اختلافات کو بڑا کرکے دکھانا بڑی غلطی ہے
محی الدین غازی
اختلاف ہونا اچھی بات بھی ہوسکتی ہے، اور بری بات بھی ہوسکتی ہے، لیکن کسی اختلاف کے سامنے مکبر شیشہ Magnifying Glass رکھ کر اسے کئی گنا بڑا کرکے دکھانا یقینا بہت بری بات ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ امت کا زیادہ گمبھیر مسئلہ اختلافات نہیں ہیں، بلکہ ہر اختلاف کو بہت بڑا کرکے دیکھنا اور دکھانا ہے۔
ایک مسجد میں محراب کے پاس بڑے حرفوں میں لکھا تھا ’’حی علی الصلاۃ سن کر کھڑا ہونا سنت ہے، اور اس سے پہلے کھڑے ہوجانا مکروہ ہے‘‘ صحیح بات یہ ہے کہ حی علی الصلاۃ سن کر کھڑے ہونا سنت کے خلاف نہیں ہے، لیکن اس سے پہلے کھڑے ہوجانا مکروہ بھی نہیں ہے، ہاں تنوع کے اختلاف کو تضاد کا اختلاف بناکر دکھانا ضرور ایک ناپسندیدہ کام ہے، یہ دراصل ایک معمولی سے بھی کم درجے کے اختلاف کو کئی ہزار گنا بڑا کرکے پیش کرنا ہے۔
جاحظ، اسلامی تاریخ کا ایک زبردست تذکرہ نگار ہے، اس نے خلیفہ مامون رشید کا ایک واقعہ ذکر کیا کہ خراسان کے ایک عیسائی پادری نے اسلام قبول کیا، اس کے کچھ عرصے بعد وہ مرتد ہوکر دوبارہ عیسائی ہوگیا، مامون رشید نے اسے اپنے دربار میں طلب کیا اور اس سے بڑے ہی نرم اور ہمدردانہ لہجے میں اسلام سے لوٹ جانے کا سبب دریافت کیا، اس نے کہا، آپ لوگوں کے درمیان اتنے زیادہ اختلافات دیکھ کر میں متنفر اور بیزار ہوگیا ہوں۔ (أوحشني كثرة ما رأيت من الاختلاف فيكم)
مامون رشید نے اسے بتایا کہ ہمارے یہاں دو طرح کے اختلافات ہیں، ایک تو اس طرح کا اختلاف ہے جیسے اذان اور جنازے کی تکبیروں میں، تشہد کے الفاظ میں، عیدین کی نمازوں اور ایام تشریق کی تکبیروں میں، اسی طرح قرأتوں وغیرہ میں، تو یہ دراصل اختلاف ہے ہی نہیں، بلکہ یہ تو اختیار وگنجائش اور سہولت وکشادگی کی بات ہے، کوئی اقامت میں الفاظ کو دو دو بار ادا کرتا ہے تو کوئی ایک ایک بار، اور اس میں کوئی کسی کو نہ تو غلط قرار دیتا ہے اور نہ اس پر نکتہ چینی کرتا ہے۔ دوسرا اختلاف اس طرح کا ہے جیسے قرآن پاک کی کسی آیت کی تفسیر میں یا نبی پاک کی کسی حدیث کی تشریح میں اختلاف ہوجائے، ہمارے یہاں یہ اختلاف ضرور ہے لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ہے کہ کتاب وسنت کی حقانیت اور ان کی اساسی حیثیت پر ہم سب اتفاق رکھتے ہیں۔ اگر اس طرح کا اختلاف ہمارے دین سے تنفر کی وجہ بنا ہے، تو دنیا میں تو کوئی کتاب ایسی نہیں ہے خواہ وہ تورات ہوانجیل ہو یا کوئی اور کتاب ہو، جس کے الفاظ کی تفسیر اور مفہوم کی تعبیر میں اختلاف نہیں ہوتا ہو، بلکہ دنیا میں کوئی زبان ایسی نہیں ہے جس کے الفاظ کے معنی میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہو، اگر اللہ چاہتا تو اپنی کتاب اور اپنے رسولوں کے کلام کو اس طرح بنادیتا کہ ہمیں تفسیر وتشریح کی محنت کے بغیر مطلوب رہنمائی مل جاتی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دین ودنیا کی کوئی چیز ہم کو اس طرح نہیں ملی ہے کہ ہمیں اس کے لئے کوئی محنت نہیں کرنا پڑے، اگر ایسا ہو تو امتحان اور مسابقت کا تصور ہی نہیں رہ جائے، اللہ تعالی نے اس طرح دنیا کی بنا رکھی ہی نہیں ہے۔
تذکرہ نگار کے مطابق اس وضاحت سے وہ شخص مطمئن ہوکر دوبارہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ (تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو، جاحظ کی کتاب البیان والتبیین)۔ واقعہ میں نصیحت کا پہلو یہ ہے کہ وہ شخص اسلام سے اس لئے متنفر ہوگیا تھا کیونکہ اس نے اختلافات کے بڑھے ہوئے حجم کو دیکھا تھا، جب اس کے سامنے اختلافات کا حقیقی حجم آیا تو اس کی وحشت دور ہوگئی۔
امت کے اختلافات کو ان کے حقیقی سائز میں دیکھنا ضروری ہے، جب یہ اختلافات اپنے حقیقی سائز میں نظر آئیں گے تو اضطراب اور بے چینی بھی نہیں ہوگی، اور اتفاق واتحاد کے لئے راستے بھی کھلیں گے۔ لیکن ان اختلافات کو جب بڑا کرکے دیکھنے یا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کے بہت بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں، ایسی صورت میں کچھ لوگ ان اختلافات کے بڑے سائز سے متاثر ہوکر ایک دوسرے کو کافر اور گمراہ قرار دینے پر اتر آتے ہیں، اور امت کے اندر تکفیری رجحانات جنم لیتے ہیں۔ اور کچھ لوگ پورے دین اور ساری امت سے بدگمان ہوکر خود دین بیزاری اور ارتداد کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔
ہمارے درمیان ایسے بہت سارے اختلافات ہیں جنہیں بہت بڑا اختلاف سمجھا جاتا ہے مگر وہ حقیقت میں اتنے بڑے ہوتے نہیں ہیں، ایک شہر میں تقلید اور بے تقلیدی کا جھگڑا اتنا بڑھا کہ لوگوں نے دیواروں پر ایک دوسرے کے خلاف لکھنا شروع کردیا، ایک نے لکھا ’’بے تقلیدی کفر کا زینہ ہے‘‘، تو دوسرے نے لکھا ’’تقلید عین کفر ہے‘‘، جبکہ واقعہ یہ ہے کہ فقہی مسائل میں نہ تقلید عین کفر ہے، اور نہ بے تقلیدی کفر کا زینہ ہے، بلکہ عام طور سے جن فقہی امور ومسائل میں تقلید اور بے تقلیدی ہوتی ہے، ان امور ومسائل سے اصل زندگی پر کوئی قابل ذکر اثر واقع ہی نہیں ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں رحمان کے بندوں کی صفات بتائی گئی ہیں، اور کامیاب ہونے والے مومنوں کی بھی صفات ذکر کی گئی ہیں، کہیں اختصار کے ساتھ اور کہیں خوب تفصیل سے، تاہم نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ ان صفات کو اختیار کرنے میں نہ تقلید روڑا بنتی ہے، اور نہ بے تقلیدی رکاوٹ بنتی ہے۔ میں نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے عظیم مسلمانوں کی فہرست میں مقلدین کو بھی پایا ہے اور غیر مقلدین کو بھی پایا ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں