بچوں کو غیبت کا زہر نہ پلائیں

بچوں کو غیبت کا زہر نہ پلائیں
محی الدین غازی
غیبت کرنا ایک بڑا گناہ، اور ہلاکت خیز برائی ہے، اس کی زہرناکیاں بہت زیادہ ہیں، یہاں صرف یہ بتانا ہے کہ جب بڑے لوگ بچوں کے سامنے بڑوں کی غیبت کرتے ہیں، تو غیبت کا زہر کس طرح بچوں کی رگوں میں سرایت کرجاتا ہے، اور پھر ان کی کتنی مسموم اٹھان ہوتی ہے۔
ایک خاتون کو اپنے سسرالی رشتے داروں کی پیٹھ پیچھے برائی کرنے کا خاص شوق تھا، ان کے گھر جب کوئی پڑوسن یا سہیلی یا میکے کا کوئی رشتے دار آتا تو وہ جی بھر کر اپنے سسرالی رشتے داروں کی غیبت کیا کرتی تھیں، ان کے بچے بھی غور سے ان کی غیبتوں کو سنا کرتے تھے، بچے ذرا بڑے ہوئے تو انہوں نے خود ان بچوں سے ان کے دادا دادی، چچاؤں چچیوں اور پھوپھیوں کی برائیاں اور خامیاں بیان کرنا شروع کردیا۔
بڑے ہوتے ہوتے لڑکوں کا ذہن یہ بنا کہ ان کے خاندان کے سب لوگ بہت خراب، ان کے بدخواہ اور ان کے والدین کی حق تلفی کرنے والے ہیں، پورے خاندان میں صرف ان کے امی ابو اچھے ہیں، باقی سب خراب ہیں۔ کچھ عرصے بعد ان کے دل سے ان کے امی ابو کا احترام بھی کم ہونے لگا، کیونکہ فطری طور پر یہ باور کرنا ممکن نہیں تھا کہ دادا دادی اور سارے چچا اور ساری پھوپھیاں تو خراب ہیں اور صرف ابو جان گندگی کے ڈھیر میں گلاب کا پاکیزہ پھول ہیں۔ احترام کا پورا محل کھنڈر بن جائے تو ایک سالم دیوار بھی بدنما ہی لگتی ہے۔ ماں نے خاندان کے تمام بزرگوں کی وقعت گرائی، لیکن ساتھ ہی باپ کی وقعت بھی مٹی میں مل گئی، وہ وقت بھی آیا جب ان بچوں نے اپنے باپ کی پگڑی اچھالی، اور ماں کے ساتھ بدکلامی کی۔
لڑکیوں کا ذہن یہ بنا کہ سسرال ایک ایسا گھر ہوتا ہے، جس میں شوہر کے سوا سب لوگ نہایت شرپسند اور قابل نفرت ہوتے ہیں، ان سے جس قدر دور رہا جائے اتنا بہتر ہے۔ انہوں نے پہلی ہی نظر میں ساس اور نندوں کو چڑیلوں کی صورت میں دیکھا، اور کبھی انہیں آزمانے کی زحمت بھی نہیں کی۔ یہ مبالغہ نہیں بلکہ عین مشاہدہ ہے، اور ایک خاتون کی نہیں، بہت سارے گھروں کی کہانی ہے۔
میں ایک ایسی خاتون سے بھی واقف ہوں جس نے اپنے بچوں کے سامنے اپنے سسرالی رشتے داروں کی ہی نہیں بلکہ اپنی سوکن کی بھی ہمیشہ تعریف کی، بچوں کے دل میں دادا دادی کا احترام ایک عقیدے کی طرح بٹھایا۔ کبھی بچوں نے کسی پھوپھی یا چچی کی شکایت کرنے کی جرأت کی تو اس کو سختی سے ٹوک دیا، انجام کار خاندان کے سارے بزرگوں کا احترام کرنے والے بچے اپنے والدین کے احترام میں بھی پیش پیش رہے۔ بزرگوں کے احترام کے عالیشان مینار وقت کے ساتھ اور بلند ہوتے چلے گئے۔
جن بچوں کی تربیت غیبت کے سائے میں ہوتی ہے وہ زہریلے پودے کی طرح ہوجاتے ہیں، پھر ان سے کسی خیر کی امید رکھنا مشکل ہوتا ہے، ان کی نظر میں ہر شخص نہایت برا، خود غرض اور قابل نفرت ہوتا ہے۔ جبکہ انہیں بچوں کے معصوم ذہن کو اگر غیبت کے زہر سے بچائیں اور ان کے دلوں میں رشتے داروں کے لئے احترام اور محبت کو پروان چڑھائیں اوران کے سامنے دل کھول کر ان کے بڑوں کی خوبیوں کو بیان کریں تو وہ پورے خاندان کے لئے ایک سایہ دار درخت بن جاتے ہیں جس کے پھول بہت خوشبودار اور پھل نہایت شیریں ہوتے ہیں۔
غیبت کی زہرناکیوں نے اسلامی تحریک کو بھی بہت نقصان پہونچایا ہے، ایسے تحریکی بزرگوں سے میں واقف ہوں جن کی نجی مجلسوں اور گفتگووں میں بہت سارے رفقائے تحریک کی جم کر غیبت ہوا کرتی تھی، کسی کے کردار پر ضرب لگائی جاتی تھی تو کسی کی نیت پر حملہ کیا جاتا تھا، کسی کے معیار کو پست بتایا جاتا تھا تو کسی کے افکار میں کیڑے نکالے جاتے تھے، یہ غیبتیں ان کے بچے بھی غور سے سنا کرتے تھے، آخر بچوں کا ذہن یہ بنا کہ اسلامی تحریک میں نیچے سے اوپر تک سب لوگ بدعنوان اور مفاد پرست ہیں، تحریک اپنے راستے سے ہٹ گئی ہے اور منزل کو بھول گئی ہے، صرف ہمارے ابوجان اور ان کے دوچار دوست ہیں جو تحریک کے مخلص اور اس کے نصب العین کے امین ہیں۔ ہمارے ابوجان نے تحریک کے لئے بڑی قربانیاں دیں، لیکن لوگوں نے ذرا قدر نہیں کی۔ غرض یہ کہ تحریک کے گہوارے میں ایسی نسل تیار ہوئی جو تحریک کی قیادت کو مفاد پرست اور تحریکی کیڈر کو غیر مخلص سمجھتی تھی، اس کے خیال میں اس کے ابو نرے احمق تھے جو ایسے غلط لوگوں کے درمیان پھنس گئے تھے۔ چنانچہ نئی نسل نے خود کو اس ’’حماقت‘‘ سے دور رکھا۔
غیبت کا شوق فرمانے والے اگر ذرا سا غور کرلیں کہ ان کی غیبت کی وجہ سے ان کے بچوں کی شخصیت میں کس قدر ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے، تو شاید اپنے بچوں کے اچھے مستقبل اور خوبصورت شخصیت کی خاطر ہی اس برائی سے خود کو پاک کرلیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں