محی الدین غازی
(وضاحت: وہ طریقہ جس میں ایک پارٹی اپنی پونجی دوسری پارٹی کو گود لینے کے لئے دے دیتی ہے ، اس امید پر کہ وہاں اس کی رضاعت اور نشو ونما بطریقہ احسن ہوسکے گی ، اسے اہل عراق مضاربت کہتے تھے اور اہل حجاز قراض کہتے تھے)
کسی نے اگر اس نیت سے رقم طلب کی کہ وہ واپس نہیں کرے گا تو اسے قرض کہتے ہیں، اور اگر کسی نے اس ارادے سے رقم مانگی کہ وہ اسے اپنے کاروبار میں لگاکر ڈبودے گا، تو اسے قراض کہتے ہیں۔قرض مقراض محبت ہے تو قراض مقراض جان ہے، قرض دے کر آدمی دوستوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، قراض پر روپے دے کر دوست کو سوہان روح بنالیتا ہے، ہر کچھ دن بعد فون آتا ہے کہ کاروبار کو سنبھالنے کے لئے مزید رقم کی ضرورت ہے، فورا مہیا کرو ،ورنہ جواب تک لگایا ہے وہ ڈوب جائے گا۔ قرض دے کر تہی دست ہونے والے کو آخرت میں واپس ملنے کا آسرا رہتا ہے، قراض پر دے کر تو یہ آسرا بھی نہیں رہتا کیونکہ نیت تو صرف آسان راستے سے بناپسینہ بہائے نفع کمانے کی ہوتی ہے۔قرض دینے کامحرک انسان کی شرافت ہوتی ہے، کیونکہ قرض دیتے وقت وہ بغیر کسی دباؤ اور مجبوری کے قرض مانگنے والے کی مسکین سی صورت سے متاثر ہوکرہی قرض دیتا ہے۔ جبکہ قراض پر اپنی گاڑھی کمائی دوسرے کو دینے کا باعث زیادہ تر انسان کا اپنے سلسلے میں یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ ناکارہ اور ناتجربہ کار ہے اور اس رقم کو اپنے ہاتھوں سے ڈبونے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔
کچھ سمجھ دار لوگ ایسے بھی ہیں جو کسی سے قرض رقم لے کرکسی اور کو قراض پر دیتے ہیں کہ ڈوب گئی تو افسوس نہیں ہوگا، اور اگر کہیں نہیں ڈوبی تو اپنے وارے نیارے۔
اب تو ایسے لوگ بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں جوغیر سودی سرمایہ کاری کا حوالہ دے کر اور قراض پر رقم لے کر سودی بینک میں ڈپازٹ کر دیتے ہیں، پانچ یا چھ سال بعداگر رقم دینے والے سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوگیا تو اصل رقم حق بحقدار رسید، اورسود سارا اپنی جھولی میں۔نیا ہے زمانہ نئی روشنی ہے۔
قرض لے کر نہیں لوٹانے والوں میں بعض حد درجہ نیک دل اور انسان دوست ہوتے ہیں،ایسے ہی ایک صاحب ہمیشہ ادھار پر سامان خریدتے تھے، ادائیگی کبھی نہیں کرتے تھے، البتہ ان کے اندر ایک خوبی تھی کہ وہ سامان کی قیمت کم سے کم کراکر خریدتے تھے، تاکہ دوکاندار کی زیادہ رقم نہیں ڈوبے۔
کہا جاتا ہے کہ دو آدمیوں نے مل کر کاروبار شروع کیا، ایک کے پاس صرف روپئے تھے اس نے وہ لگادئے، دوسرے کے پاس صرف تجربہ تھا، اس نے وہ لگانے کا وعدہ کیا، خدا خدا کرکے سال پورا ہوا، حساب کیا گیا تو جس کے پاس صرف روپے تھے اس کے حصہ میں صرف تجربہ آیا۔لطف کی بات یہ ہے کہ اس نے اس تجربہ سے بھی کبھی فائدہ نہیں اٹھایا۔
دیکھا گیا ہے کہ قرض لینے والے کی ترجیحات مصارف میں قرض کی ادائیگی کو سب سے آخری مقام حاصل ہوتا ہے،اور وہ مقام بھی شاذ ونادر ہی کسی خوش نصیب قرض کو ملتا ہے، یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ قراض پر رقم لینے والے کے سارے کاروباروں میں بڑا نفع ہوتا ہے اور اگر نقصان ہوتا ہے تو صرف اسی رقم کو ہوتاہے جسے بطور قراض لیا تھا۔
ہمیں قرض دینے والوں کی نفسیات کبھی سمجھ میں نہیں آئی، کوئی ان سے خیرات مانگے تو وہ بمشکل دس روپیہ دیتے ہیں، قرض مانگے تو لاکھ روپیہ بھی دے ڈالتے ہیں، آخرت میں کس رقم پر زیادہ ثواب ملے گا یہ یقینی طور پر معلوم نہیں ہے، دنیا میں تو دونوں رقموں کا ایک ہی انجام ہوتا ہے۔اسی لئے ہمارے ایک دوست دیتے تو ہیں خیرات کی نیت سے پر قرض لینے والے کو یہی باور کراتےہیں کہ یہ قرض ہے اور عند الطلب علی الفور واجب الادا ہے، قرض لینے والا بھی فقط ان کی نیت کا لحاظ کرتا ہے۔
اسلامی بینکنگ اور غیر اسلامی بینکنگ میں فرق صرف ایک الف کا ہے، ایک قرض پر استوار ہوکر دنیا کو نااستواری کی طرف ڈھکیل رہی ہے تو دوسری قراض پراستوار ہونے کی دعوے دار ہے، یہ الف اسلامی بینکنگ کی آبرو ہے، اس الف کی حفاظت ضروری ہے، ورنہ پھر کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔تباہی کی طرف دیوانہ واربڑھتی مادہ پرست دنیا شاید ہی اس الف کو برداشت کرپائے۔
1 تبصرے:
إذا كان يجب عليك الاتصال بأي شركة مع الإشارة إلى تأمين قرض عبر الإنترنت بسعر فائدة منخفض قدره 3٪ وأفضل خطط / جدول سداد. يمكنك الاتصال بهم عبر البريد الإلكتروني على {directaccesservice @ gmail. com} أو whatsapp @ +15754148400
Replyایک تبصرہ شائع کریں