہاں پہونچ کر دل ودماغ بالکل محفوظ ومامون ہوجائیں اور بھرپور اطمینان وراحت محسوس کریں تو وہ قرآن مجید ہے۔
علامہ ابن ھبیرہ نے ایک زبردست حقیقت بیان کی، وہ یہ کہ کبھی انسان کسی راستے کو پرہیزگاری کا راستہ سمجھ کر اختیار کرتا ہے، جب کہ وہ محض شیطان کا بہکاوا ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ احتیاط بھی قرآن مجید سے سیکھی جائے اور پرہیزگاری کے معیارات بھی قرآن مجید میں تلاش کئے جائیں۔ اگر قرآن مجید ساری انسانیت کو اپنی آیتوں پر تدبر کی دعوت دیتا ہے، اور بار بار تدبر کی دعوت دیتا ہے، تو اہل اسلام کی ایک بھاری اکثریت کا قرآن مجید پر تدبر نہ کرنا، اور خود ساختہ شرطیں عائد کرکے تدبر کے عمل کو مشکل بنادینا تقوی اور پرہیزگاری کیسے قرار پاسکتا ہے۔
قرآن مجید پر تدبر کے لئے قرآن مجید کی ٖغیر معمولی عظمت ووسعت کا یقین ضروری ہے۔ قرآن مجید کا اعجاز یہ ہے کہ اللہ پاک نے علم وحکمت کی ایک بڑی کائنات کو ایک کتاب میں سمو دیا ہے، اور قرآن مجید میں تدبر یہ ہے کہ اس ایک کتاب میں اس بڑی کائنات کو دیکھنے کی کوشش کی جائے۔ کتاب الہی کو دینی معلومات کی محض ایک کتاب نہیں بلکہ حکمت ومعرفت کی ایک لامتناہی کائنات سمجھا جائے۔ سمندر کو کوزے میں بند کردیا گیا ہو تو دیکھنے والے کو اس کوزے میں سمندر ہی دیکھنا چاہئے صرف کوزہ نہیں۔ یہی دانائی ہے اور یہی تدبر کی روح ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں