محی الدین غازی
یہ بھی تسلیم کہ وقت بہت قیمتی شئے ہے، اور یہ بھی تسلیم کہ دینی اجتماعات میں بے پناہ افادیت ہوتی ہے، اور ان اجتماعات میں شرکت سے ہمارے حاضر وغائب سب اوقات بابرکت ہوسکتے ہیں ۔ لیکن اسے کیا کیجئے کہ ہمارے بعض غلط رویوں کی وجہ سے ان اجتماعات میں وقت جیسی قیمتی متاع کی اجتماعی ناقدری ، چھین جھپٹ اور سرقہ وغصب کی وارداتیں عام ہوگئی ہیں۔بعض اجتماعات میں لوگوں کو اپنے جوتوں کی حفاظت کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسے مواقع پر جوتے چپلوں کی چوری تو کم ہوتی ہے، وقت جیسی انمول چیز کی چوری زیادہ ہوتی ہے۔
اصولی بات یہ ہے کہ ہر آدمی کا وقت قیمتی ہوتا ہے، اور وہ قیمتی وقت اس آدمی کی ذاتی ملکیت ہوتا ہے اس میں کسی اور کی حصہ داری نہیں ہوتی ہے۔آپ کے کسی رویہ سے کسی کا ایک لمحہ بھی ضائع ہوتا ہے تو اس کا شمار ظلم میں ہوگا ،جس طرح کسی کو زندگی سے محروم کرنا ظلم ہے اسی طرح کسی کا کچھ وقت ضائع کرنا بھی ظلم ہے۔
ایک جگہ اجتماع تھا، صبح آٹھ بجے کا وقت متعین تھا، لیکن وقت متعین پر صرف چند لوگ پہونچ سکے، اکثریت نو بجے پہونچی، چنانچہ اجتماع ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا، اجتماع کے اختتام پرایک دل جلے نے حاضرین سے کہا، اگلے اجتماع میں کب آنا ہے یہ آج طے ہوجانا چاہئے، اگر ایک گھنٹہ تاخیر سے آنا ہے تو یہ تاخیر سے آنا بھی ہمارے درمیان طے ہونا چاہئے، کیونکہ یہ چھوٹی برائی ہے کہ اجتماع ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہو، اور یہ بڑی برائی ہے کہ کچھ لوگ وقت پر آکر باقی لوگوں کا انتظار کرنے میں اپنا وقت ضائع کریں۔ اتفاق کے بغیر تاخیر سے بہتر ہے کہ تاخیر سے آنے پر اتفاق کرلیا جائے۔
ہمارے ایک ساتھی تاخیر سے پہونچنے کے حق میں دلیل پیش کرتے ہیں کہ وقت کی پابندی زیادہ اہم نہیں ہے ، اصل اہمیت تو وقت کے بہتر استعمال کی ہے،گویا زیادہ اچھے کام میں مشغول ہوجانے کی وجہ سے اگر پہلے سے طے شدہ کسی کام میں تاخیر ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن یہ دلیل وہاں پر درست ہے جہاں آپ کی تاخیر کی وجہ سے صرف آپ کا ٹائم ٹیبل متاثر ہوتا ہو، اگر آپ کی تاخیر کی وجہ سے کسی دوسرے کا وقت خراب ہوجائے تو یہ رویہ کسی دلیل سے درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
دیکھا گیاہے کہ بعض مقررین نے تاخیر سے آنے کو اپنا شیوہ بنارکھا ہے، بعضے تو تاخیر سے آنے کے بعد بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ میرے آنے کا مقررہ وقت وہی ہے جب میں آجاؤں۔لیکن اگر کبھی ان کے آنے کے بعد سامعین پہونچنے میں تاخیر کردیں تو وہ چراغ پا ہوجاتے ہیں۔دراصل ایسے مقررین اس غلط گمان کا شکاررہتے ہیں کہ ان کا وقت ان کے سامعین کے وقت سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔
یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ مقرر کو تقریر کے لئے جس قدر وقت دیا گیا اس سے زیادہ دیر تک وہ بولتا رہتا ہے، سامعین پہلو بدلتے ہیں، منتظمین مضطرب ہوتے ہیں، مگر تقریر جاری رہتی ہے۔حالانکہ وقت مقررہ سے ایک منٹ بھی زیادہ لینے سے پہلے مقرر کو نہ صرف منتظمین سے بلکہ سامعین سے بھی اجازت لینا چاہئے، اور وہ بھی اس صورت میں جبکہ ایسا کرنا بہت ضروری معلوم ہوتا ہو۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک سیشن میں ایک سے زیادہ مقرر ہوتے ہیں، ہر ایک کے لئے متعین وقت ہوتا ہے، ایسی صورت میں اگر کوئی اپنے وقت سے زیادہ لیتا ہے تو وہ یقینی طور پر دوسروں کا حصہ کم کرتا ہے، اس صورت کو اگر مٹھائی کے ڈبے پر قیاس کرکے دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ یہ بھی چھین جھپٹ کی ایک صورت ہوتی ہے، جو شرفاء کو زیب نہیں دیتی۔ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر وقت متعین نہ ہو تو بھی ہر شخص اپنے ذہن میں یہ حساب کرلے کہ اس کا حصہ کتنا بنتا ہے، اور پھراس ذہنی حصہ کی پابندی کرے۔
سامعین کا وقت ضائع کرنے کی ایک بہت عام صورت یہ ہے کہ مقرر تیاری کے بغیر تقریر کرے، جس کی وجہ سے سامعین کو سماعت کا مقصد فوت ہوتا ہوا محسوس ہو۔اگر آپ نے ایک موضوع پر تقریر کرنے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے، تو یہ آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اپنے سامعین کے سامنے ایسی تقریر کریں جس سے ان کی شرکت کا مقصد پورا ہو۔آپ تیاری کیسے کرتے ہیں، اور اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے تیاری کے لئے وقت کیسے نکالتے ہیں یہ آپ کا مسئلہ ہے، لیکن اپنی مصروفیات کا بہانہ کرکےاور بنا تیاری کے غیرمفید قسم کی گفتگو کرکے دوسروں کا وقت ضائع کرنا ایک دینی مقرر کے شایان شان نہیں ہے۔آپ کی شخصیت آپ کی اور دوسروں کی نگاہ میں کتنی ہی زیادہ محترم ہو، تاہم ایک انسان کے وقت کی حرمت بے ٹھکانہ ہوتی ہے۔
کچھ مقررین وقت کے تو بہت پابند ہوتے ہیں، اگر انہیں پچاس منٹ دئے گئے تو پورے پچاس منٹ تقریر کرتے ہیں، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پچاس منٹ میں ان کو پچاس منٹ والی تقریر کرنا تھی، پندرہ منٹ والی تقریر کو کھینچ تان کرکے پچاس منٹ میں نہیں پھیلانا تھا۔مطلب یہ کہ اگر آپ سامعین کا زیادہ وقت لے رہے ہیں تو اس کا صحیح صلہ ان کو دیجئے۔اور اگر آپ کے پاس اتنا ہی مواد جمع ہوسکا ہے جس کی ترسیل کے لئے پندرہ منٹ کافی ہیں، تو وقت کے ساتھ انصاف یہی ہے کہ آپ ان کے پینتیس منٹ ضائع نہ کریں۔لیکن یہ بات ان کو آنے سے پہلے معلوم ہونا چاہئے کہ تقریر پچاس منٹ کی نہیں پندرہ منٹ کی ہوگی، تاکہ وہ پہلے سے اپنے ٹائم ٹیبل میں آپ کی تقریر سننے کے لئے اتنا وقت متعین کرسکیں۔
دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بعض لوگوں کے پاس بولنے کے لئے پانچ منٹ ہوتے ہیں، جن میں سے تین منٹ وہ یہ باور کرانے میں ضائع کردیتے ہیں کہ اتنے کم وقت میں اس قدر اہم موضوع کا حق ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ اسٹیج پر موجود سارے لوگوں کا ان کے مراتب کے ساتھ نام لینا بھی تضییع وقت کا ایک انداز ہے، جسے وہ لوگ بھی شوق سے اختیار کرتے ہیں جن کو بہت محدود وقت میں بات پیش کرنا ہوتی ہے۔
ایک عجیب صورتحال سوال وجواب کی مجلسوں میں دیکھنے کو ملتی ہے، چونکہ مقررہ وقت کے اندر سوال وجواب کے سیشن کو انجام دینا ہوتا ہے، سمجھ داری کا تقاضا یہ ہے کہ لوگ مختصر اور واضح سوال کریں، اور جواب دینے والے مختصر اورواضح جواب دیں تاکہ وقت سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے۔ مگر عملا ہوتا یہ ہے کہ سوال کرنے والوں کو تو اختصار کی تاکید کی جاتی ہے، اس تاکید کی بسا اوقات ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے، مگر جواب دینے والے اکثر غیر ضروری تفصیل سے کام لیتے ہوئے باقی سوالوں کا وقت کھاجاتے ہیں۔ اور یہ کام وہ لوگ انجام دیتے ہیں جو بزعم خودبڑے دانشور اور حکیم ہوتے ہیں۔
موضوع سے ہٹی ہوئی تقریر وں کا مرض بھی بہت عام ہے، اگر آپ کو کوئی متعین عنوان دیا گیا ہے تو آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اسی عنوان پر تقریر فرمائیں، کسی اور عنوان پر تقریر کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، اس خاص وقت کے لئے تو وقت ضائع کرنے والی ہی ہے۔اگر لوگوں کو ایک خاص موضوع پر گفتگو کےلئے بلایا گیا ہے تو کسی اور موضوع پر ان کو کچھ بھی سنانا ان کی سماعت اور ان کے وقت کے ساتھ زیادتی ہے۔
چونکہ ہمارے یہاں بولنے اور سننے کے کام کو فن نہیں سمجھا جاتا جس میں مہارت حاصل کرنا مطلوب ہو، اس لئے بھی ہمارا بہت سارا وقت جو ہم بولنے یا سننے کی تگ ودو میں گذارتے ہیں، ضیاع کا شکار ہوجاتا ہے۔سننے والے اپنی سماعت کی قوت کارکردگی کیسے بڑھائیں، اور بولنے والے اپنی گفتگو میں وضاحت ،تاثیر اور نتیجہ خیزی کیسے پیدا کریں ،یہ سیکھنا ہر سمجھ دار آدمی کے لئے ضروری ہے۔ایک مقرر یہ بات زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ سننا بہت مشکل کام ہے۔ اس مشکل کو آسان بنانا بھی مقرر کی ذمہ داری بنتی ہے۔
اس مضمون سے لکھنے والے اور پڑھنے والوں کا وقت کس حد تک ضائع ہوا اس سے قطع نظر، اسے پڑھ کر اپنے اور دوسروں کے وقت کا احترام اگر دل میں پیدا ہوجائے تو یہی اس تحریر کا مقصد ہے۔(بشکریہ ماہنامہ رفیق منزل نومبر 2014)
اصولی بات یہ ہے کہ ہر آدمی کا وقت قیمتی ہوتا ہے، اور وہ قیمتی وقت اس آدمی کی ذاتی ملکیت ہوتا ہے اس میں کسی اور کی حصہ داری نہیں ہوتی ہے۔آپ کے کسی رویہ سے کسی کا ایک لمحہ بھی ضائع ہوتا ہے تو اس کا شمار ظلم میں ہوگا ،جس طرح کسی کو زندگی سے محروم کرنا ظلم ہے اسی طرح کسی کا کچھ وقت ضائع کرنا بھی ظلم ہے۔
ایک جگہ اجتماع تھا، صبح آٹھ بجے کا وقت متعین تھا، لیکن وقت متعین پر صرف چند لوگ پہونچ سکے، اکثریت نو بجے پہونچی، چنانچہ اجتماع ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا، اجتماع کے اختتام پرایک دل جلے نے حاضرین سے کہا، اگلے اجتماع میں کب آنا ہے یہ آج طے ہوجانا چاہئے، اگر ایک گھنٹہ تاخیر سے آنا ہے تو یہ تاخیر سے آنا بھی ہمارے درمیان طے ہونا چاہئے، کیونکہ یہ چھوٹی برائی ہے کہ اجتماع ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہو، اور یہ بڑی برائی ہے کہ کچھ لوگ وقت پر آکر باقی لوگوں کا انتظار کرنے میں اپنا وقت ضائع کریں۔ اتفاق کے بغیر تاخیر سے بہتر ہے کہ تاخیر سے آنے پر اتفاق کرلیا جائے۔
