محی الدین غازی
بہت اچھاہے کہ زندگی میں ہر کام اچھا کیا جائے، اور ہر اچھا کام سلیقہ سے کیا جائے۔ شریعت کے ہر حکم سے ایک غیر معمولی سلیقے کا اظہار ہوتا ہے، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا بھی ہر پہلو اور زاویہ حسین و جمیل نظر آتا ہے۔
جہیز کی وجہ سے جتنی خرابیاں معاشرہ میں بڑھتی جارہی ہیں، ان کے پیش نظر جہیز کی کھل کر مخالفت ایک سماجی ذمہ داری اور ایک اخلاقی فرض بن گیا ہے۔
جہیز کے خلاف متعدد تقریروں کے مقابلے میں ایک اچھا عملی نمونہ بسا اوقات زیادہ موثر ہوتا ہے، اسی لئے بہت سارے دین پسند نوجوانوں نے عملی نمونہ پیش کرنے کی جرأت کی، اور ان جرأتوں کا سلسلہ جاری ہے۔البتہ کبھی کبھی ان کی جرأت کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ یہ اقدام اس سے بہتر انداز سے بھی ہوسکتا تھا۔
ایک موقع پر دیکھا گیا کہ نکاح کی تقریب کے بعد جب رخصتی کا وقت آیا تو لڑکی کے گھر والوں نے وہ سارا سامان پیش کیا جو انہوں نے کافی اہتمام سے تیار کرایا تھا، جس میں فرنیچر کے نام پر ڈبل بیڈ، ڈائننگ ٹیبل سیٹ، صوفہ سیٹ وغیرہ تھے، ساتھ میں فریج واشنگ مشین اور دیگر سامان بھی تھے۔ہمارے جرأت مند نوجوان نے صاف منع کردیا کہ میں جہیز کا مخالف ہوں اور مجھے کچھ بھی قبول نہیں ہے۔ اس جرأت پر ہزاروں سلام۔ لیکن سلیقہ مندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ جب رشتہ طے ہوا تھا اسی وقت لڑکی والوں کو اپنے موقف کے بارے میں پوری وضاحت اور تاکید سے بتادیا جاتا۔اب وہ لوگ ان ساری چیزوں کا اچار تو ڈالیں گے نہیں۔
ہمارے بعض جذباتی نوجوانوں سے اس سلسلے میں ایک کوتاہی اور ہوتی ہے، کہ وہ جہیز کے بارے میں اپنا موقف لڑکی والوں کو بہت کھل کر بتادیتے ہیں، لیکن اس کے بعد اپنی ذمہ داری کو بھول جاتے ہیں، کہ انہیں اب خود ایک مناسب انتظام کرنا ہے، تصور کریں کہ ایک گھر میں پانچ بھائی ہیں ، سب سے چھوٹا بھائی جہیز کے سلسلے میں اپنا مجاہدانہ موقف طے کرتا ہے، شادی ہوتی ہے، لڑکی سسرال آتی ہے، تو وہاں عجیب ماجرا دیکھتی ہے، کہ چار بھائیوں کے کمروں میں تو شاندار فرنیچر ہے جو ان کی بیویاں جہیز میں لائی تھیں، اور اس بے چاری کے کمرے میں ایک پرانی کھاٹ پڑی ہے، اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے والدین سے کچھ غلطی ہوگئی۔یہ طرز عمل مناسب نہیں ہے، اگر آپ جہیز نہیں لیتے ہیں، تو بیوی کی آسائشوں کا مناسب انتظام خود کریں۔ آپ کے گھر کی حالت دیکھ کر لڑکی کو یہ محسوس نہ ہو کہ سرتاج نے تو جہیز لینے سے انکار کردیا مگران کے گھر کا گوشہ گوشہ جہیزکے سامان کا شدت سے منتظر ہے۔
اصل میں ہوتا یہ ہے کہ چونکہ گھر گرہستی کا سامان تو عام طور سے لڑکی کے ساتھ آتا ہے، اس لئے ایسا کوئی انتظام کرنے کا رواج اور مزاج ہوتا نہیں ہے، چنانچہ جب جہیز کو منع کردیا جاتا ہے، تب بھی رواج اور مزاج نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ ادھر منع کردینے کے بعد اب ادھر انتظام کرنا ہوگا۔اس پہلو پر دھیان دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ جب ایک نئے خاندان کا آغاز ہورہا ہے تو مناسب انتظامات کے ساتھ ہونا چاہئے۔جس میں نہ فضول خرچی ہو اور نہ بخل اور کنجوسی ہو۔
ہمارے علاقہ میں رواج ہے کہ لڑکی اپنے ساتھ بڑی تعداد میں تکیہ غلاف ، چادریں اور ہاتھ کے پنکھے بھی لے کر جاتی ہے، ان کو مہینوں کی محنت سے تیار کیا جاتا ہے، ان پر ہاتھ سے بیل بوٹے لگا ئے جاتے ہیں اور خوب صورت کشیدہ کاری ہوتی ہے۔لڑکی کی ساس محترمہ اس میں سے کچھ گھر کے افراد میں تقسیم کردیتی ہیں ، اور باقی اٹھاکر رکھ دیتی ہیں اپنی بیٹی کی شادی میں دینے کے لئے۔ایک تو یہ رواج ہی غلط ہے، پھر لڑکی کے سامان میں اس طرح سے تصرف بھی مناسب نہیں ہے۔ ایک موقعہ پر ایسا ہوا کہ لڑکی کے والدبھی اس رواج کے مخالف تھے اور نوشہ میاں بھی، اور اس لئے یہ سارا سامان نہیں دیا گیا، پر جب لڑکی سسرال آئی تو ساس اور نندوں سے لے کر پڑوس کی عورتوں تک سب نے اتنے طعنے دئے کہ لڑکی کے لئے سہنا بلکہ رہنا مشکل ہوگیا، چنانچہ جلد موقف میں تبدیلی لائی گئی، اور اگلی بار جب لڑکی سسرال آئی تو اس کے ساتھ حسب رواج سارا سامان تھا۔ معلوم یہ ہوا کہ جہیز لینے سے انکار کردینا جو ایک وقتی اقدام ہوتا ہے کافی نہیں ہے، اس سے آگے بڑھ کر اپنے گھر والوں پر اثر انداز ہونا، اور ان کے دلوں میں اپنے موقف کے لئے احترام پیدا کرناضروری ہے۔
مجھے صالح نوجوانوں سے شکایت یہ رہی ہے کہ وہ اپنے گھر میں بہت کمزور ثابت ہوتے ہیں، بگڑے ہوئے بچے تو اپنی ہر ناجائز ضد پوری کروالیتے ہیں، جبکہ یہ اپنے جائز بلکہ واجب ارمانوں کو ضد کا درجہ بھی نہیں دے پاتے۔ بڑوں کی ناجائز اور نامعقول مخالفت ان کے ارادوں کو بے جان اور حوصلوں کو پست کردیتی ہے۔
ہمارے ایک ساتھی نے اپنے عزم کا اعلان کیا کہ وہ نہ تواپنی شادی میں جہیز لیں گے، اور نہ ہی بڑی بارات لے کر جائیں گے۔ ان کے اس عزم کی راہ میں لڑکی کے والد بھی حائل ہوگئے اور خود ان کے والد بھی۔ انجام کار سب کچھ بڑوں کی مرضی کے مطابق ہوا، اور ان کی ایک نہ چلی۔ حالانکہ وہ معاشی طور پر خود کفیل تھے بلکہ اپنے والدین کی بھی کفالت کرتے تھے۔ دوسری طرف ایک تحریکی بزرگ کی مثال بھی میرے سامنے ہے جو جہیز اور بارات کے سخت مخالف تھے، لیکن رنگین مزاج صاحب زادے نے فیصلہ کیا کہ اس کی شادی دھوم دھام سے ہوگی ، چنانچہ والد صاحب کی ایک نہ چلی اور صاحب زادے کے سارے غلط شوق پورے ہوئے۔میرا مشاہدہ ہے کہ گھر کے اندر کسی تقریب کے موقعہ پر جب صحیح رجحان اور غلط رجحان کے درمیان معرکہ آرائی ہوتی ہے زیادہ تر صحیح رجحان کو شکست ہوتی ہے۔
