طلاق کا ’’دینا‘‘ اور طلاق کا ’’پڑنا‘‘
محی الدین غازی
مسلم پرسنل لا کے تعلق سے سب سے سنگین مسئلہ طلاق کا ہے، اگر طلاق کے مسئلے پر امت ایک صحیح موقف اختیار کرنے کا فیصلہ کرلے، تو مسلم پرسنل لا بڑی حد تک محفوظ ہوسکتا ہے۔
شوہر بیوی کو مختلف حالات میں اور مختلف طریقوں سے طلاق دیتا ہے، اور پھر شریعت کی رو سے بیوی پر یا تو طلاق پڑ جاتی ہے یا نہیں پڑتی ہے۔ بیوی پر طلاق پڑی یا نہیں پڑی، یہ جاننے کے لئے صاحب معاملہ کسی مفتی صاحب سے رجوع کرتے ہیں، اور مفتی صاحب اپنے فقہی مسلک کی روشنی میں جواب دیتے ہیں، ان کا جواب عام طور سے ان کے فقہی مسلک کے مطابق ہوا کرتا ہے۔
طلاق کے سلسلے میں اصلاح کا ایک محاذ یہ ہے کہ شوہر کو طلاق دینے کا مثالی طریقہ اور طلاق دینے کے آداب بتائے جائیں۔ طلاق کے آداب اور طلاق کا صحیح طریقہ نہیں جاننے اور نہیں اختیار کرنے کی وجہ سے پورا خاندان پریشانی اور مصیبت سے دوچار ہوتا ہے۔
طلاق کے سلسلے میں اصلاح کا ایک دوسرا اہم محاذ یہ ہے کہ طلاق پڑنے کے سلسلے میں ایک درست اور مناسب موقف اختیار کیا جائے۔ طلاق پڑنے کے معاملے میں بے اعتدالی کے نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں۔ ایک بہترین اور صحت مند سماجی صورت حال قائم رکھنے کے لئے طلاق دینا بھی اصلاح طلب ہے، اور طلاق پڑنا بھی توجہ طلب ہے۔
طلاق پڑنے کے سلسلے میں دو فقہی رویے پائے جاتے ہیں، ایک رویہ یہ ہے کہ شوہر کے منھ سے طلاق نکل گئی ہے، تو وہ واقع ہوجائے گی، خواہ کیسے ہی حالات میں طلاق کے یہ الفاظ اس کے منھ سے نکلے ہوں۔ ایک دوسرا رویہ یہ ہے کہ طلاق اس وقت تک نہیں واقع ہوگی جب تک کہ یقین نہ ہوجائے کہ شوہر کی حقیقی منشا طلاق واقع ہونے کی ہے۔ دونوں رویوں میں بڑا فرق ہے، ایک طرف کوشش یہ ہوتی ہے کہ طلاق دے دی گئی ہے تو پڑ بھی جائے، اور دوسری طرف یہ کوشش ہوتی ہے کہ طلاق کسی طرح نہیں پڑے۔
برصغیر کے مسلم سماج میں جو فقہی رویہ رائج ہے وہ طلاق پڑنے والا رویہ ہے، طلاق کو پڑنے سے روکنے والا رویہ نہیں ہے۔ یہاں طلاق کا دینا بھی بہت آسان سمجھا جاتا ہے، اور طلاق کا پڑنا بھی بہت آسان مانا جاتا ہے، ادھر گولی نکلی اور ادھر نشانے پر جا بیٹھی، کبھی کبھی تو طلاق دینے والا شوہر بھی حیران ہوجاتا ہے کہ طلاق کیسے ہوگئی، میں نے تو ایسا کچھ نہ چاہا تھا اور نہ سوچا تھا۔
اس کے برعکس یہاں خلع کا عمل بہت دشوار ہے، خلع چاہنے والی عورت اور اس کے گھر والے شوہر کا پیچھا کرتے اور دار القضا کے چکر لگاتے عاجز آجاتے ہیں، اور خلع حاصل نہیں ہوپاتا۔ حالانکہ نہ طلاق کو اتنا آسان ہونا چاہئے اور نہ خلع کو اس قدر مشکل ہونا چاہئے۔
طلاق کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی مذاق میں طلاق دے دے، ایسے شخص کو اس کے غیر شرعی مذاق کی قرار واقعی سزا ملنی چاہئے، لیکن اس کے مذاق کی سزا پورے خاندان کو دینے کی کیا ضرورت ہے۔ جب طلاق دینا خود طلاق دینے والے کا مقصد نہیں ہے، تو طلاق پڑجانے پر اصرار کیوں کیا جائے۔
طلاق کی ایک صورت یہ ہے کہ غلطی سے یہ لفظ منھ سے نکل جائے، لیکن غلطی سے اگر کوئی لفظ زبان سے نکل جائے تو اس کی اتنی بڑی سزا تو نہیں ہونی چاہئے۔
طلاق کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی غصہ سے بے قابو ہو کر طلاق دے دے، اور جب غصہ اترجائے تو اسے احساس ہو کہ اس نے غصہ کے نشے میں کیا بک دیا، سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہوش میں آنے کے بعد وہ خود محسوس کرتا ہے کہ جو بھی ہوا بلا ارادہ ہوا، اور وہ ہر طرح سے یہی چاہتا ہے کہ طلاق نہیں پڑے تو اس کے پڑنے پر اصرار کیوں کیا جائے۔
اسی طرح نیند کی حالت کی طلاق ہے، شراب کے نشے میں دی گئی طلاق ہے، ڈرا دھمکا کر دلائی گئی طلاق ہے، ایسی سب طلاقوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ شوہر بیوی سے جدا ہونا نہیں چاہتا ہے۔ جب شوہر جدا ہونا چاہتا ہی نہیں ہے، تو شوہر اور بیوی کے رشتہ زوجیت کو بچانے کی راہیں کیوں نہ تلاش کی جائیں، طلاق پڑنے کی راہ کو ترجیح کیوں دی جائے۔
طلاق کی مذکورہ بالا صورتوں کے سلسلے میں بہت سے فقہاء یہی کہتے ہیں کہ طلاق واقع ہوجائے گی، تاہم ایسی ہر صورت کے سلسلے میں ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی، اس نقطہ نظر کی بھرپور تائید اور ترجمانی ڈاکٹر احمد دسوقی اپنی ایک کتاب میں کرتے ہیں۔ کتاب کا نام ہے، الاسرۃ فی التشریع الاسلامی، اور اس کے مصنف قطر یونیورسٹی میں فقہ کے پروفیسر ہیں۔ کتاب میں اسلامی خاندان سے متعلق فقہی مسائل پر بڑی اچھی گفتگو ہے، خاص طور سے طلاق کے مسئلے پر تو بہت ہی عمدہ اور معرکۃ الآرا بحثیں ہیں۔
طلاق بدعی کے سلسلے میں عام فقہاء کی رائے یہ ہے کہ ایسی طلاق دینا تو غلط اور خلاف سنت کام ہے، لیکن اگر طلاق دے دی تو پھر وہ پڑ جائے گی۔ ڈاکٹر دسوقی دوسری رائے کو ترجیح دیتے ہیں کہ ایسی طلاق دینے کی سزا تو ملنی چاہئے لیکن طلاق واقع نہیں ہوگی، طلاق بدعی یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے، یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس نے صحبت کر لی ہو، ایسے وقت میں طلاق دینے سے منع کیا گیا ہے، اس کی حکمت یہ بتائی جاتی ہے کہ طلاق کے لئے مناسب وقت وہ ہے جب بیوی کی طرف رغبت کے سارے امکانات کے باوجود شوہر طلاق دے، غرض ایسی صورت میں جب کہ طلاق دینا خلاف سنت ہے، ڈاکٹر موصوف کے مطابق طلاق دینے پر وہ واقع نہیں ہوگی۔
ڈاکٹر دسوقی اس رائے کو بھی ترجیح دیتے ہیں، کہ ایک بار کی تین طلاقوں کو ایک ہی مانا جائے، اس کے علاوہ وہ یہ رائے بھی رکھتے ہیں کہ اگر ایک طلاق دے دی ہے تو اس طلاق کی عدت میں مزید طلاقیں دینے پر وہ مزید طلاقیں واقع نہیں ہوں گی، ایک عدت میں ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔ گویا ایک طلاق دے دی، تو پھر اس عدت میں اس پر مزید طلاقیں نہیں پڑیں گی، یا تو عدت کے اندر رجوع ہوجائے، یا پھر عدت ختم ہوجانے پر وہ اس رشتے سے بالکل آزاد ہوجائے۔
ڈاکٹر موصوف یہ رائے بھی بیان کرتے ہیں کہ طلاق کے وقت گواہوں کی موجودگی ضروری ہے، اور اگر گواہوں کی موجودگی کے بغیر طلاق دی گئی تو وہ بھی واقع نہیں ہوگی۔
طلاق کی عام صورت تو یہ ہے کہ شوہر کہہ دے میں نے تم کو طلاق دی، لیکن اس عام صورت کے علاوہ بھی کچھ صورتوں کا تذکرہ فقہاء کے یہاں ملتا ہے، ایک صورت یہ ہے کہ شوہر کسی آدمی کو اپنا وکیل بنادے اور کہے کہ میری طرف سے طلاق دے دو، ایک صورت یہ ہے کہ شوہر بیوی سے کہے اگر تم نے فلاں حرکت کی تو تم پر طلاق ہے، ایک اور صورت یہ ہے کہ شوہر بیوی سے کہے کہ ابھی تو نہیں پر اتنے عرصے کے بعد تم پر طلاق ہے۔
فقہاء کے درمیان ان سب صورتوں میں اختلاف موجود ہے، ڈاکٹر دسوقی کا موقف یہ ہے کہ ان تمام صورتوں میں طلاق نہیں پڑے گی۔ کیونکہ یہ سب وہ صورتیں ہیں جن میں یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ عین طلاق کے پڑنے کے وقت شوہر کی واقعی نیت طلاق کی ہوگی اور وہ نیت عین وقت پر نہیں بدلے گی۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو وکیل بنانے کے بجائے وہ خود اگر بیوی کے سامنے طلاق دینے کی نیت سے رو برو ہو تو بہت ممکن ہے کہ اس کا ارادہ بدل جائے۔ اسی طرح اگر بیوی وہ کام کردے جس سے شوہر نے روکا ہے پھر بھی ممکن ہے کہ عین طلاق دینے کے وقت شوہر طلاق نہیں دے اور اپنا فیصلہ بدل لے۔
ان مثالوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ طلاق کے الفاظ منھ سے نکل جانے کے باوجود طلاق کو پڑنے سے روکنے والا فقہی رویہ کیا ہے۔
ڈاکٹر موصوف یہ رائے بھی رکھتے ہیں کہ اگر شوہر نے بلا کسی وجہ کے طلاق دی ہے، تو بیوی کو حق ہے کہ وہ بلا وجہ طلاق دینے کے حوالے سے مناسب معاوضے کا مطالبہ کرے۔
ڈاکٹر موصوف کی رائے ہے کہ بیوی کے مطالبے پر اسے خلع ضرور ملنا چاہئے، شوہر راضی ہو خلع دینے پر یا راضی نہ ہو۔ مزید یہ کہ اگر شوہر کے ظلم وزیادتی کی وجہ سے بیوی خلع کا مطالبہ کررہی ہو تو شوہر کو خلع کا معاوضہ مانگنے کا حق نہیں ہے۔
ڈاکٹر دسوقی کی کتاب پڑھنے سے پہلے بھی اور پڑھنے کے بعد بھی میں نے جس قدر سوچا ہے اسی بات پر اطمینان ہوا ہے کہ طلاق واقع ہونے کی صورتوں کو کم سے کم کیا جائے، اور اسی صورت میں طلاق پڑجانے کا فیصلہ کیا جائے جب کہ طلاق کے پڑجانے کا پہلو بالکل واضح اور روشن ہو۔ میرا احساس ہے کہ اگر ہندوستان کے مسلم فقہاء اس دوسرے فقہی رویہ پر بھی غور کریں، تو مسلم معاشرہ کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ بے شمار معاملات ایسے پیش آتے ہیں جن میں نہ شوہر چاہتا ہے کہ طلاق پڑے اور نہ بیوی چاہتی ہے، لیکن شریعت کے حوالے سے انہیں ماننا پڑتا ہے کہ طلاق پڑگئی ہے۔ ضرورت ہے کہ شریعت کے موقف کا اس سلسلے میں از سر نو جائزہ لیا جائے۔
ایک بار کی تین طلاقوں کے سلسلے میں میری ایک رائے یہ بھی ہے کہ موجودہ صورت حال میں جب کہ عوام الناس کو ایک طلاق اور تین طلاق کا صحیح اور تفصیلی فرق معلوم نہیں ہے، ایک بار کی تین طلاقوں کو ایک طلاق ہی ماننا چاہئے، اور مکمل معلومات نہیں ہونے کے عذر کا اعتبار کرنا چاہئے۔
طلاق دینے کی ایک مثالی صورت ہے، جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے، اور جس کے مثالی ہونے پر تمام لوگ متفق ہیں، اس کے پڑنے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے، اور نہ ہی اختلاف کی گنجائش ہے، البتہ مثالی طریقے سے ہٹ کر جو طلاق دی جائے، اس کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے صورت حال کا بھی لحاظ ہونا چاہئے۔
اگر یہ روایت درست ہے کہ حضرت عمر نے عوامی رویہ کی اصلاح کے لئے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین طلاق قرار دیا تھا، تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ طلاق دینے کے مثالی طریقے سے ہٹ کر جو طلاقیں دی جاتی ہیں ان کے سلسلے میں اجتہاد کی گنجائش ہے، ان کے سلسلے میں کسی ایک موقف پر اصرار نہیں کرنا چاہئے، بلکہ وہ موقف اختیار کرنا چاہئے جو دین کی روح اور شریعت کے مقاصد سے ہم آہنگ ہو۔
بدلتے ہوئے حالات کا تقاضا بھی ہے، اور اس سے پہلے خود شریعت کا اپنا تقاضا ہے کہ مسلم پرسنل لا کی حفاظت کے ساتھ مسلم پرسنل لا پر نظر ثانی کا کام بھی جاری رہنا چاہئے، اس طرح مسلم پرسنل لا کی اچھی تصویر بھی سامنے رہے گی، اور اس کی حفاظت کا کام بھی آسان ہوجائے گا۔
ایک تبصرہ شائع کریں