اتحاد امت، سوچنے کے دو انداز

اتحاد امت، سوچنے کے دو انداز
محی الدین غازی
دوسری صدی ہجری کی بات ہے، مدینہ پاک میں امام مالک بڑے فقیہ مانے جاتے تھے، مکہ مکرمہ، عراق، شام اور مصر میں بھی بڑے بڑے فقہاء تھے، اس زمانے میں امام مالک نے موطا لکھی، جس میں شریعت کے مسائل کو ان کے دلائل کے ساتھ بیان کیا گیا۔
اس وقت سیاسی سطح پر عالم اسلام کا واحد حکمراں ابو جعفر منصور تھا، تاہم فقہی سطح پر مختلف علاقوں میں مختلف فقہاء کو امام اور مرجع کی حیثیت حاصل تھی۔
ایک بار ابو جعفر منصور کو خیال آیا کہ پوری امت کو ایک فقہی مسلک کے تحت متحد کردیا جائے، اس نے امام مالک کے سامنے یہ تجویز ان الفاظ میں رکھی: ’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ نے جو موطا کتاب لکھی ہے، اس کی کئی کاپیاں تیار کرنے کا حکم دوں، پھر ہر شہر میں ایک کاپی بھیج دوں، اور پروانہ جاری کردوں کہ لوگ صرف اس پر عمل کریں، اور اس کو چھوڑ کر کسی اور رائے پر عمل نہ کریں۔ ابو جعفر نے اپنی تجویز کو مدلل بنانے کے لئے یہ بھی کہا کہ شریعت کے علم کا سب سے معتبر ذریعہ تو اہل مدینہ کی روایت اور ان کا علم ہے، اس لئے آپ کی کتاب کو پورے عالم اسلام کا واحد فقہی مرجع بننا چاہئے۔
ایک تنگ نظر اور دنیا پرست عالم کے لئے تو یہ بہت بڑی چیز ہوسکتی تھی، کہ اس کی کتاب کو عالم اسلام کی ساری کتابوں پر فوقیت اور ہیمنت حاصل ہوجائے، لیکن امام مالک علم کی قدر وقیمت کے امین تھے، وہ یہ کبھی نہیں گوارا کرسکتے تھے کہ اس طرح علم پر پہرے لگیں، اور علم وفکر کے مدرسوں پر فوج کشی ہو۔ امت کو متحد کرنے کا یہ جابرانہ طریقہ امام مالک کو پسند نہیں آیا۔
امام مالک نے کہا: ’’ایسا مت کریں، لوگوں کے پاس پہلے سے صحابہ کے اقوال پہونچے ہوئے ہیں، انہوں نے بھی حدیثیں سنی ہیں، اور انہوں نے بھی روایتیں اخذ کی ہیں، اور جس علاقے میں جو بات پہلے پہونچی وہ اس علاقے کے لوگوں نے اختیار کرلی، اور صحابہ کے یہاں جو مختلف رائیں موجود تھیں ان میں سے ہی بعض کو مختلف لوگوں نے اپنا مسلک بنالیا، اور اب جو راستہ انہوں نے یقین کے ساتھ بطور شریعت اختیار کرلیا ہے، اس سے ان کو پھیرنا بہت دشوار ہوگا، اس لئے ہر شہر کے لوگوں نے جو مسلک اپنے لئے چنا ہوا ہے اسی پر ان کو رہنے دیں‘‘
اس طرح امام مالک کی دوراندیشی، کشادہ ظرفی اور بصیرت ودانائی سے ایک بہت بڑا فتنہ ٹل گیا، ورنہ اتحاد امت کے نام پر خون کے نہ جانے کتنے دریا بہائے جاتے، اور جبر وتشدد کی نہ جانے کتنی شدید آندھیاں چلائی جاتیں، اور پھر بھی امت میں اتحاد نہیں ہوتا، بلکہ اختلافات کے پودوں کو جب خون کی سیرابی اور جبر وتشدد کی غذا مل جاتی تو ان کے تنے مضبوط، جڑیں گہری، اور پھل انہائی زہرناک ہوجاتے۔
امام مالک نے اخلاقی جرأت کے ساتھ یہ اعتراف کیا کہ جن رایوں کو انہوں نے اختیار نہیں کیا ہے، اور دوسروں نے اختیار کیا ہے، ان کی پشت پر بھی دلائل کی قوت موجود ہے۔ اس طرح انہوں نے اتحاد کا ایک شاندار اور اعلی تصور دیا کہ جب سب لوگ ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں گے، اور ایک دوسرے کے دلائل کی مضبوطی کو تسلیم کریں گے، تو اتحاد کی زیادہ روشن راہیں سامنے آئیں گی۔
اتحاد کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر مسئلے میں سب کی رائے ایک ہوجائے، ایسا اتحاد تو خوابوں کی دنیا میں بھی ممکن نہیں ہے۔ لیکن ایک دوسرے کی رائے کے احترام کی بنیاد پر ایک مضبوط اتحاد ضرور وجود میں آسکتا ہے۔
آج انتشار وافتراق کی بہت بڑی وجہ اتحاد کا غلط تصور ہے، ہر گروہ اتحاد کے لئے ضروری سمجھتا ہے کہ تمام گروہ ایک رائے پر جمع ہوجائیں، اور چونکہ ہر گروہ خود کو حق پر سمجھتا ہے ، اس لئے ہر گروہ اتحاد کے لئے یہ بھی ضروری سمجھتا ہے کہ دوسرے سارے گروہ اپنے موقف سے دست بردار ہوکر اس کے موقف کو اختیار کرلیں۔ اس طرح کے اتحاد پر اصرار کرنے سے فرقہ بندی کی جڑیں اور زیادہ گہری ہوجاتی ہیں، اور مسلکی اور گروہی عصبیتیں اور زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔
اتحاد امت کا راستہ جبر وتکفیر سے نہیں بلکہ آزادی اور اعتراف واحترام سے ہوکر گذرتا ہے، یعنی سب لوگ اس حقیقت کو مانیں کہ ہر ایک کے موقف کی پشت پر دلائل کی کم وبیش قوت موجود ہے، سوچنے اور تحقیق کرنے کے راستے سب کے سامنے کھلے ہوئے ہیں، رائے اختیار کرنے اور رائے بدلنے کی آزادی ہر ایک کو حاصل ہے، اور بہتر رائے کی تلاش ایک مسلسل عمل ہے جو ہر انسان پر فرض ہے۔
اس امت پر امام مالک کا احسان ہے کہ انہوں نے بے نفسی اور بے غرضی کی بلند وبالا چوٹیوں کو سر کرکے اتحاد امت کا ایک اعلی تصور دیا۔

ایک تبصرہ شائع کریں