ہمارے ایک ساتھی تاخیر سے پہونچنے کے حق میں دلیل پیش کرتے ہیں کہ وقت کی پابندی زیادہ اہم نہیں ہے ، اصل اہمیت تو وقت کے بہتر استعمال کی ہے،گویا زیادہ اچھے کام میں مشغول ہوجانے کی وجہ سے اگر پہلے سے طے شدہ کسی کام میں تاخیر ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن یہ دلیل وہاں پر درست ہے جہاں آپ کی تاخیر کی وجہ سے صرف آپ کا ٹائم ٹیبل متاثر ہوتا ہو، اگر آپ کی تاخیر کی وجہ سے کسی دوسرے کا وقت خراب ہوجائے تو یہ رویہ کسی دلیل سے درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
دیکھا گیاہے کہ بعض مقررین نے تاخیر سے آنے کو اپنا شیوہ بنارکھا ہے، بعضے تو تاخیر سے آنے کے بعد بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ میرے آنے کا مقررہ وقت وہی ہے جب میں آجاؤں۔لیکن اگر کبھی ان کے آنے کے بعد سامعین پہونچنے میں تاخیر کردیں تو وہ چراغ پا ہوجاتے ہیں۔دراصل ایسے مقررین اس غلط گمان کا شکاررہتے ہیں کہ ان کا وقت ان کے سامعین کے وقت سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔
یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ مقرر کو تقریر کے لئے جس قدر وقت دیا گیا اس سے زیادہ دیر تک وہ بولتا رہتا ہے، سامعین پہلو بدلتے ہیں، منتظمین مضطرب ہوتے ہیں، مگر تقریر جاری رہتی ہے۔حالانکہ وقت مقررہ سے ایک منٹ بھی زیادہ لینے سے پہلے مقرر کو نہ صرف منتظمین سے بلکہ سامعین سے بھی اجازت لینا چاہئے، اور وہ بھی اس صورت میں جبکہ ایسا کرنا بہت ضروری معلوم ہوتا ہو۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک سیشن میں ایک سے زیادہ مقرر ہوتے ہیں، ہر ایک کے لئے متعین وقت ہوتا ہے، ایسی صورت میں اگر کوئی اپنے وقت سے زیادہ لیتا ہے تو وہ یقینی طور پر دوسروں کا حصہ کم کرتا ہے، اس صورت کو اگر مٹھائی کے ڈبے پر قیاس کرکے دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ یہ بھی چھین جھپٹ کی ایک صورت ہوتی ہے، جو شرفاء کو زیب نہیں دیتی۔ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر وقت متعین نہ ہو تو بھی ہر شخص اپنے ذہن میں یہ حساب کرلے کہ اس کا حصہ کتنا بنتا ہے، اور پھراس ذہنی حصہ کی پابندی کرے۔
سامعین کا وقت ضائع کرنے کی ایک بہت عام صورت یہ ہے کہ مقرر تیاری کے بغیر تقریر کرے، جس کی وجہ سے سامعین کو سماعت کا مقصد فوت ہوتا ہوا محسوس ہو۔اگر آپ نے ایک موضوع پر تقریر کرنے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے، تو یہ آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اپنے سامعین کے سامنے ایسی تقریر کریں جس سے ان کی شرکت کا مقصد پورا ہو۔آپ تیاری کیسے کرتے ہیں، اور اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے تیاری کے لئے وقت کیسے نکالتے ہیں یہ آپ کا مسئلہ ہے، لیکن اپنی مصروفیات کا بہانہ کرکےاور بنا تیاری کے غیرمفید قسم کی گفتگو کرکے دوسروں کا وقت ضائع کرنا ایک دینی مقرر کے شایان شان نہیں ہے۔آپ کی شخصیت آپ کی اور دوسروں کی نگاہ میں کتنی ہی زیادہ محترم ہو، تاہم ایک انسان کے وقت کی حرمت بے ٹھکانہ ہوتی ہے۔
کچھ مقررین وقت کے تو بہت پابند ہوتے ہیں، اگر انہیں پچاس منٹ دئے گئے تو پورے پچاس منٹ تقریر کرتے ہیں، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پچاس منٹ میں ان کو پچاس منٹ والی تقریر کرنا تھی، پندرہ منٹ والی تقریر کو کھینچ تان کرکے پچاس منٹ میں نہیں پھیلانا تھا۔مطلب یہ کہ اگر آپ سامعین کا زیادہ وقت لے رہے ہیں تو اس کا صحیح صلہ ان کو دیجئے۔اور اگر آپ کے پاس اتنا ہی مواد جمع ہوسکا ہے جس کی ترسیل کے لئے پندرہ منٹ کافی ہیں، تو وقت کے ساتھ انصاف یہی ہے کہ آپ ان کے پینتیس منٹ ضائع نہ کریں۔لیکن یہ بات ان کو آنے سے پہلے معلوم ہونا چاہئے کہ تقریر پچاس منٹ کی نہیں پندرہ منٹ کی ہوگی، تاکہ وہ پہلے سے اپنے ٹائم ٹیبل میں آپ کی تقریر سننے کے لئے اتنا وقت متعین کرسکیں۔
دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بعض لوگوں کے پاس بولنے کے لئے پانچ منٹ ہوتے ہیں، جن میں سے تین منٹ وہ یہ باور کرانے میں ضائع کردیتے ہیں کہ اتنے کم وقت میں اس قدر اہم موضوع کا حق ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ اسٹیج پر موجود سارے لوگوں کا ان کے مراتب کے ساتھ نام لینا بھی تضییع وقت کا ایک انداز ہے، جسے وہ لوگ بھی شوق سے اختیار کرتے ہیں جن کو بہت محدود وقت میں بات پیش کرنا ہوتی ہے۔
ایک عجیب صورتحال سوال وجواب کی مجلسوں میں دیکھنے کو ملتی ہے، چونکہ مقررہ وقت کے اندر سوال وجواب کے سیشن کو انجام دینا ہوتا ہے، سمجھ داری کا تقاضا یہ ہے کہ لوگ مختصر اور واضح سوال کریں، اور جواب دینے والے مختصر اورواضح جواب دیں تاکہ وقت سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے۔ مگر عملا ہوتا یہ ہے کہ سوال کرنے والوں کو تو اختصار کی تاکید کی جاتی ہے، اس تاکید کی بسا اوقات ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے، مگر جواب دینے والے اکثر غیر ضروری تفصیل سے کام لیتے ہوئے باقی سوالوں کا وقت کھاجاتے ہیں۔ اور یہ کام وہ لوگ انجام دیتے ہیں جو بزعم خودبڑے دانشور اور حکیم ہوتے ہیں۔
موضوع سے ہٹی ہوئی تقریر وں کا مرض بھی بہت عام ہے، اگر آپ کو کوئی متعین عنوان دیا گیا ہے تو آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اسی عنوان پر تقریر فرمائیں، کسی اور عنوان پر تقریر کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، اس خاص وقت کے لئے تو وقت ضائع کرنے والی ہی ہے۔اگر لوگوں کو ایک خاص موضوع پر گفتگو کےلئے بلایا گیا ہے تو کسی اور موضوع پر ان کو کچھ بھی سنانا ان کی سماعت اور ان کے وقت کے ساتھ زیادتی ہے۔
چونکہ ہمارے یہاں بولنے اور سننے کے کام کو فن نہیں سمجھا جاتا جس میں مہارت حاصل کرنا مطلوب ہو، اس لئے بھی ہمارا بہت سارا وقت جو ہم بولنے یا سننے کی تگ ودو میں گذارتے ہیں، ضیاع کا شکار ہوجاتا ہے۔سننے والے اپنی سماعت کی قوت کارکردگی کیسے بڑھائیں، اور بولنے والے اپنی گفتگو میں وضاحت ،تاثیر اور نتیجہ خیزی کیسے پیدا کریں ،یہ سیکھنا ہر سمجھ دار آدمی کے لئے ضروری ہے۔ایک مقرر یہ بات زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ سننا بہت مشکل کام ہے۔ اس مشکل کو آسان بنانا بھی مقرر کی ذمہ داری بنتی ہے۔
اس مضمون سے لکھنے والے اور پڑھنے والوں کا وقت کس حد تک ضائع ہوا اس سے قطع نظر، اسے پڑھ کر اپنے اور دوسروں کے وقت کا احترام اگر دل میں پیدا ہوجائے تو یہی اس تحریر کا مقصد ہے۔(بشکریہ ماہنامہ رفیق منزل نومبر 2014)
ایک تبصرہ شائع کریں