دین پسند نوجوان اپنا رویہ بدلیں، وہ اپنے آپ کو طاقتور بنائیں، اپنے موقف کو سلیقے سے پیش کرنا اور مضبوطی سے اس پر جمنا سیکھیں، ورنہ اصلاح کا کام چند نعروں اور کچھ تقریروں سے آگے نہیں بڑھے گا۔
جہیز کی وجہ سے جتنی خرابیاں معاشرہ میں بڑھتی جارہی ہیں، ان کے پیش نظر جہیز کی کھل کر مخالفت ایک سماجی ذمہ داری اور ایک اخلاقی فرض بن گیا ہے۔
جہیز کے خلاف متعدد تقریروں کے مقابلے میں ایک اچھا عملی نمونہ بسا اوقات زیادہ موثر ہوتا ہے، اسی لئے بہت سارے دین پسند نوجوانوں نے عملی نمونہ پیش کرنے کی جرأت کی، اور ان جرأتوں کا سلسلہ جاری ہے۔البتہ کبھی کبھی ان کی جرأت کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ یہ اقدام اس سے بہتر انداز سے بھی ہوسکتا تھا۔
ایک موقع پر دیکھا گیا کہ نکاح کی تقریب کے بعد جب رخصتی کا وقت آیا تو لڑکی کے گھر والوں نے وہ سارا سامان پیش کیا جو انہوں نے کافی اہتمام سے تیار کرایا تھا، جس میں فرنیچر کے نام پر ڈبل بیڈ، ڈائننگ ٹیبل سیٹ، صوفہ سیٹ وغیرہ تھے، ساتھ میں فریج واشنگ مشین اور دیگر سامان بھی تھے۔ہمارے جرأت مند نوجوان نے صاف منع کردیا کہ میں جہیز کا مخالف ہوں اور مجھے کچھ بھی قبول نہیں ہے۔ اس جرأت پر ہزاروں سلام۔ لیکن سلیقہ مندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ جب رشتہ طے ہوا تھا اسی وقت لڑکی والوں کو اپنے موقف کے بارے میں پوری وضاحت اور تاکید سے بتادیا جاتا۔اب وہ لوگ ان ساری چیزوں کا اچار تو ڈالیں گے نہیں۔
ہمارے بعض جذباتی نوجوانوں سے اس سلسلے میں ایک کوتاہی اور ہوتی ہے، کہ وہ جہیز کے بارے میں اپنا موقف لڑکی والوں کو بہت کھل کر بتادیتے ہیں، لیکن اس کے بعد اپنی ذمہ داری کو بھول جاتے ہیں، کہ انہیں اب خود ایک مناسب انتظام کرنا ہے، تصور کریں کہ ایک گھر میں پانچ بھائی ہیں ، سب سے چھوٹا بھائی جہیز کے سلسلے میں اپنا مجاہدانہ موقف طے کرتا ہے، شادی ہوتی ہے، لڑکی سسرال آتی ہے، تو وہاں عجیب ماجرا دیکھتی ہے، کہ چار بھائیوں کے کمروں میں تو شاندار فرنیچر ہے جو ان کی بیویاں جہیز میں لائی تھیں، اور اس بے چاری کے کمرے میں ایک پرانی کھاٹ پڑی ہے، اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے والدین سے کچھ غلطی ہوگئی۔یہ طرز عمل مناسب نہیں ہے، اگر آپ جہیز نہیں لیتے ہیں، تو بیوی کی آسائشوں کا مناسب انتظام خود کریں۔ آپ کے گھر کی حالت دیکھ کر لڑکی کو یہ محسوس نہ ہو کہ سرتاج نے تو جہیز لینے سے انکار کردیا مگران کے گھر کا گوشہ گوشہ جہیزکے سامان کا شدت سے منتظر ہے۔
اصل میں ہوتا یہ ہے کہ چونکہ گھر گرہستی کا سامان تو عام طور سے لڑکی کے ساتھ آتا ہے، اس لئے ایسا کوئی انتظام کرنے کا رواج اور مزاج ہوتا نہیں ہے، چنانچہ جب جہیز کو منع کردیا جاتا ہے، تب بھی رواج اور مزاج نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ ادھر منع کردینے کے بعد اب ادھر انتظام کرنا ہوگا۔اس پہلو پر دھیان دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ جب ایک نئے خاندان کا آغاز ہورہا ہے تو مناسب انتظامات کے ساتھ ہونا چاہئے۔جس میں نہ فضول خرچی ہو اور نہ بخل اور کنجوسی ہو۔
ہمارے علاقہ میں رواج ہے کہ لڑکی اپنے ساتھ بڑی تعداد میں تکیہ غلاف ، چادریں اور ہاتھ کے پنکھے بھی لے کر جاتی ہے، ان کو مہینوں کی محنت سے تیار کیا جاتا ہے، ان پر ہاتھ سے بیل بوٹے لگا ئے جاتے ہیں اور خوب صورت کشیدہ کاری ہوتی ہے۔لڑکی کی ساس محترمہ اس میں سے کچھ گھر کے افراد میں تقسیم کردیتی ہیں ، اور باقی اٹھاکر رکھ دیتی ہیں اپنی بیٹی کی شادی میں دینے کے لئے۔ایک تو یہ رواج ہی غلط ہے، پھر لڑکی کے سامان میں اس طرح سے تصرف بھی مناسب نہیں ہے۔ ایک موقعہ پر ایسا ہوا کہ لڑکی کے والدبھی اس رواج کے مخالف تھے اور نوشہ میاں بھی، اور اس لئے یہ سارا سامان نہیں دیا گیا، پر جب لڑکی سسرال آئی تو ساس اور نندوں سے لے کر پڑوس کی عورتوں تک سب نے اتنے طعنے دئے کہ لڑکی کے لئے سہنا بلکہ رہنا مشکل ہوگیا، چنانچہ جلد موقف میں تبدیلی لائی گئی، اور اگلی بار جب لڑکی سسرال آئی تو اس کے ساتھ حسب رواج سارا سامان تھا۔ معلوم یہ ہوا کہ جہیز لینے سے انکار کردینا جو ایک وقتی اقدام ہوتا ہے کافی نہیں ہے، اس سے آگے بڑھ کر اپنے گھر والوں پر اثر انداز ہونا، اور ان کے دلوں میں اپنے موقف کے لئے احترام پیدا کرناضروری ہے۔
مجھے صالح نوجوانوں سے شکایت یہ رہی ہے کہ وہ اپنے گھر میں بہت کمزور ثابت ہوتے ہیں، بگڑے ہوئے بچے تو اپنی ہر ناجائز ضد پوری کروالیتے ہیں، جبکہ یہ اپنے جائز بلکہ واجب ارمانوں کو ضد کا درجہ بھی نہیں دے پاتے۔ بڑوں کی ناجائز اور نامعقول مخالفت ان کے ارادوں کو بے جان اور حوصلوں کو پست کردیتی ہے۔
ہمارے ایک ساتھی نے اپنے عزم کا اعلان کیا کہ وہ نہ تواپنی شادی میں جہیز لیں گے، اور نہ ہی بڑی بارات لے کر جائیں گے۔ ان کے اس عزم کی راہ میں لڑکی کے والد بھی حائل ہوگئے اور خود ان کے والد بھی۔ انجام کار سب کچھ بڑوں کی مرضی کے مطابق ہوا، اور ان کی ایک نہ چلی۔ حالانکہ وہ معاشی طور پر خود کفیل تھے بلکہ اپنے والدین کی بھی کفالت کرتے تھے۔ دوسری طرف ایک تحریکی بزرگ کی مثال بھی میرے سامنے ہے جو جہیز اور بارات کے سخت مخالف تھے، لیکن رنگین مزاج صاحب زادے نے فیصلہ کیا کہ اس کی شادی دھوم دھام سے ہوگی ، چنانچہ والد صاحب کی ایک نہ چلی اور صاحب زادے کے سارے غلط شوق پورے ہوئے۔میرا مشاہدہ ہے کہ گھر کے اندر کسی تقریب کے موقعہ پر جب صحیح رجحان اور غلط رجحان کے درمیان معرکہ آرائی ہوتی ہے زیادہ تر صحیح رجحان کو شکست ہوتی ہے۔
دین پسند نوجوان اپنا رویہ بدلیں، وہ اپنے آپ کو طاقتور بنائیں، اپنے موقف کو سلیقے سے پیش کرنا اور مضبوطی سے اس پر جمنا سیکھیں، ورنہ اصلاح کا کام چند نعروں اور کچھ تقریروں سے آگے نہیں بڑھے گا۔
ایک تبصرہ شائع کریں