ڈرو اللہ کی دھمکیوں سے جیسا کہ ڈرنا چاہئے
محی الدین غازی
ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہنا سب سے بڑی دھمکی ہے، اس سے بڑی دھمکی کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ قرآن مجید میں کفر کرنے والوں کے سلسلے میں یہ دھمکی بار بار آئی ہے، اس کے علاوہ اللہ پاک نے جگہ جگہ کہیں خاص گناہوں کے سلسلے میں اور کہیں عام گناہوں کے سلسلے میں بھی صاف صاف یہ دھمکی دی ہے کہ جو ان گناہوں کا ارتکاب کرے گا وہ جہنم میں جائے گا اور ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔
اللہ کی وعیدوں کو پڑھتے ہوئے کامل یقین ہونا چاہئے کہ اللہ نے دھمکی دی ہے تو وہ ضرور پوری ہوسکتی ہے، ان گناہوں کے ارتکاب کرنے والے کو اگر اللہ نے معاف نہیں کیا تو وہ ضرور ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہ سکتا ہے۔ اللہ کس کو معاف کرے گا یہ کسی کو معلوم نہیں ہے، وہ کسے جہنم میں ہمیشہ کے لئے ڈال دے گا یہ بھی کسی کو معلوم نہیں ہے۔ بندوں کو صرف اس کی فکر ہونی چاہئے کہ اللہ نے گناہوں کی پاداش میں بھی ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈال دینے کی صاف لفظوں میں دھمکی دی ہے، اور اس دھمکی کے پورے ہوجانے کا پورا پورا امکان ہے۔ اس لئے اس دھمکی سے اسی طرح ڈرا جائے جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے۔
یہ دعوی کرنا کہ اللہ کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی دھمکیوں کو ضرور پورا کرے، اللہ کے حضور حد ادب کے خلاف ہے، دھمکی کو پورا کرنا دھمکی دینے والے کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے وہ چاہے تو پوری کرے اور چاہے تو معاف کردے، دھمکی پوری نہ کرنا اور معاف کردینا نہ تو اللہ کی شان کے منافی ہے اور نہ ہی ہمارے تصور اخلاق کے خلاف ہے۔
تاہم ایسی صاف صاف دھمکیوں کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ ان گناہوں کا ارتکاب کرنے والا اگر مسلمان ہے تو جہنم میں ہمیشہ کے لئے ہرگز نہیں جائے گا خود کو بدترین خوش فہمی میں ڈالنا اور شدید ترین خطرے سے دوچار کرنا ہے۔
اللہ کی دھمکیوں کا ایسا کوئی مطلب نہیں نکالنا چاہئے اور ایسی کوئی تاویل نہیں کرنی چاہئے جس سے ان دھمکیوں کی شدت کم ہوجاتی ہو، اور کسی طرح کی خوش گمانی پیدا ہوسکتی ہو، اور آخرت جیسے خطرناک ترین معاملے میں تو اطمینان کی حالت سے کہیں بہتر ڈر اور خوف کی حالت ہے۔
اللہ کی دھمکیوں سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے سچی توبہ۔ اللہ کی دھمکیوں سے بچنے کا راستہ تاویلوں میں نہیں ڈھونڈنا چاہئے، توبہ اور استغفار میں ڈھونڈنا چاہئے۔
یہاں کچھ قرآنی آیتوں کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے، انہیں پڑھیں، ان آیتوں کا کسی بھی زبان میں کسی بھی عالم کا ترجمہ پڑھیں، اور پھر سوچیں اور دیر تک سوچیں کہ یہ آیتیں کیا کہہ رہی ہیں۔
"جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطا کاری کے چکر میں پڑا رہے گا، وہ دوزخی ہے اور دوزخ ہی میں وہ ہمیشہ رہے گا" (البقرۃ81)
"اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سود خوری سے باز آ جائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا، سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو اِس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا" (البقرۃ 275)
(وراثت کے احکام بیان کرنے کے بعد) "یہ اللہ کے حدود ہیں، اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے وہ جنتوں میں داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کے حدود سے تجاوز کرے گا، وہ اسے آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے رسوا کن عذاب ہے"۔ (النساء13-14)
"اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے"۔ (النساء 93)
(رحمان کے بندے وہ ہیں) "جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں، یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا، قیامت کے روز اس کو مکرّر عذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا" (الفرقان 68-69)
"جن لوگوں نے بُرائیاں کمائیں ان کی بُرائی جیسی ہے ویسا ہی وہ بدلہ پائیں گے، ذلّت ان پر مسلّط ہو گی، کوئی اللہ سے ان کو بچانے والا نہ ہو گا، ان کے چہروں پر ایسی تاریکی چھائی ہوئی ہو گی جیسے رات کے سیاہ پردے ان پر پڑے ہوئے ہوں، وہ دوزخ کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے" (یونس 27)
"جو لوگ بس اِسی دنیا کی زندگی اور اس کی خوش نمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کار گزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی، مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے (وہاں معلوم ہو جائے گا کہ) جو کچھ انہوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیامیٹ ہو گیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے" (ھود 15-16)
"دیکھو ﻇالموں کی طرف ہرگز نہ جھکنا ورنہ تمہیں بھی (دوزخ کی) آگ لگ جائے گی اور اللہ کے سوا اور تمہارا مددگار نہ کھڑا ہو سکے گا اور نہ تم مدد دیئے جاؤ گے" (ھود 113)
"اور جو بُرائی لیے ہوئے آئے گا، ایسے سب لوگ اوندھے منہ آگ میں پھینکے جائیں گے کیا تم لوگ اس کے سوا کوئی اور جزا پا سکتے ہو کہ جیسا کرو ویسا بھرو" (النمل90)
"بھلا کہیں یہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص مومن ہو وہ اُس شخص کی طرح ہو جائے جو فاسق ہو؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے، جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں اُن کے لیے تو جنتوں کی قیام گاہیں ہیں، ضیافت کے طور پر اُن کے اعمال کے بدلے میں، اور جنہوں نے فسق اختیار کیا ہے اُن کا ٹھکانا دوزخ ہے جب کبھی وہ اس سے نکلنا چاہیں گے اسی میں دھکیل دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ چکھو اب اُسی آگ کے عذاب کا مزا جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے" (السجدۃ 18-20)
قرآن مجید میں یہ اور ایسی بہت سی اور وعیدیں ہیں، ان وعیدوں میں اتنی شدت ہے کہ پہاڑ خوف سے ریزہ ریزہ ہوجائیں، اور آسمان ڈر کے مارے پھٹ پڑیں۔ اگر ایک انسان ان وعیدوں کی اصل شدت کو محسوس کرلے تو جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں، دل دہل جائے اور وہ کبھی گناہوں کے قریب نہیں پھٹکے۔ یہ وعیدیں ہر طرح کی جھوٹی امیدوں اور غلط خوش گمانیوں کو جڑ سے ختم کردینے والی ہیں۔ یہ وعیدیں انسانوں کے اندر بڑے سے بڑے گناہ سے بچنے کی قوت پیدا کرتی ہیں۔ ان وعیدوں کو اسی طرح محسوس کرنا جس طرح وہ بیان کی گئی ہیں انسان کے حق میں بہتر ہے، اور یہی قرآن مجید کی تلاوت کرنے کا صحیح طریقہ ہے۔
شدید افسوس کا مقام ہے کہ آج ایمان کا دعوی کرنے والے بھی گناہوں کی کیچڑ میں سر سے پیر تک بری طرح لت پت نظر آتے ہیں۔ انہیں اللہ کی وعیدوں کی اصل شدت کو محسوس کرانا اور ساتھ ہی سچی توبہ کا راستہ دکھانا اس صورت حال کا وہ علاج ہے جو قرآن مجید پیش کرتا ہے۔
بلاشبہ یہ وعیدیں اس لئے نہیں ہیں کہ ان کی بنیاد پر لوگوں کے لئے جہنم کے پروانے جاری کئے جائیں۔ جہنم میں جانے اور نہ جانے کا فیصلہ تو اللہ خود اپنی مرضی سے صادر فرمائے گا۔ یہ وعیدیں اس لئے ہیں کہ ان سے ڈرا جائے اور ان سے ڈرایا جائے۔ اور جو اللہ کی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں انہیں ان دھمکیوں سے سب سے زیادہ ڈرنا چاہئے۔ "بے شک تمہارے رب کا عذاب بے خوف ہونے کی چیز نہیں ہے"۔ [المعارج:28]
ایک تبصرہ شائع کریں