دل اپنا کام کرے، دماغ اپنا کام کرے

دل اپنا کام کرے، دماغ اپنا کام کرے
محی الدین غازی
دل کا کام محبت کرنا ہے، اور دماغ کا کام غوروفکر کرنا ہے، صحتمند انسان کے دل اور دماغ دونوں زندہ اور توانا ہوتے ہیں، اور دونوں اپنا اپنا کام خوبی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔
زندہ اور توانا دل محبت کرتا ہے، اس سے بھی جس کی رائے سے اتفاق ہوتا ہے، اور اس سے بھی جس کی رائے سے اختلاف ہوتا ہے، اس سے بھی جو اس کی رائے کو درست سمجھتا ہے، اور اس سے بھی جو اس کی رائے کو غلط قرار دیتا ہے۔ سمجھ دار دل رائے کے اتفاق واختلاف کو دماغ کے حوالے کردیا کرتا ہے، اور خود محبت کے عمل میں مصروف رہتا ہے۔
زندہ اور توانا دماغ غوروفکر کرتا ہے، غوروفکر کرتے ہوئے وہ اتفاق بھی کرتا ہے اور اختلاف بھی کرتا ہے، تائید بھی کرتا ہے اور تنقید بھی کرتا ہے، اور اس سارے عمل میں وہ اپنوں اور غیروں کی تفریق کو روا نہیں رکھتا ہے، وہ صحیح اور غلط تک پہونچنے کے لئے دلائل کا لحاظ کرتا ہے، نہ کہ کسی فرد یا گروپ کا۔
دماغ کی عظمت تنوع اور نیرنگی میں پنہاں ہوتی ہے، ایک صاحب دماغ جو دماغ کی قدروقیمت سے واقف ہو کبھی یہ خواہش نہیں کرسکتا کہ سوچ کی جن راہوں سے وہ گزرا ہے اور جس منزل تک وہ پہونچا ہے، سب لوگ وہیں سے گزریں اور وہیں تک پہونچیں، کیونکہ اگر تمام دماغ ایک دماغ کے تابع یا مطابق ہوجائیں، تو اتنے سارے دماغوں کی افادیت پر سوال کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس لئے یہ خواہش تو معقول اور فطری ہے کہ جو میں نے سوچا ہے وہ دوسرے سمجھ لیں، لیکن یہ خواہش بچکانہ ہے کہ جو میں سوچتا ہوں وہی دوسرے بھی سوچیں۔
اجتماعیت ایک بابرکت چیز ہے، لیکن وہ اجتماعیت جس میں تمام افراد کے دل ودماغ اپنا اپنا کام خوبی کے ساتھ انجام دیتے رہیں، دماغ غور وفکر کرتے رہیں، اور دل محبت کرتے رہیں۔
ایک اجتماعیت میں جب سارے دماغ اختلاف واتفاق کی پرواہ کئے بنا پوری آزادی کے ساتھ سوچتے ہیں، تو ترقی کی راہیں کشادہ ہوتی ہیں، اور فتوحات کا سلسلہ دراز ہوتا ہے، اور جب دماغ خود سوچنا بند کرکے دوسروں پر تکیہ کرنے لگتے ہیں، تو جمود طاری ہوجاتا ہے، اور پھر ترقی کی راہیں بند ہوجاتی ہیں اور فتوحات کا سلسلہ رک جاتا ہے۔
ایک اجتماعیت میں جب سارے دل محبتوں کے موتی لٹاتے ہیں، اور چاہتوں کی خوشبو بکھیرتے ہیں، تو رایوں کے بہت زیادہ اختلاف کے باوجود اجتماعیت سیسہ پلائی ہوئی مضبوط دیوار بنی رہتی ہے۔ لیکن جب دل بیمار ہوکر محبت کرنا بند کردیتے ہیں، تو فتنے سر اٹھاتے ہیں، گروپ بندیاں ہوتی ہیں، اور ماحول اس قدر زہر آلود ہوجاتا ہے کہ پھر دماغوں کا غوروفکر بھی اجتماعیت پر گراں گزرتا ہے۔
غوروفکر کرنا دماغ کا کام ہے، مگر ہے محنت طلب، اور محبت کرنا دل کا کام ہے، مگر ہے مشقت سے بھرپور۔ اس لئے ناتواں دماغ غوروفکر سے بھاگتا ہے، اور داخلی انتشار کے اندیشے کوغوروفکر سے فرار کا بہانہ بنالیتا ہے۔ بیمار دل بھی محبت سے کتراتا ہے، اور رائے کے معمولی اختلاف کو محبت سے فرار کا بہانہ بنالیتا ہے، دماغوں کے اختلاف کے باوجود اگر دل محبت کرتے رہیں، تو سمجھ لیں کہ دل زندہ اور توانا ہیں۔
میں نے پروفیسر نجات اللہ صدیقی کی کتاب ’’مقاصد شریعت‘‘ پر تنقید لکھی، اور کہیں کہیں حد ادب سے تجاوز بھی کرگیا، میں نے ڈاکٹر وسیم احمد فلاحی کی تحریروں پر تنقید کی اور کہیں کہیں معروضیت کے تقاضے پورے نہیں کرسکا، تاہم ان دونوں نے میری تنقید کے بعد اپنی محبتوں میں اور اضافہ کردیا، ان دونوں خوش گوار تجربات سے میں نے جانا کہ شدید اختلاف رائے کے باوجود بہت زیادہ محبت کی جاسکتی ہے، صرف دل کا صحت مند ہونا شرط ہے۔
بسا اوقات اجتماعیت کو داخلی انتشار سے بچانے کے لئے اختلاف رائے کی آزادی اور غوروفکر کے مواقع کو محدود کردیا جاتا ہے، یہ رجحان تعلیمی اداروں اور اصلاحی تحریکوں میں بھی دیکھا جاتا ہے، یہ دراصل مرض کی غلط تشخیص اور مریض کا غلط علاج ہے، داخلی انتشار دماغوں کی فعالیت سے نہیں بلکہ دلوں کے بیمار ہوجانے سے پھیلتا ہے، اس لئے دماغوں پر قدغن لگانے کے بجائے دلوں کے علاج پر فوری توجہ دینا چاہئے۔ دماغوں پر پابندی لگانے سے انتشار تو ختم نہیں ہوتا ہے، البتہ جمود ضرور طاری ہوجاتا ہے۔
کسی دانا حکیم کا قول ہے ’’ دلوں میں فرق آجانا بیماری ہے، اور دماغوں میں فرق ہونا مالداری ہے‘‘ (اختلاف القلوب داء واختلاف العقول ثراء)۔ دینی گھرانوں، دینی جماعتوں اور دینی اداروں کے لئے زیبا یہی ہے کہ جو بیماری ہے اس کے علاج کی فکر کریں، اورجو مالداری ہے اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں