تعلیم یافتہ ہونے کا ایک تقاضا یہ بھی ہے

تعلیم یافتہ ہونے کا ایک تقاضا یہ بھی ہے
محی الدین غازی
۱۹ اکتوبر، میں بنارس سے حیدرآباد جارہا تھا، اسٹیشن سے گاڑی چھوٹنے کے کچھ دیر بعد ٹی ٹی آگیا، میرے قریب کچھ نوجوان تھے، جو حلئے سے ہی مزدور پیشہ اور ناخواندہ لگ رہے تھے، ان کے پاس جنرل کلاس کا ٹکٹ تھا، اور وہ سلیپر کلاس میں ریزرویشن چاہ رہے تھے، ٹی ٹی نے ان سے کہا کہ ہر ٹکٹ پر پانچ سو بیس روپے کی رسید کٹے گی اور ہر ٹکٹ پر دو سو روپے الگ سے دینا ہوں گے، تیس گھنٹے کا طویل سفر درپیش تھا، وہ سب راضی ہوگئے، ٹی ٹی نے دو ٹکٹوں پر ایک رسید کاٹی اور چودہ سو روپے لئے، مزید تین ٹکٹوں پر ایک رسید کاٹی اور اکیس سو روپے لئے اور پانچوں کو مختلف خالی برتھوں پر بیٹھ جانے کی اجازت دے کر چلاگیا۔
ناگپور اسٹیشن کے بعد ایک دوسرا ٹی ٹی آیا، اس نے ان سب سے ٹکٹ دکھانے کو کہا، انہوں نے اطمینان سے پانچوں ٹکٹ اور دونوں رسیدیں سامنے کردیں، اس پر ٹی ٹی نے کہا، کہ یہ تو صرف دو ٹکٹوں کی رسیدیں ہیں، اور ہر رسید پر صرف پانچ سو بیس روپے درج ہیں، باقی تین ٹکٹوں کی رسیدیں تو تمہارے پاس نہیں ہیں، اور اب تم کو تین رسیدوں کے پیسے ادا کرنا ہوں گے۔ ٹی ٹی کے لہجے میں سختی تھی، وہ بے چارے مزدور پریشان ہوگئے، وہ تو ہر ٹکٹ پر رسید کے پانچ سو بیس روپے اور مزید رشوت کے دو سو روپے بنارس والے ٹی ٹی کو دے چکے تھے، یہاں آکر انکشاف ہوا کہ اس بے رحم انسان نے ایک تو ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر ہر ایک سے دو سو روپے رشوت کے لئے اس کے علاوہ ان کے ان پڑھ ہونے کا فائدہ اٹھاکر پانچ کے بجائے صرف دو رسیدیں کاٹیں، اور باقی رقم ریلوے کے محکمے کو رسید کے ذریعہ دینے کے بجائے خود ہضم کرلی، اور ان غریبوں کو اگلے ٹی ٹی کے رحم وکرم پر چھوڑ کر الہ آباد اسٹیشن پر اتر گیا۔ میں نے اب تک ٹرین کے بہت سفر کئے اور رشوت خور ٹی ٹی بھی بہت دیکھے، لیکن رشوت لینے کے بعد بھی بے دردی سے اتنا بڑا دھوکہ دینے والا ٹی ٹی پہلی بار دیکھا۔
اب صورت حال یہ تھی کہ ناگپور والا ٹی ٹی ان سے کل پندرہ سو ساٹھ روپے مانگ رہا تھا، اور وہ حیرت اور بے چارگی کی تصویر بنے اس سے رحم کی بھیک مانگ رہے تھے۔ ان غریب مزدوروں کے لئے راہ چلتے یونہی پندرہ سو روپے دینا ایک بلائے ناگہانی سے کم نہ تھا، مجھ سے رہا نہیں گیا، جوش خطابت امنڈ آیا، اور میں نے ٹی ٹی کو پوری صورت حال بتائی، اور ان کی حالت کا خیال کرکے انہیں نظر انداز کردینے کی سفارش کیا کی ایک بھرپور تقریر کرڈالی، اس کے دل میں انسانیت اور رحم کا کچھ جذبہ تو ضرور تھا، تبھی تو اس نے تقریر بھی سنی اور یہ کہہ کران سے درگزر کردیا کہ آپ کے کہنے پر میں تو انہیں چھوڑ دیتا ہوں لیکن ہوسکتا ہے کہ راستے میں اور ٹی ٹی بھی ٹکٹ چیک کرنے آئیں۔ البتہ اس نے جاتے جاتے ایک ایسی بات کہی جس نے مجھے شرمندگی سے دوچار کردیا، اس نے کہا کہ آپ پڑھے لکھے ہیں اگر اسی وقت آپ نے ان کی رسیدیں دیکھ لی ہوتیں تو یہ نوبت نہیں آتی۔ وہ یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا اور میں اپنی کوتاہی کو دیر تک محسوس کرتا رہا۔
مجھے پہلی بار شدت کے ساتھ یہ احساس ہوا کہ تعلیم یافتہ ہونے کا حق ادا کرنا ایک انسانی فریضہ ہے، اور اس کا ایک بہت ضروری تقاضا یہ ہے کہ اپنے آس پاس کے ناخواندہ لوگوں کا اسی طرح خیال رکھا جائے، جس طرح ایک مال دار شخص کو اپنے آس پاس کے غریبوں اور محتاجوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ ایک تعلیم یافتہ شخص کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے آس پاس نگاہ رکھے کہ کوئی تعلیم یافتہ شخص کسی ان پڑھ شخص کا استحصال تو نہیں کررہا ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ ایرپورٹ سے لے کر پولیس اسٹیشن اور ریلوے اسٹیشن تک ہر جگہ سرکاری کرپشن کا پہلا نشانہ ناخواندہ لوگ بنتے ہیں۔
پڑھے لکھے شخص کے قریب ہوتے ہوئے کسی ان پڑھ کو صرف اس کے ان پڑھ ہونے کی وجہ سے کسی مصیبت کا شکار ہونا پڑے تو یہ اس پڑھے لکھے شخص کے لئے بڑے عیب کی بات ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں