محی الدین غازی
دینی جماعتوں اور اداروں کی پس ماندگی کی ایک بڑی وجہ ان کی مجلس شوری کا محدود کردار ہے۔
دینی جماعتوں اور اداروں کا دستور یہ کہتا ہے کہ فیصلے اتفاق رائے یا پھر کثرت رائے سے ہوں گے۔اتفاق رائے یا کثرت رائے معلوم کرنے کے لئے ایک مجلس شوری منتخب کی جاتی ہے، اور جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے، مجلس شوری کی مٹینگ ہوتی ہے ، اور اس مٹینگ کی روداد سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ فیصلہ دستور کے مطابق ہوا ہے۔
غرض مجلس شوری کا مقصد وجود دستور کی اس ضرورت کو پورا کرنا ہوتا ہے کہ ہر فیصلہ اتفاق رائے یا پھر کثرت رائے سے ہونا چاہئے۔ اس طرح مجلس شوری جماعت یا ادارے کی پیاس بجھانے کے لئے نہیں ہوتی ہے بلکہ دستور کی پیاس بجھانے کے لئے ہوتی ہے۔
درحقیقت مجلس شوری کا کردار اس سے بہت عظیم اور ذمہ داری اس سے بہت بڑی ہے۔مجلس شوری کے ارکان تو اپنے اداروں اور جماعتوں کا دماغ ہوتے ہیں، اور دماغ کا کام ہمیشہ سوچتے رہنا ہے۔دماغ اس وقت سوچنا شروع نہیں کرتا ہے جب اعضاء وجوارح اس سے رائے طلب کرتے ہیں، بلکہ وہ تو اس وقت بھی سوچتا رہتا ہے جب جسم مفلوج ہوتا ہے، جب دماغ جاگتا ہے تو جسم سے حرکت کی امید ہوتی ہے اور جب وہ سوجاتا ہے تو پورا جسم سوجاتا ہے۔
مجلس شوری کا ہررکن اپنے دماغ کو دوسروں سے ہزار گنا زیادہ غورو فکر کی مشقت دے، یہ اس کے منصب کا تقاضا ہے۔اور یہ غوروفکر صبح و شام ہو ، ہر لحظہ اور ہر آن ہو، ایسا نہ ہو کہ مٹینگ کا ایجنڈہ ملنے کے بعد غور وفکر شروع ہو اور مٹینگ میں فیصلہ ہوتے ہی غوروفکر ختم ہوجائے ۔
مجلس شوری کے ہر رکن کو اپنا احتساب کرنا چاہئے کہ اس کا دماغ اس کی جماعت اور ادارے کو کتنا فیض پہونچارہا ہے، کیونکہ آخرت میں اس کی بھی جواب دہی ہو گی۔ اور اگر اسے یقین ہو کہ وہ شوری کی رکنیت کے اس حق کو ادا نہیں کرپائے گا تو سمجھ داری اسی میں ہے کہ وہ اس ذمہ داری سے بہت دور رہے۔
اس طرح کے معاملات میں بھی اللہ پاک کے اس ارشاد سے بڑی رہنمائی ملتی ہے کہ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ انصاف نہیں کرسکو گے تو ایک پر اکتفا کرو ۔
ایک تبصرہ شائع کریں